پردہ عورت کے لیے انعام ِ خداوندی
الله تعالیٰ نے عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے، جو کہ عورت کے لیے ا لله تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے، اسی پردے میں عورت کی عزت ہے، یہی عورت کی حیا کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جو عورت پردہ کرتی ہے الله تعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت کی بے شمار نعمتیں عطا کرتا ہے، جن میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ الله تعالی ایسی عورت سے راضی ہو جاتا ہے، ظاہر ہے کہ ایک مسلمان عورت کے لیے اس سے بڑھ کر نعمت اور خوشی اور کیا ہو سکتی ہے کہ الله اس سے راضی ہو جائے…
عورت سراپا پردہ ہے
سنن الترمذی میں ہے:”عن عبدالله، عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفھا الشیطان․“(سنن الترمذی، رقم الحدیث:1172)
ترجمہ:” حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : عورت سراپا پردہ ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے۔“
یعنی شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات پر اُبھارے کہ وہ اس عورت کو دیکھ کر بد نظری اور دیگر گناہوں میں مبتلا ہوں۔
عورت کے لیے افضل جگہ
الله تعالیٰ کو عورت کا پردہ میں رہنا اتنا پسند ہے کہ عورت جتنا پردے میں رہتی ہے او رجتنا زیادہ اپنے آپ کو نامحرم مردوں سے چھپاتی ہے تو اتنا ہی الله تعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے اور عورت الله تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے کسی کونے اور پوشیدہ جگہ میں ہو۔ صحیح ابن حبان میں ہے:”عن عبدالله رضي الله عنہ عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفھا الشیطان، وأقرب ما تکون من ربھا إذا ھي في قعر بیتھا․“ (صحیح ابن حبان، رقم الحدیث:5599)
اس حدیث شریف میں صراحت سے یہ فرمایا گیا ہے کہ عورت تو پردے کی چیز ہے اور عورت الله تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھرکے کسی پوشیدہ حصے میں ہو، اس سے عورت کے لیے پردہ کرنے، پردے میں رہنے اور بلا ضرورت گھر سے نہ نکلنے کی بڑی فضیلت واہمیت معلوم ہوتی ہے۔
عورت کے لیے نماز پڑھنے کی افضل جگہ
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: عورت کے لیے صحن میں نماز پڑھنے سے زیادہ افضل یہ ہے کہ وہ کمرے میں نماز پڑھے اور کمرے میں بھی زیادہ افضل یہ ہے کہ وہ کسی کونے ( اور پوشیدہ جگہ) میں نماز ادا کرے۔ سنن ابی داؤد میں ہے:”عن أبي الأحوص عن عبدالله عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: صلاة المرأة في بیتھا أفضل من صلاتھا في حجرتھا، وصلاتھا في مخدعھا أفضل من صلاتھا في بیتھا․“(سنن أبي داود، رقم الحدیث:570)
سبحان الله! نماز جیسی اہم عبادت میں بھی پردے کا خوب اہتمام کرنے کی فضیلت اس حدیث مبارک سے واضح ہو جاتی ہے۔
مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی وجہ
شریعت نے عورت اور مرد کے مابین نماز کے معاملے میں بھی واضح فرق رکھا ہے، جس کی وجہ سے متعدد مقامات میں عورت کی نماز مرد کی نماز سے مختلف ہے، مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی وجہ بھی یہی ہے کہ عورت نام ہی حیا اور پردے کا ہے، اس لیے عورت کے لیے نماز میں وہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے، جو عورت کے لیے زیادہ ستر اور پردے کا باعث ہو اور یہی طریقہ الله تعالیٰ کو پسند ہے، جیسا کہ محدث امام بیہقی رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں:”وجُمَّاع ما یفارق المرأة فیہ الرجل من أحکام الصلاة راجع إلی الستر، وھو أنھا مأمورة بکل ما کان أستر لھا․“(السنن الکبری للبیہقي، باب ما یستحب للمرأة من ترک التجافي في الرکوع والسجود)
