فراست فاروقی رضی اللہ عنہ

فراست فاروقی رضی اللہ عنہ

مولانا محمد صادق قاسمی خیرآبادی

 

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکت اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک آہنی دیوار تھی، آپ  کا دور خلافت تاریخ کا وہ زریں باب ہے‘ جس کی نظیر دنیا میں اب تک وجود میں نہیں آئی‘ اسی طرح فاروق اعظم کی ذات اقدس سے خوارق عادت‘ کرامات ،مکاشفات کا ظہور بھی بکثرت ہوا‘ چناں چہ آپ سے جس قدر کرامات ومکاشفات کا صدور ہوا، وہ کسی اور صحابی سے منقول نہیں ہے،یہاں پر چند کرامات بطور مثال پیش کی جاتی ہیں۔

ایک روز حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں جمعہ کا خطبہ پڑھ رہے تھے یکا یک با آواز بلند آ پ نے کہا:”یا ساریة، الجبلَ الجبلَ“(اے ساریہ پہاڑ کی طرف) دو تین مرتبہ فرمایا اور اس کے بعد خطبہ شروع کردیا‘ تمام حاضرین حیرت واستعجاب میں تھے کہ آخر آپ کی زبان مبارک سے اثنائے خطبہ یہ بے ربط جملہ کیسا نکلا؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف سے بے تکلفی زیادہ تھی، لہٰذا انھوں نے دریافت کیا کہ امیر المؤمنین آپ نے خطبہ کے دوران”یا ساریة الجبل الجبل“ فرمایا؟ جواب میں عمر فاروق نے ایک لشکر کا ذکر فرمایا‘ جو عراق میں ”نہاوند“ کے مقام پر جہاد میں مشغول تھا، اس لشکر کے سردار حضرت ساریہ بن زنیمتھے، پھر آپ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ وہ پہاڑ کے پاس لڑرہے ہیں اور دشمن کی فوج سامنے سے بھی ہے اور پیچھے سے بھی آرہی ہے‘ جس کی لوگوں کو خبر نہیں ہے، یہ دیکھ کر میرا دل قابو میں نہ رہا اور میں نے آوازدی:

اے ساریہ !پہاڑ سے مل جاؤ۔ تھوڑے دنوں کے بعد حضرت ساریہ کا قاصد آیا‘ تو اس نے سارا واقعہ بیان کیا کہ ہم لوگ لڑائی میں مشغول تھے کہ یکا یک آواز آئی:”یا ساریہ، الجبل الجبل“ اس آواز کو سن کر ہم لوگ پہاڑ سے مل گئے اور ہم کو فتح ملی۔

حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق نے ایک شخص سے دریافت کیا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا:”جمرہ“ (چنگاری)‘ آپ نے پوچھا: کس کے لڑکے ہو؟ اس نے جواب میں کہا”شہاب“ (شعلہ) آپ  نے دریافت کیا کہ کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے جواب میں کہا: قبیلہ”حرقہ“ (آگ)‘ آپ نے پوچھا تمہارا گھر کہاں ہے؟اس شخص نے کہا:”حرہ“ (گرم پتھریلی زمین) آپ  نے دریافت کیا کہ حرہ کہاں واقع ہے؟ اس نے جواب دیا”لظی“ (شعلہ والی آگ) آپ نے فرمایا: اپنے گھر والوں کی خبر گیری کر، وہ سب جل گئے ہیں‘ چناں چہ وہ شخص اپنے گھر گیا تو دیکھا واقعی گھر میں آگ لگی ہوئی ہے اور تمام اہل خانہ جل گئے ہیں۔

ابو الشیخ نے کتاب العظمة میں قیس بن حجاج سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت عمر وبن العاص نے ملک مصر فتح کیا تو آپ کے پاس ایک مقدمہ پیش ہوا کہ اہل مصر کے یہاں سال میں ایک دن مقرر تھا، اس دن مصر کے لوگ آئے اور کہا کہ امیر! ہمارے اس دریائے نیل کے لیے ایک طریقہ ہے، اس طریقہ کے بغیر یہ دریا جاری نہیں ہوتا، عمر وبن العاص نے دریافت کیا کہ وہ طریقہ کیا ہے؟ ان لوگوں عرض کیا کہ جب(مقررہ) مہینہ کی گیارہ تاریخ ہوتی ہے تو ہم لوگ ایک کنواری لڑکی اس کے والدین کو راضی کر کے لاتے ہیں اور اس کو عمدہ کپڑے اور زیورات پہنا کر دریائے نیل میں ڈال دیتے ہیں۔ حضرت عمر وبن العاص نے فرمایا کہ یہ تو اسلام میں کبھی نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اسلام وہ تمام لغو اور بیکار کام جو اسلام سے پہلے ہوا کرتے تھے ان کو مٹا دیتا ہے، چناں چہ وہ لوگ کچھ دن ٹھہرے رہے اور دریائے نیل بالکل بند پڑارہا‘ یہاں تک کہ بعض اہل مصر نے جلاوطنی کا ارادہ کرلیا، جب عمروبن العاص نے یہ صورت دیکھی تو فوراً حضرت عمر فاروق کے پاس ایک خط لکھا، فاروق اعظم نے جواب میں تحریر فرمایا کہ تم نے جو کچھ کیا بالکل درست کیا‘ یقینا اسلام ان تمام لغویات وخرافات کو مٹانے ہی کے لیے آیا ہے، جو اسلام سے پہلے ہوا کرتی تھیں اور خط کے اندر ایک رقعہ بھیج رہا ہوں، اس کو دریائے نیل میں ڈال دینا‘ جب یہ خط عمروبن العاص  کے پاس آیا تو آپ نے رقعہ کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا تھا: خدا کے بندے امیر المؤمنین عمر کی طرف سے دریا ئے نیل کے نام، معلوم ہو کہ تم اگر اپنی طرف سے جاری ہوتے ہو تو مت جاری ہونا اور اگر تم کو اللہ جاری کرتا ہے تو میں اللہ واحد وقہار سے سوال کرتا ہوں کہ تم کو جاری کردے۔ چناں چہ عمروبن العاص نے یہ رقعہ دریائے نیل میں ڈال دیا، اہل مصر نے صبح کو دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی رات میں دریائے نیل کو سولہ ہاتھ اوپر جاری کردیا اور اسی روز سے اہل مصر کا وہ دستور (یعنی لڑکی ڈالنے والا) اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔(الصواعق المحرقہ:102)

