مصائب و آلام اور تکالیف و حوادث انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں،اس فانی دنیا میں عمرِ عزیز کی چند ساعتیں عیش کی گھنی چھاوٴں میں بڑے سکون سے گذرتی ہیں اور کچھ گھڑیاں رنج کی جھلساتی ہوئی دھوپ میں کٹ جاتی ہیں، حیاتِ مستعار کے آنگن میں کبھی مسرتیں ڈیرے ڈال کر لمحات کو خوش گوار بنا دیتی ہیں تو کبھی غم و اندوہ کے جھکڑ خوشیوں کے آشیانے کو تنکا تنکا کر دیتے ہیں،رنج و الم سے عبارت یہ زندگی کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی اپنے دامن میں زمانے کی تلخ وشیریں یادیں لیے ہوئے آخرموت کے ساحل پر لنگر انداز ہو جاتی ہے۔یہ سفرِ حیات اتنا کٹھن کیوں ہے؟ مصیبتیں کیوں انسان کو گھیر لیتی ہیں؟خدا تو اپنے بندے سے ستر ماوٴں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے پھر انہیں آزمائش کی چکی میں کیوں پیستا ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے بنیادی طور پر یہ ذہن نشین کر لیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جا بجا اپنی صفت حکیم ذکر فرمائی ہے اور حکیم ایسی ذات کو کہا جاتا ہے جس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا، لہٰذا آفات و بلیات کے نازل ہونے میں بھی اس کے حکیمانہ فیصلے اور دانش مندانہ امر کو دخل ہوتا ہے۔اب وہ کون سے اسباب و وجوہات اور کیامصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے سے بلائیں اترتی ہیں؟ تو قرآن وسنت کے علوم کی روشنی میں اہلِ علم نے پانچ وجوہات کا تعین کیا ہے۔
نزول ِ مصائب کی پہلی وجہ مومن بندے کی آزمائش ہوتی ہے، اللہ کی ذاتتو علام الغیوب ہے، لیکن اہلِ دنیا پر واضح کرنے کے لیے کہ میرا بندہ مصیبت آنے پر صبر کرتا ہے یا بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے،مختلف طریقوں سے آزماتا رہتا ہے،چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :”اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے دوچار کر کے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں میں نقصان کرکے ضرور آزمائیں گے“۔ (البقرہ:155)دوسرا سبب مسلمان کے گناہوں کا کفارہ ہے ،اللہ تعالی مصیبت میں مبتلا فرماکر گناہوں کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور آخرت کی سزا سے بچا لیتے ہیں، حضرت ابوسعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”مومن مرد کو جو بھی دکھ اور جو بھی بیماری اور جو بھی پریشانی اور جو بھی اذیت پہنچتی ہے یہاں تک کہ اس کو کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہوں کی صفائی کر دیتا ہے“۔(بخاری ، مسلم)حضرت عبد اللہ بن مسعود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں :”مومن شخص کو مرض یا اس کے علاوہ کسی اور صورت میں جو تکلیف پہنچتی ہے اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جیسے خزاں رسیدہ درخت اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے“۔ (بخاری ،مسلم ) تیسری وجہ نیک اور متقی لوگوں کے درجات کو بلند کرنا ہے،انبیا، اولیا اور سلفِ صالحین کی سوانح پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں بڑے کٹھن حالات اور دشوار گذار مراحل آئے،حضرت سعد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے:”سب سے زیادہ مصیبتیں انبیا پر آئیں ،پھر جو ان کے طریقے کے زیادہ قریب ہیں اور پھرجوان کے طریقے کے زیادہ قریب ہیں“۔ (سنن ِ ترمذی )ان جلیل القدر شخصیات کے اللہ تعالی کے مقرب و محبوب ہونے کے باوجود ان پر تکالیف اس لیے آئیں تاکہ اللہ تعالی انہیں اپنے ہاں مزید بلندی درجات سے نوازے۔چناں چہ محمد بن خالد اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کسی مومن بندے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ایسا بلند مقام طے ہو جاتا ہے جس تک وہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تعالی اس کو کسی جسمانی یامالی تکلیف میں یا اولاد کی طرف سے کسی صدمہ اور پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے ،پھر اس کو صبر کی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ بندہ(ان مصائب اور تکالیف پر صبر کرنے کی وجہ سے ) اس بلند درجہ تک پہنچ جاتا ہے جو اس کے لیے پہلے سے طے ہو چکا تھا“۔ (مسندِ احمد) چوتھا سبب غافل انسان کو متنبہ اور خبردار کرنا ہے،اللہ تعالی بندے سے غفلت کی چادر کو اتارنے اور اسے اپنی بندگی اور اطاعت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس پرمصائب اتارتے ہیں ،فرمانِ خداوندی ہے :اور ہم ان (نافرمانوں ) کو بڑے عذاب سے پہلے چھوٹا عذاب چکھاتے ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں“۔ (احزاب : 42)
زندگی کی الجھنوں ،مشقتوں اور مصیبتوں کا آخری اور عمومی سبب انسان کی بد عملی ، فسق و فجور،خدا کی حکم عدولی اورشریعت کے احکام سے روگردانی ہے ۔اللہ تعالی جب گناہوں کی وجہ سے اپنے بندے پرناراض ہوتاہے تو اس پر اپنی رحمت کے دروازے بند کر دیتا ہے اوراس کی زندگی سے راحت و سکون ختم کر دیتا ہے، جس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مسرت و شادمانی کے تمام اسباب و وسائل کے ہوتے ہوئے بھی دل بے چین رہتا ہے۔ خلاق ِ عالم نے اپنے مقدس کلام میں بارہا اس حقیقت کو آشکار کیا ہے، چناں چہ ارشادِ خداوندی ہے:”اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ ان اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمائے ہیں“۔ (شوریٰ :30) دوسری جگہ ارشاد ہے :”اور جس شخص نے میری یاد سے منہ موڑا تو بلاشبہ اس کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے اور قیامت کے دن ہم اسے اندھاکر کے اٹھائیں گے۔“ (طہ :124) قران ِ کریم میں گذشتہ ہلاک شدہ اقوام و امم کا متعدد مقامات پر تذکرہ ہے، اس کاسبب بھی ان کی سرکشی ،نافرمانی اور وقت کے نبی کی تعلیمات سے انحراف کو بیان کیا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں مختلف گناہوں کو مختلف مصیبتوں کے نازل ہونے کا سبب بتایا ہے ، حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب پانچ چیزیں تم میں پیدا ہو جائیں گی اور میں اللہ سے پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم ان کا ارتکاب کرو 1.. جب کسی قوم میں اعلانیہ بے حیائی ہو گی تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں جنم لیں گی جو انہوں نے اور ان کے آباء و اجداد نے بھی نہیں سنی ہوں گی۔ 2.. جو قوم زکوة ادا نہیں کرے گی وہ بارش سے محروم ہو جائے گی اوراگر جانور نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند نہ برستی۔ 3.. جو قوم ناپ تول میں کمی کرے گی وہ قحط سالی ،رزق کی تنگی اور بادشاہوں کے ظلم میں گرفتار ہو جائے گی۔ 4.. جب امراء اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف فیصلے کریں گے تو دشمن ان پر مسلط ہو جائے گا جو ان کی چیزیں ان سے چھین لے گا۔ 5.. جب لوگ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھیں گے تو باہمی خانہ جنگی میں پڑ جائیں گے۔(الترغیب والترہیب)
مسائل کے حل اور مصائب کو رفع کرنے کے سلسلہ میں شریعت نے تین کام کرنے کی ترغیب دی ہے ،جو غم کو ہلکا کرنے اور دل کی تسلی میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ایک یہ کہ صبر کیا جائے ،دوسرا صلوة الحاجت ادا کی جائے ،تیسرا تمام آداب کی رعایت رکھتے ہوئے خوب عاجزی اور انکساری سے دعا مانگی جائے۔پھر بھی اگر مصیبت دور نہ ہو تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اجر آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا ہے یا چھوٹی مصیبت دے کر بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے،حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب اہلِ بلاء کو قیامت کے دن بدلہ دیا جائے گا تو اہل ِعافیت یہ خواہش کریں گے کہ کاش! ان کی کھالوں کو قینچیوں سے کاٹ دیا جاتا“۔(ترمذی)