موسم ِ سرماکی آمد ہوچکی ہے،ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں گرم کپڑوں میں لپٹے رہنے پر مجبورکردیتی ہیں،ہواؤں کے خنک جھونکوں سے طبیعت مچل جاتی ہے ،حرارت کی طلب بڑھ جاتی ہے ،ٹھنڈک کو دورکرنے کے لیے مختلف قسم کے لباس اور بہت ساری چیزیں استعمال کرنے میں لگ جاتے ہیں، موسم گرما کا ہو یا برسات کا، ہرموسم کا لطف ومزہ الگ ہوتاہے۔ کائنات کا خالق ومالک اللہ تعالی ہے ،وہ بہت خوب جانتا ہے کہ انسانوں کو گرم ہواؤں کی بھی ضرورت ہے اور بارش سے جل تھل ہونے کی بھی،اسی طرح موسم ِ سرما کے ذریعہ کائنات میں تبدیلی کا واقع ہونا بھی بہت اہم ہے۔چاند، سورج ،ستارے ،جھاڑ، پہاڑ، ہوا، پانی سب اس کے حکم کے ماتحت ہیں، جب اس کا اشارہ ہوتا ہے کائنات کے نظام میں تبدیلی شروع ہوجاتی ہے، جب کہ سورج وہی ہے جسے روز طلوع و غروب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، لیکن وہ چاہتا ہے تو اسی سورج کی شعاعوں سے زمین کو گرم کردیتاہے، انسانوں کو دھوپ کی شدت سے دوچار کر دیتا ہے اور جب چاہے تو پھر اسی آسمان زمین کے درمیان ماحول اور موسم کو نہایت سرد اور ٹھنڈا کردیتا ہے، خداکی قدرت، اس کی عظیم بادشاہت کے یہ انوکھے مناظر اور نظام ِ کائنات کی حیرت انگیز تبدیلیاں انسانوں کو بے شمار عبرت و نصیحت کا پیغام دیتی ہیں اور اپنے عظیم خالق ومالک کا پتہ بتاتی ہیں کہ اس کائنات کا چلانے والارب کتنا عظیم ہے!!!
موسموں کی تبدیلی اور حرارت وبرودت کی کیفیات انسانوں کے لیے نصیحت کا پیغام ہیں۔ عموما اس جانب توجہ نہیں دی جاتی کہ اللہ تعالی نے کائنات کے نظام کے ذریعہ انسانوں کو کیا سکھایا اور کیا سمجھایا ہے، عقل مند ودانا وہ ہیں جو کائنات میں پیش آنے والی ہرتبدیلی سے سبق لیں اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والا بنیں۔ دنیا میں سردی یا گرمی کی شدت اور سختی جو پیش آتی ہے اس کا سبب نبی کریم صلی الله علیہ وسلمنے جہنم کے سانس لینے اور اس کے جوش کو قرار دیا ۔چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جب سخت گرمی ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو ۔کیوں کہ گرمی کی سختی دوزخ کی تیزی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔(پھر فرمایا کہ)دوزخ نے اپنے رب کی بارگاہ میں شکایت کی کہ (میری تیزی بہت بڑھ گئی ہے، حتی کہ ) میرے کچھ حصے دوسرے حصوں کو کھائے جارہے ہیں ،(لہٰذا مجھے اجازت دی جائے کہ کسی طرح اپنی گرمی ہلکی کروں ) اللہ تعالی نے اس کو دومرتبہ سانس لینے کی جازت دی، ایک سانس سردی کے موسم میں اور ایک گرمی کے موسم میں۔ لہٰذا تم جو گرمی محسوس کرتے ہو وہ دوزخ کی لو کا اثر ہے۔ (بخاری:حدیث نمبر506)
