بعثت ِنبوی سے پہلے دنیا کی معاشرتی صورت حال
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے پہلے دنیا کی معاشرتی صورت حال انتہائی دگرگوں تھی ،تہذیب و تمدن نفسانی خواہشات اور وڈیروں کے تابع تھی،دنیا کے ہر کوچے اور ہر گلی میں انسانیت سسک رہی تھی اور زبان حال سے کسی مسیحا کو پکار رہی تھی ،مرد اور عورت فطرتی رشتوں کے بندھن سے آزاد جانوروں کے معاشرے کی عکاسی کررہے تھے ،عورت محض مرد کی لذت کے حصول کا ذریعہ تھی اور اس کی معاشرتی حالت اتنی جاں بلب تھی کہ کوئی شریف شخص اپنے گھر میں بیٹی پیدا کرنا ہی نہیں چاہتا تھا، لوگ ایک در کی عبودیت کی بجائے در در پر سجدہ ریز ہورہے تھے ، ستم بالائے ستم کہ جو چیزیں کسی بھی مہذب معاشرے میں بد سے بدترین سمجھی جاتی ہیں وہی چیزیں اس معاشرے میں باعث ِ فخر سمجھی جانے لگی تھیں ،انارکی اور ظلم وتعدی کا یہ عالم تھا کہ زورآور کم زوروں کے لیے حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا اور مجبوروں، ،مقہوروں کا کوئی والی وارث نہیں تھا ،غلام انسانیت کے درجے سے خارج کردیے گئے تھے ،بات بے بات لڑائی جھگڑے معمول کی بات تھی ،لوگوں کی بنیادی ضروریات زندگی کا حصول مشکل بنادیا گیا تھا،قانون طاقت ور کے لیے لچک دار اور کمزور کے لیے سخت گیر ہوگیا تھا ،شرافت کا معیار انسانیت کی بجائے دولت ،طاقت اور اچھا عہدہ تھا ۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ِ مبارکہ کے بعد چند ہی سالوں میں دنیا کا معاشرتی نقشہ بدل گیا ،تاریخ آج بھی ورطہ حیرت میں ہے کہ اتنا بڑا معاشرتی انقلاب چند سالوں میں کیسے ممکن ہوا؟!وہ معاشرتی انقلاب اتنا جامع و مکمل تھا ،اتنا کامل و اکمل تھا ،اتنا بہترین اور لازوال تھا کہ پندرہ سو سال بعد بھی اگر کائنات انسانی میں کسی آئیڈیل معاشرے کی مثال دی جاتی ہے تو کیا اپنے ،کیا پرائے، سب کے سب نبوی معاشرے کی مثال دیتے ہیں۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی معاشرتی اصلاحات
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اردگرد موجود لوگوں کی معاشرت کو دنیا کے لیے نمونہ بنانا تھا ،سو اس لیے ان کی معاشرت کو بہتر سے بہترین بنایا ،یہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی محنت ہی تھی کہ جو لوگ معاشرتی بد حالی کا شکار تھے و ہی لوگ معاشرتی زندگی کے لیے کسوٹی اور پیمانہ بن گئے، جس معاشرے کے بارے میں اس وقت کے دانش ور اور زعماء یہ گمان کرتے تھے کہ یہ معاشرہ ڈیڈ لیول پر جاچکا ہے اور اب اس کی بہتری کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی وہی معاشرہ نبوی اصلاحات کی بدولت دنیا کا بہترین اور آئیڈیل معاشرہ کہلایا۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کے دلوں سے ایک دوسرے کی نفرت کو نکال کر ایک دوسرے کے لیے محبت بھر دی، بلکہ اس سے بھی آگے ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا کردیا کہ اپنی ذات اور ضروریات پر دوسرے مسلمان کی ضروریات مقدم لگنے لگیں ،اپنی جان سے زیادہ دوسرے مسلمان کی جان عزیز ہونے لگی اور خون کے پیاسے محبت کے خوگر بن گئے، در در پر جھکنے والے ایک در کے ایسے غلام بنے کہ دنیا کی طاقتیں ان کے قدموں تلے روندی جانے لگیں، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان کی معاشرت کو ایسا سنوارا کہ وہ چرواہے جنہیں تہذیب و تمدن کا سرے سے پتا ہی نہیں تھا دنیا نے انہی کے تمدن سے اپنے معاشروں کے خطوط استوار کیے،انہی چراغوں سے روشنی لے کر اپنے عہدوں کوروشن کیا ،انہی کے قدموں سے علم کے و ہ سُوتے پھوٹے کہ آج تک معاشرت اور عمرانیات کے علوم ان کے در کے ریزہ چیں ہیں ۔
