زمین کے تمام حصوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب مساجد ہیں، یہ آسمان والوں کے لیے ایسے ہی چمکتی ہیں جیسا کہ زمین والوں کے لیے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔ ان مساجد کو نماز، ذکر وتلاوت، تعلیم وتربیت، دعوت وتبلیغ اور دیگر عبادتوں سے آباد رکھنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ آج مسلمانوں میں جو دن بدن بگاڑ آتا جارہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا تعلق مساجد سے کمزور ہوگیا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کے گھر ،یعنی مساجد سے اپنا تعلق مضبوط کریں، کیوں کہ مساجد مسلمانوں کی نہ صرف تربیت گاہیں ہیں بلکہ مساجد مسلم معاشرہ کی عکاسی کرتی ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلا گھر بیت اللہ ہے، جو مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے، جس کی طرف رخ کرکے ہم ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلمنے مدینہ منورہ پہنچنے سے تھوڑا قبل قبا بستی میں ”مسجد قبا“ اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے جس مسجد کی بنیا رکھی وہی بعد میں مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہوئی، جو اسلام کے دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے کا ذریعہ بنی۔ لہٰذا ہم اپنا تعلق مسجدوں سے جوڑ کر اس بات کی کوشش کریں کہ ہماری مسجدیں آباد ہوں۔ اگر ہمارا تعلق مسجد سے جڑا ہوا ہے تو جہاں اللہ جل شانہ سے قربت حاصل ہوگی اور کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے (رحمت کے) سایہ میں جگہ ملے گی، وہیں ان شاء اللہ دشمنان اسلام کی تمام کوششیں بھی رائیگاں ہوں گی۔
مساجد سے جہاں مسلمانوں کی روحانی تربیت ہوتی ہے، یعنی ہم کس طرح منکرات سے بچ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ پر زندگی گزاریں، وہیں سماجی زندگی میں بھی راہ نمائی ملتی ہے کیوں کہ جب مسلمان آپس میں دن میں پانچ وقت ملتا ہے تو ایک دوسرے کے مسائل سے واقفیت ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو سلام کرتا ہے، جمعہ وعیدین کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، اس کی وجہ سے بیمار کی عیادت کرتا ہے، جنازہ میں شرکت کرتا ہے، ایک دوسرے کے کام آتا ہے، محتاج لوگوں کی مدد کرتا ہے اور بندوں کے حقوق کو ادا کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے، یہ سارے اصلاح معاشرہ میں اہم کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ماہ رمضان میں تو ہماری مسجدیں کسی حد تک آباد نظر آتی ہیں، مگر عید کے بعد نمازیوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جاتی ہے، حالاں کہ پانچ وقت کی نماز رمضان المبارک کی طرح پورے سال فرض ہے اور مرد حضرات کو عذر شرعی کے بغیر پانچوں نمازیں مساجد میں ہی ادا کرنی چاہییں۔
مساجد کو آباد رکھنے والوں کے لیے بے شمار فضیلتیں قرآن وحدیث میں وارد ہوئی ہیں، جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں اور نمازوں کے پابند ہوں اور زکاة دیتے ہوں اوراللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ (سورة التوبة: 18) اسی طرح فرمان الہٰی ہے: ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکاة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی ہے۔ اس دن یعنی قیامت سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔ (سورة النور: 37-36) ان گھروں سے مراد مساجد ہیں اور ان کا ادب یہ ہے کہ ان میں ناپاکی کی حالت میں داخل نہ ہوا جائے، کوئی ناپاک چیز داخل نہ کی جائے، شور نہ مچایا جائے، دنیا کے کام اور دنیا کی باتیں نہ کی جائیں، بدبودار چیز کھاکر نہ جایا جائے،حتی الامکان صاف ستھرے لباس پہن کر جایا جائے، جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ۔ مسجد کی آبادی کی اہمیت کے متعلق دو آیات ذکر کرنے کے بعد مسجد کی آبادی کی فضیلت کے متعلق چند احادیث نبویہ پیش خدمت ہیں:
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کو سب جگہوں سے زیادہ محبوب مساجد ہیں اور سب سے زیادہ ناپسند جگہیں بازار ہیں۔ (صحیح مسلم ۔ باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح وفضل المساجد)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مساجد زمین میں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں،یہ آسمان والوں کے لیے ایسے چمکتے ہیں جیسا کہ زمین والوں کے لیے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔ (رواہ الطبرانی ورجالہ موثقون ۔مجمع الزوائد ۔باب فضل المساجد)
حضرت عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس نے کوئی مسجد بنائی جس میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک محل بنادیتے ہیں۔ (صحیح ابن حبان ۔ذکر بناء اللّٰہ فی الجنة لمن بنی مسجداً فی الدنیا)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو لوگ اندھیروں میں بکثرت مسجدوں کو جاتے رہتے ہیں ان کو قیامت کے دن پورے پورے نور کی خوش خبری سنادیجیے۔ (ابوداود ۔باب ما جاء فی المشی الی الصلاة فی الظلم، والترمذی ۔باب ما جاء فی فضل العشاء والفجر فی جماعة)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص صبح اور شام مسجد جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مہمان نوازی کا انتظام فرماتے ہیں، جتنی مرتبہ صبح یا شام مسجد جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے مہمان نوازی کا انتظام فرماتے ہیں۔ (صحیح البخاری ۔باب فضل من غدا الی المسجد ومن راح، وصحیح مسلم ۔باب المشی الی الصلاة تمحی بہ الخطایا)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم کسی کو بکثرت مسجد میں آتے جاتے دیکھو تو اس کے ایمان دار ہونے کی گواہی دو ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ (رواہ الترمذی واللفظ لہ، وابن ماجہ وابن خزیمة وابن حبان فی صحیحھما، والحاکم ، الترغیب والترھیب ۔ کتاب الصلاة۔ الترغیب فی لزوم المساجد والجلوس فیھا)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے (رحمت کے) سایہ میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا… اُن سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہو (یعنی نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرتا ہو) ۔ (البخاری۔ باب الصدقة بالیمین / ومسلم ۔ باب فضل اخفاء الصدقة)․
