ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
رشتے کی غرض سے مرد کا عورت کو دیکھنا
﴿مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاءِ﴾
علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ نکاح سے پہلے مرد کا عورت کو دیکھ لینا جائز ہے، اس لیے کہ پسند اور ناپسندیدگی کا اندازہ تو دیکھنے ہی سے ہو سکتا ہے۔(رو ح المعانی، النساء، ذیل آیت:3)
نیز بعض احادیث سے بھی اس کا جواز معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ سنن ترمذی کی روایت ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا تو حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ”اس عورت کو (پہلے) دیکھ لو، یہ دیکھ لینا اس بارے میں زیادہ اچھا ہے کہ (شادی کے بعد) تم دونوں میں موافقت رہے۔“ (جامع الترمذی، رقم الحدیث:1089)
جمہور علماء کا مذہب بھی یہی ہے کہ نکاح یا رشتہ کرنے کے لیے مرد کا عورت کو دیکھنا جائز ہے۔ مرد اگر خود نہ دیکھ سکتا ہو (یا نہ دیکھنا چاہتا ہو) تو کسی خاتون کو بھیج دے ،جو اس عورت کے اوصاف مرد کو بتا دے اور اگر خود دیکھے تو صرف عورت کے چہرے اور ہتھیلیوں کو دیکھنا جائز ہے۔(فتح الملہم3/476، رشیدیة) اور صرف دیکھنا جائز ہے، چھونا جائز نہیں اورجب ایک بار دیکھنا کافی ہو تو دوبارہ دیکھنا جائز نہیں، اس لیے کہ یہ دیکھنا تو ضرورت کی وجہ سے جائز قرار دیا گیا تھا، لہٰذا اس کو ضرورت کی حد تک ہی مقید رکھا جائے گا۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے یہاں پر ایک سوال اٹھایا ہے کہ کیا اس موقع پر عورت کے لیے بھی مرد کا دیکھنا جائز ہے؟ پھر خود فرماتے ہیں کہ اس بارے میں میری نظر سے کوئی وضاحت تو نہیں گذری، لیکن ظاہر یہی ہے کہ عورت کے لیے بھی مرد کو دیکھنا جائز ہے۔ اس لیے کہ جس علت کی بنا پر مرد کے لیے دیکھنا جائز قرار دیا گیا ہے وہی علت عورت کے حق میں بھی پائی جاتی ہے، بلکہ عورت کے لیے مرد کو دیکھنا بطریقِ اولیٰ جائز ہونا چاہیے، اس لیے کہ مرد کو تو یہ اختیار ہے کہ اگر (شادی کے بعد) بیوی کو پسند نا کرتا ہو توچھوڑ دے، لیکن عورت کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ (رد المحتار، کتاب النکاح:3/28)
تعدد ازدواج کی حد
﴿مَثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ﴾
محلاً منصوب ہے، اس لیے کہ ”طاب“کی ضمیر مستتر سے حال ہے، اور منع صرف کے دو اسباب ”عدل اور وصف“ پائے جانے کی وجہ سے سے غیر منصرف ہے۔(روح المعانی، النساء: ذیل آیت:3) مفہوم آیت یہ ہے کہ یتٰمیٰ کے علاوہ اور عورتیں جو تمہیں پسند ہوں ان میں صرف ایک سے ہی نہیں بلکہ دو دو، تین تین اور چار چار تک جتنی عورتوں سے چاہو نکاح کرو۔ لیکن چار سے زائد کی اجازت نہیں ہے۔ یہی اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے اور اسی پر علمائے امت کا اجماع ہے۔
لیکن روافض کا ایک گروہ اور بعض اہل ظاہر اس بات کے قائل ہیں کہ ایک مرد کے لیے نو (9) تک بیویوں کو بیک وقت رکھنا جائز ہے۔ اس لیے کہ ”مثنی و ثلث و رباع“ میں ”واؤ“جمع کے لیے ہے۔ یوں دو، تین اور چار مل کر نو ہو گئے ہیں اور بعض اہل ظاہر اٹھارہ (18) تک بیویاں رکھنے کو جائز کہتے ہیں، اس لیے کہ ”واؤ“تو جمع کی ہے اور منع صرف کے مذکورہ بالا اسباب میں سے ”عدل“تکرار کا فائدہ دے رہا ہے ،جس کی وجہ سے نو اور نو مل کر اٹھارہ ہو گئے ہیں ۔