حضرت مولانا محمد منظور نعمانی حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: دنیا میں ہم جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اس کے کچھ ظاہری اسباب ہوتے ہیں جنھیں ہم خود بھی جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور کچھ باطنی اسباب ہوتے ہیں جو ہمارے احساس وادراک کی دست رس سے باہر ہوتے ہیں، انبیائے کرام علیہم السلام کبھی کبھی ان کی طرف اشارے فرماتے ہیں، اس حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ:گرمی کی شدت آتش دوزخ کے جوش سے ہے، یہ اسی قبیل کی چیز ہے، گرمی کی شدت کا ظاہری سبب تو آفتاب ہے اور اس کو ہر شخص جانتا ہے اور کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا، لیکن عالم باطن اور عالم غیب میں اس کا تعلق جہنم کی آگ سے بھی ہے اور یہ ان حقائق میں سے ہے جو انبیائے کرام علیہم السلام ہی کے ذریعہ معلوم ہوسکتے ہیں۔(معارف الحدیث:3/128)
جس طرح دنیا میں بہت زیادہ دھوپ اور گرمی انسانوں کے لیے مصیبت بن جاتی ہے، اسی طرح موسم سرما کا اعتدال سے نکل جانا بھی سخت اذیت کا باعث ہوتا ہے،گرمی اور سردی یہ دو مظاہر ہیں کہ ان کے ذریعہ بھی اللہ تعالی انسانوں کو عذاب دیتا ہے، عموما گرمیوں میں تو اس کا احساس ہوتا ہے ، لو کی تپش اور دھوپ کی سختی سے لوگوں کو جہنم کی ہول ناکی یاد آجاتی ہے، لیکن سردیوں کی بہت زیادہ شدت ذہن ودماغ کو اس طرف نہیں لے جاتی۔ جب کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے جنتیوں کو جنت میں ملنے والے سکون وراحت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:﴿مُّتَّکِئِینَ فِیہَا عَلَی الْأَرَائِکِ لَا یَرَوْنَ فِیہَا شَمْسًا وَلَا زَمْہَرِیرًا ﴾․(الدھر:13) وہ ان باغوں میں آرام دہ اونچی نشستوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے، جہاں نہ وہ دھوپ کی تپش دیکھیں گے اور نہ کڑاکے کی سردی۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ جنت میں جنتیوں کو سردی اور گرمی کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا اوروہاں کا موسم نہایت خوش گوار اور معتدل ہوگا۔
زمہریر سے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ بے شک جہنم کا ایک عذاب ایسا ہوگاجس میں ٹھنڈک ہوگی اور وہ زمہریرہے جس میں (سردی کی شدت کی وجہ سے ) ہڈیوں سے گوشت گرجائے گا، یہاں تک کہ لوگ جہنم کی گرمی کی فریاد کریں گے۔حضرت مجاہد سے منقول ہیں کہ: زمہریر وہ(شدید ٹھنڈک کا) عذاب ہے جس کی ٹھنڈک کو چکھنے کی بھی لوگوں میں طاقت نہ ہوگی۔(صفة النار:100،باب ألوان العذاب؛ دارابن حزم، بیروت) غرض یہ کہ جس طرح ہول ناک آگ جہنم کا ایک عذاب ہے، اسی طرح خطرناک سردی بھی عذاب ہی کی ایک قسم ہے، جہنمیوں کو مختلف قسم کے عذابات دیے جائیں گے۔ دنیا کی شدید سردی انسان کو جہنم کی سردی کی یاد دلانی چاہیے اور اس کے نتیجہ میں جس طرح وہ ظاہر بدن کو سردی کی شدت سے بچانے کے لیے اسباب جمع کرتا ہے اور کوشش وفکر میں لگا رہتاہے، اسی طرح اس کو چاہیے کہ آخرت کے سخت ٹھنڈے عذاب سے بھی بچ جائے اور اس کے لیے وہ اعمال کرنے کی فکر کریں جن سے اُس عذاب سے بچاجاسکتا ہے۔
