بسم الله الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلي علی رسولہ الکریم، أما بعد فأعوذ بالله من الشیطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبیْلِ اللّہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء وَلَکِن لاَّ تَشْعُرُونَ، وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ، الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیْبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعون﴾․ (سورة البقرة، آیة:156-154) صدق الله مولنٰا العظیم․
نہایت ہی قابل احترام اساتذہ جامعہ او ربہت ہی عزیز طلباء کرام! طویل غیر حاضری کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ی ہوئی ہے، آپ جانتے ہیں کہ آج 22/اکتوبر2020ء ہے،18/اگست کو میں بیمار ہوا تھا او را س کے بعد ایک طویل عرصہ بستر پر رہا ،جو حالات مجھ پر گزرے وہ ایک بہت ہی خوف ناک او ربھیانک خواب ہے، جس کو سوچ کر میں اب بھی کانپ جاتا ہوں، اسی زمانے میں بھائی جان شہید نوّرالله مرقدہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ،میں نے اُسی رات آپ حضرات سے تھوڑی سی گفت گو بھی کی تھی ، اس کے بعد میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ فیزII منتقل ہو گیا تھا اور گزشتہ رات وہاں سے واپسی ہوئی ہے۔ احباب کا، اساتذہ کا اصرار تھا کہ آپ تھوڑی دیر آج طلباء سے ملاقات اور زیارت کر لیں۔
ہمارے بھائی جان شہید نوّ رالله مرقدہ جو اس مقام پر پہنچے اس میں بہت بڑا حصہ اس بات کا تھا کہ حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کی صداقت ، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کی عدالت، حضرت عثمان ذوالنورین رضی الله عنہ کی سخاوت، حضرت علی کرم الله وجہ کی شجاعت اور تمام صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین کے ناموس اور ان کی عزت واحترام کے حوالے سے جو صورت حال ملک میں پیش آگئی تھی وہ کسی صورت انہیں قبول نہیں تھی، کسی صورت گوارا نہیں تھی، الله رب العزت نے گزشتہ آخری چند مہینوں میں ان میں ایک نئی روح پھونک دی تھی، نہ ان کو کھانے کا ہوش تھا، نہ سونے کی فکر، نہ آرام کا خیال، اس حوالے سے جو خدمت اعلیٰ ، محفوظ اور رائج قوانین کے مطابق ہو سکتی ہے اس کو انہوں نے اختیار کیا اور وہ اس میں کام یاب ہو گئے، آگے جو کام رہ گیا ہے وہ بھی الله تعالیٰ مکمل فرمائیں گے۔ ان شاء الله ۔میرا وجدان کہتا ہے، میرا دل کہتا ہے کہ الله تعالیٰ نے ان کو جو عظیم ترین مقام عطا فرمایا وہ اسی خدمت کے نتیجے میں عطا فرمایا۔
سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں: اے الله! میں آپ کی راہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں۔”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: والذي نفسي بیدہ لوددت أني أقتل في سبیل الله ثم أحیی ثم أقتل ثم أحي ثم اقتل ثم أحي ثم أقتل․“ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الجہاد، باب تمني الشھادة، باب تمني الشھادة، رقم الحدیث:2797)
