عورتوں کے لیے دینی تربیت بھی بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ ابتدائی تربیت یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ قوم کی دینی تربیت کا دار ومدار عورت کی دینی تربیت پر ہے۔ اگر وہ جاہل ہے قوم جاہل رہے گی۔ الا ماشاء الله۔ جس کی فطرت سلیم ہو،اگر وہ عالم ہوئی تو اولاد بھی عالم ہوگی۔ اگر والدہ کے قلب میں تعلیم کی طرف رغبت موجود ہو تو بچے بھی اس کی رغبت سے فیض یاب ہوں گے۔ اگر ماں خود رغبت سے خالی ہے تو بچے بنیادی سرچشمہ رہیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے جب کہ بچہ پیدا ہوتا ہے، تو اس وقت بھی سب سے پہلے اس کی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ دائیں کان میں اذان دی جاتی ہے ،اس میں توحید ورسالت اور عبادات کی تعلیم ہے۔ تو اس اذان کے ذریعے اصول وفروع، عقائد واعمال کی تعلیم دی جاتی ہے اور حی علی الفلاح میں اس کا انجام اور نتیجہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ فلاح اور کام یابی ہے جو آخرت میں تمہیں میسر ہوگی۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں تعلیم کا کتنا بڑا مرتبہ اور درجہ ہے، اس لیے اس پر زور دیا گیا:”طلب العلم فریضة علی کل مسلم ومسلمة․“
ترجمہ:” علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔“
تاکہ علم حاصل کرنے کے بعد ہر مسلمان مرد وعورت کو معلوم ہو جائے کہ میں کیسا مسلمان ہوں اور مسلمان کے کیسے اخلاق ہونے چاہییں۔ چھوٹوں سے شفقت او ربڑوں سے ادب واحترام سے پیش آنا، رہنے سہنے اورحسن معاشرت کا طرز عمل معلوم ہو۔ اس لیے تعلیم واجب قرار دے دی گئی ہے تمام پر، خواہ مرد ہو یا عورت ، اس کے بعد دوسرے اعمال کی تعلیم دی جاتی ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ :”جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو عبادت کی طرف متوجہ کر دیا جائے۔“
تو حقیقت میں یہ مقصد عورتوں سے ہی حاصل ہوتا ہے کہ جب ماں تعلیم یافتہ ہوگی، بچے کو بھی تعلیم سے آشنا کر دے گی۔ جس سے اس کے اخلاق سدھر جائیں گے او راگر بالفرض ماں بچے کو تعلیم نہ بھی دے مگر وہ ماں نیکوکار اور بااخلاق ہے تو اس کی نیکوکاری اور حسن اخلاق کی برکت سے اولاد بھی دین دار بن جائے گی۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو قوم میری فرماں برداری کرتی ہے تو میں اس کی سات پشتوں تک اور نسلوں تک رحمت کو بھیجا کرتا ہوں اوراگر فرماں برداری نہیں کرتی اس کی سات پشتوں تک لعنت بھیجا کرتا ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی نیکوکاری او ربد کاری کا بڑا اثر ہے۔ جو سات پشتوں تک جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ والدین جیسے ہوں ویسے ہی ان کے بچے بھی اثر قبول کرتے ہیں۔ اگر والدین میں عالم ہیں تو بچے میں بھی علم کا اثر ہو گا کہ وہ جائز وناجائز کے مطابق گفت وشنید کرتا ہو گا۔ اگر دکان دار ہیں تو بچے میں بھی دکان داری کے اثرات،حساب وغیرہ کچھ نہ کچھ موجود ہوں گے۔ اگر والدین کھیتی باڑی کرتے ہیں تو بچے میں بھی اس کا اثر موجود ہو گا۔ تو یہ اثر ہے ماں باپ کے ماحول کا بچے پر اثر ہو گا۔ اب سب سے پہلا انسان پر اپنے نفس کا حق ہے۔ دوسرا حق اولاد کو پڑھانا کہ وہ صحیح راستہ پر چلے، یعنی مخلوق کا ہے اور تیسرا حق معاشرے کا ہے اور یہ تینوں علم پر موقوف ہیں۔ تو جتنا علم حاصل کریں گے خاندان علمی بنتا جائے گا اور ماحول خوش گوار ہوتا جائے گا۔
ملکہ کے تقوی کا اس کی اولاد پر اثر
امیر عبدالرحمن خان والی کابل کے دادا امیر دوست محمد کا واقعہ ہے کہ اس کے ملک پر کسی نے چڑھائی کی۔ اس کی سرکوبی کے لیے اس نے ایک فوج اپنے ولی عہد شہزادے کے ہاتھ بھیجی۔ دو تین دن بعد اطلاع آئی کہ شہزادے کو شکست ہوئی اور وہ دوڑا ہوا آرہا ہے اور دشمن اس کے پیچھے ہے۔ اس سے بادشاہ کو صدمہ ہوا او رکئی غم سوار ہوئے۔ شکست کا غم، شہزادے کی کم زوری کا اور قوم کی ملامت کا، تو وہ اس غم کے اندر محو ہو کر گھر آیا او ربیگم صاحبہ سے تمام قصہ سنایا۔ بیگم نے کہا کہ یہ سارا قصہ غلط ہے۔ امیر نے کہا، سی۔ آئی۔ ڈی کی رپورٹ ہے، وہ کیسے غلط ہو سکتی ہے؟ مگر بیگم نہ مانی کہ شکست ہر گز نہیں ہوسکتی۔ تو بادشاہ گھر سے نکل آیا کہ یہ عورت ہے۔ یہ مرغے کی ایک ٹانگ ہانکے گی۔ دوسرے دن اطلاع آئی کہ وہ خبر غلط ہے۔ شہزادہ فتح پاکر واپس آرہا ہے۔ اس پر بیگم نے شہزادے کی سلامتی اور فتح یابی پر الله کا شکر ادا کیا۔
بادشاہ نے پوچھا، تجھے کیسے معلوم ہوا تھا کہ وہ شکست نہیں کھاسکتا؟ کیا دلیل ہے تیرے پاس کہ میری پوری حکومت کو تونے جھٹلایا۔ اس نے کہا کہ کچھ نہیں، صرف الله تعالیٰ نے میری لاج رکھ لی۔ یہ میرا راز ہے۔ میں اس کو فاش نہیں کرناچاہتی، آخر اصرار کرنے بتایا کہ جب شہزاد میرے پیٹ میں آیا تو میں نے اس وقت سے عہد کر لیا تھا کہ میرے پیٹ میں مشتبہ لقمہ نہیں آنا چاہیے۔ اس لیے کہ حلال غذاسے اچھی طبیعت او راچھے اخلاق بنتے ہیں اورحرام غذا سے طبیعت فاسد ہوتی ہے او راخلاق رذیلہ پیدا ہوتے ہیں۔
یہ شہزادہ نو مہینے تک میرے پیٹ میں رہا اور ایک لقمہ غذا کا میں نے ایسا نہیں کھایا جو مشتبہ ہو، اس لیے اس کے اخلاق رذیل اوربرے نہیں ہوسکتے۔ شہید ہونا یہ اچھا خلق ہے اور پشت پھیرنا یہ اچھا خلق نہیں ہے۔ تو شہزادہ شہید ہوسکتا ہے اور کٹ کر مرسکتا ہے ، پشت پھیرکے فرار نہیں ہوسکتا۔
او رپھر اس پربس نہیں۔ بلکہ جب یہ شہزادہ پیدا ہوا تب بھی مشتبہ غذا استعمال نہیں کی، تاکہ اس غذا سے دودھ بن کر اس کے اخلاق پر اثر انداز نہ ہو او رجب دودھ پلاتی تو وضو کرکے اور دو رکعت نفل ادا کرکے پلاتی۔ اس لیے ان چیزوں سے شہزادے کے اخلاق بہت بلند ہونے چاہییں۔ اس لیے میں نے تمہاری ساری فوج اور حکومت کی بات کو جھٹلایا۔ مگر اپنے قول سے باز نہیں آئی۔