علم حدیث ایک نہایت وسیع وعریض فن ہے۔ اس فن کی بے شمار انواع اور اقسام ہیں جن کو اس فن کے ماہر علما ء نے اپنی کتب میں تحریر کیا ہے۔ مثلاً: علم جرح وتعدیل، متون الحدیث، غریب الحدیث، مشکل الحدیث، احوال رجال الحدیث، ناسخ و منسوخ، تعارض و ترجیح… اس کے علاوہ بے شمار اس کی شاخیں ، انواع اور اقسام ہیں، جیسا کہ امام حازمی کا مشہور قول ہے کہ علم حدیث کی سو سے زائد انواع ہیں، ان میں سے ہر ایک نوع مستقل علم پر مشتمل ہے۔ (النکت لابن حجر، ص:38) ان تمام علوم وفنون میں سے ہر ایک پر بے شمار کتب ، رسائل اور مضامین موجود ہیں۔ ان تمام انواع میں جن انواع کو میں زیر قلم لانا چاہتا ہوں وہ موضوع اور ضعیف حدیث کے بارے میں فرق ہے ۔ اس لیے کہ اطراف عالم میں جب ہم نظر کرتے ہیں تو ہم کو بے شمار ایسے حضرات نظر آتے ہیں جو موضوع اور ضعیف حدیث کو ایک ہی صف میں شمار کرتے ہیں ۔ اور اس طرح کی حدیثوں سے احتجاج کرنے کی نفی کرتے ہیں، اگر چہ عملا ً وہ اس سے منزہ نہیں ہیں۔
تاریخ اسلام کے دور پر جب نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آشکار اور واضح ہوتی ہے کہ وہ تمام جلیل القدر اہل علم جن کی علمیت، فقاہت، محبت رسول صلی الله علیہ وسلم اورحدیث رسول صلی الله علیہ وسلم سے عشق اور جنوں پر پور ی امت متفق ہے، وہ تمام کے تمام موضوع اور ضعیف حدیث میں اپنے قول اور اپنے فعل سے فرق کرتے ہیں، مثال کے طور پر ابن مندہ امام ابو داود کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب وہ کسی باب میں صحیح حدیث نہیں پاتے تو ضعیف الاسناد حدیث کی تخریج کرتے ہیں۔اسی طرح امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ حدیث ضعیف میرے نزدیک رجال کی رائے سے زیادہ بہتر ہے۔(قواعد فی علوم الحدیث، ص:99) اس کے برخلاف امام بیہقی سے منقول ہے کہ میں جس حدیث کو موضوع جانتا ہوں اس کو میں نے اپنی تصانیف میں ذکر نہیں کیا ۔ اسی طرح حافظ منذری ترغیب وترہیب کے مقدمہ میں فرماتے ہیں کہ وہ احادیث جن کا موضوع ہونا متحقق ہو چکا ہے میں ان کو ذکر نہیں کروں گا۔(الترغیب والترہیب، 1/38)۔ اور اسلام سے محبت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ موضوع اور ضعیف حدیث میں فرق کیا جائے۔ ہم ذیل میں چند فرق بیان کرتے ہیں
پہلا فرق لغت کے اعتبار سے
اگر ہم لغت میں غور کرتے ہیں تو ہم اس بات پر مطلع ہوتے ہیں کہ لفظ موضوع اور ضعیف میں فرق ہے۔ مثلا: لفظ موضوع کے لغت میں کئی معانی ہیں ۔ 1.نقصان ہونا، جیسا کہا جاتا ہے:” وضع فی تجارتہ اذا خسر فیہا“2. الاسقاط3. الاختلاق یعنی کسی چیز کا خود بنانا۔ 4.افتری: یعنی کسی چیزکا دوسرے پر تھوپنا ۔اور لفظ” ضعیف“ صفت مشبہ کا صیغہ ہے اور” ضعف“ سے مشتق ہے،جس کے معنی کم زوری کے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے﴿وعلم أن فیکم ضعفا﴾ (اس کے علم میں ہے کہ تمہارے اندر کچھ کم زوری ہے) اور اسی طرح اللہ تعالی کا قول ﴿اللہ الذي خلقکم من ضعف﴾ یعنی: اللہ وہ ہے جس نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کم زوری سے کی۔(الحدیث الضعیف، ص:52)۔ لہٰذا وضع کا مطلب ہوا کہ خود کسی کا بنانا اور ضعف کہتے ہیں کوئی چیز بنی ہوئی ہے اور اس میں کم زوری کا آجانا، اسی طرح لفظ ضعیف موضوع کی ضد نہیں ہے، بلکہ قوی کا متضادہے۔
دوسر ا فرق اصلاح کے اعتبار سے