سردیوں کا موسم جہاں انسانوں کی ضرورت ہے وہیں اس کے اللہ تعالی نے فائدے بھی رکھے ہیں ،سردیوں میں دن چھوٹا ہوتا ہے اورراتیں لمبی ہوتی ہیں، جہاں بہت سے کام کرنے میں رات کا بڑا حصہ مددگار ہوتا ہے وہیں اللہ تعالی کی عبادت، قرآن کریم کی تلاوت، دعا ومناجات کے لیے کافی وقت انسان کو میسر آجاتا ہے، قدر کرنے والے اس کی بہت قدر کرتے ہیں اور سردیوں کی راتوں میں خوب عبادتوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلمسے منقول ہے :”الشتاء ربیع المؤمن، قصرنھارہ فصام، وطال لیلہ فقام“․(شعب الایمان للبیہقی: 6393) سردی کا موسم مومن کے لیے بہار کا موسم ہے، چناں چہ اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں تو وہ روزہ رکھتا ہے اور راتیں طویل ہوتی ہیں تو وہ قیام کرتا ہے۔حضرت عمر فرماتے ہیں :”الشتاء غنیمة العابدین․“سردی کا موسم عبادت کرنے والوں کے لیے غنیمت (لوٹنے کا موسم )ہے۔(سردی کاموسم،ص:20)
سردیوں میں عبادت یا اعمال انجام دینے کے لیے وضو کرنا پڑتا ہے، موسم کی ٹھنڈک کی وجہ سے پانی بھی نہایت سرد ہوجاتا ہے، ایسے میں جب بندہ مومن وضو کرتا ہے تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس کے لیے دوہرے اجرکی بشارت دی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشادہے:جس نے سخت سردی میں کامل وضو(یعنی سنت کے مطابق)کیا ،اس کے لیے اجر کے دو حصے ہوتے ہیں۔ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:
تین چیزیں خطاؤں اور گناہوں کو مٹادیتی ہیں اور درجات بلند کرتی ہیں۔سخت سردی کی ناگواری میں کامل وضو کرنا۔مسجد میں دور سے چل کر آنا۔ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔(مسلم:253)
سردی کے موسم میں رات کے وقت ہر کوئی چاہے گا کہ گرم لحاف میں لپٹا ہوا ہو، بہترین گرم سوئیٹر اس کے پاس موجود ہو، جب کسی کام اورضرورت سے باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو تمام تر حفاظتی واحتیاطی تدابیر کے ساتھ باہر نکلے، لیکن اس دنیا میں ایسے کتنے لوگ ہیں کہ جن کے پاس سرچھپانے کو چھت نہیں، آرام کرنے کو نرم وگرم بستر نہیں ، سردی کی سخت راتوں میں ضرورت مند ومجبور سڑکوں کے کنارے،فٹ پاتھ پر،بس اسٹینڈ پر اکڑے ہوئے سورہے ہوں گے، جن کے پاس نہ گرم کپڑے ہیں اور نہ ہی گرم بستر ،ایسے میں جن کو اللہ تعالی نے دیا ہے ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سردی کی سخت راتوں میں ان ضرورت مندوں کا بھی خیال رکھیں ،ان کی سردی کو بھی دور کرنے کی کچھ کوشش کریں، اگر کچھ نیا نہیں دے سکتے تو کم ازکم پرانا غیر استعمال ہی صحیح، ان کو پہنا دیں تاکہ وہ بھی سردی کی سختیوں سے بچ سکیں۔ سردی کا موسم انسانی ہم دردی کے جذبہ کو بھی پروان چڑھاتا ہے۔نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”تم زمین والوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرو ،آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔“(ابوداود:2924)آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:جو” مسلمان کسی مسلمان کو عریانی کی حالت میں کپڑے پہنائے اللہ تعالی اس کو جنت میں سبز جوڑے عطا کرے گا ،جو مسلمان کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں پھل اور میوے کھلائے گا،اور جوکوئی کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے اللہ تعالی اس کو نہایت نفیس شراب ِ طہور پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔“(ترمذی:6832)
