”إن الله عزوجل یبسط یدہ باللیل لیتوب مسییء النھار ویبسط یدہ بالنھار لیتوب مسییء اللیل، حتی تطلع الشمس من مغربھا․“ (مسلم)
ترجمہ:” بلاشبہ خدا وند قدوس رات کو اپنا دامن ِ رحمت واکرتا ہے، تاکہ دن کا گنہگار توبہ کرے اور دن کو اپنا دامن رحمت واکرتا ہے، تاکہ رات کا گنہگار توبہ کرے، یہ سلسلہ اس وقت تک قائم رہے گا جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔“
تشریح… توبہ کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی گناہ اور شرعی لحاظ سے ناپسندیدہ عمل انسان سے سر زد ہو جائے اس کے انجام بد سے خوف ہو اور قلبی شرمندگی اور غم اور آئندہ اس سے ہمیشہ اجتناب کا پختہ ارادہ ہو۔ امام نووی رحمہ الله تعالیٰ نے ریاض الصالحین میں تحریر فرمایا ہے کہ :”علماء کہتے ہیں کہ توبہ ہر گناہ سے واجب ہے، اگر گناہ کا معاملہ بندے اور الله کے درمیان ہو، کسی آدمی کے حق سے اس کا تعلق نہ ہو تو اس صورت میں توبہ کی تین شرطیں ہیں، اول یہ کہ گناہ سے رک جائے، دوم یہ کہ گناہ پر نادم ہو، سوم یہ کہ پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرنے کا عزم ِ مصمم کرے، یہ حقوق الله کا مسئلہ ہے، اگر ان شرطوں میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو توبہ درست نہ ہوگی او راگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو اس کی توبہ کی چا رشرائط ہیں، تین شرطیں تووہی مذکورہ بالا ہیں اور چوتھی شرط یہ ہے کہ حق دار کو اس کا حق ادا کرے، اگر کسی کا مال لیا تھا تو وہ اسے لوٹا دے، اگر کسی پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تو اس سے معافی مانگے اور ضروری ہے کہ اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرے او راگر بعض گناہوں سے توبہ کرے تو اہل ِ حق کے نزدیک وہ توبہ درست ہوگی اور دوسرے گناہ باقی رہیں گے، توبہ کے وجوب پر کتاب وسنت اور اجماع امت کے واضح دلائل موجود ہیں۔ ( ریاض الصالحین، باب التوبہ)
قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَی اللَّہِ تَوْبَةً نَّصُوحًا﴾(تحریم:8)
اے مؤمن بندو! الله سے خالص توبہ کرو۔ نیز فرمایا گیا:﴿وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا أَیُّہَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾․(سورة النور،آیت:31)
اے مؤمنو! تم سب الله سے توبہ کرو،تاکہ تم فلاح پاؤ۔
ابن ابی حاتم نے زربن حبیش کے واسطے سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں، میں نے حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ سے توبہٴ نصوح کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہو جائے تو اپنے گناہ پر شرمندہ ہو، پھر ندامت کے ساتھ الله سے استغفار کرو اور آئندنہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔ یہی مطلب حضرت عمر رضی الله عنہ، ابن مسعود رضی الله عنہ او رابن عباس رضی الله عنہ سے بھی نقل کیا گیا ہے، ابن جریر رحمہ الله تعالیٰ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے توبہٴ نصوح کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ توبہ کے بعد انسان دوبارہ گناہ تو درکنار، اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے۔
تفسیر مظہری میں ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ سے سوال کیا گیا ہے کہ توبہ کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا! جس میں 6 چیزیں جمع ہوں۔
