قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے :
﴿ وَ مَنْ یَتّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ مَخْرَجاً وَ یَرْزُقْہُ مِن حَیْثُ لاَ یَحْتَسِب﴾ (سورة الطلاق: آیت:3-2) ترجمہ:اور جو آدمی تقویٰ اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بناتے ہیں اور رزق وہاں سے عطا فرماتے ہیں جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو ۔
آدمی اگرتقویٰ اختیار کرتا ہے تو الله تعالی اس کے لیے مخرج (نکلنے کا راستہ) پیدا کرتے ہیں، ہر قسم کی مشکلات سے نکلنے کا راستہ میسر ہوتا ہے، ”مخرج“ تمام مشکلات کو شامل ہے، چاہے وہ دنیاوی مشکلات ہوں، حسّی ہوں، معنوی ہوں، اخروی ہوں، چاہے جس قسم کی بھی ہوں دنیا اور آخرت کی تمام مشکلات کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ ”مخرج“ پیدا فرمادیتے ہیں اور تقویٰ کی بناء پر اس کو ان مشکلات سے نجات ملتی ہے ﴿وَ یَرْزُقْہُ مِن حَیْثُ لاَ یَحْتَسِب﴾ میں ﴿ یَرْزُقْہ﴾ تمام ضروریات زندگی کو شامل ہے، دنیاوی زندگی کی ضرورتیں ہوں یا اخروی زندگی کی، سب کی کفالت ہوتی ہے۔
آج ہم مشکلا ت سے نکلنے کے لیے کیسی کیسی تدبیریں کرتے ہیں؟ بھاگ دوڑ اور کوشش ہوتی ہے، سفارشیں تلاش کی جاتی ہیں، جائز اور ناجائز ہر قسم کے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مشکلات سے نکلنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ آپ تقویٰ اختیار کریں، تقویٰ میں کیا ہوتا ہے؟ وہی کہ خوفِ خداوندی کے ساتھ گناہوں سے بچنے کا اہتمام کیا جائے، گناہوں سے بچنے کا اہتمام کیجیے، اللہ تعالیٰ آپ کے لیے تمام مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا فرمادیں گے اور تمام ضروریات کابندوبست فرمادیں گے، اس رزق کے اندر تمام ضروریات آجاتی ہیں۔
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی الله تعالیٰ عنہ کا قصہ مشہور ہے کہ ان کے صاحب زادے کفار کے یہاں قید ہوگئے اور ان پر بڑی سختی کی جاتی تھی، بیٹریوں میں باندھ کے بھوکا بھی رکھا جاتا تھا اور ستایا جاتا تھا ۔( تفسیر روح المعانی: 28/135) ان کے والد حضرت عوف رضی الله تعالیٰ عنہ نے حضور اکرم ا کے سامنے اپنی اور اپنے صاحب زادے کی پریشانی کا ذکر کیا تو آپ ا نے فرمایا کہ تم لوگ ”لا حول و لا قوة الا بالله “ کثرت سے پڑھو اور اپنے بیٹے کے ہاں کہلا بھیجو کہ تقویٰ کا اہتمام کرے اور صبح و شام سورة” توبہ“ کی آخری دو آیات کی تلاوت پابندی کے ساتھ کرے، چناں چہ اہتمام کیا گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عوف رضی الله تعالیٰ عنہ کے صاحب زادے دشمن کی قید سے رہا ہوگئے، ان کے پیر وں میں پڑے ہوئے تسمے ایک رات خود بخود ٹوٹ گئے اورجب باہر نکلے تو جانوروں اور اونٹوں کے باڑے میں داخل ہوگئے، چناں چہ ایک اونٹنی پر سوار ہوئے اور جب نکلنے لگے تو باڑے میں موجود تمام اونٹ بھی پیچھے ہولیے اور راتوں رات جانوروں سمیت گھر پہنچ گئے۔ جب حضورا کو قصہ سنایا اور مال اور جانوروں کے بارے میں پوچھا تو حضور ا نے کوئی جواب نہ دیا اس پر قرآن کی آیت : ﴿ وَ مَنْ یَتّقِ اللّٰہ…﴾ نازل ہوئی ۔