شہادت اتنا بڑا مقام ہے کہ ہم اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ آج کے ماحول میں شہادت اجنبی ہو گئی ہے، آج تو ہر طرف، چاہے دنیا دار لوگ ہوں، یا دین دار ، جینے کے قصے ہیں، جینا ، جیو، جیسے چاہو جیو۔
مولانا شہید کہاں گئے ہیں؟ کریم رب کی بارگاہ میں۔ یقینا، یقینا ،یقینا ان کا استقبال جس طرح ہوا ہو گا ہم اور آپ اس کا تصور نہیں کرسکتے، وہ جس عیش وعشرت میں ہیں، جس راحت اور سکون میں ہیں اس کا ہم یہاں تصور نہیں کرسکتے۔
ایک وفد میر ے پاس فیزII آیا ،یہ افغان طالبان کی اعلی قیادت کا وفد تھا، تحریری تعزیت بھی انہوں نے کی اوربڑے حضرات کی طرف سے بھی تعزیت پہنچائی ، وہ خود بھی بڑے لوگ تھے، انہوں نے بھی تعزیت کی، اپنے بڑوں کی طرف سے بھی تعزیت کی، وہاں چوں کہ ہجوم بہت زیادہ تھا میں سمجھتا ہوں کہ آنے والوں کا جس طرح سے اکرام ہونا چاہیے تھا ہجوم کی وجہ سے عملاً وہ ممکن نہیں تھا۔
بہرحال انہیں میں نے اپنے پاس بٹھایا، ان سے باتیں کیں اوران کے اکرام کے لیے جو اہتمام میں کرسکتا تھا کیا، لیکن میرا دل مطمئن نہیں تھا، تو میں نے مفتی محمد انس صاحب، مفتی محمدعمیر صاحب(صاحب زادگان مولانا حضرت ڈاکٹر محمد عادل خان صاحب شہید) او راپنے بچوں سے کہا کہ آپ حضرات ان کو برابر والے کمرے میں لے جائیں اور جو اکرام ہو سکتا ہے ان کا کریں، یہاں اس ہجوم میں یہ عملاً ممکن نہیں۔
میرے عزیزوں نے مجھے رات کو جو کارگزاری سنائی، بڑی عجیب تھی ،یہ حضرات کہتے ہیں کہ ایک نئی روح انہوں نے ہمارے اندر پھونک دی، انہوں نے کہا گھبراؤ نہیں، یہ شہادت بہت بڑا تمغا ہے۔ یہ شہادت الله تعالیٰ کی طرف سے آپ حضرات کے لیے بہت بڑا اعزاز واکرام ہے، اب جامعہ فاروقیہ یوں اوپر کی طرف جائے گا، انہوں نے کہا ہمارے پاس کیا ہے؟ کچھ نہیں، ہمارے پاس اگر ہے تو وہ شہادتیں ہیں، ہم نے کبھی بھی ان شہادتوں پر جلوس نہیں نکالے، مظاہرے نہیں کیے، اس کو الله تعالیٰ کی طرف سے اعزاز سمجھ کر دل وجان سے قبول کیا۔
ہمارے بڑے بڑے لوگ شہیدہوئے، ہمارے پاس سوائے شہادتوں کے او رکچھ نہیں، ہمارے پاس کیا ہے؟ بیوائیں ہیں؟ زخمی ہیں، یتیم بچے ہیں او رکچھ نہیں۔
انہوں نے ہمارے ان عزیزوں سے کہا کہ آپ بتائیں کہ ان اٹھارہ انیس سال میں ہم آگے گئے ہیں یا پیچھے گئے ہیں؟ کہاں گئے ہیں؟ آگے، صرف آگے گئے ہیں یا بہت آگے گئے ہیں؟ بہت آگے۔ کس بنیادپر؟ شہادتوں کی بنیاد پر۔
میرے دوستو! ہمیں بھی اپنا عزم او راپنے ارادے بہت پختہ رکھنے چاہییں، ہم مسلمان ہیں، یہ تو کافروں اور یہودونصاریٰ کا مسئلہ ہے کہ موت سے ڈرتے ہیں۔ قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿قُلْ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ ہَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّکُمْ أَوْلِیَاء لِلَّہِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ، وَلَا یَتَمَنَّوْنَہُ أَبَداً بِمَا قَدَّمَتْ أَیْْدِیْہِمْ وَاللَّہُ عَلِیْمٌ بِالظَّالِمِیْنَ، قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّونَ مِنْہُ فَإِنَّہُ مُلَاقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْْبِ وَالشَّہَادَةِ فَیُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُون﴾․(سورة الجمعہ، آیة:8-6)
