احادیث مبارکہ میں بیان کردہ عورتوں کے اوصاف کی تین قسمیں ہیں۔ اس میں سے پہلی قسم کی عورت جن اَوصاف کی حامل ہو گی وہ یہ ہیں: وہعورت نرم خو ہو، نرم مزاج ہو، بردبار ہو۔ عفیفہ ہو، یعنی پاک دامن ہو۔ وہ عورت مسلمان ہو۔ اپنے شوہر سے بہت محبت کرنے والی ہو ۔وہ عورت زمانے کے حوادثات کے مقابلے میں اپنے شوہر کی مدد گار ہو، مگر شوہر کے مقابلے میں حوادث زمانہ کی مدد گار نہ ہو۔
عفیفہ ہو پاک دامن
عفیفہ او رپاک دامن ہونا یہ عورت کا وصف ہے اور سب سے اونچا وصف ہے۔ جس کا قرآن کریم نے بھی ذکر فرمایا ہے۔ترجمہ:”چناں چہ نیک عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں ، مر دکی غیر موجودگی میں الله کی دی ہوئی حفاظت سے (اس کے حقوق کی ) حفاظت کرتی ہیں ۔“ (النساء:34:4)
دوسرا وصف قرآن کریم نے ذکر فرمایا کہ وہ شوہر کی پس پشت، اس کی غیر حاضری میں خیانت نہیں کرتیں، بلکہ اپنی عزت وآبرو کی اور شوہر کے مال واولاد کی حفاظت کرتی ہیں۔ اس لیے الله تعالیٰ نے ان پر حفاظت کا پردہ ڈال رکھا ہے۔ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”المرأة راعیة علی بیت زوجھا وولدہ“․
ترجمہ:” عورت کو الله نے نگہبان فرمایا ہے اپنے شوہر کے گھر کااور اس کی اولاد کا۔“
وہ عورت مسلمہ ہو
الله تعالیٰ کی فرماں برداری او راحکام الہٰی کو بجالانے والی ہو، مسلم کے معنی ہیں گردن ڈال دینا۔ جو شخص حکم الہٰی کے سامنے گردن جھکا دے، ان کو بجالائے، اس کے احکام سے سرکشی او رانکار نہ کرے، نہ زبان سے انکار کرے، نہ دل سے انکار کرے، تو یہ شخص فرماں بردار ہے، اس کو مسلم کہتے ہیں اور جو شخص حکم الہٰی سن لیتا ہے، لیکن ماننے کا جذبہ اس میں پیدا نہیں ہوتا اور اس کی خواہش نفس اس کو دوسری پٹی پڑھاتی ہے تو اس کی مسلمانی میں نقص ہے۔ میں تو نہیں کہوں گا کہ وہ مسلمان نہیں ہے ،مسلمان ہے ، لا الہ الا الله محمد رسول الله پڑھتا ہے، لیکن اس کی مسلمانی میں نقص پایا جاتا ہے، کیوں کہ مسلم تو وہ ہوتا ہے جو الله کے سامنے گردن رکھ دے، گردن جھکادے۔ اپنی ظاہری گردن بھی جھکا دے، جیسا کہ ہم سجدے میں جھکا دیتے ہیں اور دل کی گردن بھی جھک جائے۔ اپنے چہرے اور وجود والی گردن تو تم نے الله کے سامنے جھکا دی ،لیکن دل کی گردن نہیں جھکی۔ یہ گردن بھی تو الله کے سامنے جھکنی چاہیے، اس کی ہر منشا اور ہر حکم کے سامنے ہماری گردن جھکی ہوئی ہونی چاہیے۔
وہ عورت نرم مزاج ہو
اورتیسری صفت فرمائی کہ:لین، نرم مزاج ہو۔ کہتے ہیں کہ بد خوئی، سخت زبانی یوں تو ہر شخص کے بارے میں عیب ہے، لیکن عورت میں ہو تو زیادہ عیب ہے۔ آدمی کو کبھی درشت خو، بد مزاج، اکھڑ طبیعت اور سختی کے ساتھ بات کرنے والا نہیں ہونا چاہیے #
فطرت کو ناپسند ہے سختی زبان میں
رکھی نہ اس لیے ہڈی زبان میں
ہڈی سخت ہوتی ہے، الله تعالیٰ نے دوسرے تمام اعضاء میں رکھی ہوئی ہے، زبان میں نہیں رکھی، زبان کا نرم ہونا الله کو پسند ہے۔ فطرت نرمی کو چاہتی ہے او رخاتون خانہ کی زبان تو بطور خاص بالکل ہی نرم ہونی چاہیے، حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ : ”إن الله رفیق یحب الرفق․“
ترجمہ:” الله تعالیٰ خود بھی نرمی کرنے والے ہیں او رنرمی کو پسند فرماتے ہیں ۔“
”ویؤتي علی الرفق ما لا یؤتي علی العنف․“
ترجمہ:الله تعالیٰ نرمی پروہ چیز عطا فرماتے ہیں جو سختی پر عطا نہیں فرماتے۔“
حق تعالیٰ شانہ کی رحمت نرمی سے کام لینے والے آدمی پر جس طرح متوجہ ہوتی ہے سختی سے کام لینے والے پر متوجہ نہیں ہوتی۔ چناں چہ عورت کو نرم خو، نرم زبان اور دھیمے مزاج والی ہونا چاہیے۔
مرد وعورت کی زبان کب نرم وسخت ہوتی ہے ؟
