منافقین آزمائش میں ناکام رہتے ہیں

منافقین آزمائش میں ناکام رہتے ہیں

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

مسئلہ”تحکیم“یعنی شریعت مطہرہ کے متعلق یہ اعتقاد رکھنا کہ اسے ”حَکَم“کا درجہ حاصل ہے، پھر اسے اپنے نزاعی امور میں ”حکم“بنانا لازم ایمان کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ لزوم آیت کریمہ:﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً﴾․ (النساء:65)کے سیاق وسباق سے اور خود آیت کریمہ کے اسلوب و تعبیر سے ثابت ہوتا ہے۔ جس میں قسمکھا کر تاکید کے مختلف طریقوں سے ایسے شخص سے اصل ایمان کی نفی کی گئی ہے، جو شریعت مطہرہ کو اپنا فیصل وحکم اور اس کے فیصلے کو صدق دل سے قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ علیہ نے اس آیت میں مذکور تاکیدی اسلوب اور اس کے نتائج پر جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے وہ ہم نے آیت کی تفسیر میں نقل کردیا ہے، اصحاب ذوق ایک بار پھر اسے دیکھ لیں۔ علامہ رازی رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

الشرط الثالث:قولہ تعالیٰ:﴿ویُسلّمِوا تسلیمًا﴾ وَاعلم أن من عرف بقلبہ کون ذلک الحکم حقا وصدقا قد یتمردّ عن قبولہ علی سبیل العناء، أو یتوقف في ذلک القبول، فبین تعالی أنہ کما لابدّ في الإیمان من حصول ذلک الیقین في القلب،فلا بدّ أیضًا من التسلیم معہ في الظاھر، فقولہ:”ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت“ المراد بہ الإنقیاد في الباطن، وقولہ: ﴿ویسلموا تسلیمًا﴾ الانقیاد في الظاھر․واللّٰہ اعلم․
﴿ وَلَوْ أَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ أَنِ اقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ أَوِ اخْرُجُواْ مِن دِیَارِکُم مَّا فَعَلُوہُ إِلاَّ قَلِیْلٌ مِّنْہُمْ وَلَوْ أَنَّہُمْ فَعَلُواْ مَا یُوعَظُونَ بِہِ لَکَانَ خَیْْراً لَّہُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِیْتاً،وَإِذاً لَّآتَیْْنَاہُم مِّن لَّدُنَّا أَجْراً عَظِیْماً، وَلَہَدَیْْنَاہُمْ صِرَاطاً مُّسْتَقِیْماً، وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیْقاً،ذَلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّہِ وَکَفَی بِاللّہِ عَلِیْماً﴾․ (النساء، آیت:66 تا70)

اور اگر ہم ان پر حکم کرتے کہ ہلاک کرو اپنی جان یا چھوڑ نکلو اپنے گھر تو ایسا نہ کرتے مگر تھوڑے ان میں سے۔ اور اگر یہ لوگ کریں وہ جو ان کو نصیحت کی جاتی ہے، تو البتہ ان کے حق میں بہتر ہو اور زیادہ ثابت رکھنے والا دین میں، اور اس وقت البتہ دیں ہم ان کو اپنے پاس سے بڑا ثواب اور چلادیں ان کو سیدھی راہ، اور جو کوئی حکم مانے اللہ کا اور اس کے رسول کا سو وہ ان کے ساتھ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا کہ وہ نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بخت ہیں اور اچھی ہے ان کی رفاقت، یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ کافی ہے جاننے والا۔

منافقین آزمائش میں ناکام رہتے ہیں
﴿ولو أنا کتبنا علیھم…﴾ بنی اسرائیل میں ستر ہزار افراد نے بچھڑے کی عبادت کر کے شرک کا ارتکاب کیا تھا، جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور توبہ پر آمادہ ہوئے تو اللہ نے ان کی توبہ کو”قتل نفس“سے مشروط ٹھہرایا، چناں چہ ستر حکم الہٰی کی تعمیل میں اپنی جان خالق جان پر قربان کر گئے۔

اس آیت کریمہ میں روئے سخن عہد نبوی کے لوگوں کی طرف ہے۔ اگر ان لوگوں کو”قتل نفس“یعنی خود ہی کو مارنے کا حکم دیا جائے یا اپنے گھر چھوڑ کر ہجرت کا حکم دیا جائے تو ان میں سے تھوڑتے سے لوگ ہی اس حکم پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہوں۔

﴿ولو أنا کتبنا علیھم…﴾ میں ضمیر کا مرجع مطلق ”الناس“ لوگ ہیں، جس میں کافر ومنافق اور اہل ایمان سب شامل ہیں، پھر ”إلا قلیل منھم“سے صحابہ کرام اور اہل ایمان کو مستثنیٰ قرار دیا گیا، صحابہ کرام اور اہل ایمان کافر ومنافق کے مقابلے میں تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔

”علیھم“میں ضمیر کا اطلاق صرف صحابہ کرام پر اس لیے نہیں ہوسکتا کہ دعوی بلا دلیل ہے، کیوں کہ اگر ”اقتلوا انفسکم“سے خود کشی مراد ہے تو اس کا حکم ہی نہیں ہوا تھا ،وگر نہ صحابہ کرام جانثاری کے ذریعے اپنے جذبہٴ اطاعت کا اظہار فرما دیتے، لیکن ان کی زبان اطاعت کا اظہار ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی توثیق فرمائی چناں چہ طبری نے بیان فرمایا:

قال أناس من اصحاب النبی ا:لو فعل ربنا لفعلنا․ فبلغ النبیا فقال:لَلإیمان أثبت فی قلوب أھلہ من الجبال الرواسی.( جامع البیان، النساء ذیل آیت:66)

صحابہ کرام میں سے چند لوگوں نے کہا:اگر ہمارا پرور دگار ہمیں یہ حکم دیتا تو ہم ضرور اس پر عمل کرتے۔ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی آپ علیہ السلام نے فرمایا:ایمان والوں کے دل میں ایمان مضبوط پہاڑوں سے بھی زیاد راسخ ہے” ایمان والے تو صحابہ کرام تھے۔ منافقوں میں تو سرے سے ایمان ہی نہیں تھا۔

اوراگر ”اقتلوا انفسکم“سیجہاد مراد ہو اور ”اخرجوا من دیارکم“ سے ہجرت مراد ہو تب بھی ضمیر کا مرجع صرف صحابہ کو قرار دینا خلاف حقیقت ہے، کیوں کہ صحابہ کرام پاکباز گروہ تھا، جس نے ہجرت بھی کی اور میدان جہاد میں اپنے خون سے ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ زمانہ ان کی مثال لانے سے قاصر ہے۔ ان قربانیوں میں منافقین تو اقل قلیل میں بھی نہیں تھے۔

اور صرف منافق وکفار کو بھی علیھم کی ضمیر کا مرجع اس لیے قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ خلاف دلیل ہے، کیوں کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو قتل نفس یا جہاد میں جان دینے پر آمادہ رہتا ہو۔ معلوم ہوا کہ ضمیر کا مرجع مطلق ”الناس“ ہے ، صحابہ میں کرام اور کامل مومنوں کو اس سے مسثنی قرار دیا گیا ہے۔

ایک شبہ کا جواب
ممکن ہے کسی کو شبہ ہوکہ اس طرح تو بنی اسرائیل کو امت محمدیہ پر فضلیت حاصل ہوگئی۔ وہ آزمائش پر پورا اترے اور اپنی جان اللہ کے سپرد کردی ، جبکہ امت محمدیہ پر یہ آزمائش اتری تو ان میں تھوڑے لوگ ہی اس میں کامیاب ہوپائے۔

اس کا جواب یہ ہےبنی اسرائیل کا تقابل امت محمدیہ کے صحابہ کرام اور مخلص مومنین سے نہیں، بلکہ کفار ومنافقین سے ہے، اس لیے بنی اسرائیل کی فضلیت اس امت کے کافروں اور منافقوں پر ہوگی۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنے نبی کے ہوتے ہوئے شرک کا ارتکاب کیا، اس کی تلافی اور توبہ قتل نفس سے مشروط ٹھہری، جبکہ صحابہ کرام اور مخلص مومنین شرک کے سائے کے بھی قریب نہیں گئے کہ انہیں قبول توبہ کے لیے ”قتل نفس“کا حکم دینے کی نوبت آتی۔ اور اگر قتل نفس سے جہاد فی سبیل اللہ میں جان خطرے میں ڈالنا مراد ہے تو اسرائیلی ہی تھے جنہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کی دعوت جہاد پر جواب دیا تھا فاذھب انت وربک فقاتلا إنا ھھنا قاعدون تو اور تیرا پروردگار میدان قتال میں جاکر لڑیں ہم تویہیں بیٹھے ہیں۔ جب کہ صحابہ کرام نے افرادی اور مادی وسائل کی کم یابی کے باوجود ہر موقع پر رسول اللہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جانثاری اور سر فروشی کی ایسی مثالیں رقم کی ہیں کہ دنیا ا بھی تک انگشت بدنداں ہے کہ یہ گوشت و پوست کے انسان تھے یا آسمان سے نازل ہونے والی کوئی دوسری مخلوق تھی۔

بنی اسرائیل میں ستر ہزار قتل ہوئے۔ البتہ امت محمدیہ میں کروڑوں انسان چودہ صدیوں سے اپنی جانیں راہ حق میں نچھاور کرکے زبان حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں :جان دی دی ہوئی اسی کی تھی ،حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

قادیانیوں کا اجرائے نبوت پر استدلال کا جواب
﴿وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیْقاً﴾اس آیت کریمہ میں واضح طور بتلایا جارہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا آخرت میں انبیاء، صدیقین، شہدا، اورصالحین کی رفاقت میں ہوگا، ان کا ساتھی ہوگا، لیکن قادنیوں نے اس سے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ یہاں لفظ ”مع“ مِنْ کے معنی میں ہے۔ یعنی وہ خود نبی، صدیق، شہید اور صالح بن جائے گا۔

ذیل میں قادیانی کتب سے ان کا استدلال بیان کر کے اس کھوکھلے پن کو واضح کیا جائے گا۔

قادیانی استدلال
احمدیہ پاکٹ بک میں اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے مولف لکھتے ہیں۔
اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے امت محمدیہ میں طریق حصول نعمت اور تحصیل نعمت کو بیان کیا ہے۔ آیت میں بتایا گیا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ایک انسان صالحیت کے مقام سے ترقی کرکے نبوت کے مقام تک پہنچتا ہے … اگر کہا جائے کہ من یطع اللّٰہ والی آیت میں لفظ ”مع“ہے ”مِن“نہیں ،جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے وہ نبیوں کے ساتھ ہوں گے خود نبی نہ ہوں گے تو اس کا جواب یہ ہے۔

اگر تمہارے معنی تسلیم کرلیے جائیں تو ساری آیت کا ترجمہ یہ بنے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے نبیوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود نبی نہ ہوں گے، وہ صدیقوں کے ساتھ ہوں گے، مگر خود صدیق نہ ہوں گے، وہ شہیدوں کے ساتھ ہوں گے، مگر خود شہید نہ ہوں گے، وہ صالحین کے ساتھ ہوں گے مگر خود صالح نہ ہوں گے تو گویا نہ حضرت ابوبکر صدیق ہوئے نہ عمر وعثمان ، علی وحضرت حسین شہید ہوئے اور نہ امت محمدیہ میں کوئی نیک آدمی ہوا۔ تو پھر یہ امت خیر امت نہیں بلکہ شر امت ہوئی، لہٰذا اس آیت میں مع بمعنی ساتھ نہیں ہوسکتا بلکہ مع بمعنی من ہے۔(احمدیہ پاکٹ بک، ملک عبد الرحمن خادم، ص:327)۔

قادیانی استدلال کے جوابات
چودہ سوسالہ مفسرین کرام میں سے کسی نے اس آیت سے اجرائے نبوت کا استدلال نہیں کیا۔ اگر اجرائے نبوت ایک فرعی مسئلہ ہوتا، اور کسی زمانے کے مفسر ومجتہد اس آیت سے اس کا استنباط کرتے تو ایسا استنباط واجتہاد اپنے درجے میں امت کے لیے قابل قبول ہوتا۔ مگر”نبوت کا جاری رہنا“عقیدے کا بنیادی مسئلہ ہے، جس کے رد وقبول پر نجات کا انحصار ہے، اس قدر اہم اور بنیادی عقیدے کا ظہور اس آیت کریمہ سے ہورہا ہوتا تو ضرور اس کی وضاحت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کرتے، صحابہ کرام کرتے، چودہ سوسالہ مفسرین کرام کرتے، مگر کسی نے اس جانب اشارہ تک نہیں کیا۔ یہ عقیدہ کھلا تو صرف قادیانیوں پر کھلا۔ ایسی تفسیر بالرائے حرام کے قبیل سے ہے۔

اولاً:اس لیے کہ اس کی تائید نہ آیت کریمہ کے الفاظ سے ہوتی ہے نہ مفہوم سے (جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آتی ہے) ۔

ثانیا:اس لیے کہ یہ تفسیر نصوص صریحہ صحیحہ جوہر قسم کی نبوت کے بند ہونے کا اعلان کرتی ہیں، ان سے معارض ہے۔

احمدیوں کے پاس ایک بھی صریح، صحیح نص اجرائے نبوت کی نہیں ہے، ان کے قلم کی ساری جولانیاں ختم نبوت کی آیات واحادیث کی تاویل باطلہ میں اور من مانی موہومہ تشریحات سے اجرائے نبوت کے اثبات میں لگی رہتی ہیں۔ ان کا علمی مواد انہیں دو طرح کے اقسام میں منحصر ہے۔

اس آیت کریمہ کو سمجھنے کے لیے پہلے اس کا سبب نزول معلوم کیا جائے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا یا رسول الله!میں آپ سے اپنے آپ سے زیادہ، اپنے اہل وعیال سے زیادہ، اپنی اولاد سے زیادہ محبت کرتا ہوں، میں گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو یاد کرتا ہوں تو پھر چین نہیں آتا، یہاں تک کہ آپ کی خدمت میں آکر آپ کی زیارت کرلیتا ہوں، لیکن جب میں اپنی موت اور آپ کے وصال کا سوچتا ہوں (تو پریشان ہوجاتا ہوں) مجھے معلوم ہے جب آپ جنت میں داخل ہوں گے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ (جنت کے اعلی مراتب پر) فائز کردیے جائیں گے۔ اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا خدشہ ہے آپ کی زیارت نہ کرسکوں! آپ علیہ السلام نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (المعجم الصغیر:52، المعجم الاوسط:480)۔

اس طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت مروی ہے، ایک صحابی نے خدمت نبوی میں آکر اپنی تمناکا اظہار کیا…”وأحب أن أکون معک في الدرجة“آپ علیہ السلام نے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک یہ آیت نازل ہوئی۔(جامع البیان، النساء ذیل آیت:70)

اس طرح کے دیگر آثار (جو کتب تفاسیر میں مذکور ہیں )سے معلوم ہوا کہ یہاں﴿مع الذین﴾سے انبیاء علیہم السلام اور صدیقین، شہدا، صالحین کی اخروی رفاقت مراد ہے۔ دنیاوی منصب نبوت میں شرکت مراد نہیں ہے، آیت کریمہ کا آخری ٹکڑا ﴿وَحَسُنَ أولئک رفِیقًا ﴾(اور اچھی ہے ان کی رفاقت) اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔

ممکن ہے کسی کو شبہ ہو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء، صلحا جنت میں اپنے مقام ومرتبہ کے اعتبار سے اپنے ٹھکانے میں ہوں گے، اگر مومنین صالحین کو ان کی رفاقت میسر ہوگی تو مطلب یہ ہوا کہ تفاوت مراتب کا قصہ ختم ہوجائے گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ رفاقت سے مراد یہ نہیں ہے کہ سب ایک ہی درجہ اور منزل میں ہوں گے اور مفضول وفاضل کے درمیان فرق مراتب ختم ہوجائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے:ایک دوسرے کی زیارت ولقا بلا کسی رکاوٹ کے کر سکیں گے۔ مراتب میں تفاوت کا ہونا رفاقت وزیارت کے لیے آڑ نہیں بن سکے گا ، جس طرح دنیا میں کسی کی رفاقت کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلقات اس قدر گہرے ہوتے ہیں کہ ان کی باہمی ملاقات پر دنیاوی تکلفات اور معاشرتی رسمیں غالب نہیں آسکتیں، یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دونوں ہمیشہ ایک ساتھ وقت گزاریں یا دونوں ہم پلہ ہوجائیں۔ یا دونوں کا مکان ایک ہوجائے۔

ولیس المراد بالمعیة الاتحاد فی الدرجة ولا مطلق الاشتراک فی دخول الجنة بل کونھم فیھا بحیث یتمکن کل واحد منھم من رؤیة الاخر وزیارتہ متی أراد وإن بعد بینھما من المسافة․﴿تفسیر أبی السعود، النساء ذیل آیت:70)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ شان نزول اور آیت کے آخری ٹکڑے سے واضح ہوا کہ : 1.. اس میں رفاقت مراد ہے۔
2.. اور اس رفاقت کا تعلق بھی آخرت سے ہے۔