موت سے یہود ونصاری ڈرتے ہیں، کفار اور مشرکین ڈرتے ہیں، صحابہ کرام رضی الله عنہم موت سے نہیں ڈرتے تھے، ان کے سینے میں نیزہ اتر رہا ہے اور وہ فرمارہے ہیں: فزت ورب الکعبة․
میرا دل کہتا ہے کہ جب ہمارے عظیم مجاہد شہید بھائی کو یہ صورت حال پیش آئی ہوگی تو انہوں نے بھی کہا ہو گا، فزت ورب الکعبہ․
وہ ہمیشہ شہادت کے طلب گار تھے، وہ ڈرنے والے نہیں تھے ، وہ بزدل نہیں تھے، وہ ہمیشہ شہادت کی بات کرتے تھے۔
آپ حضرات نے بھی ان کی بعض تقاریر سنی ہوں گی، جس میں انہوں نے واضح طور پر شہادت کا تذکرہ کیا ہے، مجھ سے ایک دفعہ نہیں، دسیوں مرتبہ فرمایا کہ میں یہاں دفن ہونے کے لیے آیا ہوں، اپنے والد صاحب نوّرالله مرقدہ کے برابر جگہ کی طرف اشارہ کرکے فرماتے تھے، وہی جگہ جہاں آج ان کی قبر ہے، فرماتے تھے میں یہاں دفن ہو ں گا، میری قبر یہاں بنے گی۔
میرے دوستو! ہم مسلمان ہیں، ہم محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اُمّتی ہیں، ہمارے دلوں میں صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کی عظمت زندہ اور موجود ہے، ہم گھبرائیں نہیں، پریشان نہ ہوں۔
میری یہ درخواست ہے کہ سنجیدہ ہو جائیں، باوقار ہو جائیں، اپنے عزائم کو بلند رکھیں، آپ امت کا منتخب ترین طبقہ ہیں، آپ ہی ہیں جس سے دشمن کے پیر کانپتے ہیں اور کسی سے نہیں۔
شہادت سے نہ گھبرائیں، یہ الله تعالیٰ نے جامعہ فاروقیہ کراچی کو پھر ایک اور بڑا اعزاز عطا فرمایا ہے۔
ہمارے اساتذہ کی شہادتیں ہوئیں ، جہاں پر شعبہ تصنیف وتالیف او رتخصص فی الحدیث قائم ہے، یہ درجہ سابعہ کی درس گاہ تھی، یہاں ہمار ے شہید اساتذہ کی، میتیں رکھی ہوئی تھیں۔
جامعہ فاروقیہ ان شہادتوں کے بعد آگے گیا یا پیچھے ؟ آگے گیا۔ حافظ احمد قمر شہید رحمہ الله طالب علم تھے، آپ کے ساتھی تھے، وہ شہید ہوئے ، میں ملک میں نہیں تھا، باہر تھا اور بہت دور تھا، جہاں سے دنیا شروع ہوتی ہے فیجی، جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے، 27 گھنٹے کی پرواز ہے، وہاں مجھے خبر ملی، میرے سفر کا جو نظم تھا وہ سب میں نے ختم کیا اور جیسے تیسے ممکن تھا نیا ٹکٹ، نئی ترتیب بنائی اور ہنگامی بنیادوں پر بھاگتا دوڑتا ہوا واقعہ ہوجانے کے بعد اسی رات کو فجر کی نماز تک میں پہنچ پایا۔
اس شہید کے چہرے کو، اس کے سینے کو، اس کے جسم کو مسخ کیا گیا تھا، لیکن یاد رکھنا یہی ہمارا زیور ہے، آپ نے واقعات پڑھے ہیں کہ حضرت حمزہ رضی الله عنہ کی شہادت کیسے ہوئی:”وقد قال الإمام أحمد… عن ابن مسعود قال: إن النساء کن یوم أحد … قال أبوسفیان : قد کانت فی القوم مثلة، وإن کانت لَعَنْ غیر ملاءٍ منا، ما أمرت ولا نھیت، ولا أحببت ولا کرہت، ولا ساء ني ولا سرني، قال: فنظروا، فإذا حمزة قد بقر بطنہ، وأخذت ہند کبدہ فلاکتھا، فلم تستطع أن تاکلھا․ (البدایة والنھایة، سنة ثلاث من الھجرة، ذکر الصلاة علی حمزة وقتلی أحد:5/429، وتاریخ الإسلام للذھبي، غزوة أحد:1/209)
