فتح وشکست کی حکمتیں

فتح وشکست کی حکمتیں

 

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)

اہل شوری اور جمہوری پارلیمانی اراکان کی رائے میں فرق
1..جمہوری پارلیمانی ارکان حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے دو گروہوں میں منقسم ہوتے ہیں،اہل شوری میں اس قسم کی کوئی گروہ بندی نہیں ہوتی، بلکہ اسلام کا مزاج امت کی سیاسی و مذہبی تفریق کو سخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
2..اہل شوری کے ارکان کا انتخاب امام المسلمین اپنی صواب دید پر کرتا ہے اور پارلیمانی ارکان جمہوری طریق انتخاب سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔
3..جمہوری طریقہ انتخاب سے منتخب ہونے والے عموماً اہل شوری کے اوصاف سے علمی وعملی طور پر عاری ہوتے ہیں۔
4..امام المسلمین اہل شوری کی رائے کا پابند نہیں ہوتا، بلکہ اسے قبول کرنے یا مسترد کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے، جب کہ جمہوری پارلیمان میں صدر، وزیر اعظم اکثری رائے کا پابند ہوتا ہے۔
5..اہل شوری کی ”اکثریتی رائے“ معیار حق ہوتی ہے نہ مدار عمل، نہ اسے قانونی ترجیح کا سہارا حاصل ہوتا ہے، نہ ہی اس کی پابندی لازم ہوتی ہے، جب کہ پارلیمانی ارکان کی اکثریتی رائے، معیار حق، مدار عمل، قانونی طور پر مسلمہ اصول ِترجیح اور دیگر ارکان پر اس کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔
6..شوری کے اراکین میں جب تک مشورے کے اوصاف موجود ہیں وہ شوری کی اہلیت سے ناکارہ نہیں قرار پاتے، جب کہ پارلیمنٹ کے ہر رکن کے لیے مدت متعین ہوتی ہے، اس کے بعد وہ نااہل قرار پاتا ہے۔

﴿وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ،أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّہِ کَمَن بَاء بِسَخْطٍ مِّنَ اللّہِ وَمَأْوَاہُ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْر، ہُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ اللّہِ واللّہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ، لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِیْنٍ﴾.(سورہ آل عمران:164-161)
”اور نبی کا کام نہیں کہ کچھ چھپا رکھے، جو کوئی چھپاوے گااور لائے گا اپنی چھپائی ہوئی چیز دن قیامت کے، پھر پورا پاوے گا ہر کوئی جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہ ہوگاO کیا ایک شخص جو تابع ہے اللہ کی مرضی کا، برابر ہو سکتا ہے اس کے جس نے کمایا غصہ اللہ کا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور کیا ہی بری جگہ پہنچاO لوگوں کے مختلف درجے ہیں اللہ کے ہاں اور اللہ دیکھتا ہے جو کچھ کرتے ہیںO اللہ نے احسان کیا ایمان والوں پر، جو بھیجا ان میں رسول انہیں میں کا، پڑھتا ہے ان پر آیتیں اس کی اور پا ک کرتا ہے ان کو یعنی شرک وغیرہ سے اور سکھلاتا ہے ان کو کتاب اور کام کی بات اور وہ تو پہلے سے صریح گم راہی میں تھےO “

شان نزول
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ غزوہٴ بدر کے مال غنیمت میں سرخ رنگ کی ایک چادر گم ہوگئی، بعض لوگوں نے کہا: شاید آپ علیہ السلام نے اپنے لیے رکھ لی ہو، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (جامع البیان، آل عمران، آیت نمبر:161)

یہ کہنے والے کون تھے؟ ممکن ہے منافقوں نے یہ بات اڑائی ہو اور نبی کی امانت کو داغ دار کرنے کی نیت ہو اور یہ بھی ممکن ہے مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ سمجھ کر ایسا کہہ دیا ہو کہ آپ علیہ السلام کو مکمل اختیار ہے، جس چیز کو چاہیں اپنے لیے مخصوص کر لیں اور جس کو چاہیں تقسیم فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے ہر دو مفروضوں کی تردید فرما دی۔

خیانت کا اخروی عذاب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: خیبر کی فتح کے موقع پر صحابہ کرام باہمی طور پرگفت گو کر رہے تھے کہ فلاں شخص شہید ہوگیا، فلاں شہید ہوگیا، اسی اثنا میں ایک شخص کا تذکرہ ہوا، صحابہ کرام نے اس کے متعلق کہا: وہ بھی شہید ہوا ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہرگز نہیں، میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے، کیوں کہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چرا لی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا: جاؤ، لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے، چناں چہ میں نے لوگوں میں اعلان کیا: ”جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے“۔ (صحیح مسلم)

اس کے علاوہ احادیث میں مال غنیمت میں خیانت کرنے پر سخت وعید آئی ہے۔ مال غنیمت مشترکہ مال ہے، خائن کو تمام شرکا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔

آیت کریمہ میں ہے کہ خائن قیامت کے دن خیانت شدہ مال لے کر حاضر ہوگا۔ اگر خیانت شدہ مال ذی جسم تھا تو اسی جسم کو لے کر حاضر ہوگا اور اگر خیانت شدہ چیز ذی جسم نہ تھی تو پھر اسے لے کر حاضر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس خیانت کا اعلان واظہار ہوگا یا اسے جسم مثالی دے کر خائن کے ساتھ کر دیا جائے گا، کیوں کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم آخرت میں کئی معنوی چیزوں کو جسمانی صورت میں ظاہر کیا جائے گا، جیسے موت کو دنبے کی شکل میں لا کر ذبح کیا جائے گا اور نیک اعمال حسین آدمی کی شکل میں آئیں گے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث خیانت کی وعید پر مروی ہے، جس میں بتلایا گیا کہ خیانت والا مال خائن کی گردن پر سوار ہوگا، جیسے اونٹ، گھوڑا، بکری وغیرہ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے بطور تعجب کے پوچھا: اگر کسی شخص نے سو اونٹوں میں خیانت کی تو وہ سو اونٹوں کو اپنی گردن پر کیسے لادے گا؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ”جس شخص کی ڈاڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوگی اور اس کے بیٹھنے کی جگہ ربذہ سے مدینہ تک کے برابر ہوگی، کیا وہ اتنی چیزوں کو نہیں اٹھا سکتا؟“ اس جواب سے وہ تمام شبہات دور ہو جاتے ہیں جو خائن کے متعلق اس موقع پر پیدا ہوتے ہیں۔ (روح المعانی، آل عمران، ذیل آیت:161)

فوائد آیت
1..نبی معصوم ہوتا ہے، وہ امین ہوتا ہے، اس سے خیانت کا گناہ صادر ہی نہیں ہوسکتا۔ (تفسیر کبیر، آل عمران ،ذیل آیت:161)
2..خیانت گناہ کبیرہ ہے۔
3..حکام کا سرکاری ملازم ہونے کے ناتے ہدیہ قبول کرنا بھی خیانت ہے۔ (احکام القرآن للقرطبی، آل عمران، ذیل آیت:161)، کیوں کہ اگر سرکاری عہدے دار نہ ہوتے وہ ہدیہ نہ ملتا، اپنے عہدے سے ہدایا جمع کرنا مسلمانوں کے بیت المال اور اپنے عہدے سے خیانت ہے۔
4..خائن پر خیانت شدہ مال واپس کرنا واجب ہے۔
5..خائن کی دنیاوی سزا تعزیز ہے، جو امام المسلمین کی صواب دید پر موقوف ہے۔ (احکام القرآن للتھانوی، آل عمران، ذیل آیت:161)
6..خائن کی دنیاوی سزا کے لیے کوئی ”حد شرعی“ مقرر نہیں ہے، جس حدیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”جس شخص کے سامان میں تم خیانت کا سامان پاؤ، اس کے سامان کو جلا دو“۔ (مسند احمد:1/22) یہ حدیث معارض اور ضعیف ہونے کی وجہ سے لائق استدلال نہیں ہے، یہی احناف کا مذہب ہے۔

انسان ہی کو نبی بنا کر مبعوث کرنے کی حکمت
گذشتہ آیت کے شان نزول میں بتایا گیا تھا کہ بعض لوگوں نے تقسیم غنیمت کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسی بات کی جو آپ کی شان نبوت کے منافی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرما کر ﴿لقد مَّن اللہ علی المومنین﴾ سے حضور علیہ السلام کے مرتبہ سے آگاہ کر کے آپ کے وجود مسعود کو احسان الٰہی قرار دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے، اس نے اپنے بندوں کی راہ نمائی کے لیے ایک انسان کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا، جو ان بندوں کا ہم جنس، یعنی بشر ہے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ایک بشر علم وعمل میں دوسرے بشر کے لیے نمونہ بن سکتا ہے۔ بشر سے بشر جلد مانوس ہو جاتا ہے، بشر سے بشر فیض اٹھا سکتا ہے، اگر کسی دوسری جنس میں سے نبی آتا تو مقصد بعثت مکمل نہ ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام سے متعلق ﴿مِنْ أنفسھم﴾کہہ کر اپنا احسان جتلایا ہے۔