لیکن یہ سب اقوال نصوص کے خلاف ہونے کی وجہ سے لائق توجہ نہیں ہیں اور ملحدین وزنادقہ نے اپنے مطلب بر آوری کے لیے ایسے بھونڈے استدلال کیے ہیں۔ اہل ایمان ان اقوال سے بری ہیں ۔ ان اقوال کی تفصیل قرطبی نے بیان کی ہے ۔ (احکام القرآن للقرطبی، النساء، ذیل آیت:3)
اور بعض ستم ظریف تو یہاں تک کہتے ہیں کہ نکاح کے سلسلے میں کوئی تحدید نہیں ہے، جتنی دل چاہے شادیاں کیجیے اور جتنی چاہیں بیویاں رکھیں، اس لیے کہ ”ما طاب“کا حکم عام ہے ،کسی خاص عدد میں منحصر نہیں ہے، اور”مثنی و ثلث و رباع“سے اس کی تحدید کرنا درست نہیں، اس لیے کہ بعض کا مذکور ہونا غیر مذکور سے ثبوت حکم کی نفی کو مستلزم نہیں ہوتا، لہٰذا یہاں بھی چار تک اعداد کا مذکور ہونا چار نکاحوں سے زائد کے جواز کے منافی نہیں۔
نیز یہ کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپ کے حرم میں نو ازواج مطہرات تھیں۔ اس سے بھی چار سے زائد کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
اہل سنت و الجماعت کا مذہب
اہل سنت و الجماعت کا مذہب، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ،یہ ہے کہ ایک مرد کے لیے بیک وقت چار تک بیویاں رکھنا جائز ہے ،اس سے زائد کی اجازت نہیں اور روافض اور ظاہریہ کے مذہب کے بارے میں علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لغت عرب سے جہالت، تعلیمات نبویہ سے ناواقفیت اور اجماعِ امت کی مخالفت کا نتیجہ ہے، صحابہ و تابعین میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں کہ اس نے اپنے حرم میں چار سے زائد بیویاں جمع کی ہوں۔
اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ”واؤ“جمع کے لیے ہے، لہٰذا دو، تین اور چار مل کر نو ہو گئے، اس لیے کہ قرآن پاک تو افصح لغاتِ عرب میں نازل ہوا اور یہ بات لغت عرب کی فصاحت کے اعتبار سے بڑی قبیح ہے کہ کوئی شخص یوں کہے ”دو تین چار“اور مراد اس سے نو کا عدد ہو، ایسے ہی یہ بات بھی بہت بے ڈھنگی سمجھی جائے گی کہ یوں کہا جائے ”فلاں کو چار چھ آٹھ درہم دے دو“ جبکہ مراد اس سے اٹھارہ ہوں۔(احکام القرآن للقرطبی، النساء، ذیل آیت:3)
باقی رہی ”واؤ“تو اس کے بارے میں علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بدل کے معنیٰ میں ہے اور آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ”چاہو تو دو کے بدلے تین اور تین کے بدلے چار بیویاں کر لو“۔ اور”واؤ“کے بجائے ”أو“سے اس لیے عطف نہیں کیا گیا کہ اگر ”أو“لایا جاتا تو یہ اعدادِ مذکورہ میں سے کسی ایک عدد میں تخییر کا فائد دیتا، تب معنیٰ یہ ہوتا کہ یا تو دو عورتوں سے شادی کرو یا تین یا چار سے، اس صورت میں دو والے کے لیے تین اور تین والے کے لیے چار شادیاں کرنا جائز نہ ہوتا حالاں کہ مقصود تو یہ نہیں ہے۔
