ہمارے معاشرتی وعائلی مسائل میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ میاں بیوی کے اختلافات کا ہے،کہیں شوہر کوبیوی سے شکایت ہے تو کہیں بیوی شوہر سے بیزار ہے۔روز روز کی لڑائی کے سبب نہ صرف خود اِن کی اپنی زندگی تکلیف دہ ہوجاتی ہے، بلکہ اِس کے برے اَثرات اِن کی اولاد پربھی پڑنے لگتے ہیں، اولاد کے دل میں نہ باپ کا ادب رہتا ہے، نہ ماں کی عزت۔ ان اختلافات کا آغاز آپس کی تلخ کلامی، تو تو، میں میں اور گالی گلوچ ولعن طعن سے ہوتا ہے اور گالم گلوچ اور مار پیٹ کے رستے سے خلع اور طلاق تک جا پہنچتا ہے۔ جس کے نتیجے میں میاں وبیوی دونوں کا تعلق کسی دین دار، باحیا ومہذب خاندان سے ہو تو دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ بچوں کا مستقبل تباہ ہو جاتا ہے، عورت ماں باپ کے گھر میں جا کر اُن کے لیے یا اُن کی طرف سے اپنے لیے ایک مشقت بھرا پریشانیوں والا رستہ اختیار کر لیتی ہے، جس پر چلتے ہوئے اس کے میکے میں اس کے ماں وباپ کے درمیان یا بھائی بھابھیوں کے درمیان اختلافات ومسائل کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔
کسی بھی دارالافتاء میں جا کر معلوم کر لیا جائے کہ وہاں کس قسم کے مسائل سامنے آتے ہیں تو معلوم ہو گا کہ سب سے زیادہ پوچھے جانے والے سوالات طلاق وخلع اور فسخ نکاح سے متعلق ہوتے ہیں، ان اختلافات ومسائل کو حل کرنا ہے تو پہلے ان اختلافات کے اسباب پر غور کرنا ہو گا کہ کون سی ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ حالات بنتے ہیں؟ اسباب ایک نہیں، کئی ہو سکتے ہیں ، مثلا : ہم مزاج نہ ہونا، رہن وسہن اور اسٹیٹس کا مختلف ہونا، (جسے آپ معاشی فرق سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں )جوائنٹ فیملی سسٹم، کسی ایک یا دونوں کا اخلاق سیئہ والا ہونا، دینی برابری کا نہ ہونا وغیرہ ۔ اِس نا اتفاقی کاایک بڑا سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ مرد و عورت ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت نہیں کرپاتے اور چھوٹی چھوٹی غَلَطیوں کواپنی نفسانی ضد کامسئلہ بنالیتے ہیں۔ مردچاہتاہے کہ عورت میری نوکرانی کی طرح رہے اور عورت چاہتی ہے کہ مرد میرا غلام بن کر رہے،میرے اِشاروں پر چلے وغیرہ وغیرہ۔ذرا سوچیے کہ جب میاں بیوی کے درمیان ایسے خیالات پیداہوں گے تو پھر زندگی کیسے گزر پائے گی؟!
اختلاف کے حل کا ایک قوی نسخہ
غور کرنے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ میاں وبیوی کے اختلاف کیسے ہی کیوں نہ ہوں، وہ چند لمحوں میں حل اور ختم کیے جا سکتے ہیں، وہ ایسے کہ اختلاف چاہے کسی بھی سبب سے پیدا ہوا ہو ، اُسے باقی رکھنے والا عنصر ہمیشہ انسان کی اَنا ہوتا ہے، چاہے وہ مرد کی طرف سے ہو، چاہے عورت کی طرف سے، جانبین میں سے اگر کوئی ایک اپنی اَنانیت کو چند لمحوں کے لیے ختم کر دے اور جھک جائے، معافی مانگ لے، معذرت کر لے، خاموش ہو جائے تو دیکھ لیجیے گا کہ جھگڑا ختم ہو جائے گا۔ لیکن جھگڑے کے موقع پر اَنانیت کے موجود ہوتے ہوئے اختلاف ختم ہو جائے، تو یہ ممکن نہیں ہے۔
ممکن ہے کہ شیطان اس وقت آپ کے دل میں یہ خیال ووسوسہ پیدا کرے کہ َانانیت ختم کرنے کا تو مطلب یہ ہے کہ تم بیوی کے نیچے لگ جاوٴ، رن مرید بن جاوٴ، اسے سر پر چڑھا لو، کمینے بن جاوٴ، ذلیل ہو جاوٴ، اپنی قدر گھٹا لو، وغیرہ وغیرہ۔
لیکن آپ نے اس کے اِن وسوسوں پر کان نہیں دھرنا، بالکل اہمیت نہیں دینی، ان کے مقتضا پر عمل نہیں کرنا، اگر اس وقت آپ نے ان وساوس سے بچتے ہوئے صلح کر لی، معذرت کر لی تو دیکھ لیجیے گا اس کے بعد جھگڑوں اور اختلافات کا نام ونشان تک مٹ جائے گا۔ لڑائی کا ہو جانا ایک فطری امر ہے، جہاں برتن اکٹھے ہوں تو وہ آپس میں ٹکراتے ہیں، آپ اسے (یعنی لڑائی کو)روک نہیں سکتے ، کیوں کہ ہم انسان ہیں اور انسانوں میں لڑائی ہو ہی جاتی ہے۔ لیکن لڑائی کا باقی رہنا، طول پکڑ جانا، سالہا سال تک چلتے رہنا، اس کی وجہ سے معاملہ مار پٹائی ، قتل وغارت اور جدائی (یعنی طلا ق وخلع )تک پہنچ جانا فطرت نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کے برے اعمال کی کمائی اور اس کے کرتوتوں کی سزا ہے، اگر اپنے اعمال کو درست کر لیا جائے تو یہاں تک کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور اعمال کی درستگی کی ابتدا اپنے اندر کی انانیت کے ختم کرنے سے ہو گی۔
اختلاف کی ایک وجہ اور اس کا حل
میاں وبیوی کے درمیان اختلاف کی ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں کو ایک دوسرے سے مختلف، الگ الگ مزاج پر ،پیدا کیا ہے ،جس میں وہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مرد وعورت کے مزاج کا فرق من جانب اللہ ہے، جس کی طرف حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں اشارہ دیا گیا ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَیْءٍ فِی الضِّلَعِ أَعْلَاہُ، فَإِنْ ذَہَبْتَ تُقِیمُہُ کَسَرْتَہُ، وَإِنْ تَرَکْتَہُ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ“․(صحیح البخاري، الرقم:3331)
ترجمہ:”عورتوں کے بارے میں میری نصیحت سن لو کہ عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں سب سے ٹیڑھی اوپر کی پسلی ہوتی ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ پس عورتوں کے بارے میری نصیحت سن لو (کہ ان سے اچھا سلوک کرو)“۔
اس روایت میں جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خطاب مردوں سے ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے اختلافات میں شریعت نے مرد کو سمجھایا ہے کہ وہ بڑا ہے ، لہٰذا اُسے بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اور اسی حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ مرد میں عقل کا غلبہ ہوتا ہے،جب کہ عورت میں جذبات کا پہلو غالب ہوتا ہے ، لہذا ! میاں بیوی کی لڑائی میں سمجھنے سمجھانے کے زیادہ امکانات مرد کی طرف میں ہوتے ہیں۔ پس مرد چوں کہ ذمہ دار بھی ہے اور اس میں عورت کی نسبت عقل کا پہلو بھی غالب ہے ، لہٰذا اسے اپنی ذمہ داری اور تخلیق شدہ فطرت کا خیال رکھتے ہوئے گھر کو جوڑنے میں عورت کی نسبت زیادہ قربانی دینی پڑتی ہے یا دینی چاہیے۔ انہیں وجوہات اور خوبیوں کی بنا پر طلاق دینے کا حق اور اختیار بھی مرد ہی کو دیا گیا ہے۔
اور اگر مرد یہ عزم کر لے کہ اس نے اپنی بیوی کو ہر صورت میں سیدھا کر کے ہی رہنا ہے ، تو اس کا یہ اقدام اور کوشش اسے توڑنے کے مترادف ہے اوراس کو توڑنے کے ایک معنی طلاق بھی ہیں۔
میاں بیوی کے درمیان صلح کا کردار ادا کرنے والے ثالث کو بھی چاہیے کہ میاں بیوی کے اختلافات کو حل کرنے کے لیے مرد کو زیادہ سمجھائے اور سمجھوتہ کرنے کے لیے قائل کرے ، کیوں کہ عورت کو اللہ تعالی نے فطرتاً کم زور بنایا ہے ، جیسا کہ اس روایت کے الفاظ ہیں۔
اس روایت کا یہ مقصد نہیں ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی کو طعن وتشنیع کے لیے اس روایت کو دلیل بنائے کہ تم تو ہو ہی ٹیڑھی ، تم سیدھی نہیں ہو سکتی، وغیرہ وغیرہ، بلکہ اس روایت میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت سے مقصود یہ ہے کہ چوں کہ عورت کو اللہ نے ضعیف اور کم زور بنایا ہے ، لہذا اُس کی اِس فطری کم زوری کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے ساتھ حکمت وبصیرت کے ساتھ معاملہ کیا جائے۔
جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک اور حدیث مبارکہ میں مرد وعورت کے مختلف المزاج ہونے کی خبر دی ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کے ہر حصے سے ایک مٹھی مٹی لے کر اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، چناں چہ:”مِنْہُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ، وَبَیْنَ ذَلِکَ، وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ“․(سنن الترمذي، الرقم:2955)
ترجمہ:”ان کی اولاد میں مٹی کی مناسبت سے کوئی لال، کوئی سفید، کالا اور ان کے درمیان مختلف رنگوں کے اور نرم مزاج و گرم مزاج، بد باطن و پاک طینت لوگ پیدا ہوئے “۔
خلاصہ یہ کہ انسان میں کچھ کم زوریاں تو موجود ہیں اور وہ رہیں گی، اُنہیں ختم کرنا ممکن نہیں ہے، البتہ ان کم زوریوں میں دو چیزیں مطلوب ہیں: ایک تو یہ کہ ہر فریق اپنی کم زوری کو دور کرنے کی ممکن بھر کوشش کرے ، اور دوسرا یہ کہ فریقین ایک دوسرے کی ایسی کم زوریوں کے بارے میں برداشت اور تحمل کا رویہ پیدا کریں، اُنہیں نظر انداز کریں، ان سے چشم پوشی کر لیں، ایسا بننے کی کوشش کی جائے کہ گویاکچھ ہوا ہی نہیں، تب تو کام چل سکے کا، ورنہ نہیں۔ (ایسی سوچ اور اقدام اگرچہ بہت آسان نہیں ہے، لیکن ناممکن بھی نہیں ہے، اگر کوئی عزم کر لے تو یقینا اللہ کی مدد ونصرت بھی اس کا مقدر بنے گی،)یہی وہ بات ہے جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مرد کو عورت کے حوالے سے بیان کی ہے کہ نہ تو اِسے بالکل سیدھا کرنے کے چکر میں پڑو اور نہ ہی اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دو، ورنہ دونوں میں ساتھ رہنا مشکل، بلکہ ناممکن ہو جائے گا اور نوبت علیحدگی تک جا پہنچے گی۔مثلامعمولات زندگی میں جھگڑے کی ایک وجہ مرد کا باہر کی کاروباری زندگی سے گھر میں دیر سے پہنچنا ہے، اس پر بیویاں سیخ پا ہوتی ہیں اور اسی طرح جب کبھی میاں وبیوی نے گھر سے باہر کہیں سفر پر یا کسی تقریب وغیرہ پر جانا ہو تو تیاری میں بیویاں بہت وقت لگا دیتی ہیں، حتی کہ انہیں بروقت گھر سے باہر نکالنا ایک مشکل ترین کام بن جاتا ہے، ایسے موقع پر مرد کو بہت غصہ آتا ہے، نتیجہ اسی خوشی کے وقت میں آپس کی چپقلش کی صورت میں نکلتا ہے، اب اس معاملے کو سلجھانا اپنے بس کی بات ہے، مقررہ وقت پر شوہر گھر آنے کی بھر پور کوشش کرے، اور اگر پھر بھی کسی وجہ سے کچھ تاخیر ہو جائے تو بیوی برداشت کرے اور نظر انداز کرے کہ باہر کی زندگی میں تاخیر کے اسباب بے شمار پیدا ہو سکتے ہیں۔ اور اسی طرح گھر سے باہر نکلنے کے لیے بیوی کو جو وقت بتایا گیا تھا وہ عین اسی وقت پر بالکلیہ تیار رہے، اپنی تیاری کی ابتدا کرے ہی اس طرح کہ بروقت نکلنا ممکن ہو سکے اور اگر اس میں کچھ تاخیر ہو بھی جائے تو پھر ایسی صورت میں شوہر تحمل کا مظاہرہ کر لے اور اپنے آپ کو سمجھا لے کہ ایسا تو ہونا ہی ہوتا ہے، ہاں عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ مطلوبہ مقررہ وقت سے کچھ پہلے کا وقت بیوی کو بتا دیا جاتا کہ اس وقت نکلنا ہو گا۔ یعنی فریقین کو ممکن حد تک اپنی اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔
اختلاف کی ایک اور وجہ اور اس کا حل