نبوی معاشرے کے بنیادی اجزا میں سے ایک امر بالمعروف اورنہی عن المنکر تھا،نیکی کی تلقین اور برائی کی روک تھا م ، نبوی معاشرے کا ہر فرد اس عمل سے چوبیس گھنٹوں میں کبھی بھی غافل نہیں ہوتا تھا، اسی وجہ سے اس معاشرے میں کرائم لیول زیرو تھا، نہ صرف کرائم لیول زیرو تھا، بلکہ اسی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی برکت سے نبوی معاشرہ جسمانی بیماریوں سے بھی محفوظ تھا ۔
اسی طرح نبوی معاشرہ کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے:﴿تَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَیٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾“
پر کھڑا کیا تھا کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دینا اور برے کاموں میں بالکل بھی ساتھ نہیں دینا، اس سے معاشرہ اخلاقی برائیوں سے بالکل پاک ہوگیا تھا۔
اسی طرح دین پر عمل کرنے کا جذبہ تمام کاموں اور تمام جذبوں پر غالب تھا ،دینی تقاضا آنے کے بعد ان کے ذاتی تقاضے دور کہیں پیچھے رہ جاتے تھے ،اسی طرح نبوی معاشرے کی ایک خاصیت یہ تھی کہ ان میں ایمان داری، خوف خدا،خشیت الہی،عفوو درگزر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، جس سے ا ن کی معاشرتی خوب صورتی کو چار چاند لگے اور وہ ایک مکمل متمدن معاشرہ کہلوایا۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی
نبوی معاشرے کی جتنی بھی خوب صورتیاں ہم اوپر پڑھ کر آئے ہیں ان سب کی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صرف تبلیغ نہیں کی، بلکہ خود عمل کرکے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو سکھلایا، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے عملی نمونہ تھی اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم احکامات الہٰی پر عمل پیرا ہونے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہیں زیادہ آگے اورمستعد تھے ۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی پر کوئی صاحب فکر ودانش انگلی نہیں اٹھا سکتا ،اتنی جامع و مکمل معاشرتی زندگی دنیا میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو عطا ہی نہیں کی گئی ،حسنِ معاشرت کے تمام چشمے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے قدموں سے پھوٹے ،تہذیب و تمدن کی تمام رعنائیاں آپ صلی الله علیہ وسلم کے قدموں کے صدقے اس کائنات کے معاشروں کو خیرات کی گئیں،فلاح انسانی کے تمام رستے آپ صلی الله علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کے رہین منت ہیں ،دنیاوی سطوت و اخروی نجات کی تمام جہتیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے نقشِ پا میں پنہاں ہیں۔
آج کی جاں بلب انسانیت کو بھی نبوی تعلیمات اور نبوی معاشرت کی ضرورت ہے ،ہمارا معاشرہ انسانیت کے لیول سے نیچے گر چکا ہے ، عدل و انصاف نام کی کوئی چیزنہیں ،گڈ گورننس نام کی چیز موجود نہیں، طاقت ور اور کم زور کے لیے قانون کی الگ الگ تشریحات کی جاتی ہیں، غرض آج کا معاشرہ بدحالی اور اخلاقی زبوں حالی کی ریڈ لائن عبور کرچکاہے، ایسے میں بہت زیادہ ضروری ہے کہ ہم نبوی معاشرت کو آئیڈیل بنائیں اور انہی خطوط پر اپنے معاشرے کی تشکیل کریں ۔