اور یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ ”ما“عموم کے لیے ہے، اس وجہ سے ”طاب“کا حکم عام ہے، اس لیے کہ یہاں پر”مثنی و ثلٰث وربٰع“ترکیب نحوی کے اعتبار سے ”طاب“کی ضمیر مستتر سے حال ہے اور حال عامل کے لیے قید ہوا کرتا ہے اور عامل یہاں پر”فانکحوا“ہے، لہٰذا نکاح کا حکم بھی ان ہی اعدادِ مذکورہ میں منحصر ہو گا۔( معارف القرآن للکاندھلوی ،النساء، ذیل آیت:3)
اور حضور سرورِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے مذکورہ بالا عمل سے استدلال اس لیے درست نہیں کہ یہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے، کسی امتی کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں۔(احکام القرآن للقرطبی، النساء ،ذیل آیت:3)
افرادِ امت کے لیے تو صرف چار تک کی اجازت ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا شواہد سے بھی معلوم ہوتا ہے اور سنن ترمذی میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ”غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے تو ان کے ہاں جاہلیت کے نکاحوں سے دس بیویاں تھیں، جنہوں نے حضرت غیلان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا تھا، لیکن نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت غیلان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ان میں سے صرف چار کو اپنے نکاح میں باقی رکھو۔“(جامع الترمذی، رقم الحدیث:1131)
نظریہٴ اسلام در تعدد ازدواج
ایک ہوش مند مسلمان سے یہ بات کسی طور بھی پوشیدہ نہیں کہ باطل ازل ہی سے حق اور اہلِ حق کے خلاف ریشہ دوانیوں میں سرگرم عمل رہا ہے اور اسلام کی تعلیمات، شعائر اور نظریات کو مٹانے، کمزور کرنے اور بے اثر کرنے کے لیے ہر دور میں برسرِ پیکار رہا ہے۔
اہل باطل خصوصاً مستشرقین نے جن اسلامی نظریات کو تختہٴ مشق بنایا اور ان میں طرح طرح کے بے وزن اعتراضات کر کے انہیں مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے ان میں سے ایک نظریہ ”تعد دِ ازدواج“بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام ایک مرد کو متعدد شادیوں کی اجازت دے کر شہوت پرستی کو فروغ دیتا ہے، بے روز گار معاشرے میں غربت و افلاس کو پروان چڑھاتا ہے، عائلی جھگڑوں اور فسادات کو جنم دیتا ہے، عورتوں کی آزادی سلب کر کے ان پر ظلم کرتا ہے اور انھیں مجبورِ محض بن کر زندگی بھر مرد کی غلامی کرتے رہنے کا درس دیتا ہے۔ ان کے علاوہ اور بہت سے بظاہر خوب صورت جملے ہیں، جو یہ ہمدردانِ انسانیت تعددِ ازدواج کی مذمت میں کہا کرتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ تعددِ ازدواج اگر ظالمانہ نظریہ ہے تو اس میں صرف اسلام ہی کو دوش دینا کیونکر ٹھیک ہے جب کہ تعددِ ازدواج تو اسلام سے پہلے بھی دنیا بھر کے تمام مذاہب میں جائز رہا ہے؟ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تین بیویاں تھیں: حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ او رایک کنعانی بیوی کاتذکرہ ملتا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بھی دو بیویوں کا ذکر ملتا ہے:صری بنت سعر، رَعْلہ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی چار بیویاں تھیں: لیا، راحیل، بلہیٰ اور زلفیٰ ۔ حضرت اسحاق، سلیمان اور موسیٰ علیہم السلام کے ہاں بھی متعدد بیویاں تھیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی سو بیویاں تھیں۔
