ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی
حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا، وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ
﴾․ (سورة الاعلی، آیت:17-16)․
وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم :”کونوا أبناء الآخرة ولا تکونوا أبناء الدنیا
․ (المعجم الکبیر للطبراني، شداد بن اوس الأنصار، رقم الحدیث:7158)
وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: حب الدنیا رأس کل خطیئة․ ( جامع الأصول في أحادیث الرسول، الکتاب الثالث في ذم الدنیا، الفصل الاول، رقم الحدیث
:2603)
صدق الله العظیم وصدق رسولہ النبی الکریم․
میرے محترم بھائیو ،بزرگو اور دوستو! الله تعالیٰ کا فرمان ہے: اے لوگو! تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، ﴿وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ
﴾ حالاں کہ آخرت بہترین بھی ہے او رہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی بھی ہے۔
سرور کائنات، مخبر صادق صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو خطاب فرماکر ارشاد فرمایا:”کونوا أبناء الآخرة
“ آخرت کے بیٹے بن جاؤ، یعنی آخرت والے بن جاؤ، ”ولا تکونوا أبناء الدنیا
“ دنیاکے بیٹے مت بنو، دنیا والے مت بنو۔
ایسے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”حب الدنیا رأس کل خطیئة
“ دنیا کی محبت تمام خطاؤں، تمام خرابیوں،تمام گناہوں کی جڑ ہے۔
میرے دوستو! میں اور آپ اسی دنیا میں رہتے ہیں، دنیا کی عمر کا بہت بڑا حصہ گزر گیا ہے۔ تھوڑا حصہ باقی ہے، یہ اپنے اختتام کی طرف ہے، جیسے ایک آدمی ہے، اس کی عمر اسی سال ہے، پچاسی سال ہے، نوے سال ہے تو کیا کہتے ہیں کہ اس کی زندگی کا بڑا حصہ گزر گیا ہے، اب پتہ نہیں ایک مہینہ باقی ہے، چھ مہینے باقی ہیں، سال باقی ہے، کچھ پتہ نہیں، ایسے ہی اس دنیا کا بڑا حصہ گزر چکا ہے ،اس کی عمر ختم ہونے والی ہے۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری آمد بحیثیت امام الانبیاء، سید الرسل، خاتم النبیین، یہ بھی قیامت کی علامتوں میں سے ایک بہت بڑی علامت ہے کہ اب قیامت آرہی ہے، اب یہ دنیا ختم ہونے والی ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے دونوں انگلیاں ظاہر کرکے فرمایا کہ دیکھو! ان دونوں میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے، ایسے ہی میرے اور قیامت کے درمیان بس اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا ان دو انگلیوں میں فاصلہ ہے۔ ”قال رسول الله علیہ وسلم: بعثت أنا والساعة کھذہ من ھذہ أو کھاتین وقرن بین السبابة والوسطی․
“ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الطلاق، باب اللعان، رقم الحدیث:5301، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب الجمعة، باب تخفیف الصلاة والخطبة، رقم :2005، وسنن الترمذي، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی الله علیہ وسلم: بعثت أنا والساعة کھاتین، رقم الحدیث:2214)