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: مسجد ہر متقی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ جس کا گھر مسجد ہو (یعنی مسجدوں سے خصوصی تعلق ہو ) اسے راحت دوں گا، اس پر خصوصی رحمت نازل کروں گا، پل صراط کا راستہ آسان کردوں گا، اپنی رضا نصیب کروں گا اور اسے جنت عطا کروں گا۔ (رواہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط والبزار وقال اسنادہ حسن، ورجال البزار کلھم رجال الصحیح ۔ مجمع الزوائد ۔ باب لزوم المسجد)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو لوگ کثرت سے مسجدوں میں جمع رہتے ہیں وہ مسجدوں کے کھونٹے ہیں، فرشتے ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ اگر وہ مسجدوں میں موجود نہ ہوں تو فرشتے انہیں تلاش کرتے ہیں۔ اگر وہ بیمار ہوجائیں تو فرشتے ان کی عیادت کرتے ہیں۔ اگر وہ کسی ضرورت کے لیے جائیں تو فرشتے ان کی مدد کرتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلمنے یہ بھی ارشاد فرمایا: مسجد میں بیٹھنے والا تین فائدوں میں سے ایک فائدہ حاصل کرتا ہے، کسی بھائی سے ملاقات ہوتی ہے، جس سے یا تو کوئی دینی فائدہ ہوجاتا ہے یا کوئی حکمت کی بات سننے کو مل جاتی ہے یا اللہ تعالیٰ کی رحمت مل جاتی ہے، جس کا ہر مسلمان کو انتظار رہتا ہے۔ (رواہ احمد فی مسندہ)
فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں
مرد حضرات کے لیے فرض نماز مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے یا سنت مؤکدہ، اس سلسلہ میں علماء کی رائے مختلف ہے ، مگر معمولی عذر کی بنا پر جماعت کا ترک کرنا یقینا گناہ ہے۔ غرض فرض نماز جماعت ہی کے ساتھ ادا کی جائے، کیوں کہ اس کی مشروعیت جماعت کے ساتھ ہی وابستہ ہے، جیسا کہ آیات قرآنیہ اور احادیث شریفہ میں وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔ البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہو، مثلاً بیماری یا آندھی یا طوفان یا موسلادھار بارش وغیرہ تو فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا نہ کرنے پر کوئی گناہ نہ ہوگا،ان شاء اللہ۔فرض نماز ہمیں جماعت کے ساتھ ہی ادا کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت اور ایک حدیث پیش کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پانچوں نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے والا بنائے۔ آمین۔
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدہ کے لیے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے۔ نگاہیں نیچی ہوں گی اور ان پر ذلت وخواری طاری ہوگی، حالاں کہ یہ سجدہ کے لیے (اس وقت بھی) بلائے جاتے تھے ،جب کہ صحیح سالم، یعنی صحت مند تھے۔ (سورة القلم: 43-42)
حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میدان قیامت میں اپنی ساق (پنڈلی) ظاہر فرمائے گا، جس کو دیکھ کر مؤمنین سجدہ میں گر پڑیں گے، مگر کچھ لوگ سجدہ کرنا چاہیں گے ،لیکن ان کی کمر نہ مڑے گی ،بلکہ تختہ سی ہوکر رہ جائے گی۔ یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت کعب الاحبار رحمة الله علیہ قسم کھاکر فرماتے ہیں کہ یہ آیت صرف ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہے جو جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے۔
مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں: حی علی الصلاة ، حی علی الفلاح کو سنتے تھے، مگر صحیح سالم، تن درست ہونے کے باوجود مسجد میں جاکر نماز ادا نہیں کرتے تھے۔
غور فرمائیں کہ نماز نہ پڑھنے والوں یا جماعت سے ادا نہ کرنے والوں کو قیامت کے دن کتنی سخت رسوائی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ساری انسانیت اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں ہوگی، مگر بے نمازیوں کی کمریں تختے کے مانند کردی جائیں گی اور وہ سجدہ نہ کرسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس انجام بد سے حفاظت فرمائے۔ آمین۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکھٹی کرنے کا حکم دوں اور ساتھ ہی نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دوں، پھر کسی آدمی کو نماز کے لیے لوگوں کا امام مقرر کردوں اور خود ان لوگوں کے گھروں کو جاکر آگ لگادوں جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے (یعنی گھر یا دوکان میں اکیلے ہی نماز پڑھ لیتے ہیں)۔ (صحیح البخاری ۔باب وجوب صلاة الجماعة)․
جو حضرات شرعی عذر کے بغیر فرض نماز مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں، اُن کے گھروں کے سلسلہ میں اُس ذات کی جس کی اتباع کے ہم دعوے دار ہیں اور جس کو ہماری ہر تکلیف نہایت گراں گزرتی ہو،جو ہمیشہ ہمارے فائدے کی خواہش رکھتا ہو اور ہم پر نہایت شفیق اور مہربان ہو، یہ خواہش ہے کہ ان کو آگ لگا دی جائے۔
اللہ تعالیٰ مجھے، آپ سب کو اور پوری امت مسلمہ کو نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے۔ قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے والا بنائے۔ اللہ کے گھروں یعنی مساجد سے خصوصی تعلق رکھنے والا بنائے۔