ڈاکٹر مصطفی سباعی نے اپنی معرکة الارا کتاب ”المرأة بین الفقہ والقانون“ میں اس سلسلے میں بہت خوب لکھا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
”اسلام ہی نے سب سے پہلے تعددِ ازدواج کی اجازت نہیں دی، بلکہ تمام قدیم اقوام، مثلاً یونانیوں، چینیوں، ہندوؤں، بابلیوں، آشوریوں اور مصریوں میں اس کا عام رواج تھا اور ان میں سے اکثر کے ہاں بیویوں کی تعداد بھی مقرر نہ تھی، چینی مذاہب میں ایک سو تیس تک بیویاں رکھنے کی اجازت تھی، اس کے علاوہ یہودی مذہب میں بھی بغیر کسی تحدید کے متعدد بیویاں رکھنے کی اجازت تھی۔
اسی طرح ویدک تعلیم غیر محدود تعدد ازدواج کی اجازت رکھتی ہے اور اس سے دس دس، تیرہ تیرہ اور ستائیس ستائیس بیویوں کو جمع کرنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، کرشن جو ہندوؤں (میں) واجب التعظیم اوتار ہیں ان کی سینکڑوں بیویاں تھیں۔
غرضیکہ تعددِ ازدواج کی اجازت صرف اسلام ہی نے نہیں دی، اسلام سے پہلے بھی تقریباً ہر دور میں اس کی اجازت رہی ہے، بلکہ اسلام سے پہلے تو اس کی کوئی تحدید بھی نہیں تھی، نہ یہود و نصاریٰ کے ہاں، نہ ہندوؤں مجوسیوں اور آریوں کے ہاں اور اسلام کے ابتدائی دور میں بھی اس کی کوئی حد مقرر نہیں تھی، لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ پہلے تو کئی کئی شادیاں کر لیتے تھے، پھر ان کے حقوق ادا نہ کر پاتے اور نہ ہی ان میں انصاف و برابری قائم کرتے ،جس سے دل بستگی زیادہ ہوتی تمام تر نوازشات کا رُخ اس کی طرف ہو جاتا اور جس سے دل اٹھ جاتا اس کے حقوق کی پروا نہ کی جاتی۔
اسلام کا انسانیت، خصوصاً عورتوں پر یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے ان تمام مظالم کا سد باب کیا اور غیر محدود تعددِ ازدواج پر پابندی لگا کر اسے صرف چار تک محدود کر دیا، پھر ان چار میں بھی عدل و انصاف کی کڑی شرطیں لگا دیں اوراس کی خلاف ورزی پر سخت نکیر فرمائی، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے کسی ایک کی طرف زیادہ مائل ہو تو قیامت کے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ مفلوج ہو گا۔“(سنن ابی داؤد، رقم الحدیث:2133)
تعددِ ازدواج ایک فطری تقاضا
حقیقت یہ ہے کہ تعددِ ازدواج کا حکم نہ صرف یہ کہ عورتوں پر ظلم نہیں ،بلکہ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے، یہ مجبور عورتوں کا سہارا ہے، ان کی عزت و عصمت کا محافظ ہے اور ان کی جان و آبرو کا نگہبان ہے، معاشرے میں شرم و حیا، عفت و پاک دامنی، نسل انسانی کی بقا اور احساب وانساب کی حفاظت کے لیے اس کی اجازت ہونا ایک فطری تقاضا ہے۔
ذیل میں ہم ان باتوں میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں جن سے تعددِ ازدواج کا ایک فطری ضرورت ہونا واضح ہو جائے گا۔
اعداد و شمار کے مطابق عورتوں کی تعداد ہمیشہ مردوں سے زیادہ رہی ہے، مرد عورتوں کی نسبت پیدا کم ہوتے ہیں اور مرتے زیادہ ہیں، بڑی بڑی لڑائیوں اور جنگوں میں، سمندروں میں ڈوب کر، کانوں میں دب کر، ٹریفک حادثات میں، تعمیرات میں بلندیوں سے گر کر اور کارخانوں اور فیکٹریوں میں آگ لگ کر سینکڑوں بلکہ ہزاروں، لاکھوں مرد بیک وقت مر جاتے ہیں۔