دو شبہات اور اس کے جوابات
اس آیت سے دو شبہات پیدا ہوئے۔
1..اس آیت سے معلوم ہوا کہ آپ کی بعثت محض انسانوں کے لیے ہے، حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت انس وجن سب کے لیے ہے۔
2..دوسرا شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ کی بعثت انسان کے علاوہ جنات کے لیے بھی ہے تو وہ جنس غیر ہونے کی وجہ سے آپ سے کیسے فیض اٹھا سکیں گے؟ جنات میں انسان کی بعثت خلاف ِحکمت معلوم ہوتی ہے۔

پہلے شبہے کا جواب یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی بعثت عمومی ہے، انس وجن سب کو شامل ہے۔ آپ علیہ السلام کی بعثت عمومی پر مستقل دلائل موجود ہیں۔ انسانوں سے خطاب میں آپ کی بشریت کے تذکرے سے بعثت عمومی کی نفی ثابت نہیں ہوتی۔

دوسرے شبہے کا جواب یہ ہے کہ انسان جن جامع صفات پر مشتمل مخلوق ہے، کوئی دوسری ایسی مخلوق نہیں ہے، دوسری مخلوق انسان سے فیض اٹھا سکتی ہے اور مانوس ہوسکتی ہے، اس لیے جنات کی طرف آپ علیہ السلام کی بعثت سے مقصد نبوت کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ نیز آپ کی نبوت خود جنات کے لیے باعث فخر وبرکت ہے۔

اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، لیکن عام انسانوں کی طرح نہیں، بلکہ افضل البشر ہیں، آپ کے مقام تک کوئی دوسرا پہنچ سکا ہے، نہ پہنچ سکے گا۔

سید محمد نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں:
”انبیاء وہ بشر ہیں جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے“۔ (کتاب العقائد، ص:8، طبع تاجدار حرم پبلشنگ کمپنی کراچی)

اسی طرح علماء بریلی کے ایک دوسرے عالم مولوی امجد علی اعظمی لکھتے ہیں:
عقیدہ: نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے وحی بھیجی ہو۔

عقیدہ: انبیا سب بشر تھے اور مرد، نہ کوئی عنین نبی ہوا، نہ عورت۔ (بہار شریعت: 1/9، طبع شیخ علی اینڈ سنز لاہور)

﴿أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُم مُّصِیْبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَیْْہَا قُلْتُمْ أَنَّی ہَذَا قُلْ ہُوَ مِنْ عِندِ أَنْفُسِکُمْ إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْر، وَمَا أَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللّہِ وَلِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَلْیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُواْ وَقِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْاْ قَاتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَوِ ادْفَعُواْ قَالُواْ لَوْ نَعْلَمُ قِتَالاً لاَّتَّبَعْنَاکُمْ ہُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْہُمْ لِلإِیْمَانِ یَقُولُونَ بِأَفْوَاہِہِم مَّا لَیْْسَ فِیْ قُلُوبِہِمْ وَاللّہُ أَعْلَمُ بِمَا یَکْتُمُونَ، الَّذِیْنَ قَالُواْ لإِخْوَانِہِمْ وَقَعَدُواْ لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا قُلْ فَادْرَؤُوا عَنْ أَنفُسِکُمُ الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن﴾․(سورة آل عمران:168-165)
”کیا جس وقت پہنچی تم کو ایک تکلیف کہ تم پہنچا چکے ہو اس سے دو چند، توکہتے ہو یہ کہاں سے آئی؟ تو کہہ دے یہ تکلیف تم کو پہنچی تمہاری ہی طرف سے، بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہےO اور جو کچھ تم کو پیش آیا اس دن کہ ملیں دو فوجیں، سو اللہ کے حکم سے اور اس واسطے کہ معلوم کرے ایمان والوں کو O اور تاکہ معلوم کرے ان کو جو منافق تھے اور کہا گیا ان کو کہ آؤ! لڑو اللہ کی راہ میں یا دفع کرو دشمن کو، بولے اگر ہم کو معلوم ہو لڑائی تو البتہ ہم تمہارے ساتھ رہیں، وہ لوگ اس دن کفر کے قریب ہیں بنسبت ایمان کے، کہتے ہیں اپنے منھ سے جو نہیں ان کے دل میں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ چھپاتے ہیںOوہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں اپنے بھائیوں کو اور آپ بیٹھ رہے ہیں، اگر وہ ہماری بات مانتے تو مارے نہ جاتے، تو کہہ دے اب ہٹا دیجیو اپنے اوپر سے موت کو، اگر تم سچے ہو“O

