عبید اللہ خالد
اسلام دین فطرت ہے اور اہل دنیا کے لیے الله تعالیٰ کا آخری، ابدی اور آفاقی پیغام رحمت ہے، اس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا پورا پورا طریقہ اور سلیقہ موجود ہے، امیر، غریب، چھوٹا، بڑا، مرد، عورت، شاہ، گدا غرض ہرطبقے سے تعلق رکھنے والے انسان کے لیے اسلام میں ہدایت و راہ نمائی کا سامان موجود ہے۔ الله تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم یہ پیغام ہدایت قیامت تک کے انسانوں کے لیے لے کر آئے، آپ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپ کے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین نے اس پیغام ہدایت کی حفاظت کی اور اسے آئندہ نسلوں کی طرف محفوظ طریقے سے پہنچایا، ان قدسی نفوس کے بعد تابعین، تبع تابعین اور بعد کے آنے والے اسلاف امت نے اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا او راس پیغام ہدایت کو آئندہ نسلوں کی طرف پوری دیانت داری اور حفاظت سے پہنچایا، اس دین متین اور پیغام رحمت کی حفاظت کی ذمہ داری الله تعالیٰ نے خودلی ہے اور پھر اسلاف امت کو اس کا ذریعہ بنایا ہے، دور حاضر میں اس کی حفاظت کا ایک بڑا ذریعہ برصغیر پاک وہند کے مدارس دینیہ ہیں جو رجال دین کی تیاری میں مصروف عمل ہیں اور دین کی حقیقی، صحیح اور مستند تعبیر وتشریح کو آئندہ نسلوں کی طرف ٹھیک طریقے سے پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ برصغیر میں جب مسلمانوں کی سلطنت ختم کر دی گئی اوریہاں انگریزوں کا جابرانہ تسلط قائم ہوا تو یہاں کے اہل الله نے مسلمانوں کے دین ومذہب کی حفاظت کے لیے دینی مدارس قائم کیے کہ یہ مدارس عوام کے تعاون سے چلیں گے او ران کے لیے حکومت سے بالکل کسی قسم کا تعاون نہیں لیا جائے گا، اور نہ ہی حکومت کا ان میں کسی قسم کا عمل دخل ہو گا، بلکہ دارالعلوم دیوبند کے اصول ہشت گانہ میں ایک اصل یہ بھی ہے کہ اس مدرسے کی آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں ہو گا اورعوام الناس کے چندے سے اسے چلا یا او راس کے امور کو انجام دیا جائے گا، اگرچہ بظاہر یہ عقل میں آنے والی بات نہیں ہے، لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں مدرسہ چلانے والے حضرات کا مشکلات میں الله تعالیٰ کی طرف رجوع ہو گا اور پھر الله تعالیٰ کی مدد ونصرت شامل حال ہوگی، اس طرح یہ مدرسہ اپنے مقاصد میں کام یاب وکامران ہو گا۔
چناں چہ بعد کے حالات نے یہ ثابت کیا کہ ہمارے اکابر کی یہ سوچ وفکر الہامی تھی، اس وقت پوری دنیا میں دین کی حفاظت وصیانت کا فریضہ برصغیر کے یہی مدارس دینیہ انجام دے رہے ہیں اور ان سے رجال دین تیار ہو کر پوری دنیا میں مختلف دینی کاموں کی انجام دہی میں مصروف عمل ہیں، اوریہی مدارس دینیہ ہی ہیں جو مغرب کی مادر پدر آزاد معاشرت او رمغربی فکر وفلسفے کی راہ میں سد سکندری اور سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے ہیں۔ اس لیے جب سے پاکستان بناہے ہر دور میں مدارس کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے ہیں تاکہ یہ دینی ادارے اپنی خدمات کو وسیع اورعام نہ کرسکیں اور خیر کا جو کام ان کے ذریعے انجام دیا جارہا ہے اس پر قدغن لگ جائے، یہ سب مغرب کی خوش نودی حاصل کرنے یا اس کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا رہا ہے،حال ہی میں وقف ایکٹ اور پانچ نئے وفاقوں کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ لیکن جب تک یہ ادارے اپنے کاز، مشن اور مقصد پر کار بند رہیں گے اور ان سے وابستہ حضرات تقوی، اخلاص وللہیت اور دیانت داری کو اپناتے رہیں گے تو انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، نہ امریکا ، نہ روس، نہ برطانیہ اور نہ دنیا کی کوئی اوربزعم خود بڑی طاقت۔
الله تعالیٰ مدارس اور اہل مدارس کا حامی وناصر ہو ، ان کی حفاظت فرمائے او رانہیں اپنے مقصد ومشن پر کاربند اور گام زن رہنے کی توفیق عنایت فرمائے۔