پہلی عالمی جنگ( 1918 1914 -ء) میں اَسّی لاکھ فوجی مارے گئے، شہری لوگ جو اس جنگ میں ہلاک ہوئے وہ اس کے علاوہ تھے، ان میں بھی زیادہ مرد ہی تھے، دوسری عالمی جنگ( 1945ء۔1939ء) میں ایران کی 28 ہزار عورتیں بیوہ ہو گئیں، عراق میں ایسی عورتوں کی تعداد ایک لاکھ ہے جن کے شوہر اس جنگ میں کام آئے … 1967ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس ایک سال میں پچاس ملکوں میں مجموعی طور پر ایک لاکھ پچھتر ہزار حادثاتی اموات ہوئیں اور یہ سب مرد تھے۔
جب کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں پیدا زیادہ ہوتی ہیں اور مرتی کم ہیں، اب اگر مردوں کو ایک سے زائد شادی کرنے سے منع کر دیا جائے تو ان کے مقابلے میں جو زائد عورتیں ہیں ان کے سُکنیٰ و نان و نفقہ کا کیا انتظام ہو گا؟ کس طرح وہ اپنے آپ کو زنا سے محفوظ رکھ سکیں گی؟ کون ان کے معاش کا کفیل ہو گا؟ اور ان بے بیاہی عورتوں کا کیا قصور جن سے شادی کے لیے کوئی کنوارا مرد نہیں ملتا؟ اور وہ جوان عورتیں جن کے شوہر شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی فوت ہو گئے ہوں انہیں کس جرم کی سزا میں ساری عمر بیوگی کی زندگی گذارنے پر مجبور کر دیا جائے؟ اس ساری صورت حال کا تقاضا ہے کہ مردوں کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے دی جائے، تاکہ ان زائد عورتوں کی راحت کا سامان ہو، انہیں ٹھکانا ملے اور ان کی عزت و آبرو محفوظ ہو۔
عورت کو قدرتی طور پر متعدد امراض و اعذار لاحق رہتے ہیں، جن کی بنا پر وہ ہر وقت مباشرت کے لیے موزوں نہیں ہوتی، وہ ہر مہینے تین سے دس دن تک حیض کے زمانے میں مباشرت کے قابل نہیں ہوتی، ایامِ نفاس میں عموماً چالیس روز تک اس سے معذور رہتی ہے، ان عوارض کی بنا پر مرد کو بسا اوقات طویل وقفوں کے لیے عورت سے دور رہنا پڑتا ہے اور ایک تندرست و صحت مند آدمی کے دل میں بار بار مقاربت کا داعیہ پیدا ہوتا ہے، اس وقت مرد کو دوسری شادی کی اجازت نہ دینا اسے ایسی بات کا حکم کرنا ہے جس پر اسے خود بھی قدرت نہیں، لہذا اس کا قوی اندیشہ ہے کہ وہ بے راہ روی کا شکار ہو جائے اور جنسی جذبات کو غیر مشروع طریقے سے تسکین پہنچائے، لہذا اس وقت بھی اس بات کی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دے دی جائے۔
عورت کبھی دائم المرض ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ مرد سے مباشرت کے لائق نہیں رہتی، تب مرد کے سامنے تین راستے ہوتے ہیں:اس عورت کو طلاق دے کر دوسری شادی کرے۔ اسے طلاق تو نہ دے، لیکن کسی دوسری عورت سے ناجائز تعلقات پیدا کرے۔ اس عورت کو اپنے نکاح میں باقی رکھے اور دوسری شادی کر لے۔
ان میں دوسری صورت تو نا عقلاً درست ہے اور نہ شرعاً جائز ہے، پہلی صورت اگرچہ جائز تو ہے، لیکن صرف عورت ہی مرد کی ضرورت تو نہیں، مرد بھی تو عورت کی ضرورت ہے، جس طرح مرد کو جنسی وظیفے کے لیے عورت کی ضرورت ہے اسی طرح اس مجبور اور بیمار عورت کو بھی تو مضبوط سہارے کے لیے مرد کی ضرورت ہے، لہٰذا سب سے بہتر صورت یہی ہے کہ مرد اس پہلی بیوی کو بے سہارا چھوڑنے کے بجائے اسے اپنے نکاح میں باقی رکھے اور دوسری شادی کر لے، جس میں مرد و عورت دونوں کی راحت ہے۔
