ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
﴿إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَمَاتُوا وَہُمْ کُفَّارٌ فَلَن یُقْبَلَ مِنْ أَحَدِہِم مِّلْء ُ الْأَرْضِ ذَہَبًا وَلَوِ افْتَدَیٰ بِہِ أُولَٰئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِینَ﴾․(سورہ آل عمران، آیت:91)
جو لوگ کافر ہوئے اور مر گئے کافر ہی تو ہر گز قبول نہ ہو گا، کسی ایسے سے زمین بھر کر سونا اور اگرچہ بدلادیوے اس قدر سونا، ان کو عذاب درد ناک ہے اور کوئی نہیں ان کا مددگار ۔
ربط…گذشتہ آیتوں میں ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے والوں کے انجام کا تذکرہ تھا اور اس آیت میں اصلی کفار کے انجام کا تذکرہ ہے۔
تفسیرکفار کا کوئی صدقہ قابلِ قبول نہ ہوگا
جو لوگ کفر پر قائم رہے اور اسی حالت میں انتقال کر گئے ان کے لیے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا عذاب ہے، نہ ان کا کوئی مدد گار ہو گا، نہ ان کے حق میں کسی کی شفاعت قبول ہوگی، اگر دنیا میں انہوں نے زمین بھر بھر کر سونا بھی اللہ کی راہ میں لُٹایا ہو گا، تو وہ بارگاہ الہی میں مقبول نہ ہوگا،کیوں کہ ایمان او ر توحید کے بغیر کوئی نیکی بھی شرف ِ قبولیت نہیں پا سکتی، چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبداللہ بن جدعان کے متعلق سوال کیا گیا جو مہمان کی میزبانی کرتا تھا، قیدی کو چھڑاتا تھا، بھوکے کو کھانا کھلاتا تھا… کیا یہ اعمال اس کو نفع دیں گے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا:نہیں کیوں کہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا:اے میرے رب! روزِ حساب میں میرے گناہوں کی مغفرت فرما ۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث:214)کیوں کہ اس کا عقیدہ قیامت اور سزاو جزا پر نہیں تھا۔
﴿وَلَوِ افْتَدَیٰ بِہِ﴾یہاں واؤ عطف کے لیے ہے، یعنی جس طرح دنیا میں کیا ہوا صدقہ قابلِ قبول نہیں ہو گا ،اسی طرح یوم حشر میں اگر اسے سونے کا مالک بنا دیا جائے اور یہ کافر زمین سونے سے بھر بھر کر فدیہ ادا کر کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے تو بھی چھٹکارا نہ پا سکے گا، نجات کی ہر صورت سے نا امید ہو گا، حضر ت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دوزخی سے قیامت کے دن کہا جائے گا، اگر ساری دنیا تیرے لیے ہو تو اسے فدیہ میں دے کر اپنی جان جہنم سے چھڑاؤ گے؟ وہ کہے گا ہاں! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں تو اس سے بھی آسان امر تم سے چاہتا تھا، تمہارے والد آدم کی پیٹھ میں تم سے اقرار لیا تھا کہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، مگر تم نے نہ مانا اور شرک کا ارتکاب کر ہی لیا(صحیح بخاری، رقم الحدیث:3334) (اب سونا بھر زمین فدیے میں بھی دو تو قبول نہ ہوگا)۔
﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّیٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَیْء ٍ فَإِنَّ اللَّہَ بِہِ عَلِیمٌ ﴾․(سورہ آل عمران، آیت:92)
ہر گز نہ حاصل کر سکو گے نیکی میں کمال، جب تک نہ خرچ کرو اپنی پیاری چیز سے کچھ اور جو چیز خرچ کرو گے سو اللہ کو معلوم ہے ۔
ربط…اوپر بیان ہوا تھا کہ کفار کا فدیہ انہیں کوئی فائدہ نہ دے سکے گا، البتہ مسلمان کا دنیا میں کیا ہوا صدقہ آخرت میں نفع دے گا، اس میں اشارہ ہے کفار کے لیے اگر وہ اپنے مال سے آخرت کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو دنیا میں ایمان لا کر اللہ کی راہ میں مال خرچ کریں۔
تفسیرعزیز ترین چیز راہ الہٰی میں خرچ کرنا
﴿الْبِرَّ﴾نیکی کو کہتے ہیں، یہاں مطلب یہ ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کے حقیقی درجے تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز اللہ تعالیٰ کے راہ میں خرچ نہ کرو، کسی کے لیے عزیز ترین چیز صرف کرنا اس سے کمال تعلق اور کمالِ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
یہاں اِنفاق(خرچ کرنے سے) کون سا خرچ مراد ہے؟
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ،حسن، ضحاک رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک زکوة کا خرچ مراد ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک صدقات کے سارے باب ”انفاق“کے ماتحت آجاتے ہیں۔ (زاد المسیر، اٰل عمران:ذیل آیت:92) علامہ بیضاوی فرماتے ہیں، انفاق کا تعلق صرف مال کے ساتھ نہیں، بلکہ عزت و جاہ وغیرہ کو رضائے الہٰی کے لیے قربان کرنا بھی اسی انفاق میں داخل ہے۔(تفسیر البیضاوی، اٰل عمران:زیل آیت:92)۔
خلاصہ یہ ہے کہ انفاق کا ادنیٰ درجہ زکوة اور صدقات واجبہ کی ادائیگی ہے، اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اللہ کے دین کے لیے مال دولت ، عزت وحکومت، قوت و طاقت، علم و فن کی تمام صلاحیتوں کوبروئے کار لایا جائے۔
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ایک مال دار صحابی تھے، مسجد کے سامنے آپ کا باغ تھا، جس میں گاہ بگاہ آپ علیہ السلام تشریف لے جاتے اور اس کا پانی پیا کرتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرا سب سے پیارا اور قیمتی مال یہی باغ ہے، میں یہ راہ الہی میں خرچ کرتا ہوں، آپ جس میں چاہیں تقسیم فرما دیں۔ آپ علیہ السلام یہ سن کر بہت خوش ہوئے، فرمایا اسے اپنے قریبی اعزہ میں تقسیم کردو، چناں چہ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:2764)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:یا رسول اللہ:مجھے خیبر کی زمین بہت مرغوب ہے، میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس کی اصل روک لو اور پھل وغیرہ پیداوار اللہ کے لیے وقف کردو۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:2764)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے یہ آیت پڑھ کر سوچا تو مجھے اپنی رومی لونڈی سے زیادہ کوئی محبوب چیز نظر نہیں آئی، چناں چہ میں نے اسے اللہ تعالیٰ کے نام پر آزاد کر دیا، اب تک میرے دل میں اس کی ایسی محبت ہے کہ اگر کسی چیز کو خدا کے نام پر دے کر لوٹانا جائز ہوتا تو میں کم ازکم اس سے نکاح کرلیتا۔(تفسیر ابن کثیر، اٰل عمران ذیل آیت:92)
﴿ کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِی إِسْرَائِیلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَیٰ نَفْسِہِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوہَا إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ،فَمَنِ افْتَرَیٰ عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ مِن بَعْدِ ذَٰلِکَ فَأُولَٰئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ﴾․(سورہ آل عمران، آیت:94-93)
سب کھانے کی چیزیں حلال تھیں بنی اسرائیل کو، مگر وہ جو حرام کر لی تھی اسرائیل نے اپنے اوپر، توریت نازل ہونے سے پہلے، توکہہ لاؤ توریت اور پڑھو اگر سچے ہو، پھر جو کوئی جوڑے اللہ پر جھوٹ، اس کے بعد تو وہی ہیں بڑے بے انصاف۔
ربط…اوپر کی آیتوں میں اہل کتاب سے بحث مباحثہ چلتا آرہا ہے، کبھی یہود سے کبھی نصاری اور کہیں دونوں سے ،یہاں یہود سے ایک مباحثہ کا ذکر ہے۔
تفسیرحلال و حرام کے متعلق یہود کا جھوٹا دعویٰ
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلائل کی روشنی میں یہود یوں پر واضح کر دیا کہ اہل ایمان ہی ملت ابراہیمی کے حقیقی فرزند ہیں، کیوں کہ وہی اصولِ دین میں کامل طور پر اور فروع دین میں اکثری طور پر دین ابراہیمی کے پیروکار ہیں، لہٰذا ملت ابراہیمی کے حقیقی پیروکار اہل اسلام کہلائیں گے، نہ کہ یہود ،اس پر یہود کا اعتراض ہوا اگر آپ دین ابراہیمی کی پیروکاری کا دعوی کرتے ہیں تو پھر اونٹ کا گوشت اور دودھ کیوں استعمال کرتے ہیں؟ کیوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت میں یہ چیزیں حرام ہیں، ان آیات میں یہود کے اس جھوٹے دعوے کو چیلنج کیا گیا، کیا ان چیزوں کے حرام ہونے کی تصدیق تورات و انجیل کی آیت اور مضمون سے ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر ہوتی ہے تو وہ آیت اور مضمون دکھاؤ۔
