اسلام دین فطرت ہے، اسی لیے وہ انسان کی ذات میں موجود فطری تقاضوں کی بیخ کنی نہیں کرتا، بلکہ انہیں درست سمت مہیا کرتا ہے، تاکہ وہ تقاضے فرد یا معاشرے کی بہتری میں صرف ہو سکیں۔ ایسی چیزیں جن کا کسی فرد کی ذات یا معاشرہ کو کوئی فائدہ نہ ہو اور نہ ہی اس سے کوئی اخروی مفاد وابستہ ہو تو وہ شریعت کی نگاہ میں لغو قرار پاتی ہیں، جن کو ترک کرنا قرآن وحدیث کی نصوص کی رُو سے ناگزیر اور اسلام کی خوبیوں میں سے ہے۔
مزاح بھی انسانی فطرت میں شامل ہے، انسان فطرتاً مدنی الطبع ہے، وہ لوگوں سے میل جول کو پسند کرتا ہے، اپنے ہم جولیوں سے دل لگی کرکے لطف اندوز ہوتا ہے، شریعت اسلامیہ نے اپنے مزاج کے مطابق انسانی فطرت کے اس تقاضے کو بھی نہیں دبایا، بلکہ اسے چند حدود وقیود کا پابند بنا کر درست راہ پر گم زن کر دیا او رمزاح میں پائے جانے والے افراط وتفریط کو ختم کرکے اسے اعتدال کی خُو سے روشناس کرایا۔
مزاح سے متعلق ہمارے معاشرے میں دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں۔ پہلا رویہ ان لوگوں کا ہے جو دینی یادنیوی کسی میدان میں مقتدا کے عہدے پر فائز ہوں، ایسے افراد بسا اوقات مزاح کو اپنے لیے شجر ممنوعہ قرار دے دیتے ہیں، ان کے چہروں پر ہمہ وقت خود ساختہ سنجیدگی طاری ہوتی ہے، جس کا مقصد بظاہر یہ ہوتا ہے کہ ان کی بزرگی کا بھرم قائم رہ سکے، حالاں کہ مزاح کسی طو ربزرگی یا مقتدا ہونے کے منافی نہیں۔ کائنات کے سب سے بڑے مقتدا سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی عظمت ِ شان اور رفعت ِ مقام کے بوجود اپنے اصحاب سے دل لگی او رمزاح فرمایا کرتے تھے،آپ صلی الله علیہ وسلم کے مزاح سے بھرپور واقعات احادیث نبویہ میں جا بجا ملتے ہیں۔
چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے، ایک آدمی نے رسول صلی الله علیہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا تو سائل نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟(سنن الترمذی:1991)
ایک بوڑھی عورت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول الله! آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میں جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اے فلاں شخص کی والدہ! جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہیں ہوگی۔“
حضرت حسن بصری رحمہ الله فرماتے ہیں وہ بڑھیا روتی ہوئی واپس چلی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:’اسے خبر کر دو کہ کوئی عورت بڑھاپے کی حالت میں نہیں جائے گی ( بلکہ نوجوان دوشیزہ بن کر جائے گی) جیسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا:
کہ ہم نے ان عورتوں کو اس خاص انداز پر پیدا کیا کہ وہ کنواریاں، دل پسنداو رہم عمر ہیں۔“ (الشمائل المحمدیة،ص:199)
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کے بعد روئے ارض پر بزرگی کے سب سے اعلیٰ ترین معیار پر وہ نفوس قدسیہ فائز ہیں جنہیں ہم صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے معززنام سے موسوم کرتے ہیں، جماعت صحابہ اپنے عالی مقام کے باوصف آپس میں دل لگی او رمزاح کرنے سے گریز نہیں فرماتے تھے، مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت فاروق اعظم اور حضرت علی المرتضیٰ رضی الله عنہم ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے اس طرح چلے جارہے تھے کہ حضرت علی رضی الله عنہ بیچ میں تھے اور دونوں حضرات دونوں طرف، حضرت علی رضی الله عنہ ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ پستہ قد تھے، حضرت عمر رضی الله عنہ نے مزاحاً فرمایا:”علي بیننا کالنون في لنا“
یعنی علی ہم دونوں کے بیچ میں ایسے ہیں جیسے ”لنا“ کے درمیان نون ہے، یعنی لنا کے ایک طرف کا ”لام“اور دوسری طرف کا ”الف“ لمبے اور درمیان کا ”نون‘ پستہ قد ہے، اس طرح ہم دونوں طویل القامت او ربیچ میں علی رضی الله عنہ پستہ قامت ہیں، اس پر حضرت علی رضی الله عنہ نے برجستہ جواب دیا:”لو لا کنت بینکما لکنتما لا“
یعنی اگر میں تمہارے درمیان نہ ہوتا تو تم”لا“ ہو جاتے اور کچھ بھی نہ رہتے“ کیوں کہ ”لنا“ کے بیچ سے ”نون“ ہٹا دیا جائے تو وہ ”لا“ رہ جاتا ہے۔ (ملفوظات حکیم الامت:22/115)
اس پوری تفصیل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ بلاوجہ کی سنجیدگی خود پر طاری کیے رکھنا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تک نہ لانا بزرگی کی علامت تو کجا خود شریعت کے مزاج کے بھی خلاف ہے۔ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم میں خندہ پیشانی سے ملنے کو صدقہ قرار دیا گیا ہے ، ارشاد نبوی ہے: حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ سے مروی ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”ہر بھلائی صدقہ ہے او ربھلائی یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خوش مزاجی کے ساتھملواور اپنے ڈول سے اس کے ڈول میں پانی ڈال دو۔(سنن الترمذی:1970)
جب کہ دوسری طرف مزاح سے متعلق ایک رویہ یہ بھی ہے کہ مزاح میں حد سے زیادہ تجاوز کیا جاتاہے، مزاح کے نام پر چھچھورا پن اختیارکیا جاتا ہے، دوسروں کو ایذا پہنچانے اور ان کی بے عزتی کرنے کو مزاح گردانا جاتا ہے، فحش گوئی اور ذو معنی گفت گوکو مزاح کا عنوان دیا جاتا ہے ،حالاں کہ یہ کسی بھی طرح مزاح نہیں، بلکہ یہ تمسخر اور پھکڑ پن کہلاتا ہے، شریعت ِ اسلامیہ نے مزاح کی حدود وقیود متعین فرمائی ہیں اور مزاح کو حدِاعتدال میں رکھنے کے لیے چند شرائط طے فرمائی ہیں، جن کا لحاظ رکھنا لازم ہے، وہ شرائط درج ذیل ہیں:
مزاح میں مداومت(ہمیشگی) اور حد سے زیادہ انہماک نہ ہو،بلکہ کبھی کبھی کسی مصلحت کے پیش نظر ہوکیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کے بگاڑ کا سبب بنتا ہے او رحدیث پاک کی صراحت کے مطابق زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔
مذاق میں کسی کو تکلیف دینا یا کسی کے ساتھ تمسخر اوراستہزا مقصود نہ ہو اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی ایذا رسانی کا پہلو پایا جاتا ہو۔ مزاح سچ پر مبنی ہو، جھوٹ وغیرہ پر مشتمل نہ ہو۔ کسی مخصوص فرد یا قوم کو نشانہ نہ بنایا جائے اور ایسا مذاق نہ کیا جائے جو اس فرد اور قوم کے لیے عار اورشرم کا باعث ہو۔ مزاح میں دین اور شریعت کا مذاق نہ اڑایا جائے، ایسا کرنا بسا اوقات انسان کو کفرتک لے جاسکتا ہے۔ مزاح کے دوران مخاطب کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھا جائے، کیوں کہ بسا اوقات اس سے بے ادبی کا اندیشہہوتا ہے، بڑوں ، بزرگوں، والدین اور اساتذہ وغیرہ سے مزاح کرتے ہوئے ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ بے وقوف اور کم عقل لوگوں سے مذاق نہیں کرنا چاہیے مذاق میں کسی مسلمان بھائی کی غیبت اور چغل خوری نہیں ہونی چاہیے مزاح میں فحش گفت گو اورکلام سے گریز کیا جائے۔
انہی شرائط سے مزاح او رتمسخر میں فرق بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جس مزاح میں د وسرے کی ذلت کا پہلو نکلتا ہو یا جو مزاح کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا سبب ہو وہ مزاح نہیں، بلکہ تمسخر ہے جو نہ شریعت کی رو سے جائز ہے او رنہ اخلاقی پیمانوں کے مطابق درست ہے، شگفتگی میں شائستگی نہ ہو تو وہ مزاح نہیں، پھکڑ پن بن جاتی ہے، مزاح جائز، بلکہ مستحسن ہے، جب کہ تمسخر کسی طور پر جائز نہیں۔
موجودہ دو رمیں مزاح کے نام پر جو خرافات ہماری نوجوان نسل میں پروان چڑھ رہی ہیں ان میں سے دو خرافات ایسی ہیں کہ جن کا حکم بھی مزاح کے ان ذکر کردہ پیمانوں سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے، ان میں سے ایک اپریل فول کی رسم ہے، جو یکم اپریل کو منائی جاتی ہے۔ اس قبیح رسم میں مزاح کے نام پر لوگوں کو ستانے او رجھوٹ بول کر ان کی ایذا رسانی کا کام کیا جاتا ہے، جس کی قباحت او راس میں پائے جانے والے شرعی او راخلاقی مفاسد کسی باشعور انسان سے مخفی نہیں۔
دوسری قبیح او راخلاقی پیمانوں سے گری ہوئی حرکت پرینک (Prank) ہے جس کا رحجان روز افزوں بڑھاتا چلا جارہا ہے، اس میں مختلف طریقوں سے لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے، عام طور پر یہ پرینکس تکلیف اور ایذا رسانی پر مشتمل ہوتے ہیں یا اس میں لوگوں کی ہتک عزت کا پہلو پایا جاتا ہے او رپھر انہیں پبلک بھی کر دیا جاتا ہے، جو ان لوگوں کے لیے مزید شرمندگی کا باعث بنتے ہیں، ان وجوہات کی بنا پر یہ ”پرینکس“ کرنا شرعی اور اخلاقی ہر دو لحاظ سے قابل مذمت ہیں۔
ایک چیز مزید ایسی ہے جس کو شرعی نقطہٴ نظر سے یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ ہے ”مزاح کو بطور پیشہ اختیار کرنا“۔ اس میں لطیفہ گوئی بھی شامل ہے او رمزاح نگاری کا شعبہ بھی، اس بارے میں اصولی بات یہ ہے کہ اگر مزاح نگاری یا لطیفہ گوئی میں مزاح کی شرعی حدود وقیود اور مذکورہ بالا طے شدہ شرائط کا لحاظ رکھا گیا ہو تو اگرچہ شرعی طور پر یہ ناجائر نہیں ہوں گے، لیکن اس کے باوجود اس کو مستقل پیشہ اور ذریعہ آمدنی کے طور پر اختیار کر لینا شرعی لحاظ سے پسندیدہ نہیں ہے، کیوں کہ مستقل لطیفہ گوئی او رمزاح وتفریح میں مشغول رہنا انسان کو فکر ِ آخرت، ذکر الله اور دیگر عبادات سے غافل کر دیتا ہے اور یہ بات پہلے ذکر کی جاچکی ہے کہ زیادہ ہنسنے ہنسانے سے دل مردہ ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے دل نیکیوں پر آمادہ ہونے سے کتراتا ہے او رگناہوں پر جری ہو جاتا ہے۔ لہٰذا مزاح کو مستقل پیشہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
موجودہ دور میں اسٹینڈ اپ کا میڈی کے نام پر اخلاقیات کا جوجنازہ نکالا جاتا ہے، جس میں مزاح کے نام پر جھوٹ، بے ہودگی، فحش گوئی اوردریدہ د ہنی سے کام لیا جاتا ہے، حاضرین او رسامعین کی بے عزتی کی جاتی ہے، ان کی شکل وصورت کا مذاق اڑایا جاتا ہے، مقدس رشتوں کا احترام پا مال کیا جاتا ہے اور سب سے گری حرکت یہ ہوتی ہے کہ کامیڈین اپنے والدین کی بے عزتی بھی بغیر جھجھک کے کر جاتے ہیں، اس کی کسی طور پر حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی او رنہ اس کی شرعی واخلاقی طور پر اجازت دی جاسکتی ہے۔ الله پاک ہمیں دین کو صحیح سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!