بعض عورتیں قدرتی طور پر بانجھ ہوتی ہیں جس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور مرد کو اولاد کی خواہش ہونا ناصرف یہ کہ ایک فطری جذبہ ہے ،بلکہ نکاح کے مقاصد میں سے بھی ہے اور بعض اوقات یہ جذبہ خواہش سے بڑھ کر عائلی یا سماجی ضرورت بن جاتا ہے کہ مرد کو اپنی جائیداد اور مال و دولت کی حفاظت، بعض اہم کاموں میں معاونت اور ضعف اور بڑھاپے میں خدمت کے لیے اولاد کی ضرورت ہوتی ہے یا کسی قوم کو اپنی افرادی قوت بڑھانا مقصود ہوتا ہے، اس وقت بھی سب سے بہتر صورت یہی ہے کہ مرد اس عورت کو بلا وجہ طلاق دے کر بے سہارا چھوڑ دینے کے بجائے اس کو بھی نکاح میں رکھ کر اس کے حقوق ادا کرتا رہے اور اولاد کے حصول کے لیے دوسری شادی کر لے۔
اس بانجھ عورت کو طلاق دینے کا ایک نقصان یہ بھی ہو گا کہ اس عورت کی شادی بہت مشکل ہو جائے گی، اس لیے کہ اولاد کی خواہش تو سب کو ہوتی ہے، پھر جس عورت کا بانجھ ہونا پہلے سے معلوم ہو اس سے شاذ و نادر بعض خاص حالات میں ہی کوئی شادی کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض قوی اور توانا اور تن درست اور فارغ البال اور خوش حال لوگوں کو ایک بیوی سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بوجہ قوت و توانائی اور اوپر سے فارغ البالی اور خوش حالی کی وجہ سے چار بیویوں کے بلا تکلف حقوق ادا کرنے پر قادر ہوتے ہیں، بلکہ ایسے قوی اور توانا جن کے پاس لاکھوں کی دولت موجود ہے اگر وہ اپنے خاندان کی چار غریب عورتوں سے اس لیے نکاح کریں کہ ان کی تنگ دستی مبدل بفراخی ہو جائے اور غربت کے گھرانہ سے نکل کر ایک راحت اور دولت کے گھر میں داخل ہوں اور حق تعالیٰ کی نعمت کا شکر کریں تو امید ہے کہ ایسا نکاح اسلامی نقطہٴ نظر سے بلا شبہ عبادت اور عین عبادت ہو گا اور قومی نقطہٴ نظر سے اعلیٰ ترین قومی ہم دردی ہو گی۔(معارف القرآن، النساء، ذیل آیت:3)
ایک شبہے کا ازالہ
بعض نام نہاد مسلم مفکرین بھی تعددِ ازدواج کے اس مسئلے میں اہلِ یورپ کے ہم نوا ہیں اور کیوں نہ ہوں جب کہ یہ لوگ اسلامیات کا علم ان مستشرقین ہی کی کتابوں سے حاصل کرتے ہیں، پھر اس پر قیامت کہ اپنے ہر باطل نظریے کو قرآن و سنت سے ثابت بھی کر دکھاتے ہیں، چناں چہ تعددِ ازدواج کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اسلام کا اصل مقصد اس رسم کو ختم کرنا تھا، لیکن چونکہ یہ رسم صدیوں سے چلتی آرہی تھی اس لیے اس پر ممانعت کا صریح حکم لگانا مصلحت کے خلاف تھا لہٰذا اسلام نے اس پر بعض ایسی پابندیاں لگا دیں کہ جنہیں نبھانا کسی کے لیے ممکن ہی نہیں، چناں چہ یہاں پر ﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاء ِ مَثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ﴾ (النساء:3) میں اللہ رب العزت نے چار شادیوں کی اجازت کو عدل و انصاف کے ساتھ مشروط فرمایا ہے اور اسی سورت میں آگے چل کر آیت: ﴿وَلَنْ تَسْتَطِیعُوْا أَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَاء ِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ﴾ (النساء:129) میں یہ بتلا دیا کہ بیویوں کے درمیان عدل وانصاف کرنا تمہارے بس کا روگ نہیں، لہٰذا ان دونوں آیتوں کے ملانے سے یہ ثابت ہو گیا کہ تعددِ ازدواج اسلام میں بھی پسندیدہ نہیں ہے۔