ترجمہ:”مرد او رعورت کی نماز میں باہمی فرق کے تمام تر مسائل کی بنیاد ستر اور پردہ ہے، چناں چہ عورت کو نماز میں اسی طریقے کا حکم دیا گیا ہے جو عورت کے لیے زیادہ ستر اور پردے کا باعث ہو۔“
دنیا میں نازیبالباس پہننے پر شدید وعیدیں
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : دو جہنمی گروہ ایسے ہیں جن کو میں نے اب تک نہیں دیکھا: ایک تو وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دُم کی طرح کوڑے ہوں گے، جن کے ذریعے وہ لوگوں کو ماریں گے۔ دوسری وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی۔ (نامحرم مردوں کو) اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں گی اور خو دبھی (اُن کی طرف) مائل ہوں گی، ان کے سربختی اونٹوں کے جھکے ہوئے کوہانوں کی طرح ہوں گے، ایسی عورتیں جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوش بو سونگھیں گی، حالاں کہ جنت کی خوش بو تو اتنی اتنی دور سے سونگھی جاتی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے :
”عن أبي ھریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: صنفان من أھل النار لم أرھما: قوم معھم سیاط کأذناب البقر یضربون بھا الناس، ونساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات، رؤ وسھن کأسنمة البخت المائلة، لا یدخلن الجنة ولا یجدن ریحھا، وإن ریحھا لیوجد من مسیرة کذا وکذا․“(صحیح مسلم، رقم الحدیث:5704)
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : بعض عورتیں دنیا میں تو لباس پہنتی ہوں گی، لیکن آخرت میں ننگی ہوں گی۔ صحیح بخاری میں ہے:
عن أم سلمة قالت: استیقظ النبي صلی الله علیہ وسلم ذات لیلة فقال: سبحان الله، ماذا أنزل اللیلة من الفتن وماذا فتح من الخزائن! أیقظوا صواحبات الحجر، فرب کاسیة في الدنیا عاریة في الآخرة․“(صحیح بخاری، رقم الحدیث:115)
لباس پہننے کے باوجود ننگی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو لباس اس قدر چھوٹا ہو گا کہ اس میں ستر نہ چھپ سکے گا، یا اس قدر چست ہو گا کہ جس سے جسم کی ہیئت ظاہر ہو گی، یا اس قدر بار یک ہو گا کہ جس سے جسم نمایاں ہوتا ہو گا، اس لیے اس حدیث میں موجود یہ شدید وعید اُن تمام عورتوں کے لیے ہے جو ایسا نامناسب لباس پہنتی ہیں۔
مردوں کی مشابہت اختیار کرنے پر لعنت کی وعید
حضور صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اس آدمی پر جو عورت جیسا لباس پہنتا ہے او راس عورت پر جو مرد جیسا لباس پہنتی ہے۔ سنن ابی داؤد میں ہے:”عن أبي ھریرة قال:لعن رسول الله صلی الله علیہ وسلم الرجل یلبس لِبسة المرأة، والمرأة تلبس لِبسة الرَّجل․“ (سنن أبي داود، رقم الحدیث:4100)
بدنظری کا ذریعہ بننے پر لعنت کی وعید
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله کی لعنت ہے بد نظری کرنے والے پر اور اس (عورت) پر جو اپنے آپ کو بدنظری کے لیے پیش کرے۔ شعب الایمان میں ہے:”عن الحسن، قال: وبلغني أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: لعن الله الناظر والمنظور إلیہ․“ (شعب الإیمان، رقم الحدیث:7399)
خوش بو لگا کرنامحرم مردوں کے پاس سے گزرنے پر وعید