میں عر ض کر رہا تھا کہ ہم بھی دنیا میں رہتے ہیں اور الحمدلله ثم الحمدلله یہ الله تعالیٰ کا فضل ہے، اس کا کرم ہے، احسان ہے کہ الله تعالیٰ نے ہمیں بغیر کسی عرضی، بغیر کسی درخواست اور بغیر کسی مطالبے کے اپنے فضل سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا، یہ الله کا فضل ہے۔ اس کا احسان ہے ۔( الله تبارک وتعالیٰ نے امت محمدیہ کو ایسی فضیلت عطا فرمائی ہے کہ انبیاء نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا امتی ہونے کی تمنا فرمائی ہے، چناں چہ علامہ بغوی رحمہ الله نے اپنی سند سے کعب الاحبار رحمة الله علیہ سے یہ روایت نقل فرمائی ہے اور یہیں سے دیگر مفسرین نے بھی نقل فرمائی ہے: ”أن موسی نظر فی التوراة فقال: إنی أجد أمة خیر الأمم أخرجت للناس یأمرون بالمعروف، وینہون عن المنکر ویؤمنون باللہ وبالکتاب الأول وبالکتاب الآخر، ویقاتلون أہل الضلالة حتی یقاتلوا الأعور الدجال، رب اجعلہم أمتی، قال: ہی أمة محمد یا موسی، فقال: ربی إنی أجد أمة ہم الحمادون رعاة الشمس المحکمون إذا أرادوا أمراً قالوا: نفعل إن شاء اللہ فاجعلہم أمتی، قال: ہی أمة محمد، فقال: رب إنی أجد أمة یأکلون کفاراتہم وصدقاتہم وکان الأولون یحرقون صدقاتہم بالنار، وہم المستجیبون والمستجاب لہم الشافعون والمشفوع لہم فاجعلہم أمتی، قال: ہی أمة محمد، قال: یا رب إنی أجد أمة إذا أشرف أحدہم علی شرف کبّر اللہ، فإذا ہبط وادیا حمد اللہ، الصعید لہم طہور والأرض لہم مسجد حیث ما کانوا، یتطہرون من الجنابة طہورہم بالصعید کطہورہم بالماء حیث لا یجدون الماء․ غر محجلون من آثار الوضوء فاجعلہم أمتی، قال: ہی أمة أحمد، فقال: رب إنی أجد أمة إذا ہمّ أحدہم بحسنة فلم یعملہا کتبت لہ حسنة مثلہا وإن عملہا کتبت لہ ضعف عشرة أمثالہا إلی سبعمائة ضعف، وإذا ہمّ بسیئة ولم یعملہا لم تکتب علیہ وإن عملہا کتبت لہ سیئة مثلہا، فاجعلہم أمتی، قال: ہی أمة أحمد،فقال: رب إنی أجد أمة مرحومة ضعفاء یرثون الکتاب من الذین اصطفینا من عبادنا فمنہم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات ولا أجد أحدا منہم إلا مرحوما فاجعلہم أمتی، قال: ہی أمة محمد، فقال: یا رب إنی أجد أمة مصاحفہم فی صدورہم یلبسون ألوان ثیاب أہل الجنة یصفون فی صلاتہم صفوف الملائکة أصواتہم فی مساجدہم کدوی النحل لا یدخل النار أحد منہم أبدا إلا من یری الحساب مثل ما یری الحجر من وراء الشجر، فاجعلہم أمتی، قال: ہی أمة أحمد، فلما عجب موسی من الخیر الذی أعطی اللہ محمدا صلی اللہ علیہ وسلم وأمتہ قال:یا لیتنی من أصحاب محمد وأمتہ․“ (تفسیرالبغوی، سورة الأعراف، آیة:144، 3/280-279، دار طیبہ
)
حضرت موسی علیہ السلام نے توراة کو پڑھا تو الله تعالیٰ سے عرض کیا اے رب! میں نے اپنی کتاب میں ایک امت کا تذکرہ پایا ہے جو تمام اُمتوں سے بہترہے اور لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے۔ نیکی کا حکم دے گی اوربرائی سے منع کرے گی، الله پر ایمان لائے گی اور پہلی اور آخری کتاب پر ایمان رکھے گی، گم راہوں سے جہاد کرے گی، یہاں تک کہ کانے دجال سے لڑے گی، یا رب ان لوگوں کو میری امت بنا دے، الله تعالیٰ نے فرمایا: یہ محمد صلی الله علیہ وسلم کی امت ہے ۔