میاں بیوی کے درمیان اختلافات کا ایک سبب شیطان لعین بھی ہوتا ہے۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”إِنَّ إِبْلِیسَ یَضَعُ عَرْشَہُ عَلَی الْمَاءِ، ثُمَّ یَبْعَثُ سَرَایَاہُ، فَأَدْنَاہُمْ مِنْہُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُہُمْ فِتْنَةً، یَجِيءُ أَحَدُہُمْ، فَیَقُولُ: فَعَلْتُ کَذَا وَکَذَا، فَیَقُولُ: مَا صَنَعْتَ شَیْئًا، قَالَ: ثُمَّ یَجِیءُ أَحَدُہُمْ، فَیَقُولُ: مَا تَرَکْتُہُ حَتَّی فَرَّقْتُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ امْرَأَتِہ، قَالَ: فَیُدْنِیہِ مِنْہُ، ”وفي روایة: فَیُقَرِّبُہُ وَیُدْنِیہِ ویَلْتَزِمُہُ“ وَیَقُولُ: نِعْمَ أَنْتَ“.(صحیح مسلم، الرقم:7106)
ترجمہ:” ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے، پھر اپنے لشکروں کو عالم میں فساد کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ چناں چہ اس کے لشکریوں میں سے مرتبہ میں زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ برپا کرنے والا ہو، پھر اس کے بھیجے ہوئے چیلوں میں سے ایک چیلہ آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا (یعنی فلاں سے چوری کرائی، فلاں کو شراب پلوائی وغیرہ وغیرہ) تو شیطان کہتا ہے: تو نے کچھ بھی نہیں کیا(یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ،جو قابل فخر ہو)۔ پھر کوئی چیلہ آ کر کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص کو اس حال میں چھوڑا کہ اُس کے اور اُس کی بیوی کے مابین جدائی ڈلوا دی تو شیطان (خوش ہو کر) اُس کو اپنے قریب کر لیتا ہے اور اُسے گلے لگاتا ہے کہ ہاں! تو نے بڑا کام کیا ہے“۔
تو میاں بیوی کے درمیان اختلافات ، علیحدگی ، یا ان کے درمیان پھوٹ ڈلوانا ابلیس کے نزدیک اتنا عظیم کام ہے کہ ایسے چیلے اس کے مقربین میں شمار ہوتے ہیں جو میاں وبیوی میں طلاق کا باعث بن جائیں۔
اس لیے میاں بیوی اچھی طرح جان لیں کہ جب بھی ان کے درمیان کسی چھوٹی سی بات پر بڑا جھگڑا ہو جائے تو اس کا سبب شیطان ہو گا،جب کبھی اس قسم کا اظہار ہو تو حالات معمول پر لانے کا طریقہ یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں یا ان میں جوغصہ کرنے والا ہے وہ خود تعوذ پڑھے، لا حول ولا قوة الا باللہ پڑھے، سورہ الفلق اور سورہ الناس پڑھے اور اگر یہ دعا بھی پڑھ لی جائے تو بہت بہتر ہو جائے گا: ”أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہ ، وَعِقَابِہ، وَشَرِّ عِبَادِہ، وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ، وَأَعُوذُ بِکَ رَبِّ أَنْ یَحْضُرُونَ “
․ترجمہ: ”میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں مکمل ہونے والے کلمات کے ذریعے ، اس کے غضب سے، اس کی سزا سے، اس کے برے بندوں سے اور شیاطین کے کچوکوں سے اور میں اپنے رب کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں“۔اور اگر وہ خود پڑھنے کی کیفیت میں نہ ہو تو کوئی اور بھی یہ اوراد پڑھ کر پھونک مار سکتا ہے۔ شیطان کی طرف سے غصے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ وہ وضو کر لے ۔
اختلافات ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ میاں وبیوی پہلے اپنے درمیان سے تیسرے دشمن کو بھگائیں، یعنی شیطان کو، اس کی موجودگی میں میاں وبیوی کے اختلافات کا حل ہونا بہت مشکل ہے۔ اور اس کو بھگانے کا طریقہ یہی ہے کہ صبح وشام کے اذکار اور تعوذات کا اہتمام کیا جائے۔ دوسری بات شیطان ملعون کو گھر میں داخل ہی نہ ہونے دیا جائے، وہ اس طرح کہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے گھر میں داخل ہونے کی مسنون دعا پڑھ لی جائے یا اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی ذکر کر لیا جائے، مثلا: بسم اللہ پڑھ کر ہی گھر میں داخل ہو جائیں گے تو شیطان گھر میں داخل نہ ہو سکے گا، بصورت دیگر وہ بھی اس گھر میں رہتے ہوئے فتنے وفسادات اور گناہ ومنکرات کا ذریعہ بنتا رہے گا، حضرت جابر بن عبد اللہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ذکر کیا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:”إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بَیْتَہُ، فَذَکَرَ اللّٰہَ عِنْدَ دُخُولِہ وَعِنْدَ طَعَامِہ، قالَ الشَّیْطَانُ: لا مَبِیتَ لَکُمْ، وَلَا عَشَاءَ، وإذَا دَخَلَ، فَلَمْ یَذْکُرِ اللّٰہَ عِنْدَ دُخُولِہ، قالَ الشَّیْطَانُ: أَدْرَکْتُمُ المَبِیتَ، وإذَا لَمْ یَذْکُرِ اللّٰہَ عِنْدَ طَعَامِہ، قَالَ: أَدْرَکْتُمُ المَبِیتَ وَالْعَشَاءَ“․ (صحیح مسلم، الرقم:2018)
ترجمہ:” جو شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور کھانا کھانے کے وقت اللہ کا نام لے لے تو شیاطین آپس میں یہ کہتے ہیں کہ اس گھر میں تمہارے لیے رات گزارنے اور کھانا کھانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور اگر کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت یا کھانا کھاتے وقت اللہ کا نام نہ لے تو شیاطین کہتے ہیں کہ اب تمہارے لیے یہ گنجائش ہے کہ تم اس گھر میں رات گزار سکو اور کھانا کھا سکو ۔
گھر میں داخل ہونے کا ذکر گھر میں داخل ہونے والی دعا ہی ہے، حضرت ابو مالک اشعری کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”إِذَا وَلَجَ الرَّجُلُ بَیْتَہُ، فَلْیَقُلْ: اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلَجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللّٰہِ خَرَجْنَا، وَعَلَی اللّٰہِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا، ثُمَّ لِیُسَلِّمْ عَلٰی أَہْلِہ“․ (سنن أبي داود، الرقم:5096)
ترجمہ: ”کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہونے لگے تو کہے : ”اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلَجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللّٰہِ خَرَجْنَا، وَعَلَی اللّٰہِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا“
،اے اللہ!ہم تجھ سے اندر جانے اور گھر سے باہر آنے کی بہتری مانگتے ہیں، ہم اللہ کا نام لے کر اندر جاتے ہیں اور اللہ ہی کا نام لے کر باہر نکلتے ہیں اور اللہ ہی پر جو ہمارا رب ہے، بھروسہ کرتے ہیں ، پھر اپنے گھر والوں کو سلام کرے“۔
ہمارے معاشرے میں اختلافات اور جھگڑے کبھی تو بچوں کے درمیان ہوتے ہیں اور کبھی بچوں کی وجہ سے بڑوں کے درمیان ہوتے ہیں، پھر بڑوں کے درمیان پیدا ہونے والی رنجشیں اور جھگڑے کئی وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں، مثلا: مشترکہ خاندانی نظام، (جوائنٹ فیملی سسٹم) ۔ ایک دوسرے سے بہت زیادہ توقعات باندھ لینا، آپس کی سوچوں کا فرق، خاندانی ومعاشرتی رسوم ورواج کافرق، آپس میں طے پانے والے معاملات کا درست طریقے سے پورا نہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔
نیز!گھریلو جھگڑوں میں کبھی یہ جھگڑے بہن بھائیوں کے درمیان ہوتے ہیں، کبھی ماں باپ اور اولاد کے درمیان ہوتے ہیں، کبھی ساس کی طرف سے جھگڑے اٹھتے ہیں، کبھی نندوں کی طرف سے، تو کبھی بہو کی طرف سے اور اسی طرح شوہر کی طرف سے اور کبھی بیوی کی طرف سے۔
اگر ہم شریعت کے احکامات پر عمل کریں گے او رنبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مسنون زندگی کو حرزجان بنالیں گے، تو یہ تمام جھگڑے اورفسادات ان شاء الله ختم ہو جائیں۔ الله تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو اور ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ آمین!