میں کئی دن شہادت کے عظیم واقعے کے بعد فیزII میں تھا، اور وہاں اس وجہ سے تھاکہ میرے لیے حضرت شہید نوّرالله مرقدہ کے بچوں کو چھوڑنا آسان نہیں تھا، مجھ سے بہت کہا گیا، بہت اصرار ہوا کہ آپ بیمارہیں اور آپ نے دو مہینے بستر پر گزارے ہیں، خدا کے واسطے اپنے اوپر رحم کریں، واپس آجائیں اور احتیاط کے ساتھ یہ وقت گزاریں۔ میرے لیے ممکن نہیں تھا، تافتان، مند، چمن، طور خم، پشاور، پوراK.P.K ،کشمیر، وزیرستان، سندھ، پنجاب، پورے ملک سے وفود آرہے تھے، میں نے کہا بھائی آنے والوں کو تسلی کی ضرورت ہے، مجھے بھی تسلی کی ضرورت ہے، یہ تو بڑا آسان ہے کہ میں یہاں گھر آجاؤں اور وہاں میرے متعلقین آنے والوں سے کہہ دیں کہ فلاں بیمار ہے، انہیں تو بیماری کی تفصیلات معلوم نہیں ، آپ بتائیں کہ ان کو کیا پیغام جائے گا، میرے والد ماجد نوّر الله مرقدہ کی طرف سے، میرے عظیم بھائی کی طرف سے، ادارے کی طرف سے۔
چناں چہ الحمدلله میں وہاں رہا اور یقینا سو فیصد، میں کہتا ہوں کہ مجھے وہاں کے قیام سے بہت تقویت حاصل ہوئی، تسلی ہوئی کہ ہمارے بڑوں نے جو خدمات سر انجام دیں ہیں وہ زندہ وجاوید ہیں۔
میرے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمہ الله ملائیشیا میں پروفیسر تھے، وہاں کا وزیراعظم ان کا احترام کرتا تھا، وہاں کے وزراء ان کا احترام کرتے تھے، وہاں کی سرکاری بڑی تقریبات میں ان کو بطور مہمان خصوصی بلایا جاتا تھا۔
وہاں ان کی بہت پرآسائش او ربہترین زندگی تھی، جو گھر وہاں ان کو یونی ورسٹی کی طرف سے ملا ہوا تھا وہ یہاں بڑے سے بڑے خوش حال آدمی کو میسر نہیں، ایسے گھر میں وہ رہتے تھے، ان کو جوگاڑی یونی ورسٹی کی طرف سے ملی ہوئی تھی یہاں بڑے سے بڑے مال دار آدمی کے پاس نہیں اور سو فیصد مینٹینس کے ساتھ۔ وہاں کا نظام یہ ہے کہ جیسے ہی اتنے میٹر سفر ہو جائے گا تو فوراً کمپنی سے فون آجائے گا او رکمپنی سے اس کی مینٹینس آئل وغیرہ سب کچھ ہوگا۔
میں نے ان سے درخواست کی کہ ابا جان تو الله کے پاس چلے گئے، اتنا بڑا ادارہ ہے، میں کمزو رہوں، اتنی بھاری ذمہ داریاں میرے کندھوں پہ ہیں،میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ واپس تشریف لائیں، مفتی انس بھی وہاں پر حدیث پڑھاتے تھے، مفتی محمدعمیر بھی وہاں ایک دینی ادارے میں حدیث پڑھاتے تھے او ران دونوں کاا پنا بہت اچھا بزنس تھا اور سب کے الگ الگ بہترین گھر تھے، اپنی اپنی گاڑی تھی، نہایت سہولت، امن وچین اورسکون کے ساتھ تھے ، جو تماشے ہمارے ملک میں ہیں یہ وہاں نہیں۔
بہترین موسم، روزانہ بارش، ہماری والدہ صاحبہ، الله تعالیٰ ان کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے وہ دو دفعہ تشریف لے گئیں۔ فرماتی ہیں چار بجتے ہی روزانہ بارش شروع ہو جاتی، پورا ملک ہرا بھرا، نہایت خوب صورت، نہایت عالیشان۔
میں سمجھتا ہوں کہ حضرت شہید نوّرالله مرقدہ او ران کے بچوں کی، (الله تعالیٰ ان کو اپنی شایان شان اس دنیا میں بھی، آخرت میں بھی جزائے خیر عطا فرمائے) بہت بڑی قربانی ہے۔ دین اسلام کے لیے، اس جامعہ فاروقیہ کے لیے، اس ملک اور وطن کے لیے بہت بڑی قربانی ہے۔
یہ اپناسارا سامان سمیٹ کر اونے پونے داموں بیچ کر، کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ ، پر آسائش زندگی، سب کچھ چھوڑ کر اس جنگل میں آگئے اور یہاں آکر انہوں نے خدمات انجام دیں، حضرت ڈاکٹر صاحب شہید نوّرالله مرقدہ ایک سال مسلسل بلاناغہ روزانہ مرکز جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی صرف ڈرائیور کے ساتھ، کوئی گارڈ نہیں تھا، روزانہ بخاری شریف کا سبق پڑھانے کے لیے تشریف لاتے رہے۔