پھر موسی علیہ السلام نے عرض کیا اے رب! میں نے توراة میں ایسی امت کا تذکرہ پایا جو بہت زیادہ حمد کرنے والے اور سورج کے اوقات کی رعایت کرنے والے ہیں، جب کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ان شاء الله ہم ایسا کریں گے، اے رب! ان لوگوں کو میری امت بنا دے، الله تعالیٰ نے فرمایا: یہ محمد صلی الله علیہ وسلم کی امت ہے، پھر موسی علیہ السلام نے عرض کیا میں نے ایک ایسے گروہ کا تذکرہ دیکھا ہے جو اپنے کفارات اور صدقات خود کھائیں گے( جب کہ پچھلی امت کے لوگوں کے صدقات وکفارات کو آگ جلا دیتی تھی) وہ دعائیں مانگیں گے تو ان کی دعاؤں کو قبول کیا جائے گا، وہ شفاعت کریں گے ان کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا، اے رب! ان لوگوں کو میری امت بنا دے، الله تعالیٰ نے فرمایا: یہ بھی محمد صلی الله علیہ وسلم کی امت ہے۔
پھر موسی علیہ السلام نے عرض کیا اے رب! میں نے ایک ایسے گروہ کا ذکر پڑھا ہے جو کسی بلندی پر چڑھیں گے تب بھی الله تعالیٰ کی بڑائی بیان کریں گے اور جب کسی وادی میں اتریں گے تو بھی الله تعالیٰ کی حمد بیان کریں گے، الله تعالیٰ نے مٹی کو ان کے لیے باعث طہارت بنایا ہے اور زمین کو ان کے لیے سجدہ گاہ بنایا گیا ہے، جہاں چاہیں جنابت سے مٹی کے ذریعے طہارت حاصل کر لیں اور مٹی سے طہارت بھی ان کے لیے پانی کی طہارت کی طرح ہے جہاں پانی نہ ہو وہ مٹی سے طہارت حاصل کر لیتے ہیں، ان کے وضو والے اعضاء قیامت کے دن روشن ہوں گے۔ اے رب! ان کو میری امت بنا۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: یہ امت محمد ہے۔
پھر موسی علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے رب! میں نے ایک ایسے گروہ کا ذکر پایا ہے کہ جب وہ نیکی کا صرف ارادہ کریں اور عمل نہ کریں تو انہیں ایک نیکی کا ثواب ملے گا او راگر نیکی کر لیں گے تو انہیں دس گنا سے سات سو گنا ثواب ملے گا اور جب برائی کا ارادہ کریں گے لیکن برائی کریں گے نہیں تو ان کا کوئی گناہ نہ لکھا جائے گا اور اگر برائی کریں گے تو صرف ایک گناہ لکھا جائے گا، اے رب! ان لوگوں کو میر ی امت بنا دے، الله تعالیٰ نے فرمایا: یہ محمد صلی الله علیہ وسلم کی امت ہے۔
پھر موسی علیہ السلام نے عرض کیا اے رب! میں نے ایسی اُمت کا ذکر پڑھا ہے جو کم زور ہے او ر ان لوگوں سے کتاب وہ میراث میں پائیں گے، اپنے بندوں میں سے جن کو تونے مقام اصطفی عطا فرمایا ہے، ان میں سے کچھ اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ متوسط الحال اورکچھ ان میں سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں، ان میں سے ہر گروہ پر رحم کیا گیا ہو گا، اے رب! ان لوگوں کو میر ی امت بنا دے، الله تعالیٰ نے فرمایا: یہ محمد صلی الله علیہ وسلم کی امت ہے۔ پھر موسی علیہ السلام نے عرض کیا اے رب! میں نے ایک ایسی امت کا تذکرہ پایا ہے جن کے سینوں میں مصاحف (قرآن) ہوں گے، جنتیوں جیسے رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوں گے، نمازوں میں ان کی صفیں ملائکہ کی طرح ہوں گی، مساجد میں ان کی آوازیں شہد کی مکھیوں کی بھنبھنا ہٹ کی طرح ہوں گی، ان میں سے کوئی دوزخ میں داخل نہ ہو گا، مگر جو نیکیوں سے اس طرح الگ ہو جائے جیسے پتھر درخت کے پتوں سے الگ ہو جاتے ہیں، اے رب ان لوگوں کو میر ی امت بنا، فرمایا: یہ احمد صلی الله علیہ وسلم کی امت ہے۔