حقیقت یہ ہے کہ ابتدا میں یہ سب چیزیں حلال تھیں اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے زمانے میں یہ چیزیں حلال ہی رہیں، پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے کسی مرض کی وجہ سے یہ نذر مانی تھی، اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا عطا فرمائی تو اپنا محبوب کھانا ترک کر دوں گا، چناں چہ شفا ملنے پر اونٹ کا گوشت اور دودھ ترک فرمادیا، (بنی اسرائیل کی شریعت میں نذر ماننے سے حلال چیز حرام ہو جاتی تھی) آپ کے ترک سے بنی اسرائیل نے بھی یہ چیزیں کھانی چھوڑ دیں اور انہیں حرام جان لیا، حالاں کہ یہ حلال تھیں،پھر تورات میں اسے اور دیگر اشیاء کو حرام قرار دیا گیا، جس کا تذکرہ سورة الانعام میں ہے، اس لیے (من قبل أن تنزل التورة) فرمایا گیا، لہٰذا ابتدا سے اس کے حرام ہونے کا دعویٰ جھوٹا ہے۔(تفسیر ابن کثیر:اٰل عمران ذیل آیت رقم:93)
شریعت محمدیہ میں حلال چیزوں کو حرام کرنے کا حکم
بنی اسرائیل کی شریعت میں نذر ماننے سے حلال چیزیں حرام ہو جاتی تھیں، لیکن شریعت محمدیہ میں نذر ماننے سے مباح عمل واجب ہوجاتا ہے، البتہ اگر کسی شخص نے حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی نذر مانی تو وہ قسم بن جاتی ہے ، وہ چیزیں حلال ہی رہتی ہیں اور قسم کا کفارہ دینا پڑتاہے۔
احکام الٰہی میں نسخ کے انکار پر یہود کو تنبیہ
اس سے قبل آیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کی شخصیت اور ان کی پیدائش کا صحیح واقعہ بیان کر کے نصاری پر رد کیا گیا تھا، ان آیات میں یہود پر رد کیا گیا ہے، یہود خود کو احکام تورات کا خود کو بڑا پابند سمجھتے تھے، جب حضرت مسیح علیہ السلام نے تورات کے بعض فقہی احکام کو بحکم الہی منسوخ فرمایا تو یہ بگڑ گئے اور دعویٰ کیا کہ احکام الہی میں نسخ نہیں ہوتا ،اس باطل عقیدے پر انہیں تنبیہ کی گئی، ان کی کتاب میں صاف لفظوں میں مذکور ہے۔
جب نوح علیہ السلام کشتی سے خشکی پر اترے تو ان کے لیے تمام جانوروں کا کھانا حلال تھا، پھر یعقوب علیہ السلام نے اونٹ کا گوشت اور دودھ اپنے اوپر حرام کر لیا اور ان کی اولاد بھی اس کی اتباع میں اسے حرام سمجھتی رہی، چناں چہ پھر تورات میں بھی اس کی حرمت نازل ہو گئی، اسی طرح اور بہت سی چیزیں حرام کی گئیں، یہ نسخ نہیں تو اور کیا ہے؟ حضرت آدم علیہ السلام کی صلبی اولاد میں بہن بھائیوں میں نکاح پہلے جائز تھا،بعد میں منع کر دیا گیا، بیوی پر لونڈی لانا شریعت ابراہیمی میں حلال تھا، خود حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہاباندی کو لے آئے تھے، لیکن تورات میں اس سے روک دیا گیا، دوبہنوں کو بیک وقت ایک آدمی کے نکاح میں رکھنا حضرت یعقوب علیہ السلام کے زمانے تک جائز تھا، بلکہ خود حضرت یعقوب علیہ السلام کے نکاح میں بیک وقت دو سگی بہنیں تھیں، لیکن پھر تورات میں اسے حرام قرار دیا گیا ، اسی کو تو نسخ کہتے ہیں، نسخ کی مثالیں اپنی کتاب میں دیکھنے اور پڑھنے کے باوجود، یہود نسخ کا انکار کر کے، حضرت مسیح علیہ السلام اور انجیل کی تعلیمات کا انکار کرتے چلے آئے ہیں۔
یہی رویہ ان کا شریعت محمدیہ کے ساتھ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا ثبوت دلائل و براہین سے واضح ہو چکا ہے، ان پر ایمان لانے کی بجائے اس ہٹ دھرمی پر قائم ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے صرف احکامات کا پابند بنایا ہے، اگر صرف احکامات تورات کے پابند ہوں تو پھر لاؤتورات، دکھاؤ کہاں لکھا ہے کہ ابتدا سے اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام تھا؟ نیز کہاں لکھا ہے کہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و شریعت پرایمان نہ لانا، بلکہ تورات کے احکامات کا پابند رہنا؟(ملخض از تفسیر ابن کثیر:اٰل عمران،ذیل آیت:93)
﴿قُلْ صَدَقَ اللَّہُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاہِیمَ حَنِیفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ﴾․(آل عمران، آیت:95)
تو کہہ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے، اب تابع ہو جاؤ دینِ ابراہیم کے، جو ایک ہی کا ہو رہا تھا اور نہ تھا شرک کرنے والا۔
ربط و تفسیر
یہود نے حلت و حرمت کے متعلق جو جھوٹا دعوی کیا تھا، اس کی قلعی کھلنے کے بعد انہیں ملت ابراہیمی، یعنی اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے، نیز بدعتی اعمال اور شرکیہ افعال کو دین ابراہیمی کا حصہ بنانے پر تنبیہ کی جا رہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شرک سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا، ان کے نام لیوا پھر اس میں کیوں مبتلا ہیں؟!
﴿إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّةَ مُبَارَکًا وَہُدًی لِّلْعَالَمِینَ، فِیہِ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیمَ وَمَن دَخَلَہُ کَانَ آمِنًا وَلِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ﴾․(آل عمران، آیت:97-96)
بے شک سب سے پہلا گھر جو مقرر ہوا لوگوں کے واسطے یہی ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور ہدایت جہاں کے لوگوں کو۔اس میں نشانیاں ہیں ظاہر، جیسے مقامِ ابراہیم اور جو اس کے اندر آیا اس کو امن ملا اور اللہ کا حق ہے، لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف چلنے کی اور جو نہ مانے تو پھر اللہ پروا نہیں رکھتا جہاں کے لوگوں کی۔
ربط…یہود بیت المقدس کو بیت اللہ سے افضل قرار دیتے اور مسلمان بیت اللہ کو بیت المقدس سے، ان آیات میں مسلمانوں کو حق بجانب قرار دے کر اس کی وجہ بتائی گئی۔
بیت اللہ سب سے پہلی عبادت گاہ
﴿إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ…﴾خانہ کعبہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے، جس کی پہلی تعمیر حضرت آدم علیہ لسلام کے دستِ مبارک سے ہوئی تھی،مرورِزمانہ اور حوادث کے نتیجے میں اس کے آثار مٹ گئے تھے، تا آنکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بذریعہ وحی اس کی بنیادوں کی نشان دہی کی گئی اور پھر آپ نے اس کی تعمیر فرمائی، حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آپ علیہ السلام سے پوچھا سب سے پہلی مسجد زمین پر کون سی بنائی گئی؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا،مسجد حرام۔( التفسیر الکبیر،اٰل عمران، ذیل آیت: 96)
آیتِ کریمہ میں مکہّ کو بکہّ فرمایا گیا، لفظ باء اور میم ، متقارب المخرج ہیں اور عربی قاعدے کے مطابق متقارب المخرج حروف ایک دوسرے کی جگہ میں استعمال ہوتے رہتے ہیں، جیسے ”لازم“کی جگہ لازب اور ”راتب“کی جگہ ”راتم“اسی قاعدے کی رو سے ”مکہ “کی جگہ ”بکہّ“ استعمال ہوا ہے۔(التفسیر الکبیر، اٰل عمران ذیل آیت:97)
بیت اللہ کے افضل ہونے کی وجوہات
﴿إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ…﴾بیت اللہ کے افضل ہونے کی پہلی وجہ تویہ ہے کہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے،اس کی اولین تعمیرحضرت آدم علیہ السلام نے فرمائی، طوفا ن نوح علیہ السلام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دستِ مبارک کے ذریعے اسے قیام بخشا گیا، بیت المقدس کا وجود حضرت سلیمان کے دستِ مبارک سے کئی سالوں بعد آیا،حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حضرت سلیمان علیہ السلام سے افضل ہونا ایک ثابت شدہ امرہے،جس پر کسی کا اختلاف نہیں، افضیلت کی یہی نسبت ان کے ہاتھوں سے تعمیر پانے والی عبادت گاہوں کی بھی ہے۔
﴿فِیہِ آیَاتٌ بَیِّنَات…﴾افضیلت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ اللہ کی طرف سے کئی ظاہری اور باطنی نشانیوں کا مظہر ہے، اس میں ایک نشانی مقام ابراہیم ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس پتھر پر کھڑے ہو کر کعبہ کی دیواریں اٹھائی تھیں، اس پر قدرت خداوندی سے آپ علیہ السلام کا قدم مبارک نقش ثبت ہو گیا، وہ نقش آج تک محفوظ ہے اور کعبہ کی جوار میں رکھا ہوا ہے، یہ نقش آپ کی مخلصانہ جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے، اسے مقامِ ابراہیم کہتے ہیں، اس نقش کا ثبت ہونا اور آج تک محفوظ رہنا، قدرتِ خداوندی کی کھلی نشانی ہے اور بعض علماء کے نزدیک مقامِ ابراہیم سے امور حج مراد ہیں۔(تفسیر الکبیر، اٰل عمران،ذیل آیت:97)
﴿ وَمَن دَخَلَہُ کَانَ آمِنًا﴾اس کی افضیلت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس خانہ کعبہ کا حج کرنا ہر صاحب ِاستطاعت مسلمان پر فرض ہے، چند مخصوص دنوں میں مخصوص اعمال طواف، سعی، رمی، وقوفِ عرفہ، حلق، قربانی کرنا اسی مکان بیت اللہ کی خصوصیت ہے، دنیا کی کوئی عبادت گاہ ان خصوصیات کی حامل نہیں۔
حج کے واجب ہونے کی شرائط
اسلام،حج کی فرضیت کا علم ہونا،لیکن جو مسلمانوں کے ملک میں رہتا ہو اس کے لیے حج کی فرضیت کا علم ہونا شرط نہیں ،بلکہ دارالاسلام میں ہونا کافی ہے، یہ شرط اس شخص کے لیے ہے جو دارالحربمیں مقیم ہو اور اس فرض سے نابلد ہو۔عاقل ہو، پاگل پر حج فرض نہیں، بالغ ہونا، آزاد ہونا، استطاعت و قدرت ہونا۔
حج کی ادائیگی کے لیے شرط یہ ہے کہ تن درست ہونا، یعنی کسی ایسی بیماری سے محفوظ ہونا جو حج کی استطاعت ختم کر دے، حاکم شہر کی طرف سے کسی طرح کی ممانعت نہ ہو،راستہ پرامن ہو۔( تبیین الحقائق شرح الکنز،کتاب الحج:2/234)
استطاعت اور سبیل سے کیا مراد ہے؟
استطاعت سے کیا مراد ہے؟بدنی، مالی یا دونوں؟ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بدنی استطاعت مراد ہے، لہذا جو شخص وہاں تک چلنے اور راستے میں کسب معاش پر قادر ہو اس پر حج لازم ہے، امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک مالی استطاعت مراد ہے، اما م اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مالی اور بدنی دونوں طرح کی استطاعت مراد ہے، یعنی زادِ راہ بھی ہو اور جسمانی طاقت بھی ، تب حج فرض ہوتا ہے۔(روح المعانی، اٰل عمران، زیل آیت: 97)
فقہاء کا استدلالامر تکرار کا فائدہ نہیں دیتا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے لوگو! تمہارے اوپر حج فرض کر دیا گیا ہے ، پس حج کرو، (حج ادا کرنے کا امر فرمایا)ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ!ہر سال حج کرنا فرض ہے؟ آپ علیہ السلام خاموش رہے، یہاں تک کہ پوچھنے والے نے تین مرتبہ اپنا سوال دہرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج واجب ہو جاتا، پھر فرمایا: جس چیز کے متعلق میں خاموش رہوں تم اس چیز کے متعلق قیل قال نہ کرو، تم سے پہلی امتیں اپنے انبیاء علیہم السلام سے کثرت سوال اور کثرت اختلاف کی وجہ سے برباد ہو گئیں، جس چیز کے متعلق امر دوں اسے بجا لاؤاور جب کسی چیز سے روکوں تو اس سے رک جاؤ(سنن النسائی رقم الحدیث:2620)۔
ان احادیث کی بناء پر فقہاء نے استدلال کیا کہ امر دو وجہ سے تکرار کا فائدہ نہیں دیتا، پہلی وجہ آپ علیہ السلام نے حج کا حکم فرمایا،لیکن اس میں تکرار کا ذکر نہیں،جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ایک بار اس پر عمل کر لینے سے فرض ادا ہو جاتا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ علیہ السلام کے حکم (امر) سے تکرارکا حکم نہیں سمجھا،حالاں کہ وہ لغت کے ماہر تھے، اگر وہ تکرار کا حکم سمجھتے تو آپ علیہ السلام سے سوال کرنے کی نوبت نہ آتی۔