یہ بات اہل سنت والجماعت کے مسلمات میں سے ہے کہ ایک مسلمان کے لیے دنیا اورآخرت میں جو چیز نجات دہندہ اورعملی زندگی میں دستور العمل کی حیثیت رکھتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب قرآن مجید اور حضورسرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنن اور احادیث ہیں۔جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرماتے وقت یہی دوچیزیں اپنی امت کو بطور میراث حوالے فرماکر گئے۔موٴطاامام مالک میں حضرت انس بن مالک کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:﴿ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنتي﴾” میں تم میں(بطورمیراث علمی) دوچیزیں چھوڑکرجارہاہوں،جب تک ان پر کاربند رہوگے تم گم راہ نہیں ہوگے،ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت ہے“۔
قرآن وحدیث میں بنیادی طورپر دوطرح کے مضامین بیان کیے گئے ہیں۔پہلی قسم کی نصوص وہ ہیں جن میں مبدأو معاد،حشرونشر،عبرت ونصیحت،وعدہ ووعید،فنائیت دنیا اوربقائے عقبی وغیرہ کو بیان کیاگیا ہے جب کہ دوسری قسم کی آیات و احادیث طہارت، نماز، روزہ، حج، زکوة، خرید وفروخت، تقسیم میراث ودیگر احکام ومسائل سے متعلق ہیں۔اول الذکرکے متعلق سورة القمر میں فرمان باری تعالی ہے:﴿ولقدیسرناالقرآن للذکر﴾ ”ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیاہے“۔ آیت میں مذکور”للذکر“کی قیداس امرکی صریح دلیل ہے کہ صرف عبرت ونصیحت سے متعلق نصوص ہی عامی شخص کاموضوع ہیں، یعنی ان مخصوص مضامین کو معمولی سمجھ رکھنے والاشخص بھی بلاتدبروتفکردل و دماغ کے آئینے میں اتار کر ان کے فہم تک رسائی حاصل کرسکتاہے ۔البتہ ثانی الذکر نصوص کے مخاطب عوام نہیں،بلکہ فقہائے کرام،مجتہدین عظام،راسخین فی العلم اورمستنبطین ہیں،جوخدادادفہم وفراست اور ذکاوت وذہانت کے سبب مشکل اوردقیق مسائل کی گتھیاں سلجھاتے ہیں۔ناسخ ومنسوخ کی پہچان،علل روایات اور اختلاف آثار کی وجوہات پرواقفیت ،سیاق وسباق سے ربط،آیات قرآنیہ کے اسباب نزول اوراحادیث نبویہ کے شان ورود کی معرفت اورفقہی قواعد وضوابط پر کامل دست رس کی بنیاد پرنصوص کے درمیان واقع ہونے والے ظاہری تعارض کوحل کرتے ہوئے، قرآن وسنت کی صحیح اوربرمحل تشریح وتوضیح کرتے ہیں۔کوئی حکم کسی فرد کے ساتھ مخصوص ہویابعدمیں نازل ہونے والے حکم سے منسوخ ہواس کی نشان دہی کرتے ہیں۔کوئی مسئلہ قرآن وسنت میں ظاہری طورپرموجودہی نہ ہوتواشتراک علت کی بنا پرکسی منصوص مسئلے پرقیاس کرکے اس پرمنصوص کاحکم لگاتے ہیں۔بسااوقات قرآن وحدیث میں کوئی لفظ متعددمعانی کااحتمال رکھتاہے، اس کے کسی ایک معنی کومضبوط دلائل اور قوی قرائن سے متعین کرتے ہیں۔اس مبارک مشغلے اورخوب صورت فن کو”فقہ“اور”اجتہاد“ اور اس کے حامل کو”فقیہ “اور”مجتہد“کہاجاتاہے۔
ایک غلط فہمی کاازالہ
فقہ بظاہر قرآن وحدیث سے الگ تیسری چیز،بلکہ منکرین فقہ کے نزدیک شریعت سے متصادم نظریے کانام ہے، لیکن درحقیقت یہ قانون شریعت کی ایک آسان دستاویزی شکل ہے۔فقہائے کرام کا امت پریہ احسان عظیم ہے کہ انہوں نے ہرہرآیت اورحدیث کی گہرائی میں اتر کر،اصول وضوابط کی روشنی میں،نصوص کی تنقیح کی فرمائی اورپھرابواب اور فصول کی ترتیب سے مسائل کویکجاکرکے خوب صورت گل دستے کی شکل میں عوام الناس کے سامنے پیش کیا،تاکہ عملی زندگی میں جب بھی انہیں شریعت سے راہ نمائی مطلوب ہوتوکسی قسم کی دشواری نہ ہو۔
فقہ کی اہمیت