یہ استدلال بظاہر ایسا خوب صورت ہے کہ جس پر ایک سادہ لوح مسلمان بھی عَشْ عَشْ کر اٹھتا ہے کہ ما شاء اللہ کیا خوب ذہانت پائی اور کیسا اچھا استنباط فرمایا؟! لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ہوا پرستوں کا یہ استدلال ﴿وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطَانُ أَعْمَالَہُمْ﴾ (النمل:24) کے قبیل سے ہے، جس کے بارے میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”بعض ہوا پرستوں نے دنیوی غرض سے آیاتِ الہٰیہ کے مضمون میں تحریف کی ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت بالکل کثرتِ ازواج کی نفی کر رہی ہے، اس طرح سے کہ یہاں فرمایا کہ جب عدل نہ ہو سکے تو ایک پر اکتفا کرو اور دوسری آیت میں فرما دیا کہ تم سے عدل ہو گا ہی نہیں ﴿وَلَنْ تَسْتَطِیعُوْا أَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَاء ِ وَلَوْ حَرَصْتُم﴾ (النساء:129) دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ ایک سے زائد جائز نہیں، فقط۔
اور یہ محض مغالطہ ہے، کیوں کہ دونوں آیتوں میں عدل جدا جدا معنوں میں ہے، اس آیت میں عدل فی الحقوق الواجبة ہے، جیسا کہ احقر نے تصریح بھی کر دی اور یہ قدرت میں ہے اور اسی کے اعتبار سے واحد اور کثیر کے اختیار کرنے میں تفصیل فرمائی ہے اور اس آیت میں عدل فی المحبة ہے اور وہ عادتاً قدرت میں نہیں، اس لیے اس کی نفی فرمائی، بس اس ہوا پرست کے دعویٰ سے اس کو اصلاً مس نہیں، بلکہ اس آیت میں بعد نفی عدل کے ارشاد ہے ﴿فَلَا تَمِیلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ﴾جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ عدل فی المحبة نہ ہو سکے گا، بلکہ قلب کو ایک طرف میلان رہے گا او راس میلان پر ملامت نہیں، لیکن بالکلیہ میلان تو نہ ہو کہ قلب سے بھی اور معاملات و حقوق میں بھی۔ پس دونوں آیتوں کے مجموعے سے یہ حاصل ہوا کہ عدل فی المحبة واجب نہیں، لیکن عدل فی المعاملہ واجب ہے۔“(بیان القرآن للتھانوی، النساء،ذیل آیت:3)
نیز حضور سرورِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے مبارک عمل سے بھی اسی کی تعلیم ملتی ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم ازواجِ مطہرات کے ساتھ معاملات اور حقوقِ زوجیت میں پورا پورا عدل و انصاف اور برابری کا معاملہ فرماتے تھے، لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اوروں کی نسبت محبت زیادہ تھی، اس لیے آپ علیہ الصلاة و السلام اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کیا کرتے تھے:﴿اللھم ہذا قسمي فیما أملک فلا تلمني فیما تملک ولا أملک﴾۔(سنن ابو داؤد، رقم الحدیث:2134)
(اے خدایا!یہ میری تقسیم ہے اس معاملے میں جس پر مجھے قدرت ہے اور جس میں آپ ہی کو قدرت ہے مجھے کوئی قدرت نہیں آپ اس پر مجھ سے مواخذہ نہ فرمانا)۔ (جاری)