زمانہ قحط میں جب حضرت عمر فاروق نے پانی برسنے کی دعا مانگی اور پانی برسا تو کچھ بدو لوگ باہر سے آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ امیر المؤمنین! ہم لوگ فلاں دن فلاں جنگل میں تھے کہ یکا یک ایک ابر اٹھا اور اس سے یہ آواز آرہی تھی:”اے ابو حفص! آ پ کے لیے بارش آگئی۔“

اسود عنسی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو ایک شخص عبداللہ بن ثوب تھے‘ ان سے اس کذاب نے کہا کہ میری نبوت کا اقرار کرو، انہوں نے کہا کہ میں ہر گز تم کو نبی نہیں مانتا‘ اسود عنسی نے کہا:اچھا بتاؤکہ تم محمد ( صلی الله علیہ وسلم) کو نبی مانتے ہو؟ عبداللہ بن ثوب نے کہا:ہاں! یہ سن کو اسود ایسا برافروختہ ہوا کہ آگ روشن کرنے کا حکم دیا اور اس میں عبداللہ بن ثوب کو ڈلوادیا، مگر آگ نے ان پر کچھ اثر نہ کیا،آخر اسود نے ان کو شہر بدر کردیا، وہ مدینہ آئے، جیسے ہی مسجد کے دروازے میں داخل ہوئے تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھتے ہی فرمایا کہ یہ وہ شخص ہے جس کو اسود عنسی نے جلانے کا ارادہ کیا تھا، مگر اللہ نے بچالیا، اس قصے کو حضرت عمر نے نہ کسی سے سنا تھا،نہ ہی مدینہ میں کوئی اس حال سے واقف تھا‘ پھر آپ نے کھڑے ہو کر عبداللہ ابن ثوب سے معانقہ کیا اور فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی شبیہ اس امت میں‘ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔

ایک پہاڑ کی کھوہ سے آگ نکلا کرتی تھی اور جہاں تک پہنچتی تھی سب کو جلا کر خاکستر کردیتی تھی‘ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں بھی وہ آگ نمودار ہوئی، توآپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری یا حضرت تمیم داری کو حکم دیا کہ جاؤ! اس آگ کو اسی کھوہ میں داخل کر آؤ، چناں چہ وہ گئے اور انہوں نے اپنی چادر سے اس آگ کو ہنکانا شروع کیا، یہاں تک کہ وہ آگ کھوہ میں چلی گئی اور پھر کبھی نمودار نہیں ہوئی۔

ایک مرتبہ ایک زخمی شخص مدینہ منورہ آیا اور حضرت عمر کو تلاش کررہا تھا، کسی نے بتایا کہ وہ کہیں جنگل میں سورہے ہیں، چناں چہ وہ جنگل کی طرف گیا، دیکھا کہ آپ زمین پر درہ سر کے نیچے رکھ کر سورہے ہیں، اس عجمی نے اپنے دل میں سوچا کہ سارے جہاں میں اسی شخص کی وجہ سے فتنہ برپا ہے، اس کا قتل کردینا تو بہت آسان ہے، یہ خیال کر کے اس نے تلوار نکالی ہی تھی کہ فوراً دو شیر نمودار ہوئے اور اس عجمی کی طرف لپکے، عجمی فریاد کرنے لگا‘ حضرت عمر بیدار ہوگئے، اس عجمی نے سارا قصہ آپ سے بیان کیا اور مسلمان ہوگیا۔ (بحوالہ سیرت خلفائے راشدین)

ابن عساکر نے طارق بن شہاب سے روایت کیا ہے کہ کوئی شخص حضرت عمر  سے کچھ جھوٹی بات سچی بات میں ملا کر کہتا تھا تو آپ فرمادیا کرتے تھے کہ اس کو رہنے دو، پھر وہ اور بات کہتا تو آپ فرماتے، اسے بھی رہنے دو، وہ شخص عرض کرتا کہ میں نے جوآپ سے کہا وہ سچ ہے، مگر جس بات پر آپ نے مجھے چپ رہنے کا حکم فرمایا وہ فی الواقع غلط تھی۔

”ابن عساکر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی جھوٹ کو پہچان جاتا تھا تو وہ حضرت عمر فاروق ہی تھے“۔ (تاریخ الخلفا،ص:160)

حضرت عمر فاروق  اسلامی عظمت وشوکت کا نشان تھے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے آپ کے قبول اسلام کے لیے خصوصی دعا فرمائی تھی۔