فقہ کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اس کی ضرورت کا ادراک خودقرآن کریم نے کرتے ہوئے اس عظیم مقصدکے لیے ایک مستقل جماعت کی تشکیل کوناگزیرقراردیاہے ۔چناں چہ سورة التوبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وماکان الموٴمنون لینفرواکافة فلولانفرمن کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین ولینذرواقومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون﴾”اورمومنین کوایسانہیں کرناچاہیے کہ سب کے سب (جہاد کے لیے)نکل پڑیں، ایساکیوں نہ ہوکہ ہرگروہ میں سے ایک جماعت نکلے، تاکہ وہ(ادھر رہنے والے) دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اور جب وہ(جہاد کے لیے جانے والے)ان کی طرف واپس لوٹ آئیں تو انہیں ڈرائیں،تاکہ وہ بچتے رہیں“۔اس کامنشا یہ ہے کہ دین کی دو بنیادی ضروریات ہیں،ایک غلبہ دین اور دوسری فہم دین اور یہ طے شدہ امر ہے کہ غلبہ دین کامدار فہم دین پرہے۔ اس لیے باری تعالی نے تاکیدفرمائی کہ ایک جماعت غلبہ دین کے سلسلہ میں جہاد کے لیے نکل پڑے اور دوسری فہم قرآن وسنت کے لیے اپنے مقام پرہی رہے، تاکہ دین کے دونوں شعبے جاری رہیں۔
فقیہ کا مقام ومرتبہ
علم فقہ کی افادیت کے پیش نظراس محبوب مشغلہ کے لیے اپنی حیات مستعارکے قیمتی لمحات وقف کرنے والے خوش نصیب افراد کو بہت سے فضائل ومناقب سے نوازاگیاہے۔ سورة البقرہ میں فرمان باری تعالیٰ ہے ﴿ومن یؤت الحکمة فقد أوتي خیراکثیرا﴾ ”جس شخص کو حکمت عطا کی گئی اس کوبہت زیادہ بھلائی عطا کی گئی“۔حکمت کی تفسیر میں مفسرین کے متعدداقوال ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اس سے فقہ مراد ہے۔ گویاکہ باری تعالیٰ کی نظر میں سب سے زیادہ اس کی بھلائیوں اورخوبیوں کو سمیٹنے والاشخص فقیہ ہے۔ صحیح بخاری ،کتاب العلم میں حضرت امیرمعاویہ کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:” من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ في الدین“”جس شخص کے ساتھ اللہ تعالی بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں“۔اس کے علاوہ کتب احادیث میں ”أبواب العلم“ کے تحت محدثین نے فقہائے کرام اوراہل علم کے فضائل ومناقب میں سینکڑوں احادیث نقل کی ہیں۔
حاصل کلام
ان تمام تر تفصیلات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ فروعی مسائل کی تحقیق وتخریج کوئی معمولی اور آسان کام نہیں کہ ہر کس ونا کس اس مشغلے میں لگ جائے اور جمہور کے متفقہ مسائل سے انحراف کرکے امت کو نئی راہ پرلگادے ۔اجتہاد کی صلاحیت اوراستنباط کے ملکہ سے محروم شخص کے بس کا نہ یہ کام ہے اور نہ اسے اس لق ودق صحراء میں قدم رکھناچاہیے۔”جس کاکام اسی کوساجھے“ کے قاعدے پرعمل کرتے ہوئے یہ کام فقہائے کرام کے سپردکرناچاہیے، جو اس فن کے ماہراوررموزشریعت کے شناورہیں، ورنہ شریعت کے معاملے میں خودرائی سے ہدایت کی بجائے گم راہی پھیلنے کااندیشہ، بلکہ یقین کامل ہے۔ابن جوزی نے ”تلبیس ابلیس“میں ایک شخص کاواقعہ تحریرکیاہے کہ وہ جب بھی استنجے سے فارغ ہوکر آتا بغیروضوکیے وتر کی نیت باندھ لیتا۔اس کی وجہ پوچھی گئی توکہنے لگا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث من استجمرفلیوتر(جوشخص استنجاء کرے اس کوچاہیے کہ وترپڑھے)پرعمل کرتاہوں۔حالاں کہ اس حدیث میں فلیوتر سے مرادوتر پڑھنا نہیں، بلکہ طاق عدد میں ڈھیلے استعمال کرنا ہے۔ایک اورشخص کاواقعہ لکھاکہ وہ اپنے کنویں سے کسی دوسرے کو کھیت میں پانی نہیں لگانے دیتا تھا۔وجہ پوچھنے پر اس نے بتایاکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث لایسقی أحدکم ماء ہ زرع غیرہ(کوئی شخص اپنے پانی سے کسی دوسرے کی کھیتی کوسیراب نہ کرے)پرعمل کرتا ہوں، حالاں کہ اس حدیث میں ماء سے مراد منی اور زرع سے مراد شرم گاہ ہے ۔مطلب حدیث پاک کا یہ ہے کوئی شخص دوسرے کی باندی سے صحبت نہ کرے۔یقینا یہ غلطی اس کو خود رائی کی وجہ سے لگی،اگرکسی ماہرشریعت سے راہ نمائی حاصل کر لیتاتوحدیث کے اصل مرجع اور مقصد تک پہنچ جاتا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کواکابر واسلاف کی ہدایات کی روشنی قرآن وسنت کی تعلیمات پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے۔