قرآن کریم و ہ بابرکت اور عظیم الشان کتاب ہے، جس کو الله تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت او رراہ نمائی کے لیے، اپنے حبیب محمد صلی الله علیہ وسلم پر نازل فرمایا، اس سے قبل بھی پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کو صحیفے اور کتابیں عطا کی گئیں، مگر قرآن کریم کو یہ امتیاز بخشا گیا کہ یہ تمام انبیائے کرام اور ان کو عطا کی جانے والی تمام کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اوران کے مضامین پرمشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ مزید باتیں اپنے اندر لیے ہوئے ہے، اس طرح قرآن کریم کو یہ عظمت بھی بخشی گئی کہ اس کے آجانے کے بعد تمام سابقہ کتابوں کے احکام منسوخ قرار پائے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے قرآنی تعلیمات ہی واجب العمل ٹھہریں کہ اب ان کو اپنا کر ہی دنیا وآخرت میں کام یابی کا حصول ممکن ہے۔
قرآن کریم کی عظمت کا یہ پہلو بھی ظاہر ہے کہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی ہدایت ونجات کا ذریعہ ہے، اس کی تعلیمات عام ہیں اور قیامت تک باقی رہنے والی ہیں، جب کہ پہلی کتابوں کے مخاطب صرف خاص طبقہ کے افراد ہوتے تھے، مزید یہ کہ قرآن کریم اپنے طرز ِ خطاب اور انداز بیان میں ایسی عجیب شان کا حامل ہے جس کی مثال ہزار ہا کوششوں کے باوجود آج تک نہ پیش کی جاسکی۔
قرآن کریم نے اپنے انکار کرنے والوں کے سامنے:﴿وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فأتوا بسورة من مثلہ﴾․ کے الفاظ میں ایسا چیلنج پیش کیا، جس کے جواب سے دنیا آج تک عاجز ہے، اگرچہ اس وقت کے ماہرین زبان جنہیں اپنی زبان دانی پر بڑاناز تھا، انہوں نے اپنی سی کوششیں کیں، مگر تھک ہار کر انہوں نے قرآن کریم کی عظمت کا اعتراف کر لیا، قرآن کریم کی عظمت وبزرگی کا اندازہ آپ کو اس وقت صحیح طرح ہو گا، جب آپ دیکھیں گے کہ خود باری تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر اس کی عظمت کا برملا اظہار کیا ہے۔
قرآن کریم سے ربط وتعلق پر خوش خبری
اس قدر بے پناہ عظمت وبزرگی کا حامل یہ لازوال کلام، جو گونا گوں افادیت اور فیض رسانی واثر انگیزی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، ہمارے خالق ومالک خدائے عزوجل کا کلام ہے او رہم لوگوں کی ہدایت ور اہ نمائی کے لیے ہمارے آقا و مولیٰ جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو عطا کیا گیا، ایک پیغام ہے، جس میں پورے عالم انسانیت کی فلاح وکام رانی کا راز مضمر ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے قلوب اس کی محبت سے لبریز ہیں، ہمارا سر اس کی عظمتوں کے سامنے سرخم کیے ہوئے اور ہمارا دل، دماغ بلکہ ہمارا رواں رواں اس کی حیرت انگیز تاثیر وتعمیر کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے، صرف اسی پر بس نہیں، بلکہ قرآن کریم سے ہمارا ایمانی رابطہ ہے، قرآن مقدس ہمارے ایمان کا حصہ اورمضبوط جزو ہے، اس پر ایمان لائے بغیر کسی کا ایمان معتبر اور قابل قبول نہیں ہو سکتا، جس طرح باری تعالیٰ، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور دیگر چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح قرآن کریم پر بھی ایمان لانا ناگزیر ہے، اس اعتبار سے قرآن کریم سے ہمارا رابطہ نہایت ہی استحکام اور مضبوطی کا متقاضی ہے۔
