استاد المحدثین، شیخ الحدیث ،حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمة اللہ علیہ کو اللہ تعالی نے جامع صفات و خصوصیات سے نوازا تھا اور مرکزی حیثیت عطا کی تھی۔مفتاح العلوم جلال آباد اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ سے انہوں نے کسبِ فیض کیا اور پھر کئی جامعات میں درس وتدریس کے بعد بالآخر ملک و ملت کے عظیم علمی و دینی ادارے وجامعہ فاروقیہ کراچی، کی ایک چھوٹی سی مسجد میں بنیاد رکھی، جو دیکھتے ہی دیکھتے علم و عمل کا ایک بہت بڑا مرکز، ادارہ اور تحریک بن گیا، اس کی خدمات کا شہرہ اور چرچا چہار دانگ عالم میں ہونے لگا۔ ظاہری اسباب میں یہ حضرات اکابر کی تعلیم وتربیت اورصحبت کا اثر اور حضرت شیخ الحدیث رحمة اللہ علیہ کی بے پناہ خدا داد صلاحیتوں کا نتیجہ تھا۔ ادارے کے ساتھ ساتھ حضرت نے مختلف تحریکوں تحریکِ ختم نبوت، تحریکِ سوادِ اعظم اور علماء کے ساتھ سیاسی تحاریک میں بھی حصہ لیا اور بھرپور کردار ادا کیا۔ مدارسِ دینیہ کے سب بڑے تعلیمی بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان میں بھی آپ نے نمایاں ترین خدمات سر انجام دیں۔ ابتدا میں مجلسِ عاملہ کے رکن، دو سال بعد ناظم اعلیٰ اور پھر دس سال بعد اس کے صدر مقرر کیے گئے اور تاحیات وفاق المدارس کے صدر رہے، جس کی مدت تقریبا ستائیس سال ہے اور یہ اب تک وفاق المدارس کی تاریخ میں سب سے طویل مدت صدارت بنتی ہے۔ آپ کے دورِ نظامت وصدارت میں وفاق المدارس نے سب سے زیادہ ترقی کی منازل طے کیں اور ہر اعتبار سے ایک مؤثر اور قابلِ رشک تعلیمی بورڈ بن کر اُبھرا، اس کے ساتھ ساتھ آپ تنظیمات مدارس کے بھی تاحیات صدر رہے۔
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمة اللہ علیہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ فاروقیہ کراچی میں اپنے والد محترم کے زیرِ سایہ تعلیم و تربیت حاصل کی اور 1978ء میں جامعہ ہی سے سندِ فراغت حاصل کی، اپنے والد کے مشورہ سے تبلیغی جماعت میں بھی وقت لگایا، چار ماہ اندرون ملک اور چھ ماہ بیرون ملک تبلیغی جماعت میں لگائے ۔ جامعہ فاروقیہ کراچی ہیسے درس و تدریس کی ابتداء کی اورزندگی کا ایک طویل عرصہ اسی میں مشغول رہے، ساتھ ساتھ مختلف انتظامی ذمہ داریوں میں بھی پیش پیش رہے، جامعہ کے ناظمِ اعلی، رئیس دارالافتاء، استاذِ حدیث،شیخ الحدیث اور مہتمِم کے مناصبِ جلیلہ پرفائز رہے۔
جامعہ فاروقیہ کراچی کی تعمیر و ترقی میں وہ اپنے عظیم والد کے شانہ بشانہ شامل رہے، اس سلسلے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا اور جامعہ کی تعلیمی، تبلیغی اور تعمیری سرگرمیوں میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے رہے۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کی طرف بھی توجہ دی، کراچی یونیورسٹی سے 1976ء میں بی، اے ہیومن سائنس اور 1992ء میں سندھ یونیورسٹی پاکستان سے اسلامک کلچر میں پی، ایچ، ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ سے شائع ہونے والے انگلش اور عربی رسالے کے طویل عرصہ تک مدیر بھی رہے۔ اردو، عربی انگلش اور پشتو وغیرہ کئی زبانوں پر انہیں دست رس حاصل تھی، ان زبانوں میں فی البدیہہ ما فی الضمیر کے اظہار کی قدرت رکھتے تھے، اور بغیر کسی رکاوٹ، تصنع اور جھجھک کے گفتگو کر لیتے تھے اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