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ مر داورعورت میں یہ فرق ہے کہ شروع شروع میں مرد کی زبان سخت ہوتی ہے او رعورت کی زبان نرم ہوتی ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے مرد کی زبان نرم ہوتی جاتی ہے اورعورت کی زبان سخت ہوتی جاتی ہے۔ یہ عجیب تجربہ بتایا ہے کہ عمر کا بڑھنا آدمی کے مزاج کو بھی او را س کی زبان کو بھی نرم کر دیتا ہے او رعورت کی عمر کا بڑھنا اس کے مزاج کو بھی او رزبان کو بھی سخت کر دیتا ہے۔ نوجوانی کے زمانے میں عورت جیسی نرم مزاج ، شیریں زبان ہوتی ہے ۔ بڑی عمر ہونے کے بعد وہ بات نہیں رہتی، خدا جانے کیاقصہ ہے ؟ بہرکیف نرم خوئی او رنرم مزاجی عورت کا زیور ہے، یہ اس کے حسن او رنزاکت کو دوبالا کر دیتی ہے۔
وہ عورت محبت کرنے والی ہو
عورت کی چوتھی صفت ہے” ودودہ“ محبت کرنے والی اور یہ محبت کرنا انسان کی فطرت ہے۔ بعض داناؤں کا کہنا ہے او ر یہ کہنا صحیح ہے کہ ”دنیامیں محبت کا راج ہے “ دنیا میں محبت کا سکہ چلتا ہے۔ میرے خیا ل میں اگر دنیا سے محبت کا عنصر نکال دیا جائے تو اس عالم میں جس کو ہم دنیا کہتے ہیں او راس جگہ کو جس کو ہم جہنم کہتے ہیں کچھ فرق نہیں رہے گا۔ صرف ایک محبت کی شیرینی نے اس پورے عالم کو حسین بنا رکھا ہے۔
میاں بیوی میں محبت کا تعلق ہونا چاہیے
محبت بے محل ہو تو بری لگتی ہے اور بر محل ہو تو نعمت کبریٰ ہے ۔ میاں بیوی کا جوڑ الله تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے، یہ محبت کا جوڑ ہے، اس محبت کے جوڑ میں تھانے داری نہیں چلتی۔ اپنے گھر کے اندرکوئی بھی تھانے دار نہیں ہے اورجن لوگوں کو یہ زعم ہے کہ وہ گھر میں بھی تھانے داری کریں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ہر ملک او رخطے میں اسی ملک اور خطے کا اپنا سکہ چلتا ہے، گھر میں تھانے داری کا سکہ نہیں، بلکہ محبت کا سکہ چلتا ہے۔ میاں بیوی دونوں کو آپس میں محبت کرنے والا ہونا چاہیے۔ عورت کی نازک مزاجی کی خاص صفت ہے کہ یہ محبت کرنے والی ہوتی ہے تو جو خاتون اپنے شوہر سے بہت زیادہ محبت کرنے والی ہو تو یہ اس خاتون کا کمال او رحسن ہے۔ اور جن میاں بیوی کا تعلق آپس میں کچھ واجبی سا ہوتا ہے۔ میں ان کی مثال دیتا ہو کہ وہ ان دو بیلوں کی طرح ہیں جن کو ایک پنجالی میں جوڑ دیا جاتا ہے، ہل چلانے کے لیے۔ ایک جگہ جکڑ دیا جاتا ہے، اس کو اس کے ساتھ کیا محبت اوراس کو اس کے ساتھ کیا محبت؟ میاں بیوی کی محبت کے بارے میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”لم ترمتحابین مثل النکاح․“
”تم نہیں دیکھو گے دو محبت کرنے والے مثل نکاح کے۔ “ مطلب یہ ہے کہ نکاح ہونے کے بعد میاں بیوی کے درمیان جو محبت ہوتی ہے اس طرح کی محبت تم دوسری جگہ نہیں دیکھو گے۔
غیر محرم سے محبت وتعلق حرام ہے
بعض بے وقوف مجھے لکھتے ہیں کہ مجھے فلاں لڑکی سے محبت ہے اور ہماری محبت پاک ہے ”نعوذ بالله، أستغفرالله“ انہی لوگوں سے مجھے معلوم ہوا کہ خنزیر کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک خنزیر پاک ہوتا ہے او رایک خنزیر ناپاک ہوتا ہے۔ نامحرم لڑکے اور لڑکی کا آپس میں تعلق اور جوڑ یہ تو خنزیر ہے، نجس العین ہے۔ یہ تو شروع ہی سے ناپاک ہے۔ تم اس میں بھی قسمیں بنارہے ہو کہ ہماری محبت پاک ہے۔
بھائی محبت کے پاک ہونے کے لیے لڑکے اور لڑکی کا نکاح شرط ہے۔ اگر لڑکے اور لڑکی دونوں کو الله تعالیٰ نے ایک عقد میں جمع کر دیا ہے تو سبحان الله، اب کرو محبت جتنی کرتے ہو، بہت محبت کرو، ٹوٹ کر محبت کرو اور اس وقت تمہارا ایک دوسرے سے محبت کرنا، شریعت کی نظر میں بھی، عقل کی نظر میں بھی، عرف کی نظر میں بھی کمال سمجھا جائے گا اور ناجائز تعلق تو نعوذ بالله، استغفرالله خود ناجائز ہے، ناپاک ہے، یہاں پاک ناپاک کا کیا سوال ہے؟!
بچے کا پیدا ہونا عورت کی زینت کا باعث ہے
عورت کا بچے پیدا کرنا، اس کی کوکھ سے بچے کا پیدا ہونا یہ الله تعالیٰ نے اس کی فطرت بنائی ہے۔ یہ اس کی زینت کا باعث ہے، اس سے عورت کی صحت متاثر نہیں ہوتی، بلکہ صحت متاثر ہوتی ہے بند کرنے سے۔ تم نہیں جانتے ہو کہ یہ جو نظام ولادت الله تعالیٰ نے عورت کے اندر رکھا ہے یہ ایک مستقل کارخانہ ہے ،جو اس کے اندر فٹ کیا ہوا ہے ۔ ہمارے اندر بہت سی مشینریاں ہیں اور یہ بچے پیدا کرنے کی مشینری الله تعالیٰ نے عورتوں میں فٹ کی ہے اور یہ صحیح طور پر اپنا کام کرتی رہے تو اس کی صحت بھی صحیح رہتی ہے۔ اس کے ایام ترتیب کے ساتھ آتے ہیں، باقاعدگی کے ساتھ آتے ہوں تو اس کی صحت صحیح رہتی ہے او راگر ایام قبل از وقت بند ہو جائیں تو گندہ خون سرایت کرے گا اور صحت خراب ہو گی۔
وہ عورت زمانے کے مقابلے میں شوہر کی مدد کرے
چھٹی صفت یہ ذکر فرمائی کہ وہ عورت حوادث زمانہ کے مقابلے میں اپنے شوہر کی مدد کرے۔ شوہر تنگ دست ہے تو صبر وشکر کے ساتھ اس پر قناعت کرکے الحمدلله کہے اور اس کو تسلی دے کہ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، الله بہتر کرے گا۔ اس کے دین کے معاملہ میں بھی اس کی مدد کرے کہ اس کو حرام نہ کھانے دے۔ ارواح ثلاثہ میں قصہ لکھا ہے کہ ایک خاتون کی تحصیل دار کے ساتھ شادی ہو گئی، عورت نیک تھی او رتحصیل دار صاحب رشوت لیتے تھے۔ وہ اپنے میکے سے چنے بھنوا کر لے گئی، وہی کھاتی اور تحصیل دار کے گھر کی کسی چیز کو منھ نہ لگاتی۔ کسی واقف کار خاتون نے تحصیل دار سے کہا کہ اس کو گھر بھیج دیجیے، ورنہ مر جائے گی۔ یہ کوئی چیز نہیں کھاتی، کیوں کہ تمہار ی آمدنی مشکوک ہے۔ عورتوں کا آئے دن نئے نئے جوڑے بنانا اور نئے سے نئے صوفہ سیٹ خریدنا اس کے لیے پیسہ چاہیے، اب اس صورت میں مرد بھی حرام کمائے گا اور عورت بھی حرام خرچ کرے گی اور سیدھے دونوں جہنم میں جائیں گے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا:”(اے کافرو!) کچھ وقت کھا لو اورمزے اُڑا لو۔حقیقت میں تم لوگ مجرم ہو ۔“ (المرسلٰت:46)
غرضیکہ عورت کا یہ بھی فرض ہے کہ اگر گھر میں حرام کا پیسہ آتا ہے تو شوہر سے کہہ دے کہ مجھے نہیں چاہیے۔ کیوں میرا بھوک سے مر جانا بہتر ہے کہ زہر کھا کے مرنا؟ عقل سے پوچھ لو۔ حرام مال جس کے ساتھ اپنے پیٹ بھرتے ہو یہ رشوت کا پیسہ، یہ سود کا پیسہ، یہ غصب کا پیسہ اور یہ عوام پر لگائے گئے ٹیکسوں کا پیسہ یہ بہتر ہے یا حلال مال؟ جس میں دنیا آخرت کی بھلائی ہے۔