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ہر (بدنظر کرنے والی) آنکھ زنا کار ہے او رجب کوئی عورت خوش بو لگا کر لوگوں کے پاس سے گزرے تو ایسی عورت زنا کار ہے۔ سنن الترمذی میں ہے:”عن أبي موسی عن النبي صلی الله علیہ وسلم، قال: کل عین زانیة، والمرأة إذا استعطرت فمرت بالمجلس، فھي کذا وکذا یعني زانیة․(ترمذی، رقم الحدیث:2786)
ان تمام احادیث ِ مبارکہ اور تفصیلات سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ الله کے نزدیک عورت کے لیے پردہ کرنا کس قدر پسندیدہ اور اہم ہے، اس لیے ا س بات کا تقاضا یہ ہے کہ جب عورت کسی ضرورت کے لیے گھر سے نکلے تو اس کو چاہیے کہ ایک تو مکمل پردے کے ساتھ باہر نکلے، دوسرا یہ کہ باہر نکلتے وقت ایسا برقعہ نہ پہنے جس سے اس کا پردہ نہ ہوتا ہو، حیا کی حفاظت نہ ہوتی ہو اور جو مردوں کو اپنی جانب متوجہ کرے، کیوں کہ جس طرح بے پردہ ہو کر نکلنا الله تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے،اسی طرح فیشنی اور چست برقعہ پہن کر باہر نکلنابھی الله تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ افسوس کہ آج کل بہت سی خواتین زیب وزینت والے فینسی اور چست برقعہ پہنتی ہیں،جن سے پردے کا مقصد ہی حاصل نہیں ہوتا، ظاہر ہے کہ یہ الله تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے، جو کہ ایک مسلمان عورت کی شان نہیں ہوسکتی۔
برقعہ کی شرائط واوصاف
کون سا برقعہ پہننا جائز ہے او رکون سا ناجائز ؟ ماقبل میں مذکور تفصیل کی روشنی میں اس حوالے سے مندرجہ ذیل شرائط معلوم ہوتی ہیں:
٭… برقعہ انتہائی سادہ ہو، اس میں نقش ونگار اور زیب وزینت نہ ہو اور نہ ہی ایسا رنگ ہو جو جاذب نظر ہونے کی وجہ سے مردوں کی توجہ کا سبب بنے۔
٭… برقعہ چست نہ ہو کہ اس سے جسم کی ہیئت او رنشیب وفراز ظاہر ہو، بلکہ ڈھیلا ڈھالا ہو، جس سے جسم نمایاں نہ ہوتا ہو۔
٭… برقعہ باریک نہ ہو جس سے جسم یا جسم کا لباس ظاہر ہوتا ہو، بلکہ وہ اس قدر موٹا ہو جس سے جسم اور اس کا لباس نظر نہ آئے۔
٭… برقعہ اس قدر بڑا ہو، جس میں جسم اچھی طرح چھپ جائے۔
٭… برقعہ مردوں کے لباس کے مشابہ نہ ہو، اسی طرح کافروں یادین بیزار عورتوں کے فیشنی برقعہ کے مشابہ بھی نہ ہو، کیوں کہ ان لوگوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
٭… برقعہ پر مہکنے والی خوش بو بھی نہ لگائی جائی، جو کہ مردوں کے لیے فتنے کا سبب بنے۔
مسلمان عورتوں کے ایمان اور حیا کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایسا برقعہ پہننے کا اہتمام کریں جس میں مذکورہ بالا شرائط پائی جاتی ہوں،جیسا کہ بعض علاقوں میں ٹوپی والے برقعے رائج ہیں، جن میں یہ شرائط پائی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے برقعے پہننا جو نقش ونگار والے ہوں، جاذب ِ نظر ہوں، چست یا باریک ہوں، جس سے جسم نمایاں ہوتا ہو تو واضح رہے کہ یہ ناجائز ہے۔ اسی طرح مرد حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی خواتین کو ایسے ناجائز برقعوں سے منع کرکے جائز برقعے پہننے کا پابندبنائیں۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ:
مزین برقعہ پہن کر نکلنا بھی ناجائز ہے
امام جصاص رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ : جب زیو رکی آواز تک کو قرآن نے اظہار زینت میں داخل قرار دے کر ممنوع کیا ہے تو مزیّن رنگوں کے برقعے پہن کر باہر نکلنا بدرجہ اولیٰ ممنوع ہو گا ۔(معارف القرآن، ج:6، ص:707-706)
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمان عورتوں کو شریعت کی منشا کے مطابق پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !