معاشرے میں اخلاقی قدروں کی پامالی

معاشرے میں اخلاقی قدروں کی پامالی
ایک ناسور جو اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے

محترم محمد احمد حافظ

الله تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے ہمیں ایمان واسلام کی نعمت سے نوازا۔ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا او رمسلم معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بنایا۔

دین اسلام الله رب العالمین کا نازل کردہ دین ہے، جسے اس نے ہمارے لیے پسند فرمایا، تاکہ اس کے بندے شاہ راہ مستقیم پر چلیں اوردین ودنیا کی فوز وفلاح سمیٹیں۔ دین اسلام کی بہت سی نمایاں خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کا نظام شرم وحیا ہے۔ کہنے کو یہ دو لفظ ہیں، مگر اپنی معنویت میں ایک جہان رکھتے ہیں۔ یہ دو ایسی صفتیں ہیں جو ہمارالب ولہجے، حرکات وسکنات، عادات واطوار اور اخلاق وکردار میں راست طور پر مطلوب ہیں۔ یہ انسانی معاشروں کے لیے ایک غیر مرئی حصار ہیں، جب تک افراد اس حصار میں رہتے ہیں عزت وسربلندی ان کا مقدر بنتی ہے۔ جواں جوں اس حصار سے قدم باہر نکالنے لگتے ہیں ذلت ورسوائی پیچھا کرنے لگتی ہے۔

حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اذا فاتک الحیاء فاصنع ماشئت…“ کہ ”جب تمہارے وجود سے حیا رخصت ہو جائے تو پھر جو چاہو کرو۔“ معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے بچنے اور رُکنے کا ایک بڑا سبب شرم وحیا ہے، اگر انسان اسے ترک کر دے تو اس سے کچھ بھی سرزد ہونا ممکن ہے۔

افسوس یہ ہے کہ آج کے دو رمیں انسان کے شرف وعظمت کایہی حوالہ داؤ پر لگ چکا ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع نے اس مضبوط حصار میں نقب لگائی ہے۔ بے حیائی وبے شرمی کے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ ہمارے اخبارات وجرائد میں زیر بحث آنے والے موضوعات، ٹی وی ڈراموں، ٹاک شوز اور عصری تعلیمی اداروں میں ہونے والے حیا باختہ پروگراموں نے حیاوشرم کا جنازہ نکال دیا ہے۔ کل تک جن موضوعات پر سوچتے ہوئے بھی آدمی کی لویں سرخ ہو جاتی تھیں آج وہ موضوعات بحث ومباحثہ کا عنوان بن گئے ہیں، ان پر کھلے عام گفت گو کی جاتی ہے۔ آڈیولیکس اور ویڈیو لیکس نے اخلاقی دیوالیہ پن کو آشکارا کیا ہے۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ ہمارے معاشرے پر ایٹم بم بن کے پھٹا ہے۔ اس قانون کی سنگینی اپنی جگہ تو ہے ہی، اس نے عمومی سطح پر ہمار ی گفت گو کے جو موضوعات ترتیب دیے ہیں ان کی بیہودگی اور عفونت سے پورا معاشرہ بدبودار ہو رہا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے قرآن مجید نے واضح طور پر کہا ہے کہ: ﴿إِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾․ (النور:9)
ترجمہ:”جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب کے مستحق ہیں، الله تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“

یہ آیت جس سیاق وسباق میں نازل ہوئی؛ اسے پڑھ لیا جائے تو یہ حقیقت معلوم ہوگی کہ اسلام اس بارے کس قدر غیور واقع ہوا ہے کہ اس کے ہاں کسی نازیبابات کوپھیلانا اور اسے موضوع گفت گو بنانا کس قدر بھیانک جرم ہے اور اس کی کتنی بڑی سزا ہے ؟ ! اس کے مقابلے میں ہمارے آج کے مباحثوں کا موازنہ کر لیا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟

آزاد میڈیا، مخلوط تعلیم او رجدید فلسفہ تعلیم نے شرم وحیا کو گویا اپنی لغت سے خارج کر دیا ہے۔ بے شرمی، بے حیائی او ربے باکی پُر اعتماد شخصیت کی صفت بنا دیے گئے ہیں۔ جدید لغت میں بولڈ(Bold) ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان بے حیا ہو جائے۔ وہ اپنی کوئی بھی بات کہیں بھی او رکسی کے بھی سامنے بغیر کسی جھجک کے کہہ سکتا ہو۔ عصری تعلیمی ادارے نو خیز بچوں او ربچیوں کو وہ ماحول فراہم کرتے ہیں جو انہیں بے باک بناتا ہے۔ ایک عرب شاعر کا کہنا ہے:
          فلا والله ما فی العیش خیر
          ولا الدنیا إذا ذھب الحیاء
کہ… اگر حیا ختم ہو جائے تو بخدا زندگی میں کوئی خیر ہے اور نہ دنیا میں کوئی بھلائی۔

