برصغیر کے مسلمان عرصہ دراز تک انگریز کی غلامی کی چکی میں پستے رہے، طویل عرصہ کے بعد حق تعالیٰ شانہ نے برصغیرکے مسلمانوں کی حالت زار پر رحمفرمایا اور ایک آزاد مملکت عطا فرمائی، جس کے رجال کے پیش نظر یہ بات تھی کہ اسے ایک مثالی اسلامی ریاست بناکر تمام عالم اسلام کی قیادت وسیادت کی اہلیت سے نکھارا جائے، لیکن افسوس صد افسوس #
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
قانون الہٰی ہے کہ:﴿لئن شکرتم لأزیدنکم ولئن کفرتم إن عذابی لشدید﴾ (اگر نعمت الہٰی کا شکر بجالاؤگے تو ان نعمتوں میں اضافہ کروں گا اور اگر ان کی ناشکری کرو گے تو سن لو، میرا عذاب بہت سخت ہے) اس نعمت کے شکر کا طریقہ یہ تھا کہ صالح حکومت وقیادت کی سرپرستی میں قانونِ عدل کا پرچم لہرایا جاتا، فحاشی وعریانی، قتل وغارت گری کے روز افزوں بڑھتے جرائم کے سد باب کے لیے قانونی وآئینی طور پر ایسی شرعی سزاؤں کا نفاذکیا جاتا جس کی بدولت ایک بہترین عدل وانصاف سے معمور معاشرہ وجود میں آتا، مگر جو ہوا اور جو ہورہا ہے اس کا نقشہ سب کے سامنے ہے۔ عیاں را چہ بیاں…
وطن عزیز ایک عرصہ سے شدید بحران کا شکار ہے، نظام تکوینی کے تحت مختلف اسباب اس کے پیچھے کارفرماں ہیں، اسباب ظاہری کو قبول کرتے ہوئے اگر اس کے عوامل باطنیہ پر توجہ مبذول کی جائے تو متعدد اسباب وعوامل ناسور کی شکل اختیار کیے ہوئے سامنے آتے ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں: حکم راں طبقہ کی دین بے زاری:یہ وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں فحاشی وعریانی کو فروغ ملتا ہے، چناں چہ آئے روز سیکولر سیاسی جماعتوں کی جانب سے مغربی دباؤ کے پیش نظر نہایت عجلت سے غیر اسلامی و غیر اخلاقی قوانین کا پیش کیا جانا اس کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ جس کی حالیہ مثال ٹرانس جینڈر ایکٹ کی ہے، جس میں خنثوں کے حقوق کے نام پر ہم جنس پرستی کو قانونی چھتری مہیا کی گئی ہے۔
میڈیا پر عریانیت کے افسوس ناک مناظر:اسلام مخالف طبقہ مغربیت اور تہذیب کے رواج وپروان چڑھانے کے لیے ہمہ تن کوشا ں رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ٹیلی وزن پر نشر کیے جانے والے فضول ڈراموں، کارٹون سیریز کے ذریعہ اسلام اور اس سے وابستہ افراد کے کردار کو متنازع شکل میں پیش کیا جاتا ہے، نیز فحاشی کو عام کرنے کے لیے اسلامی تہذیب واقدار کونشانہ ہدف بنایا جانا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں اخبارات کا ایک پیج نیم عریاں لڑکیوں کی تصاویر کے لیے مخصوص کیا گیا ہے، جس کو انٹرٹیمنٹ کے دلفریب عنوان سے پیش کیا جاتا ہے۔ الغرض ذرائع نشر واشاعت کو تمام حدود وقیود سے آزاد کرکے انہیں بددینی کامبلغ بنادیا گیا ہے اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ سرکاری طور پر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم اور میوزیکل کنسڑٹس کا قیام: روز اول سے ملک و ملت کی سادہ لوح عوام کو طفل تسلیوں سے بہلایا گیا اوران میں ایسے تحقیقی وتعلیمی اداروں کو وجودمیں لایا گیا ، جن میں مخلوط نظام تعلیم قائم کرکے بے حیائی کا طوفان برپا کیاگیا، اور مختلف تہوار وفیسٹیول میں پیش کیے جانے والے ٹیبلوز کے نام پر میوزیکل فیسٹیولز اور کونسڑٹس کا انعقاد نہایت ہی افسوس ناک عمل ہے، جس کے اظہار سے نوک ِقلم شرمندہ وعاجز ہے۔
سرمایہ دارانہ معاشی و سودی نظام میں ترقی:ایک اسلامی معاشرے کی اصلاح وتربیت کا مدار اس کی جسمانی وروحانی غذاؤں پر ہے، چناں چہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ پیامبروں کو رزق حلال کے استعمال کا حکم دیا ،فرمایا:﴿یا أیھا الرسل کلوا من الطیبت واعملوا صالحا﴾ (اے پیغمبروں کی جماعت!تم نفیس وپاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو) ۔
آیت بالا میں عمل صالح کو أکل طیبات کے بعد ذکر کرکے اشارہ کردیا کہ نیک اعمال کا اعضاء سے صدور درحقیقت أکل حلال کا نتیجہ وثمرہ ہے، یعنی رزق حلال کے سبب نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔
ترویج نکاح میں حائل رکاوٹیں:قوت شہویہ وغضبیہ کے خمیر سے مرکب انسان کی فطرت از خود نکاح کو وطبیعت کا حصہ سمجھتی ہے، اس کی طرف راغب ہوتی ہے اور اس کو باعث تسکین قرار دینے پر مجبور ہے۔ مگر افسوس ، ہمارے معاشرے میں رائج مختلف رسوم و رواج کی قید وبند نے اس مسنون عمل کو مشکل بناکر فطرت سے بغاوت پرمجبور کیا ہوا ہے، جس کا اندوہ ناک نتیجہ سب کے سامنے عیاں ہے۔
ہم اس ملک کے دانش ور، صحافت سے تعلق رکھنے والے احباب اور ارباب اقتدار کی خدمت میں نہایت دل سوزی سے عرض کرتے ہیں کہ ملک وملت کو فسق وفجور کے گرداب سے نکالنے کی کوشش کرو، خدا کے حلم، عفو ودرگذر کو چیلنج نہ کرو، مبادا کہ عذاب الہٰی کے بادل مینہ کی طرح برس پڑیں، جیسا کہ سابقہ امم کی بد عملی وبدعقلی تباہی وبربادی کی صورت میں منتج ہوئی:﴿وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّہْلِکَ قَرْیَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِیہَا فَفَسَقُوا فِیہَا فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِیرًا﴾
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اللھم إنا نسئلک فعل الخیرات وترک المنکرات وحب المساکین وأن تغفرلنا وترحمنا وإذا أردت بقوم فتنة فتوفنا غیر مفتون، آمین!