1.. اپنے گزشتہ برے عمل پر ندامت۔ 2.. جو فرائض وواجبات الله تعالیٰ کے چھوٹے ہیں ان کی قضا۔ 3.. کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا ہو تو اس کی واپسی۔ 4.. کسی کو ہاتھ یا زبان سے ستایا یا اذیت دی ہو تو اس سے معافی۔ 5.. آئندہ اس گناہ کے قریب نہ پھٹکنے کا پختہ عزم۔ 6.. جس طرح اپنے نفس کو الله کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھا ہے اب اس کو اطاعت کرتا ہوا دیکھ لے۔
حضرت حسن بصری نے فرمایا ہے کہ توبہٴ نصوح یہ ہے کہ آدمی اپنے گزشتہ عمل پر نادم اور پھر اس کی طرف نہ لوٹنے کا پختہ عزم رکھتا ہو، کلبی کے بقول آدمی زبان سے استغفار کرے ، دل میں نادم ہو او راپنے اعضاء کو آئندہ اس گناہ سے باز رکھے۔
توبہ کے متعلق یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ توبہ کسی گناہ پر اس لیے نادم ہونا ہے کہ وہ الله کی معصیت ہے، ورنہ کسی گناہ کا صحت کے لیے نقصان دہ ہونے یا بدنامی یا مالی خسارہ کا موجب ہونے کی وجہ سے ترک کرنا توبہ نہیں ہے، نیز جس وقت وقوع معصیت کا احساس ہو اسی وقت توبہ کر لینی چاہیے، اسے ٹالنا غلط ہے، ہر ممکن طور پر اس کی فی الفور تلافی کرنا چاہیے، یہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ توبہ کرکے بار بار اسے توڑنا، اسے کھیل بنا لینا، بار بار وہی گناہ کرنا جس سے توبہ کی ہے توبہ کے جھوٹے ہونے کا ثبوت ہے، بار بار توبہ شکنی اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کو کوئی ندامت ہی نہیں ہے، ہاں! اگر صدق دل سے توبہ کرکے یہ پختہ عہد کر چکا ہے کہ اب اس جرم کو دوبارہ نہ کرے گا ،مگر بشری خامیوں کی بنا پر اسی جرم کا صدور ہو جائے تو پھر توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ مزید عزم کے ساتھ رہنا چاہیے کہ توبہ شکنی نہ ہو۔
مذکورہ حدیث میں عندالله توبہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ اپنا دست رحمت وار کھتا ہے اور یہ دن ورات ہوتا رہتا ہے، تاکہگناہ گار بندے توبہ کریں، اس سے رجوع ہوں، یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا، جب سورج پچھم سے نکلے گا تب جاکردرتوبہ بند ہوگا۔
ایک حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”إن الله یقبل توبہ العبد مالم یغرغر“ (ترمذی وابن ماجہ)
الله تعالیٰ بندہ کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک غرغرہ کی کیفیت طاری نہ ہو،یعنی روح گلے تک آنے او رنزع کی حالت شروع ہونے تک توبہ قبول ہوتی رہتی ہے، اسی کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے:﴿ إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ السُّوَء َ بِجَہَالَةٍ ثُمَّ یَتُوبُونَ مِن قَرِیْبٍ فَأُوْلَئِکَ یَتُوبُ اللّہُ عَلَیْْہِمْ وَکَانَ اللّہُ عَلِیْماً حَکِیْماً، وَلَیْْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ السَّیِّئَاتِ حَتَّی إِذَا حَضَرَ أَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّیْ تُبْتُ الآنَ وَلاَ الَّذِیْنَ یَمُوتُونَ وَہُمْ کُفَّارٌ أُوْلَئِکَ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً﴾
․(النساء:18-17) ہاں یہ جان لوکہ الله پر توبہ کی قبولیت کا حق انہیں لوگوں کے لیے ہے جو نادانی سے کوئی برا فعل کر گزرتے ہیں او راس کے بعد جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں، ایسے لوگوں پر الله اپنی نظرِ عنایت سے پھر متوجہ ہوجاتا ہے اور الله ساری باتوں کی خبر رکھنے والا ہے اور حکیم ودانا ہے۔ مگر توبہ ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو برے کام کیے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی۔