یہاں قادیانی ایک مغالطہ یہ دیتے ہیں:
”اگر تمہارے معنی تسلیم کرلیے جائیں تو ساری آیت کا ترجمہ یہ بنے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے نبیوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود نبی نہ ہوں گے، وہ صدیقوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود صدیق نہ ہوں گے ،وہ شہیدوں کے ساتھ ہوں گے مگر خود خود شہید نہ ہوں گے، وہ صالحین کے ساتھ ہوں گے مگر خود صالح نہ ہوگے۔(احمدیہ پاکٹ بک، ص:327)

یہ مغالطہ قادیانیوں کو اس لیے لاحق ہوا ہے کہ انہوں نے رفاقت ومصاحبت کے لیے ہم پلہ ہونا فرض کر لیا ہے، حالاں کہ رفاقت کے لیے اس کے ہم پلہ ہونا ضروری نہیں،بلکہ ہم پلہ افراد کی باہمی رفاقت میں اعزاز کا کوئی پہلو نہیں پایا جاتا، اعزاز تو اسی میں پنہاں ہے کہ مومن مطیع نبی تو نہیں ہوگا مگر انبیاء کی رفاقت سے بہرہ مند ہوگا، صدیق وشہید اور صالح اپنے مرتبے کی بنسبت آخرت میں صداقت وشہادت اور صالحیت کے اعلی مقام رکھنے والے افاضل انبیاء کرام اور صحابہ کرام کی رفاقت ومصاحبت کا لطف اٹھائے گا۔

اس موقعہ پر قادیانی دوسرا مغالطہ یہ دیتے ہیں کہ:”تو گویا نہ ابوبکر صدیق ہوئے، نہ عمر وعثمان ، علی وحضرت حسین شہید ہوئے اور نہ امت محمدیہ میں کوئی نیک آدمی ہوا“۔(احمدیہ پاکٹ بک، ص:327)

یہاں بھی قادیانیوں نے اپنی بد فہمی سے یہ فرض کرلیا کہ ”صدیق“صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، شہید صرف عمر وعثمان وحضرت حسین رضی اللہ عنہم ہیں۔

خدا کے بندو!ابوبکر بھی ”صدیق“ہیں مگر انہیں ”صدیقین“کی جس جماعت کی رفاقت ملے ان میں وہ شامل نہیں ہوں گے۔ ”صدیقین“ کی وہ جماعت افاضل انبیاء علیہم السلام کی ہوگی۔ (تفیسر أبی السعود، النساء ذیل آیت:70) عمرو عثمان، علی وحضرت حسین رضی اللہ عنہم بھی شہید ہیں، مگر انہیں شہداکے جس گروہ کی رفاقت میسر ہوگی، ان میں یہ شامل نہیں ہوں گے، عاشقان پاک طینت کا یہ گروہ حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسے شہدا پر مشتمل ہوگا۔ اسی طرح اس امت میں صالحین بھی ہیں، مگر انہیں جن صالحین کی رفاقت میسر ہوگی امت کے یہ صالح افراد ان کے قدموں کی خاک تک نہیں پہنچ سکتے۔

صلحا کا یہ قدسی گروہ انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے پاکیزہ نفوس پر مشتمل ہوگا۔
امت کے سارے اولیا مل کر ان میں سے کسی ایک کے غبار راہ تک نہیں پہنچ سکتے، چہ جائے کہ کوئی احمق نبوت کے خواب دیکھنے لگے۔

قادیانی… آیت کریمہ:﴿ومن یطع اللّٰہ والرسول فأولئک مع الذین انعم اللّٰہ علیہم من النبین والصدیقین والشھداء والصلحین﴾میں لفظ ”مع“سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ لفظ ”مع“ مِنْ کے معنی میں ہے یعنی اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والا خود ان لوگوں میں سے ہوجائے گا جن پر اللہ تعالی نے انعام کیا ہے نہ کہ ان کے ساتھ ہوگا …یعنی نبی ہوجائے گا، شہید ہو جائے گا، صالح ہوجائے گا۔