غزوہٴ احد میں اہل اسلام کی شکست پر صحابہ کرام کا تعجب اور اعتراض
غزوہٴ احد میں جب مسلمانوں کو عارضی طور پر شکست ہوئی تو اہل اسلام کو تعجب ہوا کہ دین برحق پر ہوتے ہوئے اور نبی برحق کی معیت میں ہوتے ہوئے بھی اس قدر جانی نقصان… چہ معنی دارد؟

اللہ تعالیٰ نے اس شبہے کا جواب انتہائی بلیغ انداز میں دیا۔ پہلے تو اس غلط فہمی کو دور کیا کہ یہ شکست ہے، کیوں کہ اگر اس جنگ کے دوسرے مرحلے میں تمہارے ستر افراد شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ہیں تو تم اس سے دگنا نقصان مشرکین کو پہنچا چکے ہو۔ غزوہٴ بدر میں ستر مشرکین قتل ہوئے تھے اور ستر قیدی ہوئے تھے، جن سے فدیہ لے کر چھوڑا گیا۔ نیز اس غزوہٴ احد میں جنگ کے پہلے مرحلے میں صحابہ کرام ہی کا پلہ بھاری رہا، جانی اور مالی نقصان مشرکین ہی کو پہنچا، اس کے باوجود تم متعجب ہوتے ہو کہ یہ کیسے ہوگیا؟ قلت افراد اور قلت وسائل کے باوجود اپنے سے سہہ گنا مسلح لشکر کو ہزیمت سے دوچار کرنا اور میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور کرنا نصرت الٰہی کے سوا کیسے ہو سکتا ہے؟

غزوہٴ احد کے انجام پر طویل طویل بحثیں کی گئی ہیں، اسے شکست کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اسے شکست کہنا محل نظر ہے، کیوں کہ جنگ کے پہلے مرحلے میں مسلمان ہی بھاری رہے، دوسرے مرحلے کی افتاد سے میدان جنگ چھوڑ جانے کی بجائے مجتمع ہو کر ڈٹ گئے اور بالآخر مشرکین کو میدان جنگ سے بھگا کر چھوڑا، مشرکین مسلمانوں میں کسی کو قیدی بنا سکے نہ ان کا مال لوٹ سکے، بلکہ جنگ کے تیسرے مرحلے میں مشرکین نے فرار ہونے میں عافیت جانی، مسلمان جنگ کے دوسرے مرحلے میں شدید نقصان سے دوچار ہونے کے باوجود میدان جنگ میں ٹھہرے رہے، ا س لیے اس عارضی شکست کو زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مشرکین نے غفلت میں شدید وار کر کے شدید نقصان پہنچایا۔

اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو تسلی دی اور جس سبب سے نقصان پہنچا اس کی طرف توجہ دلائی۔ ﴿قل ھو من عند أنفسکم﴾اے پیغمبر! کہہ دیجیے یہ شکست خود تمہاری وجہ سے پہنچی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس جماعت میں نبی موجود ہو وہ اللہ کی جماعت حزب اللہ ہے اور حزب اللہ ہی غالب رہتی ہے، لیکن حزب اللہ کا غلبہ اطاعت رسول کے ساتھ مشروط ہے (احکام القرآن للقرطبی، آل عمران، ذیل آیت:165) جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نبی کریم کی اطاعت سے نکل کر درّے پر جمے رہنے کی بجائے نیچے اتر آئی تو نصرت خداوندی دور ہوگئی۔

