شہنشاہ کونین صلی الله علیہ وسلم کا دربار نقیب وچاؤش اور خیل وحشم کا دربار نہ تھا۔ دروازہ پر دربان بھی نہیں ہوتے تھے۔ تاہم نبوت کے جلال سے ہر شخص پیکرِ تصویر نظر آتا تھا۔ احادیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں لوگ بیٹھتے تو یہ معلوم ہوتا کہ ان کے سروں پرچڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں، یعنی کوئی شخص ذرا بھی جنبش نہیں کرتا تھا۔ گفت گو کی اجازت میں ترتیب کا لحاظ رہتا تھا، لیکن یہ امتیاز مراتب ، نسب ونام یا دولت ومال کی بنا پر نہیں، بلکہ فضل واستحقاق کی بنا پر ہوتا تھا۔ سب سے پہلے اہل ِ حاجت کی طرف متوجہ ہوتے اور ان کے معروضات سن کر ان کی حاجات بر آری فرماتے۔
تمام حاضرین ادب سے سر جھکائے رہتے، خود بھی آپ علیہ السلام مؤدب ہو کر بیٹھتے۔ جب کچھ فرماتے تو تمام مجلس پر سناٹا چھا جاتا۔ کوئی شخص بولتا تو جب تک چپ نہ ہو جائے، دوسرا شخص بول نہیں سکتا تھا۔ اہل حاجت عرض مدعا میں ادب کی حد سے بڑھ جاتے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کمال حلم کے ساتھ برداشت فرماتے۔ آپ علیہ السلام کسی کی بات کاٹ کر گفت نہ فرماتے۔ جو بات ناپسند ہوتی اس سے تغافل فرماتے اور ٹال جاتے۔ کوئی شخص شکریہ ادا کرتا تو اگر آپ علیہ السلام نے واقعی اس کا کوئی کام انجام دیا ہے تو شکر یہ قبول فرماتے۔ مجلس میں جس قسم کا ذکر چھڑ جاتا آپ صلی الله علیہ وسلم بھی اس میں شامل ہو جاتے۔
ہنسی اور مہذب ظرافت میں بھی شریک ہوتے۔ کبھی کسی قبیلہ کا کوئی معزز شخص آجاتا تو حسب مرتبہ اس کی تعظیم فرماتے۔ مزاج پرسی کے ساتھ ہر شخص سے دریافت فرماتے کہ کوئی ضرورت اور حاجت تو نہیں ہے۔ یہ بھی فرماتے کہ جو لوگ اپنے مطالب مجھ تک نہیں پہنچاسکتے مجھ کو ان کے حالات اور ضروریات کی خبر دو۔ ایران میں معمول تھا کہ جب مجلس میں کوئی معزز شخص آجاتا تو سب تعظیم کو کھڑے ہو جاتے۔ یہ بھی قاعدہ تھا کہ رؤسا اورامرا جب دربار جماتے تو لوگ سینوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑے رہتے۔
آپ نے ان باتوں سے منع فرمایا اور ارشاد کیا کہ جس کو یہ پسند آتا ہے کہ لوگ اس کے سامنے تعظیم سے کھڑے رہیں، اس کو اپنی جگہ دوزخ میں ڈھونڈنی چاہیے۔ البتہ جوش محبت میں کسی کسی کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ چناں چہ سیدہ فاطمہ الزہرا جب کبھی آجاتیں تو اکثر کھڑے ہو جاتے اور فرطِ محبت سے ان کی پیشانی چُومتے ۔ (حلیمہ سعدیہ کے لیے بھی آپ نے اٹھ کر چادر بچھا دی تھی۔ اسی طرح ایک دفعہ آپ کے رضاعی بھائی آئے تو ان کے لیے بھی محبت سے کھڑے ہو گئے او ران کو اپنے سامنے بٹھایا۔)
آداب ِ مجلس
ان مجالس میں آنے والوں کے لیے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ عموماً بدو اپنے اسی وحشت نما طریقہ سے آتے اور بے باکانہ سوال وجواب کرتے۔ خلق نبوی کا منظر ان مجالس میں زیادہ حیرت انگیز بن جاتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پیغمبر خاتم کی حیثیت سے رونق افروز ہیں۔ صحابہ عقیدت کیش غلاموں کی طرح خدمت ِ اقدس میں حاضر ہیں۔ ایک شخص آتا ہے اور اس کو نبی اکرم علیہ السلام اور حاشیہ نشینوں میں کوئی ظاہری امتیاز نظر نہیں آتا۔ لوگوں سے پوچھتا ہے محمد کون ہے؟ صحابہ بتاتے ہیں کہ یہی گورے سے آدمی، جو ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ وہ کہتا ہے: اے ابن عبدالمطلب! میں تم سے نہایت سختی سے سوال کروں گا، خفانہ ہونا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم بخوشی سوال کی اجازت دیتے ہیں۔ بایں ہمہ سادگی وتواضع، یہ مجلس رعب وقار اور آداب نبوت کے اثر سے لبریز ہوتی تھی۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات وتلقینات کا دائرہ اخلاق، مذہب اور تزکیہٴ نفوس تک محدو دتھا۔ اس کے علاوہ اور باتیں منصب نبوت سے خارج تھیں، لیکن بعض لوگ نہایت معمولی اور خفیف باتیں پوچھتے تھے۔ مثلاً: یا رسول الله! میرے باپ کا کیا نام ہے ؟ میرا اونٹ کھو گیا ہے، وہ کہاں ہے؟ آپ علیہ السلام اس قسم کے سوالات کو ناپسند فرماتے تھے۔
ایک بار اسی قسم کے لغو سوالات کیے گئے تو آپ علیہ السلام نے برہم ہو کر فرمایا کہ جو پوچھنا ہے پوچھو، میں سب کا جواب دوں گا۔ سیدنا عمررضی الله عنہ نے آپ علیہ السلام کے چہرے کا رنگ دیکھا تو نہایت الحاح کے ساتھ کہا: رضیت ( میں خوش ہوں) کوئی شخص کھڑے کھڑے سوال نہیں کرتا تھا۔ ایک شخص نے اس طرح سوال کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی طرف تعجب سے دیکھا۔ اسی طرح یہ بھی معمول تھا کہ جب ایک مسئلہ طے ہو جاتا تو دوسرا مسئلہ پیش کیا جاتا۔ بعض اوقات آپ علیہ السلام گفت گو کررہے ہوتے، کوئی صحرا نشین بدو، جو آداب مجلس سے ناواقف ہوتا، دفعتًا آجاتا اور عین سلسلہ تقریر میں کوئی بات پوچھ بیٹھتا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم سلسلہ تقریر قائم رکھتے اور فارغ کر اس کی طرف متوجہ ہوتے اور جواب دیتے۔
اوقات ِ مجلس
اس قسم کی مجالس کے لیے جو خاص وقت مقرر تھا وہ صبح کا تھا۔ نماز فجر کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم بیٹھ جاتے اور فیوض ِ روحانی کا سرچشمہ جاری ہو جاتا۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نماز کے بعد آپ علیہ السلام ٹھہر جاتے اور مجلس قائم ہو جاتی۔ چناں چہ کعب بن مالک پر جب غزوہٴ تبوک کی غیر حاضری کی وجہ سے عتاب نازل ہوا تو وہ ان ہی مجالس میں آکر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خوش نودی ، مزاج کا پتا لگاتے۔ چوں کہ افادہٴ عام ہوتا تھا، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم چاہتے تھے کہ کوئی شخص فیض سے مرحوم نہ رہنے پائے۔ اس بنا پر جو لوگ ان مجالس میں آکر واپس چلے جاتے تو ان پر آپ علیہ السلام نہایت ناراض ہوتے تھے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ تین شخص آئے۔ ایک صاحب نے حلقہ میں تھوڑی سی جگہ خالی پائی، وہیں بیٹھ گئے۔ دوسرے صاحب کو درمیان میں موقع نہ ملا، اس لیے سب کے پیچھے بیٹھے ، لیکن تیسرے صاحب واپس چلے گئے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ان میں سے ایک نے خدا کی طرف پناہ لی، خدا نے بھی اس کو پنا ہ دی۔ ایک نے حیا کی، خدا بھی اس سے شرمایا۔ ایک نے خدا سے منھ پھیرا، خدا نے بھی اس سے منھ پھیر لیا۔ پند ونصائح کتنے ہی مؤثر طریقے سے بیان کیے جائیں، لیکن ہمیشہ سنتے سنتے آدمی اُکتا جاتا ہے اور نصائح بے اثر ہو جاتے ہیں۔ اس پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم وعظ ونصائح کی مجالس ناغہ دے کر منعقد فرماتے تھے۔
عورتوں کے لیے مخصوص مجالس
ان مجالس کا فیض زیادہ تر مردوں تک محدو دتھا اورعورتوں کو موقع کم ملتا تھا۔ اس بنا پر عورتوں نے درخواست کی کہ ہمارے لیے خاص دن مقرر فرمایا جائے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ درخواست منظور کی اور ان کے وعظ وارشاد کے لیے ایک خاص دن مقرر ہو گیا۔اگرچہ مسائل شرعیہ کے متعلق ہر قسم کے سوالات کی اجازت تھی او رخاتونان حرم وہ مسائل دریافت کرتی تھیں جو خاص پردہ نشینوں سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم جب کوئی پردہ کا واقعہ مجلس عام میں سوال کی غرض سے پیش کیا جاتا تو فرط حیا سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو ناگوار ہوتا۔
طریقہٴ ارشاد
کبھی کبھی آپ صلی الله علیہ وسلم خو دامتحان کے طور پر حاضرین سے کوئی سوال کرتے۔ اس سے لوگوں کی جودت ِ فکر اور اصابت ِ رائے کا اندازہ ہوتا۔ سیدنا عبدالله بن عمر کا بیان ہے کہ ایک دفعہ آپ علیہ السلام نے پوچھا: وہ کون سا درخت ہے جس کے پتے جھڑتے ہیں اور جو مسلمانوں سے مشابہت رکھتا ہے؟ لوگوں کا خیال جنگلی درختوں کی طرف گیا، میرے ذہن میں آیا کہ کھجور کا درخت ہو گا، لیکن میں کم سن تھا ،اس لیے جرأت نہ کر سکا۔ بالآخر لوگوں نے عرض کی کہ آپ بتائیں۔ ارشاد فرمایا: کھجور۔ عبدالله بن عمررضی الله عنہ کو تمام عمر حسرت رہی کہ کاش! میں نے جرأت کرکے اپنا خیال ظاہر کر دیا ہوتا۔
ایک روز آپ صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ صحابہ کے دو حلقے قائم تھے۔ ایک قرآن خوانی اور ذکر ودعا میں مشغول تھا اور دوسرے حلقے میں علمی باتیں ہو رہی تھیں۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں عمل خیر کر رہے ہیں، لیکن خدا نے مجھ کو صرف معلم بنا کر مبعوث کیا ہے۔ یہ کہہ کر علمی حلقے میں بیٹھ گئے۔
مجالس میں شگفتہ مزاجی
باوجود اس کے کہ ان مجالس میں صرف ہدایت، ارشاد، اخلاق اور تزکیہ نفوس کی باتیں ہوتی تھیں اور صحابہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ کأن الطیر فوق رؤوسہم (جیسے چڑیاں ان کے سروں پر بیٹھی ہوں) تاہم یہ مجلسیں شگفتہ مزاجی کے اثر سے خالی نہ تھیں۔ ایک دن آپ علیہ السلام نے ایک مجلس میں بیان فرمایا کہ جنت میں خدا سے ایک شخص نے کھیتی کرنے کی خواہش کی۔ خدا نے کہا: کیا تمہاری خواہش پوری نہیں ہوئی ہے؟ اس نے کہا: ہاں ! لیکن میں چاہتا ہوں کہ فوراً بوؤں اورساتھ ہی تیار ہو جائے۔ چناں چہ، اس نے بیج ڈالے ، فوراً دانہ اُگا، بڑھا اور کاٹنے کے قابل ہو گیا۔ ایک بدوبیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: یہ سعادت صرف قریشی یا انصاری کو نصیب ہو گی جو زراعت پیشہ ہیں، لیکن ہم لوگ تو کاشت کار نہیں۔ آپ علیہ السلام ہنس پڑے۔
فیضِ صحبت
ایک دفعہ سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ نے عرض کہ ہم جب خدمت اقدس میں حاضر ہوتے ہیں تو دنیا ہیچ معلوم ہوتی ہے، لیکن جب گھر میں بال بچوں میں بیٹھتے ہیں تو حالت بدل جاتی ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر ایک سا حال رہتا تو فرشتے تمہاری زیارت کو آتے۔ ایک دفعہ سیدنا حنظلہ رضی الله عنہ خدمت اقدس میں آئے او رکہا: یا رسول الله! میں منافق ہو گیا ہوں۔ میں جب خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوتا ہوں اور آپ علیہ السلام دوزخ ، جنت کا ذکر فرماتے ہیں تو یہ چیزیں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں، لیکن بال بچوں میں آکر سب بھول جاتا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ اگر باہر نکل کر بھی وہی حالت رہتی تو فرشتے تم سے مصافحہ کرتے۔