قادیانیوں کا استدلال چند وجوہ سے باطل ہے۔
عربی لغات کے ماہرین اور فصاحت وبلاغت کے شاہ سواروں میں سے کسی نے لفظ ”مع“ کو”من‘ کے معنی میں ذکر نہیں کیا۔ امام لغت مرتضی الزبیدی تاج العروس میں ”مع“کے طرق استعمال پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں یہ کبھی”عند“کے معنی میں ہوتا ہے، لیکن اس معنی کے حصول کے لیے اس پر حرف جر ”مِن“داخل کیا جاتا ہے، جیسے :﴿جئت من مّعَ القوم ای من عندھم﴾(تاج العروس من جواہر القاموس. مادہ: مع:11/460، دارالفکر بیروت) اگر”مع“مِنْ کے معنی میں ہوتا تو اس پرمِنْ داخل کرنے کا تکلف نہ کرنا پڑتا۔ نیز”مع“کے تمام طرق استعمال میں ”مع“کا” مِنْ “کے معنی میں آنے کو بیان نہیں کیاگیا۔

چوتھی صدی ہجری کے معروف محقق ابو عبد اللہ الحسین بن محمدالدامغانی رحمہ اللہ نے الفاظ قرآن کے مختلف معنی پر ایک کتاب تصنیف فرمائی: الوجوہ والنظائر لألفاظ کتاب اللّٰہ العزیز،اس میں انہوں نے لفظ ”مع“کے قرآنی استعمال کے تناظر میں چھے معانی بیان فرمائے، ان میں ”مع“بمعنی ”من“کہیں مذکور نہیں ۔ البتہ ”مع“بمعنی مصاحبت ورفاقت مذکور ہے اور اس کی مثال میں اسی آیت کریمہ: ومن یطع اللّٰہ والرسول فأولئک مع الذین…کو پیش کیا ہے۔(الوجوہ والنظائر لکتاب اللّٰہ العزیز، تفسیر مع علی ستة أوجہ، ص428)

جب قادیانی لفظ ”مع“کو ”مِنْ“کے معنی میں ثابت نہیں کرسکتے تو قرآنی آیت”وتَوَفّنَا مَعَ الأبرار“سے مغالطہ دیتے ہیں کہ یہاں ”مع“ مصاحبت کے معنی میں لینا بداہةً غلط ہے، کیوں کہ اس صورت میں ترجمہ بنے گا ”ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دینا“حالاں کہ نیک لوگوں کی موت کے ساتھ موت کے آنے کامفہوم”کسی نے مراد نہیں لیا۔ بلکہ اس کا مطلب ہے”ہمیں نیک لوگوں میں سے بنا کر موت دینا“معلوم ہوا مع بمعنی مِنْ ہے۔

جواب جس مذہب میں”دمشق“سے ”قادیان“مراد لیا جاسکتا ہو اس کے لیے کسی عربی جملے کا من چاہا ترجمہ بناکر پھر اس سے قاعدے کا استنباط کرنا کون سا مشکل کام ہے۔

علامہ آلوسی رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کی تشریح میں فرماتے ہیں:
وتوفنا مع الابرار میں معیت زمانی مراد لینا محال ہے، کیوں کہ زمانہ ماضی اور زمانہ مستقبل کے ابرار کی معیت ناممکنات میں سے ہے۔ لامحالہ یہاں معیت سے ان کے جیسے اعمال صالحہ اختیار کرنے کی معیت مراد ہے۔ یعنی مخصوصین: بالانخراط فی سلکھم والعدّ من زمرتھم“ ہمیں موت دینا ابرار کے طور وطرق کو اختیار کرنے کے ساتھ خاص کرکے اور انہیں میں شمار کر کے۔ پھر آگے فرمایا:﴿وأن المراد لسنا بأبرار فاسلکنا معھم واجعلنا من اتباعھم﴾ مطلب یہ ہے کہ ہم ابرار نہیں ہیں، لیکن ہمیں ان کے نیک راستوں پر چلا اور ہمیں ان کے پیروکاروں میں شامل فرما۔(روح المعانی، أل عمران ذیل آیت:193)

1.. یعنی اعمال صالحہ کی معیت مراد ہے۔

2.. علامہ آلوسی نے لسنا بأبرار کہہ کر قادیانہ ترجمے کے دجل کو جڑ سے اکھیڑ دیا ہے۔

3.. کسی مفسر نے اس کی تفسیر میں مع کا ترجمہ من سے نہیں کیا، بلکہ مصاحبت کی مختلف صورتیں بیان فرماکر ان پر آیت کا انطباق کیا ہے۔ دیکھئے ، تفسیر رازی وغیرہ۔ (جاری)