موسم سرما کی شدت ہے، ہوائیں خنک ہیں، ٹھنڈاتنی زیادہ کہ زبانیں گنگ ہیں، سرد علاقوں، اور پہاڑوں نے برف کی سفید چادر اوڑھ لی ہے، دور دور تک برف ہی برف دکھائی دے رہی ہے، جس سے درجہ حرارت صفر میں چلا جاتا ہے، جھیل اور چشمے جم جاتے ہیں، چھتوں سے ٹپکنے والا پانی قلم ِ یخ کی صورت اختیار کر لیتا ہے، راتیں لمبی دن چھوٹے ہیں، ہر ایک کو گرم ملبوسات کی فکر دامن گیر ہے۔
سردی کا اثر اور اس کی حقیقت
بہرکیف! انسان کو غوروتدبر سے کام لینے کے لیے موسم بنائے گئے ہیں، جن میں بے شمار مصالح وحقائق پنہاں ہیں، انسانوں کی صحت وتن درستی کا مدار موسمی تبدیلیوں پر بھی ہے ، ہر موسم کی اپنی جداگانہ تاثیر اورحقیقت ہوتی ہے، لیکن رسول رحمت صلی الله علیہ وسلم نے سردی کے اثر اوراس کی حقیقت کو اس طرح سمجھا دیا کہ سائنسی علوم وتجربات بھی دم توڑ دیتے ہی، محکمہٴ موسمیات کی قیاس آرائیاں ہیچ ہو جاتی ہیں، تمام محققین کی تحقیق ایک طرف، رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کی تحقیق ان سب پر غالب وفائق رہتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں: جہنم نے الله تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے میرے پروردگار! میرا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہے، پس مجھے سانس لینے کی اجازت مَرحمت فرمائیے، الله تعالیٰ نے اُسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی، ایک سانس سردی میں اور دوسرا گرمی میں، پس تم لوگ جو سردی کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہو تو وہ جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے اور جو گرمی کی تپش محسوس کرتے ہو وہ بھی جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہے۔ (مسلم:617)
ایک روایت میں سردی کی حقیقت بیانی زمہریر کے نام سے کی گئی ہے اور اس کی خطرناکی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ حضرت کعب رضی الله عنہ سے یہ نقل کرتے ہیں بے شک جہنم(کا ایک عذاب ایسا ہو گاجس) میں ٹھنڈک ہو گی اور وہ ”زمہریر“ ہے، جس میں (سردی کی شدت کی وجہ سے ) ہڈیوں سے گوشت گر جائے گا، یہاں تک کہ لوگ جہنم کی گرمی (کے حصول) کی فریاد کرنے لگیں گے۔(حلیة الأولیا:5/370)
حضرت مجاہد فرماتے ہیں زمہریر وہ ( شدید ٹھنڈک کا) عذاب ہے جس کی ٹھنڈک کو چکھنے کی بھی لوگوں میں طاقت نہ ہوگی۔“(صفة النّار لابن أبی الدنیا:153)
انسان دنیا کی سردی میں ہی تلملا رہا ہے، بدن کانپ رہا ہے، کیا اس نے کبھی جہنم کی سخت سردی کوتاب لانے کا تصور کیا ہے؟ کیا اس کی ٹھنڈک کو قابو میں کیا جاسکتا ہے؟ الله پناہ میں رکھے۔
دوخوش نصیب بندے
سرما کے موسم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بندہ اگر تھوڑی ہمت کرکے اپنی ذات کو خدا کی طرف متوجہ کرے گا تو اُسے رحمت کے امیدواروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے” دو شخصوں کو دیکھ کر الله تعالیٰ خوش ہوتا ہے: ایک وہ شخص جو سردرات میں اپنے بستر اورلحاف سے اُٹھ کر وضو کرتا ہے، پھر جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو الله تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتا ہے: میرے بندے کو یہ تکلیف برداشت کرنے پر کس چیز نے اُبھارا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ آپ کی رحمت کا اُمیدوار ہے اور آپ کے عذاب سے ڈرتا ہے، الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگ گواہ رہو، میں نے اس کی امیدیں پوری کر دیں او رجس چیز سے خوف کھا رہا ہے اس سے امن دے دیا۔ دوسرا وہ شخص جو (مجاہدین کی) کسی جماعت میں ہو اور وہ یہ جان لے کہ ( میدان ِ جہاد سے ) بھاگنے میں اُسے کیا ( گناہ) ملے گا اور یہ بھی جان لے کہ اُسے (ڈٹ کر لڑنے میں ) الله کے حضور کیا ملے گا! پس وہ قتال کرے اور شہید ہو جائے تو الله تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتا ہے: میر ے بندے کو یہ تکلیف برداشت کرنے پر کس چیز نے ابھارا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ آپ کی رحمت کا امیدوار ہے اورآپ کے عذاب سے ڈرتا ہے، الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگ گواہ رہو، میں نے اس کی امیدیں پوری کر دیں او رجس چیز سے خوف کھا رہا ہے اس سے امن دے دیا۔ (طبرانی کبیر:8532)
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
موسم سرما کے متعلق چند باتیں جاننے کی ضرورت ہے کہ وسعت او رحیثیت کے مطابق احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں اور سردی سے بچاؤ کے اسباب اور ذرائع اختیار کرنے چاہییں، لحاف، موٹی چادر اور اوڑھنے بچھونے کے لیے گرم اور موٹے کپڑے استعمال کرنے چاہییں تاکہ بیماریوں اورپریشانیوں سے بچا جاسکے، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ملحوظ رکھ کر سردی سے حفاظت کرنا چاہیے:”إن لنفسک علیک حقا“ بے شک تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے۔ (ابوداؤد:1369)
چوں کہ معاشرہ میں اکثر تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جن کے پاس سردی سے بچاؤ کے اسباب نہیں ہوتے ، کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوتا اور نہ ہی اُن کے پاس اتنی وسعت ہوتی ہے کہ اس کو خرید سکیں، ایسے لوگوں کا موسم ِ سرما کس طرح گزرتا ہے اس کو وہ خود ہی جانتے ہیں، نرم وگرم بستر اور لحاف پوشوں کو اُن کی تکلیفوں او رپریشانیوں کا کیا احساس ہوسکتا ہے؟ اہل ثروت وصاحب ِ خیر کو چاہیے کہ ناداروں اور سردی سے متاثر وطبقات کے لیے گرم ملبوسات کا انتظام کرکے اپنی اُخروی نجات کا سامان کریں۔
علامہ ابن جوزی رحمہ الله نے اپنی کتاب ”صفة الصفوة“ میں مشہور تابعی حضرت صفوان بن سلیم رحمہ الله کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ سردی کے موسم میں ایک رات مسجد سے باہرنکلے، دیکھا کہ ایک شخص سردی سے کانپ رہا ہے او راس کے پاس سردی سے بچاؤ کے لیے کپڑے نہیں ہیں، چناں چہ انہوں نے اپنی قمیص اُتار کر اُس شخص کو پہنادی، اسی رات بلادِ شام میں کسی شخص نے خواب دیکھا کہ حضرت صفوان بن سلیم صرف اُس قمیص کے صدقہ کرنے کی وجہ سے جنت میں داخل ہوئے، وہ شخص اسی وقت مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوا اور وہاں جاکر حضرت صفوان بن سلیم کا پتہ پوچھا اوراپنا خواب بیان کیا۔ (صفة الصفوة:1/385)
سردی کا موسم عبادت گزاروں کا ہے
چوں کہ سردی میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں تو شب کے اوقات نیکی کے کاموں کے لیے فارغ کریں، عبادت اور آخرت کی تیاری کے لیے موسم سرما کے ان قیمتی مواقع کو ضائع کرنے سے احتراز کریں۔
حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں:”سردی کا موسم عبادت کرنے والوں کے لیے غنیمت (لوٹنے کا موسم) ہے۔“(حلیة الأولیا:1/51)
حضرت معاذ بن جبل نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں:”سردیوں میں بنی آدم کے دل نَرم ہوتے ہیں، اِس لیے کہ الله تعالیٰ نے حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور مٹی سردیوں میں نَرم ہو جاتی ہے۔“ (حلیة الأولیا:5/216)،
حرف آخر یہ کہ موسموں او رزمانوں کی تبدیلی کا مشاہدہ انسان روز مرہ کرتا ہے، سامان ِ عبرت یہ ہے کہ اپنی ذات میں بدلاؤ کی فکر کرے۔ الله تعالیٰ حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)