اصلاح کے لحاظ سے بھی لفظ موضوع اورلفظ ضعیف میں فرق ہے۔ جیسا کہ محدثین موضوع کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں و ہ مکذوب، مختلق اور خود بنائی ہوئی حدیث جس کی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی طرف عمداً یاخطاءً نسبت کی جائے، اس کو موضوع کہتے ہیں۔(الوضع فی الحدیث، ص: 1/108)اور ضعیف کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ وہ حدیث جس میں صحیح اور حسن کی صفات جمع نا ہوں وہ حدیث ضعیف ہے۔ (تدریب الراوی، 1/263)شیخ نور الدین عتر فرماتے ہیں کہ وہ حدیث جس میں حدیث مقبول کی شرائط میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو جائے وہ حدیث ضعیف ہے اور حدیث مقبول کی چھ شرطیں ہیں:1. عدالت،2. ضبط،3. اتصال،4. شذوذ کا مفقود ہونا،5. علت قادحہ کا مفقود ہونا، 6.احتجاج کے وقت اس کو شمار کرنا۔ (منہج النقد فی علوم الحدیث، ص: 286)
اسی لیے حدیث ضعیف جمہور علمائے کرام کے نزدیک فضائل اعمال میں مقبول ہے؛لیکن حدیث موضوع کے بارے میں محدثین کرام کا اتفاق ہے کہ اس کو کسی بھی حال میں بیان کرنا جائز نہیں ہے، البتہ وہ آدمی جو لوگوں کو اس حدیث کے بارے میں بتلانا چاہتا ہو کہ اس پر عمل نا کریں اس کے لیے بیان کرنا جائز ہے۔ (منہج النقد، ص: 301)اسی طرح امام ابن الہمام کا قول ملتا ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ استحباب ضعیف حدیث سے ثابت ہوسکتا ہے؛ لیکن موضوع سے نہیں۔ (فتح القدیر، 3/133)
فائدہ: بعض لوگوں نے اس بات میں فرق کیا ہے کہ وہ حدیث جس کو جان بوجھ کر بنایا جائے اس کو تو موضوع کہیں گے اور جس کو عمدا نا بنایا جائے، بلکہ خطاءً بن جائے، وہ حدیث باطل ہے۔
فائدہ:1.. بعض مرتبہ کسی حدیث کی سند کے ضعیف ہونے سے یہ بات لازم نہیں آتی ہے کہ وہ حدیث نفس الامر میں بھی ضعیف ہو؛ بلکہ بعض مرتبہ اس حدیث کے لیے کوئی دوسری سند آ جاتی ہے، جو صحیح ہوتی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اور ضعیف سند ہوتی ہے تو ان دونوں کا مجموعہ اس حدیث کو ضعیف سے نکال کر حسن درجہ تک پہنچا دیتا ہے۔
2..بعض مرتبہ کسی حدیث پر ضعف الاسناد کا حکم لگایا جاتا ہے اور اس سے اس حدیث کے متن کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا ؛بلکہ یہ ممکن ہے کہ وہ حدیث متن کے لحاظ سے صحیح ہو، جیسا کہ جب صحیح الاسناد کہہ کر حکم لگایا جائے تو اس سے اس حدیث کے متن کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا ؛بلکہ ممکن ہے کہ شاذ، معلل ہو کر ضعیف ہو جائے۔
3..جب کسی حدیث ضعیف پر امت عمل کر لے اور اس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہوجائے تو وہ حدیث صحیح بن جاتی ہے، حتی کہ وہ حدیث متواتر کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، جیسا کہ امام شافعی کا قول ہے کہ ”لاوصیة لوارث“ والی حدیث اہل حدیث (محدثین) کے نزدیک ثابت نہیں ہے؛لیکن امت کی طرف سے اس کو تلقی بالقبول حاصل ہے، اس لیے یہ حدیث قرآن کی آیت کے لیے ناسخ بن گئی ۔(النکت علی ابن الصلاح، ص: 390)
تیسرا فرق: حدیث ضیعف اور موضوع کے اسباب کے بارے میں
اگر ہم حدیث ضعیف اور موضوع کے اسباب پر غور کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے اسباب بھی مختلف ہیں۔ شیخ نور الدین عتر موضوع کے اسباب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وضع حدیث کے بے شمار اسباب ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:1.. جب امت مسلمہ میں مختلف فرقے وجود میں آئے اور ہر فرقہ کے گمان میں وہ احق بالخلافہ تھا تو انہوں نے اپنے دعوی کی تصدیق کے لیے احادیث کو وضع کیا ۔2.. بعض فرقوں نے اختلافی مسائل میں دوسرے فرقے کی ضد میں احادیث کو وضع کیا ہے۔3..بعض لوگوں نے خیر کی طرف لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے احادیث وضع کی ہیں۔4.. بعض اعدائے اسلام نے اسلام دشمنی میں احادیث وضع کی ہیں ،یہ کام اکثر زنادقہ نے کیا ہے، جیسا کہ حماد بن زید کا قول ہے کہ زنادقہ نے چار ہزار احادیث وضع کی ہیں۔ اسی طرح ابن عدی فرماتے ہیں کہ جب سلیمان بن علی کو اس کی گردن مارنے کے لیے لایا گیا تو اس نے کہا کہ ان چار ہزار احادیث کا کیا کرو گے جن کو میں نے گھڑ ا ہے اور اس میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا ہے اب وہ عوام میں پھیل چکی ہیں؟! 5..بعض لوگوں نے دنیاوی اغراض و مقاصد اور امراء کا تقرب حاصل کرنے کے لیے احادیث وضع کی ہیں۔6.. بعض مرتبہ حدیث بغیر ارادے اور قصد کے راوی سے وضع ہو جاتی ہے۔ مثلا: وہ کسی صحابی یا تابعی کے قول کی نسبت غلطی سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی جانب کر دیتا ہے۔ (ماخوز از منہج النقد، ص: 303۔307).7.. سیاسی اختلاف جیسا کہ جب حضرت معاویہ بن ابی سفیان اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے درمیان لڑائی ہوئی تو دونوں طرف ان کے محبین نے احادیث وضع کیں، یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے محبت کرنے والوں نے حضرت علی کی فضیلت میں اور حضرت معاویہ سے محبت کرنے والوں نے حضرت معاویہ کی محبت میں احادیث وضع کیں۔(نظم الدرر، ص:151)
ضعیف حدیث کے اسباب: ضعیف حدیث کے اسباب درج ذیل ہیں:1.. عوارض بشریہ :اس سے مراد یہ ہے کہ اس آدمی سے غلطی ہو گئی یا پھروہ بھول گیاہے یا اس نے حدیث کا مذاکرہ کم کیاہے یا پھر اسے اختلاط لاحق ہو گیا اور یا اس کا حافظہ ہی کم زور ہے۔
2..بغیر سند کے حدیث ذکر کر نا: یہ بات اکثر اوقات مذاکرے کے وقت پیش آتی تھی۔
3..بعض مرتبہ کسی آدمی نے جوانی کی حالت میں حدیث کی سماعت کی اور اس کا حدیث بیان کرنے کا ارادہ نہیں تھا، بعد میں وہ حدیث کو بیان کرتا ہے تو اس کے بیان کرنے میں خطاء واقع ہو جاتی ہے، اس لیے کہ ہر فن کے رجال اور شاہ سوار ہوا کرتے ہیں۔
چوتھا فرق حکم کے لحاظ سے
موضوع حدیث کے متعلق تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ حدیث کا وضع کرنا حرام ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے (معجم المصطلحات الحدیثیہ، ص:565) جب کہ حدیث ضعیف کے بارے میں معتمد علمائے کرام کی جانب سے اس طرح کی بات نہیں کہی گئی، بلکہ حدیث ضعیف کے بارے میں جمہور علمائے کرام اور محدثین، جیسے سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمد بن حنبل، امام حاکم اور خطیب بغدادی وغیرہ کا یہ مسلک ہے کہ ان احادیث کو ترغیب وترہیب میں اور فضائل اعمال کے باب میں بیان کرنا درست ہے۔ یہ تمام فرق اس بات کی طرف مترشح ہے کہ حدیث ضعیف اور موضوع میں فرق ہے ان کو ایک ہی ترازو میں رکھنا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین!