ماہِ رمضان کی آمد آمد ہے، انوار و تجلیاتِ ربانیہ سایہ فگن ہوں گی، عاصی پُر معاصی ابن آدم کے لیے سامانِ مغفرت تیار ہوگا، جوادِ مطلق کے جودو کرم کا فیضان عام ہوگا، ایمان وعمل کی بہار آئے گی، توفیق وسعادت شکست خوردگانِ معصیت کا دامن تھا مے گی، ر ندانِ بادہ نوش بھی ایک بار توبہ وانابت کی سلسبیل میں غوط لگاکر قدوسیوں سے قدم ملانے کی ہمت کریں گے، ابوابِ جنت مفتوح ہوں گے، ابوابِ جہنم پر قفل چڑ ھادیے جائیں گے۔ اے خیر کے طالب!آگے بڑھ اور اے شر کے قاصد!رُک جا کی غیبی صدائیں بلند ہوں گی، ہررات بے شمار گنہگا روں کی آتشِ دوزخ سے آزادی کے فیصلے سنائے جائیں گے۔
نفسِ اَمَّارہ کا تزکیہ
نفسِ اَمَّارہ کے تزکیہ واصلاح کے لیے حق تعالیٰ نے روزہ فرض فرمایا، تاکہ مومن تقویٰ کے بلند مراتب حاصل کرکے مرتبہ ولایت پر فائز ہوجائے۔ راتوں کو قرآن کریم سننے سنانے کی تر غیب دی اور اپنا کلام پاک بندوں کی زبان پر جاری کرنے کے مواقع بہم فرمائے۔ روزہ سے نفس کے تزکیہ کا سامان اور روح کی تربیت کے لیے کلامِ پاک سے بہرہ اندوز ہونے کا انتظام فرمایا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ماہِ مبارک میں زمین کا رابطہ ملائے اعلیٰ سے قائم کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو -جب سے لیل ونہار کا نظام قائم فرمایا ہے- عجیب وغریب بر کات وتجلیات کا موسم بنایا ہے اور اس خاک کے پتلے کی اصلاحِ روح وتہذیبِ نفس کے لیے جب کبھی کوئی آسمانی تحفہ اُتارا ہے، اس کے لیے اسی ماہ کا انتخاب فرمایا گیا ہے۔ صحفِ ابراہیم سے قرآن کریم تک تمام روحانی تحفے اور عجیب عجیب احکامِ ربانی اور قوانینِ الٰہی پر مشتمل نظام نامے سب اسی ماہِ مبارک کی بر کات ہیں۔ احادیث میں آتا ہے کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے ماہِ رمضان کی پہلی تاریخ کو نازل ہوئے، موسیٰ علیہ السلام کی تورات 6 تاریخ کو ،عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل 13 تاریخ کو، داؤد علیہ السلام کی زبور18 کو، اور قرآن کریم 24کو نازل ہوا۔ (مسنداحمد) الغرض حق تعالیٰ نے ازل ہی سے کائنات کو اپنی رحمت سے سر فراز کر نے کے لیے اس ماہِ مبارک کو مشرف فرمایا ہے۔
بہرحال رمضان مبارک صحفِ سماویہ اور کتبِ الٰہیہ خصوصاً قرآن کریم کی ایک دینی یادگار ہے، جووحیِ آسمانی نے خود قائم کی ہے، لیکن اس یادگار اور جشنِ وحی کے لیے صرف یہ صورتیں نہیں رکھی گئیں کہ جگہ جگہ چراغاں کیا جائے، در ودیوار عجیب و غریب جاذبِ نظر و دل کش مناظر سے آراستہ کیے جائیں، رنگار نگ قمقموں سے سر زمین جگمگا اُٹھے، شا میا نے لگائے جائیں، تفریحات کا دور دورہ ہو، نہ عبادت کی فکر ہو، نہ نماز کا خیال، نہ خدا کا نام ہو ،نہ کوئی دینی کام، بے جا اسراف وتبذیر کر کے قوم اور ملک کی توانائی کو ختم کیا جائے۔ گویا ایک خدا فراموش قوم کی زند گی ہو، جس کو نہ ابتدا کی فکر ہو، نہ انتہا کا تصور، نہ مبدا کا خیال ہو، نہ معاد کا عقیدہ، یوں ہی لہو ولعب کی دنیا ہو اور عیش پر ستی کا سامان۔
آج کل جو یادگار یں قائم کی جاتی ہیں اس کا حاصل تو یہی ہوتا ہے، لیکن جو چیز اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اصلاحِ نفوس کے لیے بھیجی ہو، جس سے روحوں کو جلا ملے، جس سے انسان حیوانات اور درندوں کی صف سے نکل کر صحیح معنوں میں بااخلاق انسان بنے، اس کے لیے یادگار بھی ایسی ہو نی چاہیے جس سے اس مقصد کی تکمیل ہو، تاکہ بے عمل افراد باعمل اور خدافر اموش قوم باخدا بن جائے۔ انسان در ندوں اور جانوروں کی صفوں سے نکل کر فرشتہ خصلت بن جائے، غریبوں اور فقیروں کی خبرگیری کی جائے، مسکینوں، یتیموں پر رحم کیا جائے۔
الغرض انسان انسانیت کے اعلیٰ تر ین اخلاق واوصاف سے آراستہ ہوجائے۔ انہی مقاصد کے پیشِ نظر حق تعالیٰ نے ماہِ رمضان المبارک کے روزے فرض کردیے اور راتوں کو قیام کی سنت جاری فرمادی، تاکہ بندہ مومن اس کی راتوں میں قرآن پڑھے یا سنے، کبھی بارگاہِ عظمت وجلال کے سامنے سربسجود ہوکر، کبھی جھک کر تعظیم وتقدیس بجا لائے، کبھی کھڑے ہوکر قرآن کریم کے رقت انگیز نغموں سے دل کو گرمائے اور ﴿یَذْکُرُوْنَ اللہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ﴾وہ یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے بھی، بیٹھے بھی اور لیٹے بھی- کا پیکر بن جائے اور دنوں میں اسی قرآن پر عمل کی توفیق نصیب ہو۔ آنکھیں نیچی اور زبان کلمہ خیر کے علاوہ بند رکھے، لڑائی جھگڑے سے پر ہیز کرے، نفسانی خواہشات کے کسی تقاضے کو پورا نہ کرے، صد قہ وخیرات کرے، ہر کارِ خیر کی طرف لپکے اور اس کی بجا آوری میں دریغ نہ کرے، ہر برائی سے بچے۔ الغرض سیرت وصورت اور عمل وکردار کے لحاظ سے سر اپا فر شتہ بن جائے۔ ظاہر و باطن کی ایسی اصلاح ہوجائے کہ اس کے سر تاپا سے ظا ہر ہو کہ یہ ایک با خدا قوم کا فر دہے۔ اب آپ کے خیال میں ماہِ رمضان اور نزولِ قرآن کا باہمی تعلق واضح طور پر آگیا ہوگا۔ یہ ہے حقیقی یادگار نزولِ قرآن کریم کی !!!