یہ دنیا فانی ہے او راس میں کسی چیز کو دوام اور بقا حاصل نہیں ہے، ہر ذی روح کو موت کا مزا چکھنا ہے اور اس عالم فانی سے بالآخر جانا ہے، بلکہ قیامت میں تو زمین وآسمان، سورج، چاند، ستارے اور تمام مخلوقات کو ختم ہونا ہی ہے ، صرف اور صرف الله تعالیٰ کی ذات اقدس ہی باقی رہنے والی ہے: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْْہَا فَانٍ، وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ﴾․
لیکن خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس دنیا میں الله تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی کے حصول میں مصروف ومشغول ہیں ، انہیں اطاعت وبندگی والی زندگی نصیب ہوئی ہے، انہوں نے الله تعالیٰ کے نازل کردہ دین اور پیغام کی آب یاری کی ہے،اسے پڑھا، لکھا، سیکھا اور سکھایاہے اور اس پیغام کو دوسروں تک پہنچایا ہے۔ پھر ان میں بھی وہ لوگ زیادہ خو ش نصیب ہیں جو الله تعالیٰ کے دین کی خدمت ، اعلائے کلمة الله، دین حق کی سربلندی اور الله تعالیٰ کی راہ میں شہید کیے گئے ہوں۔ یہ وہ بلند مقام ہے جوہر کس وناکس کو حاصل نہیں ہوتا اورجس کی تمنا انبیاء ،اولیاء اور صلحاء نے کی ہے۔ سید الانبیاء والرسل صلی الله علیہ وسلم نے شوق شہادت میں فرمایا کہ :” قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! میری خواہش وتمنا ہے کہ میں الله تعالیٰ کی راہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں او رپھر شہید کیا جاؤں۔“ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ اس عظیم مقام ومرتبہ کے لیے دعا مانگتے ہوئے فرماتے ہیں:”اے الله! مجھے شہادت عطا فرما اور اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے شہر مبارک کو میری موت کا مقام بنا۔“ چناں چہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی، آپ کو شہادت کی موت نصیب ہوئی اور الله کے رسول کے پہلو میں مدفون ہیں۔
میرے عظیم اورقابل فخر بھائی شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان صاحب شہید رحمة الله علیہ کو الله تعالیٰ نے گونا گوں اوصاف اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ان کی زندگی علم وعمل سے عبارت تھی اور وہ علماء اور طلباء کے سرپرست اور استاذ ومربی تھے۔ نڈر تھے، جرأت وبہادری اوراستقامت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ جہد پیہم کے قائل تھے اور آرام کوشیسے ہمیشہ گریزاں رہتے تھے۔پاکستان کے عظیم دینی ادارے جامعہ فاروقیہ کراچی کی انہوں نے بھرپور خدمت کی ہے، والد صاحب نوّرالله مرقدہ کے شانہ بشانہ جامعہ کی تعمیر وترقی میں کردار ادا کیا اور اسے بام عُروج تک پہنچایا، والد صاحب نوّرالله مرقدہ کی وفات کے بعد آپ ہی جامعہ کے مہتمم اور سرپرست ومربی تھے اور ہمارے لیے سائبان کا درجہ رکھتے تھے، ہمیں ان کی سرپرستی پر فخر تھا۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے رکن تھے اور اس کے امور ومعاملات میں بھی بھرپور دلچسپی لیتے تھے ۔ان کی کوشش ہوتی تھی کہ علمائے حق کے اس پلیٹ فارم سے کوئی امر خلاف ضابطہ اور جادہٴ مستقیم سے ہٹا ہوا نہ آئے اور وفاق پہلے کی طرح مضبوط، توانا اور بھرپور طریقے سے کردار ادا کرتا رہے۔
وہ تحریکی انسان تھے اور ملک وملت کے قومی وملّی معاملات سے باخبر رہتے ، حتی الوسع انہیں صحیح نہج پر ڈھالنے کی کوشش کرتے ، ان کے حل کے لیے فکر مند رہتے، علماء ومشائخ کو اس طرح متوجہ کرتے اور انہیں قومی وملّی معاملات میں متفق ومتحد دیکھنا اور رکھنا چاہتے تھے، ملک کے علماء ومشائخ بھی ان کا احترام کرتے اور ان کی آواز کو اہمیت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، حال ہی میں تحریک دفاع صحابہ میں انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا ، علماء کو اس سلسلے میں جمع کیا، اہل حق کے موقف کو واضح اور نمایاں کیا اور بھرپور طریقے سے اس کا دفاع کیا۔
اس وقت وہ قوم وملت کی آواز بن گئے تھے اور علماء وصلحا اور عوام وخواص کو ان سے مستقبل کے حوالے سے بڑی توقعات او راُمیدیں وابستہ تھیں لیکن کفر اور لادین عناصر کو ان کی یہ نقل وحرکت پسند نہیں آئی او رانہیں راستے سے ہٹا دیا گیا۔ ان کی شہادت اُن کے لیے بہت بڑی سعادت ہے اور یہی اُن کی تمنا وآرزو تھی، جس کا وہ اظہار بھی کیا کرتے تھے، لیکن ہمارے خاندان، جامعہ فاروقیہ کراچی، وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور قوم وملت کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ الله تعالیٰ ہی اس کی تلافی کی صورت پیدا فرمانے والے ہیں اور وہی ہر چیز کے خالق ومالک اورمدبر الامور ہیں۔ ان کی شہادت کا واقعہ ظاہری اسباب وحالات کے اعتبار سے ہمارے لیے انتہائی صدمے اور دکھ درد کا باعث بنا ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں ،ان کے تمام متعلقین ومنتسبین اور پوری امت مسلمہ کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے، ان کی شہادت کو قبول ومنظور فرمائے، کامل مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے او راعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے۔ آمین، یا رب العلمین، وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ وأصحابہ أجمعین، برحمتک یا أرحم الراحمین․