کلیم امام اس زمانے میں آئی جی ہوا کرتے تھے، ہم نے درخواستیں بھی دیں ، ملاقات بھی کی او رکلیم امام سے مولانا کا ایک تعلق بھی تھا، وہ بھی مختصرا میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔
حضرت شہید رحمة الله علیہ جب امریکا سے پاکستان تشریف لائے وہ مخصوص حالات تھے ، ان کی فلائٹ کیلیفورنیا سے نیویارک، نیویارک سے مانچسٹر آئی، مانچسٹر سے پھر پی آئی اے کی فلائٹ میں اسلام آباد آئے، ایئرپورٹ پر، سیڑھیوں پہ، ان سے ملاقات کرنے والا پہلا پاکستانی پولیس آفیسر، کلیم امام تھا اس نے مولانا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا، ہم لوگ سب وہاں موجود تھے اور مولانا کا فرمانا تھا کہ اس نے اپنی بے تکلفی اورتعلق کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کئی سال بعد میں آپ کو آج ٹرک ڈرائیور والی چائے پلاؤں گا او رپھر وہ وی آئی پی لاؤنج میں آگئے، بہرحال میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کلیم امام سے ایک تعلق بھی تھا، لیکن اس نے کوئی گارڈ نہیں دیا، ابھی زندگی کے آخری زمانہ میں ، مولانا کی مصروفیات بہت عظیم الشان رہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ الله تعالیٰ نے بہت بڑے بڑے کام بہت تھوڑے وقت میں ان سے لے لیے۔
ہمارے اکابر میں بہت سے حضرات ایسے گزرے ہیں جن کی عمر یں تھوڑی تھیں، لیکن ان کے کاموں کو اگر آپ دیکھیں تو ایسا لگتا ہے شاید سو سال سے بھی زیادہ عمر ہو، الله تعالیٰ نے تھوڑے وقت میں ان سے بہت کام لیے۔
جس آدمی کی ملک کے آرمی چیف سے ملاقاتیں ہوں ، ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقاتیں ہو رہی ہوں ، وزیراعظم سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں، یہاں سندھ والوں سے تو شاید ہر دوسرے تیسرے روز کا قصہ ہو، آپ مجھے بتائیں کہ اس آدمی کوجو اس سطح کا ہو اوراس طرح کام کر رہاہو، حفاظت کی ضرورت ہے یا نہیں؟
شہادت کے دن دارالعلوم کراچی گئے ہوئے تھے، ان کی مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لینڈ لائن ٹیلی فون پر اپنی آمد کے حوالے سے بات ہوئی، ظاہر ہے کہ ٹیلی فون کو ٹریس کرنا کسی شخص کا کام نہیں۔
اس کے علاوہ مولانا کے دارالعلوم جانے کا کسی کو علم نہیں تھا، مولانا وہاں گئے ہیں، او روہاں سے واپس نکلے ہیں اور واپس نکل کر راستے میں حضرت مولانا امداد الله صاحب دامت برکاتہم سے فون پر رابطہ ہوا اور ان سے فرمایا کہ میں آپ کے پاس بنوری ٹاؤن آرہا ہوں، صاحبزادہ مفتی عمیر ساتھ تھے، اگلے دن صبح دس بجے، یعنی اتوار کو صبح دس بجے حضرت مولانا محمد طیب صاحب جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتمم کو تشریف لانا تھا ، ان کے صبح ناشتے کا فیزII میں نظم تھا تو بھائی(مولانا عادل خان صاحب شہید نوّرالله مرقدہ) نے عمیر سے کہا کہ ہم لوگ وہاں جنگل میں رہتے ہیں، وہاں فوری طور پر اسباب کا انتظام مشکل ہوتا ہے، آپ ایسا کریں کہ کل ناشتے کے لیے کچھ سامان یہیں سے لے لیں، تاکہ کل صبح پریشانی نہ ہو۔