لکھا ہے کہ ترکی اور بلغاریا میں آج بھی سردیاں آتے ہی خلافت ِ عثمانیہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے اہل خیر گرم کپڑے درختوں پر لٹکادیتے ہیں، جن پر ایک پرچی لکھی ہوتی ہے کہ جو مستحق ہے وہ پہن لے۔
علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب صفة الصفوة میں مشہو ر تابعی حضرت صفوان بن سُلیم کاایک واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ سردی کے موسم میں ایک رات مسجد سے باہر نکلے ،دیکھا کہ ایک شخص سردی سے کانپ رہا ہے اور اس کے پاس اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لیے کپڑے تک نہیں ہیں،چناں چہ انہوں نے اپنی قمیص اتارکر اس شخص کو پہنادی ،اسی رات بلاد شام میں کسی نے خواب دیکھا کہ حضرت صفوان بن سلیم صرف اسی قمیص کے صدقہ کرنے کی وجہ سے جنت میں داخل ہوئے ۔وہ شخص اسی وقت مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوا اور مدینہ منورہ آکر حضرت صفوان بن سلیم کا پتہ پوچھا اور اپنا خواب بیان کیا۔(صفة الصفوة:1/583 بحوالہ سردی کا موسم :81 ازمحمد سلمان غفرلہ)جس طرح ٹھنڈے موسم میں گرم چیزیں ہمیں پسند ہوتی ہیں اسی طرح ضرور ت مندوں کے لیے اس کا اہتمام کرنے کی فکر اور کوشش کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے اور موسم سرما کا ایک سبق ہے۔
موسم سرما میں چوں کہ دن کا وقت مختصر ہوجاتا ہے اوررات کا وقت کافی طویل ،اس لیے اوقات کی قدر دانی کرنا چاہیے ،لمبی لمبی راتوں کو فضول گپ شپ ،لایعنی مشغلوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے ،اللہ تعالیٰ نے زندگی عطا کی ہے تو اسے کارآمد بنانے کی فکر ہونی چاہیے، رات کے اوقات میں بہت سارے کام لکھنے،پڑھنے اور اعمال وعبادت انجام دینے کے ہوسکتے ہیں تو اس کا کچھ نظام بناکر استعمال کرنا چاہیے، تا کہ اتنی قیمتی راتیں بے کار نہ جائیں۔کیا پتہ کہ زندگی میں آئندہ یہ ماہ وسال نصیب ہوں گے یا نہیں؟ حضرت حسن بصری ایک مرتبہ ایک جنازے میں شریک ہوئے ،تو آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ،اس شخص پر جو آج جیسے دن (موت کے دن )کے لیے تیاری کرے۔آج توتم لوگ وہ سب کچھ کرسکتے ہوجو تمہارے یہ بھائی نہیں کرسکتے،جوقبروں میں پہنچ چکے ہیں۔اپنی صحت اور فرصت کو غنیمت سمجھواور نیک عمل کرلو،اس سے پہلے کہ گھبراہٹ اور حساب کتاب کا دن آپہنچے۔
دین اوردنیا کی کام یابی اور بلند مقاصد کے حصول کے لیے وقت کا صحیح استعمال لازم ہے، سردیوں میں اگر دن کے اوقات میں زیادہ کام نہیں ہوپائے تو رات کا حصہ استعمال میں آسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کرنی چاہیے، تاکہ کوئی موسم اور کوئی دن ورات ،ماہ وسال ہمارے لیے نہ دنیوی مشقت کا ذریعہ ہواور نہ ہی آخرت کے عذاب کا سبب ۔اللہ تعالیٰ تکلیفوں کو دور کرے اور راحتوں سے ہم کنار کرے اور امتحان وآزمائش سے محفوظ رکھیں۔آمین۔