حضرت حکیم الامت تھانوی نے تفسیر بیان القرآن میں یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ”موت کے قریب دو حالتیں پیش آتی ہیں، ایک تو یاس وناامیدی کی، جب کہ انسان ہر دوا تدبیر سے عاجز ہو کر یہ سمجھ لے کہ اب موت آنے والی ہے کہ اس کو حالت ِ بأس (بالباء) سے تعبیر کیا گیا ہے، دوسری حالت اس کے بعد کی ہے، جب کہ نزع روح شروع ہو جائے اور غرغرہ کا وقت آجائے، اس کو حالت یاس (بالیاء) کہا جاتا ہے، پہلی حالت یعنی حالت بأس تک تو”من قریب“ کے مفہوم میں داخل ہے او رتوبہ اس وقت کی قبول ہوتی ہے، مگر دوسری حالت یعنی حالت یاس کی توبہ مقبول نہیں، جب کہ فرشتے اور عالم آخرت کی چیزیں انسان کے سامنے آجائیں ،کیوں کہ وہ” من قریب “کے مفہوم میں داخل نہیں“ ۔ (معارف القرآن، حصہ دوم،ص: 344)
اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ توبہ ان کے لیے نہیں ہے جو الله سے بے خوف اور بے پروا ہو کر تمام عمر گناہ پر گناہ کرتے چلے جائیں اورپھر موت آنکھوں کے سامنے دیکھ کر توبہ کریں او رمعافی مانگنے لگیں، آثار ِ موت شروع ہونے کے بعد معافی نہیں ،کیوں کہ مہلت امتحان پوری ہو چکی ہے او رکتاب ِ زندگی ختم ہوچکی۔ ہاں! جو آثار ِ موت کے آغاز سے قبل ہی تائب ہو، اپنے کیے پر شرم سارونا دم ہو، گڑ گڑا کر بارگاہ الہی میں رجوع ہو، گناہ سے ہمیشہ باز رہنے کا عزم مصم کرے، تلافی مافات کی فکر کرے، مثلاً فوت شدہ نماز وروزہ کی قضا کااہتمام کرے، زکوٰة نہیں دی ہے تو اب ادا کرے، بندوں کا حق ادا کرے یا معافی مانگے تو ایسے بندہ پر خداوند قدوس کی نظر ِ عنایت ازسر نو منعطف ہوتی ہے کیوں کہ #
ایں در گہ ما در گہ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
توبہ کی اہمیت کے لیے یہ دو حدیثیں ہی کافی ہیں:” کل بنی آدم خطاء وخیر الخطائین التوابون“
ہر آدمی خطا کار ہے اور خطا کاروں میں سب سے اچھے وہ ہیں جو مخلصا نہ توبہ کریں اور الله کی طرف رجوع ہوں۔(ابن ماجہ)
خطا وگناہ اور لغزش فطرت ِ انسانی ہے، کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، خوش نصیب ہیں، وہ بندے جو پورے خلوص کے ساتھ نادم او رتائب ہوں۔
”التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ“
گناہ سے توبہ کرنے والا بندہ بالکل اس بندہ کی طرح ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ (ابن ماجہ) بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان گناہوں سے توبہ کے بعد ایسا بے گناہ ہو جاتا ہے جیسا وہ اپنی پیدائش کے وقت بے گناہ رہتا ہے او رایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مؤمن بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، پھر اگر اس نے توبہ واستغفار کیا تو وہ سیاہ نقطہ زائل ہو کر قلب صاف ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ گناہ کرتا رہا تو دل کی سیاہی بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ دل پر چھا جاتی ہے ، یہی وہ زنگ ہے جس کا الله نے ذکر فرمایا ہے :﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَیٰ قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ﴾․ (سورة المطففین،آیت:14)
ہر گز نہیں، ان کے دلوں پر ان کے اعمال بد کا زنگ اورمیل چڑھ گیا ہے۔(ترمذی)
ان تمام تفصیلات سے توبہ کی اہمیت کس قدر واضح ہوتی ہے، توبہ واستغفار تمام انبیاء کی سنت ہے، اس کے لیے گناہوں کا صدور ہی ضروری نہیں ہے، بلکہ یہ احساس ہر دم دل میں جا گزیں رہنا چاہیے کہ ہم سے اطاعت ِ الہٰی کا حق ادا نہیں ہو رہا ہے، اسی احساس کے بعد توبہ کرتے رہنا چاہیے، توبہ گناہ گاروں کی مغفرت ورحمت او رمقربین ومعصومین کے لیے قُرب ومحبوبیت کے درجات میں بے پایاں اضافہ وترقی کا ذریعہ ہے۔