بنوری ٹاؤن جانے کا فیصلہ پہلے سے نہیں تھا، بالکل اچانک راستے میں مولانا امداد الله صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے بات ہوئی اور فرمایا کہ میں آپ کے پاس آرہا ہوں ۔راستے میں شاہ فیصل کالونی میں شمع شاپنگ سینٹر کا علاقہ آتا ہے۔ وہاں پر رحمت شیریں بیکری کے بالمقابل گاڑی پارک کی اورمفتی عمیر گاڑی سے اتر کر روڈ پار کرکے بیکری میں گئے او رجو سامان لینا تھا وہ سب لے لیا، پیمنٹ کر رہے تھے کہ انہیں فائر کی آواز آئی ، وہاں سے فوراً بھاگے، ایک سڑک عبور کی، پھر دوسری سڑک عبور کی اور گاڑی میں جاکے دیکھا تو ڈرائیور کا سر پیچھے کی طرف لگا ہوا تھا، پھر بھائی (مولانامحمد عادل خان صاحب شہید نوّرالله مرقدہ) کو دیکھا ان کا سر نیچے کی طرف تھا۔
ڈرائیورنگ سیٹ پر شہید ڈرائیورپڑا ہوا ہے ، الله تعالیٰ مفتی عمیر کی ہمت میں او راضافہ فرمائے، ڈرائیور کو ڈرائیونگ سیٹ سے دوسری سیٹ کی طر ف منتقل کیا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ کے جتنا جلدی ممکن تھا فوراً قریب ترین فوجی فاؤنڈیشن ہاسپیٹل لے کر گئے، جیسے ہی یہ واقعہ ہوا ہے، مجھے فوراً مفتی انس کا فون آگیا، انہوں نے کہا چچا جان! ابو کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی ہے، میں تو بستر پہ پڑا ہوا تھا، اس وقت میری حالت تو ایسی تھی کہ میں خود سے بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا ،مفتی حماد میرا چھوٹا بیٹا میری دوائیں لینے بازار گیا ہوا تھا، سب سے پہلے میں نے ان کو فون کیا، انہیں شاید مجھ سے پہلے فون آگیا تھا، وہ بیچارہ گاڑی لے کر دوڑا، یہ جب وہاں پہنچا تو مولانا والی گاڑی اندر ہسپتال میں داخل ہوچکی تھی۔
ڈرائیور کی شہادتتو ہوچکی تھی، مجھے مفتی حماد نے وہاں سے فون کیا کہ ابو آپ بالکل پریشان نہ ہوں، آپ فکر نہ کریں، میں بس تھوڑی دیر میں واپس آتا ہوں۔
مفتی حماد نے بعد میں مجھے بتایا کہ تایا ابوکو لیاقت نیشنل ہسپتال منتقل کررہے ہیں اور میں نے آپ کو فون اس لیے کیا کہ تایا ابو کو جب اسٹریچر سے ایمبولینس میں شفٹ کر رہے تھے تو انہوں نے آنکھیں کھولی تھیں۔ مجھے تسلی ہوگئی کہ وہ ہسپتال تک پہنچ جائیں گے۔
وہاں پہنچ کر، ایمرجنسی کے اندر ڈاکٹر جب آئے تو انہوں نے کہا کہ حضرت مولانا شہید ہو گئے ہیں:﴿إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعون﴾․
بہرحال وہ الله کے ہاں چلے گئے او رجو مقام الله تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا ہے وہہر کس وناکس کو عطا نہیں فرماتے۔ بہت منتخب ترین بندے ہوتے ہیں جن کو یہ مقام نصیب ہوتا ہے۔
میرے لیے اس حادثے کے بعد جو دوسری بڑی آزمائش تھی وہ والدہ محترمہ کو یہ خبر دینا تھی۔ میں ان کو کیسے بتاؤں؟! پھر الله تعالیٰ نے یہ بات دل میں ڈالی، ہم لوگ ایک ہی مکان میں رہتے ہیں اوپر نیچے، وہ زیادہ وقت اوپر رہتی ہیں ، والد صاحب سے جو تعلق تھا، کہتی ہیں میں وہ گھر چھوڑ نہیں سکتی، لیکن دن کا زیادہ حصہ وہ ہمارے ساتھ ہی ہوتی ہیں۔ اکثر راتوں میں بھی میں ان کو اپنے پاس بلا لیتا ہوں او رمیری بیماری کی وجہ سے بھی میرے سرہانے بیٹھی رہتی تھیں ، مجھے تسلی دیتیں ، شہادت کے کچھ دیر بعد میں نے ان کو نیچے بلا لیا اورکھانا کھلایا، دوائیں دیں، اس کے بعد ہلکے سے انداز میں ،میں نے ان سے ذکر کیا کہ بھیا کی طبیعت ٹھیک نہیں چل رہی، آج پھر طبیعت خراب ہوئی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھے بھی لے چلو، میں نے کہا ابھی ممکن نہیں ،میں جاؤں گا تو کل آپ کو اپنے ساتھ لے جاؤں گا، اب آپ آرام کریں۔ چناں چہ جب وہ گہری نیند سو گئیں او رمجھے اندازہ ہو ا کہ اب یہ گہری نیند سو گئیں ہیں تومیں اپنی اہلیہ اور اپنے بیٹے مفتی حماد کو لے کر چلا اور اپنی دونوں بہوؤں سے، جوگھر میں تھیں، کہا کہ آپ ایسا کرنا کہ فجر سے پہلے ان کے ناشتے کا انتظام کر لینا، کیوں کہ نماز جنازہ 9 بجے ہے۔ ظاہر ہے جنازہ گھر سے تو پہلے لے جانا ہو گا، وقت کم ہے اور فاصلہ زیادہ ہے، کہیں خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ پہنچنے میں تاخیر ہو، چناں چہ میں نے ان سے کہا کہ فجر سے پہلے ان کو ناشتہ کرا دینا اور ان سے کہہ دینا کہ بھیا کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی، اس لیے خالد اور ان کی اہلیہ رات ہی کو چلے گئے ہیں اور وہ یہ کہہ کر گئے ہیں کہ جب امی اٹھ جائیں توناشتہ کراکے ان کو ساتھ لے آنا اورجب یہاں لاؤ تو ان کو عورتوں میں مت لے کر جانا، سیدھا میرے پاس لانا، یہاں خواتین کو سمجھا دیا کہ ان سے کوئی نہ ملے اورکوئی ان کے سامنے آنسو نہ بہائے۔
چناں چہ وہ وقت سے پہلے پہنچ گئیں اور سیدھی میرے پاس آئیں اورآتے ہی پوچھا کہ عادل کا کیا حال ہے؟ میں نے بتایا کہ ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اور رات کو زیادہ خراب ہوگئی تھی تو میں او راہلیہ رات کو آگئے تھے، آپ کے آرام میں خلل ڈالنا مناسب نہیں سمجھا او ران کی طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ الله تعالیٰ نے ان کو پنے پاس بلا لیا اور پھر اس کے بعد میں نے ان کو فضائل سنائے اور میں نے کہا دیکھیں! میرا حال آپ کے سامنے ہے، دو مہینے سے بستر پہ ہوں، اگر آپ روئیں گی اور صبر نہیں کریں گی تو میں کیسے جیوں گا؟! ہم تو آپ کو دیکھ کر صبر کریں گے، اگر آپ نے ہمت ہاردی تو ہم تو کسی کام کے نہیں رہیں گے۔
ہم نے فائرنگ اور شہادت کے حوالے سے کوئی تذکرہ اب تک ان کے سامنے نہیں کیا اور ان کو ہم نے یہی بتایا کہ بیمار تھے، کافی دیر تک میں ان کو سمجھاتا رہا ، وہ روتی رہیں او ران کا یہ رونا اس حوالے سے بہتر تھا کہ غم ہلکا ہو جاتا ہے،ا س کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ کہاں ہیں ، مجھے دکھاؤ، پھر میں ان کو لے کر بھائی کے پاس گیا، وہاں خواتین نہیں تھیں، وہ وہاں بیٹھ کے جتنا روسکتی تھیں رولیں اور میں ان کو فضائل سناتا رہا۔
آپ حضرات سے التماس ہے کہ آپ بھائی جان شہید رحمة الله علیہ کے ایصال ثواب کے لیے جتنا زیادہ سے زیادہ اہتمام فرماسکتے ہیں اہتمام فرمائیں۔
ان کا جو مقصد تھا، مشن تھا، الله تعالیٰ اس کو پورا فرمائے۔
الله تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی کامل مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلندفرمائے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