آج مسلمان کفر کے مقابلے میں لرزہ بر اندام رہتے ہیں اور اگر مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت عالم کفر سے ٹکر لے لے تو بقیہ مسلمان انہیں لعن طعن کا نشانہ بنا کر انہیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور امت مسلمہ من حیث المجموع اطاعتِ رسول سے انحراف کر چکی ہے، سود، قتل وغارت گری، حدود اللہ کی پامالی، کافروں سے دوستی، مسلمانوں سے دشمنی، اجتماعی وانفرادی اعمال ومعاملات میں غیر قوموں کی نقالی… یہ سب ایسے امور ہیں جس کی وجہ سے امت مسلمہ نصرت الہی سے محروم ہے، بلکہ مسلمان دن بہ دن ذلت ورسوائی کے گھڑے میں گرتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں اپنے دین اسلام کی حقانیت پر سوال قائم کرنے کی بجائے اپنے کرتوتوں پر سوال قائم کرنے چاہییں کہ ہم کہاں چل پڑے ہیں اور کیا اس طریقے سے فتح ونصرت مل سکتی ہے؟ !

جہاد میں فتح وشکست کی خدائی حکمتیں
فتح وشکست کی حکمتوں پر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اور علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے مفصل کلام کیا ہے۔ (زاد المعاد: 2/99 تا108، فتح الباری: 7/ 347)

شائقین وہاں سے استفادہ کریں، یہاں چند فوائد پیش خدمت ہیں۔
1..غزوہ احد میں مسلمانوں کو تکالیف ومصائب کے ذریعے گناہوں کے ارتکاب اور اطاعت ِرسول سے روگردانی کی نحوست سے آگاہ کیا گیا۔
2..اگر مسلمانوں کو ہر میدان میں فتح وغنیمت ملتی رہے تو دنیا کے حریص منافقانہ لباس میں مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہو جائیں، پھر سچے اور جھوٹے شخص میں فرق نہ رہے۔
3..جہاد کی وجہ سے جان ومال خطرے میں پڑ جاتا ہے، اس موقع پر منافقین اپنی جان ومال کی حفاظت کے لیے حیلے بہانوں سے مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جاتے ہیں، یوں منافقوں کی چھانٹی کا عمل جاری رہتا ہے۔
4..مسلسل فتح سے عجب پسندی کا اندیشہ رہتا ہے، تکالیف ومصائب کی وجہ سے انکساری آ جاتی ہے۔
5..اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو شہادت کی نعمت سے سرفراز فرماتا ہے۔
6..رجوع الیٰ اللہ بڑھ جاتا ہے، اپنی صفوں میں پائے جانے والے دشمنوں پر نظر گہری ہو جاتی ہے۔

﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْیَاء عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ،فَرِحِیْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ وَیَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُواْ بِہِم مِّنْ خَلْفِہِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ،یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّہِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّہَ لاَ یُضِیْعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ،الَّذِیْنَ اسْتَجَابُواْ لِلّہِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَہُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِیْنَ أَحْسَنُواْ مِنْہُمْ وَاتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِیْمٌ،الَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ، فَانقَلَبُواْ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّہِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْہُمْ سُوء ٌ وَاتَّبَعُواْ رِضْوَانَ اللّہِ وَاللّہُ ذُو فَضْلٍ عَظِیْمٍ،إِنَّمَا ذَلِکُمُ الشَّیْْطَانُ یُخَوِّفُ أَوْلِیَاء ہُ فَلاَ تَخَافُوہُمْ وَخَافُونِ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن).(سورہٴ آل عمران:175- 169)
”اور تو نہ سمجھ ان لوگوں کو جو مارے گئے اللہ کی راہ میں مردے، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتےO خوشی کرتے ہیں اس پر جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے اور خوش وقت ہوتے ہیں ان کی طرف سے جو ابھی تک نہیں پہنچے ان کے پاس، ان کے پیچھے سے، اس واسطے کہ نہ ڈر ہے ان پر اور نہ ان کو غمO خوش وقت ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ ضائع نہیں کرتا مزدوری ایمان والوں کیO جن لوگوں نے حکم مانا اللہ کا اور رسول کا، بعد اس کے کہ پہنچ چکے تھے ان کو زخم، جو ان میں نیک ہیں اور پرہیزگار، ان کو ثواب بڑا ہےO جن کو کہا لوگوں نے کہ مکہ والے آدمیوں نے جمع کیا ہوا ہے سامان تمہارے مقابلے کو، سو تم ان سے ڈرو تو اور زیادہ ہوا ان کا ایمان اور بولے کافی ہے ہم کو اللہ اور کیا خوب کارساز ہےO پھر چلے آئے مسلمان اللہ کے احسان اور فضل کے ساتھ، کچھ نہ پہنچی ان کو برائی اور تابع ہوئے اللہ کی مرضی کے اور اللہ کا فضل بڑا ہےO یہ جو ہے سو شیطان ہے کہ ڈراتا ہے اپنے دوستوں سے، سو مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو“۔

﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَمْوَاتاً﴾اس آیت میں شہداء کے خصوصی اعزازات کو بیان کر کے مجاہدین کے لیے تسلی کا سامان اور انہیں قتال فی سبیل اللہ پر قائم رہنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔

1..تمام مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ شہداء کو ہرگز مردہ خیال مت کرو۔ 2..پھر دوسرے کلمے سے ان کی حیات ِجاوداں کو اجاگر کیا گیا۔ 3..انہیں عالم برزخ میں زندہ ہونے کی بنا پر جنتی رزق پیش کیا جاتا ہے۔ 4..عالم دنیا سے جانے کے بعد انہیں جن نعمتوں سے سرفراز کیا جاتا ہے وہ اس پر بہت خوش وخرم ہوتے ہیں۔ 5..اور وہ اپنے پیچھے اس راہ شہادت کے راہیوں کے متعلق بھی مطمئن اور خوش ہوتے ہیں کہ جس راہ پر چل پڑے ہیں اس میں شہادت پا کر ہمارے ساتھ ان اخروی نعمتوں کے مستحق ٹھہریں گے۔

شہید کی برزخی زندگی اور اس کی حقیقت
اس آیت میں شہداء کی برزخی زندگی کی دو خصوصیتیں بیان کی گئی ہیں۔
1..وہ زندہ ہیں۔ 2..انہیں رزق سے نوازا جاتا ہے۔

پہلی خصوصیت کی تفصیل
شہداء کو بعد از مرگ کون سی حیات حاصل ہوتی ہے؟ ابن حزم اندلسی اور ابن میسرہ کے نزدیک یہ حیات صرف روح کو ملتی ہے۔ 1..فلاسفہ، معتزلہ اور بعض کرامیہ کے نزدیک یہ حیات صرف جسم کو حاصل ہوتی ہے۔ 2..بعض صوفیا نے جسم مثالی کا قول کیا ہے۔ 3..لیکن جمہور اہل سنت والجماعت کا نظریہ یہ ہے کہ یہ حیات روح اور جسم عنصری دونوں کو ملتی ہے اور یہ حیات حقیقی ہے۔ علامہ آلوسی نے اسے تفصیل سے بیان فرمایا، یہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، قتادہ، مجاہد اور حسن کا موقف ہے۔ (دیکھیے رو ح المعانی، البقرة، ذیل آیت:154 ،تفسیر خازن، آل عمران، ذیل آیت:169))

حیات جسد عنصری پر دلائل
1..﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَمْوَاتاً…﴾ آیت کریمہ میں شہداء کے اسی وجود وجسم کو مردہ خیال کرنے سے روکا جا رہا ہے، جسے لے کر شہید میدان جنگ میں حاضر ہوا اور شہادت سے سرفراز ہوا اور وہ جسم عنصری تھا۔ جسم مثالی تھا، نہ صرف روح۔

2..بل أحیاء…یہ جملہ اسمیہ ہے۔ مبتدا مقدر کی خبر ہے۔ یعنی ”ھم أحیاء“ جملہ اسمیہ استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ نیز﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ﴾ شہید کو مردہ خیال نہ کرنے کا حکم بھی کسی وقت اور زمانے اور شخص ومکان کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے، اس سے شہداء کے جسم عنصری کی حیات حقیقی دائمی کا اثبات ہوتا ہے۔

3..”یرزقون“انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ رزق کی ضرورت حیات جسد عنصریہ کو ہوتی ہے، حیات برزخیہ، روحیہ یا مثالیہ کو نہیں ہوتی۔

4..شہدا کی ایک صفت ”یستبشرون“ بیان فرمائی اور استبشار اسی خوشی کو کہتے ہیں جس کا اثر انسانی جسم وپوست پر ظاہر ہو۔ شہدا کی ایسی مسرت جسد عنصری کی صورت میں متحقق ہوگی۔ (جاری)