اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرتے ہی اس کے ذمہ کچھ امور لازم کردیے …انسانی زندگی کا پہیہ رب کی تقدیر و رضا اور فیصلے کے اردگرد گرد گھومتا ہے…انسانی سوچ کے لیے اس کا احاطہ صرف مشکل ہی نہیں ،بلکہ ناممکن ومحال ہے… اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی میں جہاں خوشی ، فرحت ومسرت ، خوش حالی و شادمانی رکھی ہے وہیں دکھ درد ، غم و اندوہ، رنج و الم اورپریشانی بھی انسانی زندگی کے سوار کے ردیف بنائے ہیں…!
اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ نوع انسانیت کو اگر کوئی ایسی نعمت مل جائے جس کی وجہ سے خوشی سے سرشار ہوجاتے ہیں اور نعمت عطا کرنے والے سے بعض اوقات تو بتکلف غبی اور بعض اوقات انابت رب کریم کی طرف خیال تک نہیں جاتا ،حالاں کہ مسلمان کو اس بات کا استحضار ہونا چاہیے کہ یہ رحمت کس کی طرف سے ہے، یہ کرم کس کی عنایت ہے ؟ ہونا تو یہ چاہیے ہم اس نعمت پر خوشی کے ساتھ ساتھ شکر بھی بجا لاتے، تاکہ ہم پر مزید نعمتوں، رحمتوں اور عنایات کی بارش ہو…
لیکن اگر اس کے برعکس ہم پر کوئی امتحان آجائے ،کوئی مصیبت گھیر لے، کوئی رنج و الم لاحق ہوجائے ، کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ جائے تو بجائے اس کے کہ رجوع الی اللہ کریں…اس پریشانی سے نجات پانے کے لیے دعا کریں…وظائف کریں…یہ سب کرنے کی بجائے ہم نا امیدی ، مایوسی اور کفران نعمت کا شکار ہونے لگ جاتے ہیں، جس سے ہم شدید متاثر ہوتے ہیں ،بسا اوقات اس نا امیدی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے…!
آئیے! دیکھتے ہیں اس کے کیا کیا نقصانات ہیں؟ اس نا امیدی کا سب سے بڑا نقصان جو سامنے آیا ہے وہ ہے خود کشی!جی ہاں اپنے آپ کو ہلاک کردینا جان سے مار دینا…ایسا کیوں ہوتا ہے…؟ یہ واقعات صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں، بلکہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ سمجھے جانے والے ممالک میں اس طرح کے واقعات سامنے آرہے ہیں…کسی نے اپنا گلہ گھونٹ دیا تو کسی نے زہر کی گولی کھالی…کسی نے بندوق سے خود کو گولی مار دی تو کسی نے دریا میں چھلانگ لگا کر خود کو مصیبت زدہ آگ میں دھکیل دیا…تحقیق کے مطابق ہر سال لاکھوں افراد خودکشی کے مرتکب ہوتے ہیں…خودکشی ایک انتہائی قبیح عمل ہے…جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خودکشی کرنے والا انسان دوزخ میں رہے گا…یہ سب ایسا کیوں؟ انسان خود کی جان کیوں لینے پر مجبور ہوتا ہے…؟ باوجود یکہ دولت کی فراوانی…عیش و عشرت کا مکمل ساماں، لیکن قلبی سکون میسر نہیں… اس لیے کہ قلبی سکون رجوع الی اللہ میں ہے، رب کی رضا میں ہے…!
آج ہماری زندگی میں تھوڑا بھی اتار چڑھاؤ آجائے ہم گھبرا جاتے ہیں …ہمارے اندر یاس و نا امیدی کی لہر دوڑ جاتی ہے…، حالاں کہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے ﴿لاتَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّہِ﴾ الله کی رحمت سے نا امید نہ ہوں…﴿ان رحمتی وسعت کل شيء﴾ قرآن مجید میں جبار و قہار بھی صفات ذکر کی گئی ہیں، لیکن یہ رحمت سب پر وسیع اور بھاری ہے… اس سے نظریں چرا کر ہم اپنے جسم کو بوجھ سمجھنے لگ جاتے ہیں…یاد رکھیں! یہ روح انسانی جسم کے لیے اللہ کی امانت ہے… اور امانت میں خیانت کے مرتکب کو بارگاہ ایزدی میں جواب دہ ہونا پڑے گا، علاوہ ازیں اس ناامیدی کا موضوع صرف یہاں تک محدود نہیں، بلکہ اگر تاریخی صفحات کی ورق گردانی اور اہل علم اور تجربات سے آراستہ لوگوں کو دیکھا جائے تو تمام شعبہ ہائے زندگی اور اس کی تمام شاخوں میں عزم و استقلال کے زیور سے مرقع لوگوں کا مقام واضح اورنمایاں نظر آتا ہے، جس کی امید و ارادے پختہ ہوں اس کی راہ میں چٹانیں تنکے کی حیثیت رکھتی ہیں اس کا سفر روکنے کے ہزار حربے کوئی معنی نہیں رکھتے، اس کی ہمت کا سفینہ ڈوبنے کی بجائے کنارے لگ جاتا ہے…
اسلام کا دور اول بھی اسی کا واضح آئینہ دار ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے تمام ظلم و تشدد کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ اورغزوہ بدر میں بغیر ساز و سامان کے تھوڑی سی افرادی قوت کا ایک بڑی قوت کو شکست دینا اسی کی دلیل ہے کہ یہ سب بغیر ہمت و حوصلے کے ممکن نہیں تھا اوراس کے بعد فرزندان اسلام نے تمام شعبوں اور قومی آزادی کی جد وجہد بھی اسی جذبے کے تحت سرخ روئی حاصل کی، جب کہ نا امید اور مایوس قوم اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتی، یا تو غلامی کی چکی میں پس پس کر بے حیثیتی کی زندگی بسر کی یا کفار کے ہاتھوں اپنی جان نذر کرگئی… اور صفحہ ہستی پہ ان کا کوئی اثر ورسوخ تو دور نام تک باقی نہ رہ سکا…
لہٰذا سبق اور اس سب کا حاصل یہی ہے کہ اپنی زندگی کے خواب پورے کرنے کے لیے اگر پرعزم ہوکر محنت کی جائے تو اللہ کی مدد ضرور شامل حال ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ کامران ہوتے ہیں، جب کہ امیدوں کے سفر میں تھک کر بیٹھ جانے والے کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر پاتے…!