جب موسی علیہ السلام نے اس خیر او ربھلائی پر تعجب کیا جو الله تعالیٰ نے محمد صلی الله علیہ وسلم اور آپ کی اُمت کو عطا فرمائی تھی، تو پھر عرض کیا کہ کاش میں بھی محمد صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب کرام یا ان کی امت میں سے ہوتا)۔
اور یہ الله تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہم مسلمان ہیں، ہم صاحب ایمان ہیں، ہمارا مذہب ہمیں بہت واضح راہ نمائی دیتا ہے اور وہ واضح راہ نمائی یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی بہت تھوڑی سی ہے اور آخرت نہ ختم ہونے والی ہے، یہ والا جو پہلو ہے کہ دنیا کی زندگی بہت مختصر، اس کا ہم سب مشاہدہ کرتے ہیں، ہم میں سے یہاں کتنے ساتھی ایسے ہوں گے کہ جنہوں نے اپنے دادا کو، اپنی دادی کو، اپنے نانا کو، اپنی نانی کو، اپنے والد کو، اپنی والدہ کو، اپنے ہاتھوں سے قبر میں دفنایا ہوگا، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو ،وہ لوگ جب اس دنیا میں رہتے تھے تو وہ بڑی حیثیتوں والے تھے ، و ہ بڑی عزتوں والے تھے، کسی کی دکان تھی، کسی کا باغ تھا، کسی کا فلاں تھا، فلاں تھا، سب ختم، آنکھ بند، سب ختم۔
تو یہ دنیا والا جو حصہ ہے اس کا تو ہم سب مشاہدہ کرتے ہیں، لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ بہت ساری چیزیں ہیں جن پر ایمان لانا فرض ہے، مثلاً آدمی الله پر ایمان لائے اس کے بغیر ایمان دار نہیں ہوسکتا ہے، لیکن الله تعالیٰ کو ہم نے نہیں دیکھا، فرشتوں پر ایمان، جنت پر ایمان، جہنم پر ایمان، اِن ساری چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے، ایمان مفصل میں ، ایمان مجمل میں جس کا ذکر ہے۔ لیکن ہم نے ان میں سے کسی چیز کو نہیں دیکھا، او رہم تو وہ لوگ ہیں کہ ہم نے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بھی نہیں دیکھا، لیکن ہم الله پر ایمان لاتے ہیں، ہم فرشتوں پر ایمان لاتے ہیں، ہم آخرت پر ایمان لاتے ہیں، ہم جنت پر ایمان لاتے ہیں،جہنم پر ایمان لاتے ہیں، ہم محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں، دیکھا نہیں،لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ الله تعالیٰ نے ساری چیزوں کو چھپایا موت کو ظاہر کیا ہے، ہم موت کو ان آنکھوں سے دیکھتے ہیں، باپ کے سرہانے ہسپتال میں کھڑے ہیں ، ڈاکٹر کہہ رہا ہے کہ آخری وقت ہے، اور ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنے والد کو، والدہ کو، دادا کو، دادی کو او راپنے دیگر عزیز وقارب کو اپنی آنکھوں سے زندگی سے موت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ آنکھوں سے موت کو دیکھتے ہیں،مگر پھر بھی اس کی فکر نہیں اور سب سے زیادہ غفلت اسی موت کے بارے میں ہے، الله تعالیٰ فرمارہے ہیں: ﴿بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا
﴾ بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، جس کے پاس سائیکل ہے، وہ کوشش میں ہے کہ موٹر سائیکل لے لوں، جس کے پاس موٹر سائیکل ہے وہ اس کوشش میں ہے کہ اس کی گاڑی ہو، جس کے پاس گاڑی ہے اس کی کوشش ہے کہ دو گاڑیاں ہوں،جس کے پاس جھگی ہے اس کی کوشش ہے کہ پختہ مکان مل جائے۔ جس کے پاس پختہ مکان ہے اس کی کوشش ہے کہ بڑا مکان ہو ، جس کے پاس بڑا مکان ہے اس کی کوشش ہے کہ دو مکان ہوں، بھاگ دوڑ، صبح سے لے کے شام تک،مکان بنانا ناجائز نہیں ہے، جائز ہے، بڑی چاہت سے ایک آدمی زمین خریدتا ہے مکان بناتا ہے، تو ہمارے بڑے ایک دعا دیا کرتے تھے، اگر کوئی کہتا کہ میرا مکان بن رہا ہے، تو دعا دیتے تھے کہ الله تعالیٰ رہنا نصیب کرے۔کتنے لوگ ایسے ہیں کہ بڑی چاہتوں سے گھر بناتے ہیں مگر رہنا نصیب نہیں ہوتا۔
تو میرے دوستو! الله تعالیٰ فرمارہے ہیں: ﴿بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا
﴾ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو﴿ وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ
﴾ اور یاد رکھو کہ آخرت بہترین بھی ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔
ہم مسلمان ہیں، ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نیہماری قدم قدم پر راہ نمائی فرمائی ہے کہ ہم اس تھوڑی سی زندگی کو بہترین بنائیں اور اس کا طریقہ کیا ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم گناہوں سے اپنے آپ کو بچائیں، شیطان، نفس ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے، وہ الله کی بندگی سے ہمیں روکتا ہے، وہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور فرماں برداری سے ہمیں روکتا ہے،بلکہ اب تو وہ دور ہے، الله ہمیں معاف فرمائے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ وہ اپنے اسلام پر بھی شرمندہ شرمندہ ہیں ،وہ اسلام پر عمل کرنے میں شرمندہ ہیں ان میں جو اسلامی حمیت ہونی چاہیے، جو اسلامی غیرت ہونی چاہیے، وہ اسلامی حمیت اور غیرت نہیں۔
میرے دوستو! خوب یاد رکھیں کہ ہمارے سامنے ایک دن، ایک مہینہ، ایک سال، سو سال نہیں، بلکہ بارہ سو سال کا ایک نہایت سنہری اور غلبے کا دور ہے، جو مسلمانوں کی تاریخ ہے، وہ بارہ سو سال جو تھے اس میں مسلمان غیرت مند تھا، بے غیرت مسلمان نہیں تھا، وہ شرمندہ مسلمان نہیں تھا، وہ فخر کرتا تھا اپنے اسلام پر۔
حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ﴿نحن قوم أعزنا الله بالإسلام
“ ہم وہ لوگ ہیں جنہیں الله نے اسلام کے ذریعے سے غلبہ اور عزت دی ہے:”عن طارق بن شہاب قال : خرج عمر بن الخطاب إلی الشام ومعنا أبو عبیدة بن الجراح فأتوا علی مخاضة و عمر علی ناقة لہ فنزل عنہا و خلع خفیہ فوضعہما علی عاتقہ و أخذ بزمام ناقتہ فخاض بہا المخاضة فقال أبو عبیدة: یا أمیر المؤمنین، أنت تفعل ہذا تخلع خفیک و تضعہما علی عاتقک و تأخذ بزمام ناقتک و تخوض بہا المخاضة ما یسرنی أن أہل البلد استشرفوک، فقال عمر: أوہ لم یقل ذا غیرک أبا عبیدة جعلتہ نکالا لأمة محمد صلی اللہ علیہ و سلم، إنا کنا أذل قوم فأعزنا اللہ بالإسلام فمہما نطلب العز بغیر ما أعزنا اللہ بہ أذلنا اللہ․“(المستدرک علی الصحیحین، کتاب الإیمان، رقم الحدیث:207، والمصنف لابن أبيشیبہ، کتاب الزھد، باب کلام عمر بن الخطاب رضي الله عنہ، رقم الحدیث
:34444)