یہاں تو معاملہ یہ ہو گیا ہے کہ شرم وحیا بوجھ تصور ہونے لگے ہیں۔ افراد قوم کا شعور اس قدر پامال کر دیا گیا ہے کہ اس کے ہاں ناخوب خوب تر ہو گیا ہے۔

اسلامی روایت میں تعلیم وتعلم ایک مقدس فریضہ ہے۔ ہمارے درس نظامی کی کتابوں میں شرم وحیا کے مسائل پڑھائے جاتے ہیں، مگر یوں نہیں کہ ان سے کوئی طالب علم جنسی حظ اٹھائے یا بے باکی دکھائے۔ حیا اور وقار کی ایک کیفیت ہوتی ہے، استاذ بھی اس مرحلے پر چوکنا ہوتا ہے، وہ اپنے اسلوب درس میں ان مسائل کے ذکرکے دوران خاص احتیاط برتتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ نفس مسئلہ سے ذرہ بھرادھر ادھر کی بات نہ ہو۔

دین دشمن عناصر، ملت بیزار این جی اوز، ذرائع ابلاغ کے بد اخلاق وبدکردار کارندے اپنے تمام وسائل، قوت، طاقت اور ذہنی وفکری صلاحیتوں او رتحریری وتقریری مواد سے اُمت مسلمہ کے سامنے عریانی وفحاشی ومے خواری، بد کاری ولذت ِ گناہ او رگناہ ِ بے لذت کے اس مکروہ اوربدبودار مکروہ گڑھے کو جنت بنا کر دکھانے میں پوری طرح مصروف ہیں۔
دشمن ہمیں تباہی کے اس گڑھے میں دانستہ طور پر گرانا چاہتا ہے، جہاں سے نکلنے میں وہ خود بری طرح ناکام ہے، لیکن وہ گڑھے میں پھنسنے کے بھیانک انجام سے ہمیں اس لیے آگا ہ نہیں کرتا کہ ہم اس کے جال میں بآسانی شکار ہو جائیں، لیکن الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات ہمارے لیے بہت کافی ہیں، الحمدلله۔

گزشتہ اقوام کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ گناہ کے کام مل کر اجتماعی طور پر کیا کرتے تھے۔ الله تعالیٰ کا ہر عذاب اگرچہ بڑا عذاب ہے، لیکن سخت ترین عذاب قوم ِ لوط پر آیا، جو اجتماعی عذاب بھی تھا اور انفرادی عذاب بھی۔ اس قوم کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ شرم وحیا سے عاری ہو چکی تھی اور بے حیائی کے کام بھری محفلوں میں سر عام کیا کرتے تھے۔ قوم لوط کے لوگوں کی گفت گوئیں، ان کی حرکات وسکنات، اشارات اورکنایات او ران کے محلے او ربازار سب کے سب عریانی وفحاشی او ربرائی وبے حیائی کا موقع تھے، تب وہ غضب خداوندی کے مستحق ٹھہرے۔

آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کو حیا کے لبادے سے نا آشنا کر دیا ہے او رانسان کو ثقافت کی آڑ میں اپنے خالق ومالک سے دور کرکے تباہی وبربادی او رعذاب ِ الہٰی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ جو فرد بھی اس بے ہودگی وہوس نفس کی ماری پرکشش اور فریب زدہ سیکولر تہذیب میں داخل ہو گیا، وہ﴿إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ﴾ کی عملی تصویر بنتے ہوئے ممکن ہے کہ قومِ لوط میں شمار ہو کہ یہ سیکولر فکر خالصتاً ابلیس او راس کے پیروکاروں کا راستہ ہے، جس کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ کی وادیاں ہیں۔

کیا کہیے… او رکس سے کہیے کہ ارباب اقتدار جن سے کچھ امید کی جاسکتی تھی کہ بے حیائی کے کاموں پر روک لگائیں گے؛ انہی کی صفوں میں سے اٹھ کر بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ کیا ہمیں اندازہ نہیں کہ اس سے تباہی وبربادی ہمارا مقدر ٹھہرے گی؟!

لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حکومت اپنا فرض ادا نہیں کر رہی تو فرد اپنے بوجھ سے آزاد ہو گیا ہے۔ فرد کی مسئولیت بھی اسی طرح ہے جس طرح افراد حکومت کی ہے…﴿أَلاَکُلُّکُمْ رَاعٍ، وَکُلُّکُمْ مَسْؤلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ﴾ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور تواصی بالحق کا ہر مومن ومسلم مکلّف ہے۔

جاننا چاہیے کہ ہم نے مرنا ہے او رایک روز احکم الحاکمین کے سامنے پیش ہو کر اپنے اعمال او راپنے اوپر عائد فرائض کا حساب دینا ہے۔ لازمی ہے کہ روزِ محشر الله تعالیٰ بزرگ وبرتر کے سامنے پیش ہونے کا خوف وحیا دامن گیر ہو۔ وما علینا إلا البلاغ!