قارئین! آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی جو حال ہی میں معاہدہ ہوا ہے، یہ معاہدہ نہیں،غلامی کی دستاویز ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایسی خود مختاری دی جائے گی کہ وہ پارلیمنٹ آف پاکستان کوجواب دہ نہیں ہوگا۔ گویا وہ پارلیمنٹ کو جواب دینے کے بجائے آئی ایم ایف کو جواب دہ ہو گا۔ یعنی اسٹیٹ بینک کے گورنر کی صورت میں ایک نیا وائسرائے بنا دیا گیا ہے، مانیٹری پالیسی وہ بنائے گا، انٹرسٹ ریٹ کا تعین وہ کرے گا، بھگتیں گے عوام۔ دوسرا نکتہ اس میں یہ ہے کہ آپ کو ہر ماہ چار روپے پیٹرولیم لیوی بڑھانی ہے۔ تیسرا مزید ٹیکس لگانے ہیں، سبسڈی ختم کرنی ہے، بجلی کی قیمتوں کو مزید بڑھانا ہے۔ آپ کے پا س جب بجلی کی قیمتوں کے تعین کا اختیار نہیں ہو گا، تمام نظام آئی ایم ایف کے تابع ہو گا، پارلیمنٹ ربڑاسٹمپ بن کر رہ جائے گی۔ جب آپ کے پاس یوریا کھاد کی قیمتوں کے تعین کا اختیار نہیں ہے۔ جب ٹیکس آپ کا وہ لگاتا ہے، جب اسٹیٹ بینک ان کے ہاتھ میں ہے تو یہ کہاں کی آزادی وقومی وقار ہے ؟ کہاں کی خود مختار ی ہے؟ مجھے بہت دکھ ہے کہ ایسی غلامی کی دستاویز پر حکم ران خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں کہ ہمیں ایک ارب ڈالر مل رہے ہیں۔ اس سے قبل جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ماہ اکتوبر میں وزیرخزانہ سے پوچھا تھا کہ پاکستان کے ستمبر2021ء تک غیر ملکی واندرون ملک قرضوں کے کل حجم کی الگ الگ تفصیلات کیا ہیں؟ جواب میں سینٹ میں وزارت خزانہ کی جانب سے درج ذیل تفصیلا ت مہیا کی گئیں۔
جون2018ء تک پاکستان کے اندرونی وبیرونی مجموعی قرضوں کا بوجھ 25ہزار ارب روپے تھا، جو بڑھتے ہوئے اگست2021ء میں 41 ہزار ارب روپے ہو چکے ہیں۔ وزارت خزانہ کی سینٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق حکومت قرضوں پر سود کی مد میں 7 ہزار 460 ارب روپے ادا کرچکی ہے ۔ تحریری جواب میں بتایا گیا کہ 3 سال کے دوران سود کی مد میں 50 فیصد ادائیگی کی گئی۔ اگست 1947ء سے لے کر جون2018ء تک تمام حکومتیں25 ہزار ارب روپے قرضہ کا بوجھ چھوڑ کر گئی، جب کہ اکیلے عمران خان حکومت نے صرف 3 سال کے عرصے میں قرضوں میں مجموعی طور پر 16 ہزار ارب روپے کا بوجھ لا د دیا۔ قرضوں کی یہ تفصیلات چوں کہ پاکستانی روپوں میں ہیں اور یقینا قرضوں میں اضافے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ امریکی ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی کرنسی کی انتہا درجے کی تنزلی بھی شامل ہے، لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگست 1947ء سے لے کر جولائی2018ء تک ڈالر کی قدر 125 روپے ہی ہوئی تھی، پھر نئے پاکستان میں یہ 177 روپے تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ ماضی میں ڈالر،، پاؤنڈ اور فرانک کی طرح روپیہ بھی کسی قیمتی دھات کی بنیا دپر جاری ہوا کرتا تھا۔ ڈالر کی صورت میں وہ قیمتی دھات سونا ہوتی تھی، جب کہ روپے کی صورت میں وہ چاندی ہوا کرتی تھی۔ دوسری جانب حکومت آئی ایم ایف کو ڈالر کی قسطیں ادا کرنے کے چکر میں ضروری اشیاء درآمد ہی نہیں کرتی یا تاخیر سے درآمد کرتی ہے ،خواہ وہ تیل، LNG ہو یا گندم، چینی اور دیگر اجناس، تاکہ ڈالر کو بچا کر کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کم کیا جاسکے اوربین الاقوامی سود خوروں کی قسطیں پوری کی جاسکیں۔ یوں سپلائی کی قلت قیمتوں کے بڑھنے پر منتج ہوتی ہے او رمہنگائی کا سبب بنتی ہے۔ مہنگائی میں اضافے کی تیسری بڑی وجہ توانائی (انرجی) کی قیمت میں ہو شربا اضافہ ہے،جس سے کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بجلی بنانے کے کارخانوں کی نجکاری سے انرجی انفراسٹرکچر عوامی او رملکی کنٹرول سے نکل کر چند ملٹی نیشنل سرمایہ داروں کے قابو میں آجاتا ہے، جو توانائی کی فراہمی اور اس کی قیمتوں پر بڑے حد تک اثر انداز ہوتے ہیں اورمہنگائی میں اضافے کی چوتھی بڑی او ربنیادی وجہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ٹیکس کا نظام ہے، جو بالواسطہ (ڈائریکٹ) اور بلاواسطہ(ان ڈائریکٹ) ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثر ٹیکس خصوصی طور پر بالواسطہ ٹیکس ، تمام اشیاء اور خدمات پر بالعموم لاگو کیے جاتے ہیں، جس وجہ سے اشیاء او رخدمات کی قیمتیں اپنی اصل قیمتوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال پٹرولیم مصنوعات کی اصل قیمتوں پر لاگو کیا جانے والا جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی ہیں۔ دیکھا جائے تو مہنگائی کی وجہ سے ڈالرز،سونا او رپٹرول کا کاروبار کرنے والوں کی موجیں لگ گئی ہیں، ہاؤسنگ کے کاروبار والے، مکانوں، دکانوں کے کرایوں پر نظام زندگی چلانے والے، بیرونی ممالک کی آمدن والے او رکماؤ سیٹوں پر برا جمان افراد کی آمدن بڑھ گئی ہے، موجودہ مہنگائی سے سب سے زیادہ سفید پوش ، محدود آمدن والے تنخواہ دار افراد زندہ درگور ہو چکے ہیں۔ کیوں کہ سرکاری یا نجیسیکٹرمیں آج بھی لوگوں کو 10 سے 20 روپے ہی ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے۔ وزیراعظم اورپاکستان کے ماہرین معاشیات ایک لمحے کو اگر یہ بتا دیں کہ محدود آمدن والا اپنا نظام زندگی کس طرح چلائے تو ان کی عنایت ہو گی۔