اسلام سے پہلے ہماری کوئی حیثیت نہیں تھی، لیکن الله تعالیٰ نے جب ہمیں اسلام دیا، تو اس کے ذریعے الله تعالیٰ نے ہمیں عزت دی، غلبہ دیا ۔ وہ اسلام کیسا تھا؟ میرے دوستو! وہ اسلام بہت سادہ ہے، اس میں کہیں غرور وتکبر نہیں، اس کی یہ خوبی ہے کہ جب دنیا اس اسلام کو دیکھتی ہے تو لرز جاتی ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ فتح بیت المقدس کے لیے تشریف لے جارہے ہیں، اسلام کے بڑے بڑے جرنیلوں نے بیت المقدس کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور لمحوں کے اند راس کو فتح کرسکتے تھے، لیکن اندر سے جو عیسائیوں کے راہب تھے، بڑے تھے انہوں نے پیغام بھیجا کہ ہم شکست تسلیم کرتے ہیں، ہم بیت المقدس کی چابیاں حوالہ کرنے کے لیے تیار ہیں، ہماری ایک درخواست ہے اور وہ درخواست یہ ہے کہ امیر المومنین خود تشریف لائیں ،ان کے حوالے کریں گے۔
مسلمانوں نے کہا ٹھیک ہے مسلمانوں کے چار جرنیل، حضرت خالدبن الولید ،حضرت ابوعبیدہ بن الجراح اور بڑے بڑے ان سب نے گھیرا ہوا ہے، لیکن ان راہبوں کی درخواست پر انہوں نے مدینہ منورہ پیغام بھیجاحضرت فاروق اعظم کے پاس کہ ان کی درخواست یہ ہے۔حضرت فاروق اعظم یہ بھی فرماسکتے تھے کہ کوئی ضرورت نہیں، قبضہ کرو، لیکن نہیں، حضرت فاروق اعظم نے اپنے غلام سے کہا اونٹنی تیار کرو۔
حضرت عمر رضی الله عنہ بیت المقدس کے لیے روانہ ہوئے، اونٹ پر ایک طرف ستو کا تھیلا ہے اور دوسرے تھیلے میں چھوہارے ہیں اورلباس کیسا ہے؟ جس میں کئی پیوند لگے ہوئے ہیں۔ اسی پیوند لگے ہوئے لباس میں تشریف لے گئے او رجب عیسائیوں کے راہبوں نے دیکھا، اسی وقت شہر کی چابیاں حوالے کر دیں کہ جو نشانیاں ہماری کتاب میں لکھی ہیں وہ سب موجود ہیں کہ جو فاتح ہو گا وہ اس طرح آئے گا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، فتوح الشام للواقدی، ذکر فتح مدینة بیت المقدس
:231)
یہ جو زندگی کا نمونہ ہے اس میں الله تعالیٰ نے اثر رکھا ہے، اثر تو الله تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے، اس لیے گزارش ہے، درخواست ہے کہ دنیا کی چند دن کی زندگی، جس کا کوئی پتہ نہیں کہ کب ختم ہوجائے گی، ہم اس کو الله تعالیٰ کے احکامات اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں کے مطابق گزاریں، اس میں خیر ہے، اس میں چین ہے، اس میں برکت ہے، عزت ہے، غلبہ ہے، اس میں کام یابی ہی کام یابی ہے۔
میرے دوستو! اگر مسلمان الله تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو چاہے اربوں کھربوں کی دولت ہواسے چین نہیں آئے گا، اسے راحت نہیں ملے گی، اسے برکت نہیں ملے گی، اسے عزت نہیں ملے گی اورآج یہ ساری صورت حال ہمارے سامنے ہے کہ مسلمانوں کے پاس حکومتوں کی کمی نہیں ہے، مسلمانوں کے پاس فوج کی کمی نہیں ہے، مسلمان کے پاس اسلحے کی کمی نہیں، بہت کچھ ہے، لیکن مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ اقوام عالم میں آج مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟ کیوں؟ اس لیے کہ انہوں نے وہ رسی چھوڑ دی، انہوں نے عزت اور غلبے کا جو طریقہ تھا وہ چھوڑ دیا، آج بھی اس کو اختیار کریں الله تعالیٰ کی مدد ونصرت اسی طرح آئے گی، الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ
﴾․