اسلام کی بنیاد توحید اور آخرت کے علاوہ جس اساسی عقیدے پر ہے، وہ یہ ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کا نبی نہیں بن سکتا اور نہ آپ کے بعد کسی پر وحی آسکتی ہے اور نہ ایسا الہام جو دین میں حجت ہو۔ اسلام کا یہی عقیدہ ”عقیدہ ختم نبوت“ کے نام سے معروف ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کسی ادنیٰ اختلاف کے بغیر اس عقیدے کو جزو ایمان قرار دیتی آئی ہے۔ قرآن کریم کی بلا مبالغہ بیسیوں آیات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں احادیث اس کی شاہد ہیں۔ یہ مسئلہ قطعی طور پر مسلّم اور طے شدہ ہے اور اس موضوع پر بے شمار مفصل کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔
یہاں ان تمام آیات اور احادیث کو نقل کرنا غیر ضروری بھی ہے اور موجب تطویل بھی، البتہ یہاں جس چیز کی طرف بطور خاص توجہ دلانا ہے وہ یہ ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدہ ختم نبوت کی سینکڑوں مرتبہ تو ضیح کے ساتھ یہ پیشگی خبر بھی دی تھی کہ:
”لا تقوم الساعة حتی یبعث دجالون کذابون قریباً من ثلاثین، کلھم یزعم انہ رسول اللّٰہ․“(صحیح بخاری:2/1054، کتاب الفتن اور صحیح مسلم:2/397، کتاب الفتن)
ترجمہ:” قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تیس کے لگ بھگ دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں، جن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ الله کا رسول ہے۔“
نیز ارشاد فرمایا تھا کہ :”أنہ سیکون في امتي کذابون ثلاثون کلھم، یزعم انہ نبي، وانا خاتم النبیین، لا نبی بعدي“․ (ابوداؤد:2/234، باب الفتن اور ترمذی:2/45، ابواب الفتن)
ترجمہ:” قریب ہے کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں،حالاں کہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔“
اس حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے بعد پیدا ہونے والے مدعیان نبوت کے لیے ”دجال“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس کے لفظی معنی ہیں ”شدید دھوکا باز“ اس لفظ کے ذریعے سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے پوری امت کو خبردار فرمایا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد جو مدعیان ِ نبوت پیدا ہوں گے وہ کھلے لفظوں میں اسلام سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے بجائے دجل وفریب سے کام لیں گے او راپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے نبوت کا دعویٰ کریں گے اور ا س مقصد کے لیے امت کے مسلمہ عقائد میں ایسی کتر بیونت کی کوشش کریں گے جو بعض ناواقفوں کو دھوکے میں ڈال سکے۔ اس دھوکے سے بچنے کے لیے امت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ میں خاتم النبیین ہوں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ (قادیانی فتنہ او رملت اسلامیہ کا موقف ،ص:33-32)
لیکن تاریخ انسانی نے جہاں اور بہت سارے فتنے دیکھے ان میں ایک شدید ترین فتنہ مرزا قادیانی کی بدترین شکل میں ظاہر ہوا ، جس نے مختلف وقتوں میں اپنے لیے مختلف جھوٹے دعوے کیے، یعنی 1880ء میں ملہم من الله ہونے کا دعوی کیا۔1882ء میں مجدد ہونے کا دعویٰ کیا،1891ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا،1899، میں ظلی بروزی نبوت کا دعوی کیا اور 1901ء میں مستقل صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کے علاوہ بھی مرزا قادیانی کے عجیب وغریب دعوے ریکارڈ پر موجود ہیں۔(دیکھیں کتاب آئینہ قادیانیت،ص:199)
مرزا قادیانی نے (معاذ الله) اپنے لیے نبوت کا دعوی کن کن الفاظ میں کیا، اس کی ایک جھلک آپ مرزا قادیانی کے اس خط میں دیکھ سکتے ہیں جو اس نے 23/مئی 1908ء کو ”اخبار عام“ کو لکھا تھا۔ مرزا قادیانی لکھتا ہے :
”میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں او راگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہو گا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیوں کر انکار کرسکتا ہوں؟ میں اس پر قائم ہوں اُس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں۔“ (اخبار عام،26/ مئی 1908ء منقول از حقیقة النبوة مرزا محمود ص:271، ومباحثہ راولپنڈی، ص:136، انوار العلوم،ج2ص:581)
مرزا قادیانی کا یہ آخری خط تین دن بعد 26/ مئی1908ء کو اخبار عام میں شائع ہوا اور ٹھیک اسی دن مرزا قادیانی ہیضہ کی موت کو گلے لگا کر اپنے عبرت ناک انجام کی طرف روانہ ہو گیا، اپنی موت سے پہلے مرزا قادیانی اپنے ماننے والے مرزائیوں کو مسلمانوں کے بارے میں یہ حکم بھی دے گیا تھا جس کو اس کے بیٹے مرزا محمود خلیفہ قادیان نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ :
”حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( مرزا قادیانی) کے منھ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے۔ آپ نے فرمایا: الله تعالیٰ کی ذات، رسول کریم صلی الله علیہ وسلم، قرآن ، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، غرض کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے ۔“ (خطبہٴ جمعہ مرزا محمود خلیفہ قادیان، الفضل قادیان30/ جولائی1931ء،ج19، نمبر13)
”حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے فرمایا ہے کہ ان کا (یعنی مسلمانوں کا) اسلام اور ہے او رہمارا (یعنی قادیانیوں کا) اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور، ہمارا حج اور ہے ان کا حج اور، اسی طرح ان سے (مسلمانوں سے) ہر بات میں اختلاف ہے۔“ (الفضل قادیان،21/1917ء، ج5، نمبر15،ص:8، کالم:1)
یہی وجہ ہے کہ 1974ء میں قومی اسمبلی میں قادیانیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے، اس وقت کے اٹارنی جنرل آف پاکستان یحییٰ بختیار صاحب کو یہ کہنا پڑا کہ :
”مزید یہ کہ میں نے مرزا ناصر احمد سے علیحدگی پسندگی کا رجحان رکھنے کے متعلق باربار سوال کیا۔ وجہ یہ تھی کہ میں اسے پورا پورا موقع دینا چاہتا تھا کہ وہ واضح کرے کہ احمدیوں یا قادیانیوں میں اس قسم کا کوئی رجحان نہیں ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ احمدیوں کے ہاں ایک متوازی نظام موجود ہے۔ بعینہ اسی طرح جیسا کہ عیسائیت اور اسلام میں ہے۔ احمدیت کا اسلام کے مقابلے میں متوازی نظام موجود ہے اور یہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ مرزا صاحب اپنی ایک الگ امت بنارہے تھے۔ اس کی ایک اور مثال ہے۔1901ء میں مرزا صاحب نے اپنے پیروکاروں کو مردم شماری میں ایک الگ فرقہ کے طور پر رجسٹر کروانے کا حکم دیا، جو کہ اپنے آپ کو”احمدی مسلم“ کہتے تھے۔ جناب والا! مرزا بشیر الدین محمود احمد نے کہا تھا اور یہ بات میں نے مرزا ناصر احمد کو بطور حوالہ پیش کی تھی کہ :”ہمارا الله، ہمارا نبی، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا حج، ہمارا روزہ، ہماری زکوٰة… غرض ہماری ہر چیز دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہے ۔“ (اٹارنی جنرل آف پاکستان یحییٰ بختیار کا بیان، ص: 81-80)
مرزا قادیانی اور اس کے خلیفوں کا خود کو معاشرتی او رمذہبی حیثیت سے اہل اسلام سے علیحدہ ایک گروہ اور فرقہ بتانا، اس لیے بھی ضروری تھا کہ سرکار انگریزی کے زیر سایہ پروان چڑھنے والا’ خود کاشتہ پودا“ مرزا قادیانی اور اس کے خلیفے او رماننے والے جانتے تھے کہ وہ کبھی بھی مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کے دعوؤں اور خلیفہ کی حیثیت سے اپنے خود ساختہ الہاموں کے ساتھ مسلم ماحول اور معاشرے میں رہ نہ پائیں گے، یہی وجہ ہے کہ قادیانیت آج بھی مسلمانوں کو دھوکادینے کے لیے اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتے۔ مرزا بشیر الدین محمود نے ہندوستان کی تقسیم کے وقت اپنے انگریز آقاؤں سے یہ تقاضا اور مطالبہ کر دیا تھا کہ ان کو (عیسائیوں اور پارسیوں کی طرح) مسلمانوں سے علیحدہ تسلیم کیا جائے۔
چناں چہ مرزا بشیر الدین محمود کہتا ہے کہ:
”میں نے اپنے نمائندے کی معرفت ایک بڑے ذمہ دار انگریز افسر کو کہلوا بھیجا کہ پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ہمارے حقوق بھی تسلیم کیے جائیں۔ جس پر اس نے کہا کہ وہ تو اقلیت ہیں اور تم ایک مذہبی فرقہ ہو، اس پر میں نے کہا کہ پارسی اور عیسائی بھی تو مذہبی فرقہ ہیں، جس طرح ان کے حقوق علیحدہ تسلیم کیے گئے ہیں، اسی طرح ہمارے بھی کیے جائیں۔ تم ایک پارسی پیش کر دو، اس کے مقابلے میں دو دو احمدی پیش کرتا جاؤں گا۔“ (مرزا بشیر الدین محمود کا بیان مندرجہ الفضل قادیان:13/نومبر1964)
مرزا بشیر الدین محمود کے مذکورہ بالا الفاظ میں مرزا قادیانی اور اس کے ماننے والوں کی وہ دیرینہ خواہش تھی، جس کی سرکاری سطح پر 7/ستمبر1974ء کے دن پاکستان کی قومی اسمبلی کے ذریعہبڑی آن بان اورشان کے ساتھ پورا کر دیا گیا تھا اور قادیانیت کے ناسور کو اسلام او راہل ِ اسلام کے پاکیزہ وجود سے علیحدہ کرکے عیسائیوں، ہندوؤں، سکھوں، پارسیوں اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح غیر مسلم اقلیت قرار دے کر قانون میں باقاعدہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا گیا، جیسا کہ قادیانیوں کا خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود بھی اپنے او راپنی جماعت کے لیے مسلمانوں سے علیحدہ شناخت اور اقلیت ہونا چاہتا تھا، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قادیانیت کے مطالبہ پر جب ان کو اہل اسلام نے علیحدہ شناخت دے کر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اہل اسلام کی جانب سے اس احسان مندی کے جواب میں قادیانی قوم آج بھی دنیا بھر کے مسلمانوں، خصوصاً پاکستان کے مسلمانوں، علمائے کرام اور وجود پاکستان کو مرزا قادیانی کی زبان استعمال کرتے ہوئے بدترین گالیاں دیتے اور سازشیں کرتے نظر آتے ہیں۔ دعا ہے کہ الله سبحانہ وتعالیٰ قادیانی قوم کو عقل اور ہدایت نصیب فرمائے، آمین ثم آمین۔وما توفیقی الا بالله․