حضرت ڈاکٹر صاحب شہید رحمة اللہ علیہ نے اپنے عظیم، بلند مرتبہ اور باکمال والد سے تعلیم و تربیت پائی تھی اور ان میں اپنے بلند پایہ والد گرامی کی صفات و خصوصیات پائی جاتی تھیں، بلند ہمت اور عظیم انسان تھے، ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ جہد مسلسل سے عبارت ہے، جن لوگوں نے ان کے معمو لات کو دیکھا ہے وہ بخوبی واقف ہیں کہ وہ کس طرح دینی کاموں اور دین کی سربلندی کے لیے دن رات ایک کر دیتے تھے اور صبح شام اسی فکر وکاوش میں مصروف رہتے تھے۔ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ جہاں بھی جاتے اپنا راستہ خود بنا لیتے تھے اور اپنا جہاں خود آباد کر لیتے تھے، چناں چہ وہ کیلیفورنیا امریکا گئے تو وہاں اپنا جہاں خود آباد کر لیا، ایک بڑے اسلامی سنٹر کی بنیاد رکھی، اس کے لیے فنڈنگ کر کے اسے ترقی دی اور بڑے پیمانے پر دینی کام انجام دیے، لیکن ان کی یہ دینی محنت اور دین کے حوالے سے متحرک و فعال زندگی امریکی حکومت سے ہضم نہ ہو سکی اور انہیں وہاں سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ وہاں سے واپس آ کر چند سال پاکستان میں رہے، اپنے عظیم ادارے جامعہ فاروقیہ کراچی کی خدمت کی، حضرت شیخ الحدیث رحمة اللہ علیہ کے دست مبارک سے جامعہ فاروقیہ فیزii کا سنگِ بنیاد رکھوایا، اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے دن رات ایک کر دیا۔جامعہ فاروقیہ کراچی فیز ٹو سے کافی فاصلے پر ہے، اس کے باوجود آپ ابتدا میں عام طور پر روزانہ وہاں آتے جاتے اور وہاں کے امور کی مکمل نگرانی اور دیکھ بھال بڑی گہری نظر سے کرتے تھے۔
پھر 2010ء میں آپ ملائیشیا چلے گئے اور وہاں بھی اپنی دنیا آباد کر لی، حالاں کہ وہاں ان کی حیثیت ایک مسافر کی تھی، اپنی رہائش کا بندوبست کیا اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا میں کلیہ معارف الوحی اور انسانی علوم میں لیکچرار لگ گئے، اپنے بیٹوں کی ایک دینی ادارے میں تدریس کا بندوبست کیا، انہیں تجارت میں بھی لگایا اور تین بچوں کی وہیں شادی کا بندوبست کیا، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا میں پی، ایچ، ڈی اور ماسٹرز کے طلباء کے مشرف بھی رہے اور مختلف تحقیقاتی کمیٹیوں کے رکن بھی رہے۔
اپنے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمة اللہ علیہ کی وفات کے بعد اپنے برادر محترم حضرت مولانا عبیدالله خالد زید مجدہم کی دعوت پر جامعہ فاروقیہ کراچی کے اہتمام اور سرپرستی کے لیے آپ دوبارہ پاکستان تشریف لائے اور جامعہ فاروقیہ فیز ٹو کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا، ان کے آنے سے اس کی رونقیں دوبالا ہونے لگیں، ملک کی دینی قیادت کو متحرک، فعال اورمنظم کیا اور ماند پڑی دینی سرگرمیوں اور ماحول کو ان کے آنے سے رونق مل گئی، ملائیشیا سے آئے ہوئے دو ڈھائی برس ہی گزرے تھے کہ ان کی صلاحیتیں اور کارکردگی اپنے آپ کو منوانے لگ گئی اور وہ پاکستان کے افق پر چھا گئے۔