قرآن کریم سے ربط اور اس سے دلچسپی سر خ روئی اور سر بلندی کی ضامن ہے، جس قدر مضبوط تعلق اور محکم رشتہ ہو گا، اس قدر ہی سر بلندی اور کام یابی قدم چومے گی، اس سلسلے میں جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:” یہ بات بے غبار ہے کہ الله تعالیٰ اس کتاب ( کی برکت) سے بہتوں کو سربلندی وعظمت سے نوازتا ہے او ر (اس کی ناقدری کے سبب سے ) بہت سے لوگوں کو ذلت وپستی میں ڈال دیتا ہے۔“
قرآن کریم سے غفلت ولاپروائی کے نتائج
کلام الہٰی کے اس قدر عظم المرتبت ہونے اور گونا گوں خصوصیات کے حامل ہونے اور اس کلام سے رغبت رکھنے والوں کے لیے اس قدر انعامات کی بارش اور اس سیمنھ پھیرنے والوں کے لیے وعیدوں کی کثرت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہر مومن کا اس کلام الہٰی سے مضبوط رشتہ اور مستحکم تعلق ہوتا، ایک لمحہ بھی وہ اس سے غافل نہ ہوتا، اس کے احکام سے لاپروائی نہبرتتا، اس کی روشنی میں اپنی زندگی بسر کرتا، مگر افسوس! آج کی صورت حال یہ ہے کہ قرآن کریم کے عقیدت مند ہی اس کی حق تلفی میں مشغول ہو گئے، تلاوت میں کوتاہی کرنے لگے، ناچ گانے، فلم، ڈرامے اور مشاعرے وغیرہ میں دلچسپی لینے لگے، قرآن کریم میں غوروتدبر، تفکر وتحقیق کے بجائے ، ناول وافسانے، ماڈرن معلومات اور فحش لٹریچر کے رسیا ہو گئے، تعلیمات قرآن کریم پر عمل پیرا ہونے اور خود کو قرآن کریم کی ڈگر پر چلانے کے بجائے مغربی تہذیب و تمدن کو اپنانے او راہل مغرب کی ہر ہر طرز وادا پر فریفتہ ہوتے جارہے ہیں اورمغربی طرز کے اپنانے کو اپنے کے لیے باعث فخر ومسرت او رکام یابی کی علامت سمجھتے ہیں اور اسی کو ترقی کام نام دیتے ہیں۔
حقیقت جب کہ یہ ہے کہ قرآن کریم سے دوری اختیار کرنے کی وجہ سے ہم ذلت ورسوائی کے گڑھے میں جا پڑے ہیں، عقل ودانش نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا، نیک نامی او راقبال مندی نے ہم سے منھ موڑ لیا، زمین وآسمان سب دشمن ہو گئے، کل کا محبوب آج مبغوض بن گیا، کل کا فاتح آج کا مفتوح اور کل کا غالب آج کا مغلوب ہے۔
قرآن کریم کے حقوق
قرآن کریم سے ربط ودلچسپی اسی وقت مفید اور کار گر ہو سکتی ہے، جب ہم اس کے حقوق اس کے مطالبات کو سمجھیں او ران کو ادا کرنے کی کوشش کریں اور ہر ممکن طریقہ سے اس کو نظر انداز کرنے یا اس سے غفلت برتنے سے باز رہیں۔ روایات شریفہ اور قرآن کریم کے مطالبات کی رو سے علمائے کرام نے قرآن کریم کے چند حقوق بیان فرمائے ہیں، چناں چہ مشہور مفسر قرآن علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں:
”جیسا کہ ارشاد باری ہے:” او رکہا کافروں نے مت سنو اس قرآن کریم کو اور شور وغل مچاؤ اس کی تلاوت کے وقت“ تو کفار کا یہ عمل بھی اس کے نظر انداز کرنے کی قبیل سے ہے او راس کی تصدیق نہ کرنا، اس میں غور فکر نہ کرنا، اس کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، یہ بھی اس کو نظر انداز کرنا ہے، اس پر عمل نہ کرنا، اس کے احکام کی تابع داری نہ کرنا اور اس کے نواہی سے نہ بچنا، یہ بھی قرآن کریم کو نظر انداز کرنا ہے اور قرآن کریم کو چھوڑ کر دوسری چیز میں مشغول ہونا بھی قرآن کریم کو نظر انداز کرنا ہے، اسی طرح معاملات ونظریات، عبادات واعتقادات میں ایسا طریقہ اپنا نا جو غیر قرآن سے ماخوذ ہو، یہ بھی قرآن کریم کو نظر انداز کرنا ہے ۔“ (ابن کثیر:908، طبع ریاض)
علامہ ابن کثیر نے قرآن کریم کو نظر انداز کرنے کی صورتیں تفصیل سے بیان کی ہیں یہ تمام امور ہی درحقیقت قرآن کریم کے حقوق ہیں او راگر ان تمام امور میں غور وخوض کرکے اختصار سے کام لیا جائے تو یہ سب امور صرف چار میں سمٹ جاتے ہیں:
قرآن کریم پر ایمان لانا اصول وآداب کی رعایت کرتے ہوئے تلاوت کا اہتمام کرنا قرآن کریم میں غور وخوض اور اس کی صحیح تفسیر کا علم قرآن کریم کی تعلیمات وہدایت وپر مکمل اہتمام کے ساتھ عمل کرنا اور کسی بھی موقع پر اس سے اعراض نہ کرنا۔
موجودہ دو رمیں قرآن کریم سے ربط وتعلق نہایت ضروری
آج کے اس دور میں جس کو دورِ ترقی کا نام دیا جاتا ہے، قرآنی احکام سے غفلت وبے توجہی کے نتیجے میں ضلالت وگم راہی بہت عام ہوچکی ہے، نئے نئے فتنوں کا ایک سیل رواں ہے، جو تیزی سے بہا چلا آرہا ہے، ایک ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا فتنہ آدھمکتا ہے او رہر نیا فتنہ پرانے فتنوں کو مات دے دیتا ہے، دنیا کا کوئی شعبہ ، کوئی گوشہ خالی نہیں، جدھر بھی نظر اٹھائیے فتنے ہی فتنے نظر آئیں گے، کوئی فتنہ عقائد کو نشانہ بناتا ہے تو کوئی اسلامی احکام کے تئیں غفلت وبے توجہی پیدا کرتا ہے، کوئی فتنہ معاصی ومنکرات کو لوگوں کی نظروں میں محبوب بنا کر پیش کرتا ہے تو کوئی قرآن کریم، احادیث رسول صلی الله علیہ وسلم سے اعتماد کو اٹھاتا ہے۔
الغرض فتنے اس قدر ہیں کہ ان سے بچنا مشکل ہے اور پھر ان باطل فتنوں کی ملمع سازی اس قدر ہوشیاری سے ہوتی ہے کہ بہت سے سادہ لوح حضرات کے لیے حق اور باطل میں امتیاز مشکل ہو جاتا ہے، ایسے پُرفتن دور میں ضلالت وگم راہی سے بچنے کے لے قرآن کریم پر مضبوطی اور سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونا ضروری ہے، کیوں کہ قرآن کریم ہی وہ سچا راہ نما ہے جو کفر وضلالت کے تاریک ترین دور میں بھٹکنے سے بچاتا ہے اور باری تعالیٰ سے بندے کا رابطہ مضبوط کرتا ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
”آچکی تمہارے پاس الله کی طرف سے ایک روشنی اور ایک ایسی کتاب جو حق کو واضح کرنے والی ہے، الله تعالیٰ اس کے ذریعے اس کی رضا چاہنے والوں کو سلامتی کے راستہ بتلاتے ہیں او راپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکالتا ہے اور روشنی کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی راہ نمائی کرتا ہے۔“ (المائدہ)
آیت مذکور سے صاف طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ سے ہی الله تبارک وتعالیٰ اپنی رضا مندی کے طلب گاروں کو سلامتی کا راستہ سمجھاتے ہیں ،یعنی جن اعمال وعقائد پر نجات ملنے او رجنت میں داخلہ کا مدار ہے، ان کی تعلیم کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ رضا قرآن کریم سے ربط اور اس کے احکام کو اپنائے بغیر ناممکن ہے تو جو لوگ قرآن کریم سے ربط رکھیں گے، الله تعالیٰ ان کو ہی نجات کی راہیں بتلائیں گے، کفر وضلالت کی تاریکیوں سے ایمان کی روشنی کی طرف لائیں گے او رپھر ہمیشہ کے لیے ان کو راہ راست کی طرف راہ نمائی کرتے رہیں گے۔
مذکورہ آیت کریمہ کی روشنی میں یہ کہنا بالکل برحق ہو گا کہ موجودہ دور میں گم راہی اور ظلمت کی کثرت صرف اور صرف قرآن کریم کے حقوق سے غفلت وبے توجہی کے سبب ہے، اگر یہ کمی دور ہو جائے فوراً گم راہی کے بادل چھٹ جائیں، کیوں کہ قرآن کریم سے ربط رکھنے والا کبھی گم راہی سے دور چار نہیں ہوسکتا ۔
”حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے مرسلاً مروی ہے، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم لوگوں کے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے ہرگز گم راہ نہیں ہوسکتے، ان میں سے ایک کتاب الله اور دوسری رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے۔“(مشکوٰة)