آپ وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے رکن بنائے گئے تو آپ نے وفاق المدارس میں انتہائی فعال کردار ادا کیا، وفاق کی قیادت کو حوصلہ دیا، ہر مشکل میں ان کے ساتھ شریک رہے، بلکہ ہراول دستے کا کردار ادا کرتے رہے، کرونا وائرس کے بعد مساجد اور مدارس دینیہ کو کھلوانے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا اور سب سے پہلے اپنے ادارے جامعہ فاروقیہ کراچی میں اسباق کا افتتاح کروایا، اس کی وجہ سے اہل مدارس میں بھی ہمت پیدا ہوئی اوراس کے کچھ وقت کے بعد پھر دیگر مدارس میں دینی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا، ان کے وفاق المدارس کے رکنِ عاملہ بننے پر دینی حلقوں نے خوشی محسوس کی کہ حضرت شیخ الحدیث رحمة اللہ علیہ کی وفات کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا تھا حضرت ڈاکٹر صاحب شہید کے آنے سے اس کی کافی حد تک تلافی ہو جائے گی اور وفاق المدارس پہلے کی طرح بھرپور کردار ادا کرتا رہے گا۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمة اللہ علیہ کو اللہ تعالی نے جامعیت اور مرکزیت عطا کی تھی اور تمام اکابر علماء اور تنظیموں اور تحریکوں سے وابستہ افراد آپ کی آواز پر لبیک کہتے تھے، یہی صفت و خصوصیت حضرت ڈاکٹر صاحب شہید رحمة اللہ علیہ میں بھی تھی کہ وہ قومی وملی مسائل میں علماء کی تمام مقتدر شخصیات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لیتے تھے اور ان سے قومی وحدت کا مظاہرہ کرواتے تھے۔ حال ہی میں تحریکِ مدح صحابہ میں انہوں نے بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا، علماء و مشائخ کو مسئلے کی حساسیت سے آگاہ اور جمع کیا، اجلاس بلوائے، جلسوں کا انعقاد کرایا، تقریریں کیں، مختلف مکاتبِ فکر کے لوگوں کو جمع کیا اور مسلمانوں کے دل کی آواز بن گئے، اب تو کیفیت یہ تھی کہ ہر دینی درد رکھنے والا آدمی ان کا ذکرِ خیر کر رہا تھا اور ان کی محنت و کاوش، صلاحیت و استعداد اور درد و کڑھن کو سراہ رہا تھا، ان کے بیانات، قوت گویائی اور حق گوئی کو داد دے رہا تھا، وہ واقعی حسن اخلاق، اخلاص وللہیت، جرأت و بہادری، علمی صلاحیت و استعداد، زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے اور ان کے مقتضی پر عمل کے خوگر تھے، قدرت نے ان میں دینی تڑپ رکھی تھی اور دین کی سربلندی اور تعمیر و ترقی کو انہوں نے اپنی زندگی کا مشن بنایا ہوا تھا، حالات جیسے کیسے بھی ہوئے، زمانے نے رنگ بدلا، وہ دنیا میں چلے پھرے، اس کی رونق اور شادابی کو دیکھا، لیکن کسی چیز نے بھی ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آنے دی، ان کی دینی سوچ پر کوئی چیز بھی اثر انداز نہیں ہو سکی اور دینی صلابت ان میں اسی طرح باقی رہی جیسا کہ جامعہ فاروقیہ کراچی کے قیام میں تھی۔
اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے، ان کے مرقد پر رحمتیں نازل فرمائے، ان کی بوڑھی والدہ محترمہ، ہر دل عزیز بھائی استاذ محترم حضرت مولاناعبیداللہ خالد صاحب زید مجدھم، صاحب زادگان مولانا مفتی محمد انس عادل، مولانا مفتی محمد عمیر عادل، مولانا محمد حسن عادل، مولانا محمد زبیر عادل، تمام پسماندگان اور پوری امت مسلمہ کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے کہ ان کی شہادت پر ہر مسلمان غم زدہ ہے۔ آمین یا رب العالمین۔
کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں