شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، جن کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختوانخواہ کی تحصیل صوابی سے ہے اور جنہوں نے ایک طویل عرصہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں بھی علمی خدمات سرانجام دی ہیں او راب بیس سال سے زائد عرصے سے ”دارالعلوم زکریا“ جو جنوبی افریقا کا ایک بڑا دینی ادارہ ہے، وہاں علمی ودینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، گزشتہ دنوں حضرت پاکستان تشریف لائے تو حضرت اقدس مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم کی دعوت پر جامعہ فاروقیہ کراچی تشریف لائے او راس موقع پر طلباء اور اساتذہ سے مختصر خطاب بھی فرمایا۔
حضرت اقدس مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم نے حضرت مفتی رضا ء الحق صاحب دامت برکاتہم کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا: حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب ہمارے اکابر کی نشانی ہیں، جامعہ العلوم الاسلامیہعلامہ بنوری ٹاؤن میں محدث العصر حضرت علامہ محمدیوسف بنوری رحمة الله علیہ کے زیر سایہ طویل عرصہ خدمات انجام دیں اوراب ایک طویل عرصے سے الحمدلله جنوبی افریقا کا بہت عظیم الشان اوربہت بڑا ادارہہے، دارالعلوم زکریا وہاں شیخ الحدیث اور رئیس دارالافتاء ہیں، آپ کی تصانیف سے یقینا آپ حضرات نے استفادہ بھی کیا ہو گا۔
آج ہی آپ کراچی تشریف لائے، میرے علم میں آیا تو میں نے حضرت سے جامعہ آنے کی درخواست کی ، اپنی سہولت سے ہمارے لیے جو وقت مل سکے تو ذرہ نوازی فرمائیے گا، تشریف لائیے گا، تو حضرت نے ہماری دعوت کو قبول فرمایا اور اس بات کی بڑی خوشی ہوئی ہے یہاں تخصص فی الحدیث ،تخصص فی الفقہ اور دورہٴ حدیث کے طلبہ کرام موجود ہیں، میں حضرت سے التماس او رگزارش کروں گا کہ کچھ نصیحت بھی فرمائیں اور ساتھ ہی اگر اجازت حدیث بھی طلباء کرام کو دیں اور جو اساتذہ کرام یہاں تشریف فرما ہیں ان کو بھی عطا فرما دیں تو بڑی نوازش ہو گی۔
(اس کے بعد حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم نے خطاب فرمایا)
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمین، والصلوٰة والسلام علی سیدنا محمد وعلی آلہ وأزواجہ وأتباعہ أجمعین إلی یوم الدین․
اما بعد! فقد قال الله تبارک وتعالیٰ:﴿فَلَوْلاَ نَفَرمِن کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُون﴾․(سورة التوبة، آیة:122)
محترم حضرت مہتمم صاحب ، عزیز طلباء اور علماء کرام!
حضرت مہتمم صاحب نے حکم فرمایا، فرمائش کی کہ طلباسے ملاقات کروں اور طلباء کے سامنے کچھ مذاکرہ ہو جائے، الله تبارک وتعالیٰ نے آپ پر اور ہم پر بہت بڑا فضل فرمایا، کہ ہمیں علم کی راہ سے منسلک فرمایا:
شاعر کا شعر مشہور ہے #
لا فضل إلا لأھل العلم إنہ
علی الھدی لمن استھدی أدلاء
وقدر کل امری ما کان یحسنہ
وللرجال علی الأفعال أسماء
وضد کل امریٴ ما کان یجھلہ
والجاھلون لأھل العلم أعداء
ففز بعلم تعش حیابہ أبدا
فالناس موتی وأھل العلم أحیاء
لافضل إلا لأھل العلم إنہ․
فضیلت صرف اہل علم کے لیے ہے، اس لیے کہ
”علی الھدی لمن استھدی ادلاء“
ہدایت لینے والوں کے لیے ہدایت کی راہ پر برا جمان ہیں۔
وقدر کل امریٴ ما کان یحسنہ اور آدمی کی قدر اور عزت اور آدمی کے مرتبے کا پتہ چلتا ہے اس کی صفت سے، آدمی کا پتہ چلتا ہے اس کے علم سے، علم پختہ ہو، تو عالم کی قدر وعزت ہو گی، او رعلم پختہ نہ ہو تو عالم کی عزت نہیں ہوگی۔
اس لیے حدیث مبارک میں آتا ہے کہ تین آدمیوں کو جب جہنم میں ڈالا جائے گا، ان میں سے ایک وہ ہو گا کہ جس نے علم حاصل کیا ہو اس لیے تاکہ مجھے عالم کہا جائے او راس کی وجہ یہ ہے کہ مشک آں باشد کہ ببوید، مشک وہ ہے جو خوش بو دے ، مشک وہ نہیں ہے کہ جس کی مشک والا تعریف کرے، تو جس کے اندر علم کی صفت ہو گی، علم کی پختگی ہوگی، خود بخود اس کی شہرت ہو گی، خود بخود الله تبارک وتعالیٰ عزت عطا فرمائیں گے۔
تو جو عزت کے لیے علم کو حاصل کرتا ہو تا کہ میری عزت ہو جائے او رمجھے لوگ بڑا آدمی سمجھیں یہ حماقت وبے وقوفی ہے اس لیے اس احمق کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
علماء فرماتے ہیں کہ افغانستان میں دو عالم تھے ایک کا نام مولانا عبدالحکیم اور دوسرے کا نام مولانا عبدالباقی، جس زمانے میں انگریز کا اکثر ممالک پر تسلط ہو رہا تھا اس زمانے میں یہ دونوں حضرات شام گئے، شام کی طرف ہجرت کی، مولانا عبدالحکیم صاحب دمشق میں تھے اورمولانا عبدالباقی صاحب کسی اور جگہ تھے، چوں کہ سوال نہیں کرتے تھے کسی سے اور یہ بھی نہیں بتلاتے تھے کہ ہم علماء ہیں، یہ بھی نہیں بتلاتے تھے کہ ہم فلاں فلاں علم میں مشہور ہیں اور فلاں فلاں علم ہمیں آتا ہے اس لیے ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، تو ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ دمشق کا جو مفتی اعظم تھا، شیخ محمود حمزاوی اور شیخ محمود وہ شخصیت ہیں جو بہت ا ونچے درجے کے عالم تھے اور فقیہ تھے او رانہوں نے یہ جو” گولی“ سے شکار کرتے ہیں اور بسم الله پڑھتے ہیں تو وہ شکار حلال ہے اس پر انہوں نے رسالہ لکھا ہے، اس کا نام ہے”فتوی الخواص فی حل ما صید بالرصاص“ اور اس فتوے کا خلاصہ ہم نے ”فتاوی دارالعلوم زکریا“ میں نقل کیا ہے، جہاں یہ شکار کا مسئلہ آیا ہے کہ بندوق سے شکار کا کیا حکم ہے؟ اکابر کیا فرماتے ہیں، دوسرے علماء کیا فرماتے ہیں؟ سہولت کا کیا تقاضا ہے؟ شیخ محمود کے گھر میں کچھ تعمیراتی کام تھا اور مولانا عبدالحلیم صاحب معمار کے ساتھ کام کرتے تھے، پتھر اٹھاتے تھے ،چونا اٹھاتے تھے ،ایک دن جب کام کر رہے تھے تو شیخ محمود حمزاوی کے ڈیسک پر فتاوی پڑے تھے، وہ فتوی لکھتے تھے، قاضی بھی تھے، مفتی عام تھے اور دمشق کا جو مفتی عام تھا استنبول کے بعد اس کا درجہ ہوتا تھا، استنبول چوں کہ خلافت عثمانیہ کا دارالخلافہ تھا اور اس دارالخلافہ میں بڑا مفتی ہوتا تھا، اور دمشق کا مفتی بھی اس کے بعد سمجھا جاتا تھا۔
مولانا عبدالحکیم صاحب نے ایک فتوی اٹھایا اورلکیر کھینچی اور مزید حوالے لکھے کہ یہ مسئلہ فلاں کتاب میں ہے ، فلاں کتاب میں ہے، فلاں کتاب میں ہے، بعض مسائل کی جگہ لکھا کہ اس کا جواب اس کی جگہ یہ ہونا چاہیے، خوشخط، بہترین خط میں لکھا اور وہ فتوی ڈیسک پر رکھ دیا، شام کو جب معمار بھی گیا مزدور بھی چلے گئے اور شیخ محمود حمزاوی آئے، دیکھا کہ فتوے پر کسی نے خوشخط تحریر میں تعقبات لکھے ہیں او رمختلف حوالے دیے ہیں ، وہ حیران ہوگئے کہ یہ کوئی جن آیا یا کس نے لکھا؟ ہمارے گھر میں تو معمار تھے اورمعمار کے ساتھ مزدور تھے، تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ جو معمار کے ساتھ ایک مزدور کام کر رہا ہے، اس نے لکھا ہے، دوسرے دن ، مولانا عبدالحکیم کو بلایا، پوچھا یہ آپ نے لکھا؟ انہوں نے کہا جی میں نے لکھا ہے، میرے دل میں آیا کہ ایسا ہوناچاہیے تو میں نے لکھا، کہا اچھا، آپ نے لکھا، بس آپ مزدوری بند کر دیں، فلاں مسجد میں آپ کے لیے کمرہ مخصوص ہے وہاں جائیے دین اور علم کا کام کیجیے، تو جب علم مضبوط ہو گا تو خود بخود علم کی فضیلت حاصل ہوگی، علم حاصل کرکے آدمی شہرت کے پیچھے نہ بھاگے کہ مجھے کوئی مشہور کردے او رپھر مولانا عبدالحکیم صاحب ان علماء میں شامل تھے جو علماء عزاب ہیں ،غیر شادی شدہ تھے، شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے جو ” العلماء العزاب“ نامی کتاب لکھی ہے اس میں ان کے حالات لکھے ہیں اور شیخ عوامہ دامت برکاتہم سے جب ہماری ملاقات ہوئی تھی ہم ان کے ساتھ کئی دن رہے تو انہوں نے بھی یہ واقعہ سنایا اور پھر مولانا عبدالحکیم صاحب رحمة الله علیہ کو الله تعالیٰ نے اتنی عزت دی کہ شام کا گورنر ان کی ملاقات کے لیے آتا تھا ،شام کا گورنر ایک مرتبہ آیا اورحضرت مولانا عبدالحکیم صاحب پاؤں پھیلائے ہوئے تھے اور مصافحہ کیا، خیریت دریافت کی، بات چیت کی، جب وہ جارہے تھے تو باہر جاکر شام کے گورنر نے اس زمانے میں دراھم ودنانیر کا ایک پیکٹ حضرت کی خدمت میں بھیجا، جب وہ پیکٹ ، دراھم ودنانیر کی بوری حضرت کے پاس پہنچی اورگورنر صاحب کے سیکریٹری نے کہا کہ یہ گورنر صاحب نے دیے ہیں تاکہ آپ کے مہمانوں کی خدمت ہو جائے، تو مولانا عبدالحکیم صاحب نے اس کو واپس کیا اورفرمانے لگے کہ آپ گورنر صاحب سے کہیں، شام کے حاکم سے کہیں کہ:
”الذي یمد رجلیہ لا یمد یدیہ“
جو پاؤں پھیلاتا ہے وہ ہاتھ نہیں پھیلاتا، تو اس لیے شاعر نے کہا:لا فضل إلالأھل العلم إنہ، علی الھدی لمن استھدی
أدلاء وقدر کل امریٴ ماکان یحسنہ․
ماکان سے پہلے ”ب“ مقدر کریں، بما کان یحسنہ، جو علم پختہ اچھی طرح حاصل کرے گا، مضبوط علم حاصل کرے گا، اس مضبوط علم کی برکت سے اس کا مرتبہ بھی بڑھے گا، تو بہرحال علم میں ہر وقت محنت کرنی چاہیے، اپنے آپ کو علم کے اندر فنا کرنا چاہیے، جتنا مضبوط علم حاصل کریں گے، محکم اور حکمة حَکَمَةًسے ہے، اور حَکَمَةً اس لوہے کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے منھ میں دیتے ہیں،گھوڑے کے منھ میں لوہا ہوتا ہے کھینچنے کے لیے او رجب گھوڑے کے منھ میں وہ لوہا دیتے ہیں تو وہ کنٹرول ہو جاتا ہے ،سنت کو اس لیے حکمت کہتے ہیں کہ سنت آدمی کو کنٹرول کر دیتی ہے کہ غلط راستے پر مت چلو ،سنت پر چلو، اس لیے اس کو حکمت کہتے ہیں۔
او رجب گھوڑے کے منھ میں وہ لوہا ہوتا ہے، اردو میں اسے دہانہ کہتے ہیں ، انگلش میں اسکوبٹ کہتے ہیں اور ہم پشتو میں اسے کیسے کہتے ہیں، و ہ لگام کے ساتھ ہوتا ہے، تو پھر گھوڑا سیدھا اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے، اسی طرح سنت پر چلتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچیں گے، تو محکم علم مضبوط علم اس کو بھی حکمت کہتے ہیں، ”فراسة یوضع لھا کل شيء فی محلہ“ حکمت اس ہوشیاری کو کہتے ہیں جس میں ہر چیز کو اپنے محل او راپنی جگہ پر رکھتیہیں، الله تبارک وتعالیٰ آپ کو او رہم کو مضبوط او رمتقن علم جس کے ساتھ عمل بھی ہو اس کی توفیق عطا فرمائے، اس لیے کہ علم کے ساتھ عمل مطلوب ہے، العلم بلا عمل عقیم والعمل بلا علم سقیم، وکلاھما صراط مستقیم․
علم عمل کے ساتھ ہو تو صراط مستقیم ہے ، علم عمل کے بغیر ہو تو بانجھ ہے او رعمل ہو اور علم نہ ہو تو وہ بیمار ہے، وہ عمل بیمار ہو گا۔
باقی جو حضرت نے فرمایا ہے: حضرت کی بات مانناتو ضروری ہے۔ ایک بات یاد رکھیں ارد ومیں مہتمم کو مہتمم کہتے ہیں اور عربی میں اس کو کہتے ہیں مہتمٌّ ،ایک مشدد ہے ایک غیر مشدد ہے، جو مہتمم ہو گا اگر وہ سختی کرے گا قانون کے مطابق تویہمہتمم کا حق ہے اس لیے کہ وہ مہتمٌّ بھی ہے اوراگر سختی نہیں نرمی کرے گا تو یہ بھی اس کا حق ہے، تو نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کی جگہ سختی۔
حضرت شاہ عبدالقادر رحمہ الله کی”موضح القرآن“ میں اچھے اچھے نکتے ہوتے ہیں، فرماتے ہیں، رحم کس کو کہتے ہیں، رحماء بینھم ، صحابہ کرام آپس میں رحماء تھے،اس کے ذیل میں لکھا ہے: کہ رحم اس کو کہتے ہیں، کہ سختی کی جگہ سختی اور نرمی کی جگہ نرمی۔
اگر سختی کی جگہ نرمی کرے، بھائی طالب علم چلتے رہیں، بازار گھومو یا جہاں مرضی ہو جاؤ سختی کی جگہ نرمی کرے تو مدرسہ کیسے چلے گا؟ اور نرمی کی جگہ سختی کرے تو پھر بھی مدرسہ نہیں چلے گا، تو بہرحال مہتمم صاحب کی بات مجھے بھی ماننی چاہیے اور آپ حضرات کو بھی ضرور ماننی چاہیے۔
دیکھو حضرت اسامہ بن زید رضی الله عنہ کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مہتمم بنایا تھا، امیر بنایا تھا سریہ کا، جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے مہتمم صاحب سے پوچھا اس لیے کہ لشکر میں حضرت عمر بھی شامل تھے جانے والوں میں، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے مہتمم صاحب سے پوچھاا میر صاحب سے پوچھا اگر آپ کی اجازت ہو تو مجھے مشورے کے لیے حضرت عمر کی ضرورت ہے آپ اجازت دیں تو حضرت عمر یہاں رہ جائیں گے، حضرت اسامہ نے اجازت دی مہتمم صاحب نے اجازت دی اور وہ رہ گئے۔
مہتمم کا بہت بڑا درجہ ہے اور میں نے عرض کیا کہ مہتمٌّ بھی ہے مہتمم بھی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ تھے اور حضرت یعقوب علیہ السلام ان کے والد صاحب او ران کے بھائی تشریف لائے، جب وہ آگئے تو”قرآن کریم “ میں ہے۔
﴿وَخَرُّوا لَہُ سُجَّدًا﴾ اب ”سُجَّدًا“ کا جو بھی معنی ہو، ”سُجَّدًا“ کا مطلب سجدہ تعظیمی ہو، یا” سُجَّدًا“ کا کوئی او رمطلب ہو لیکن اتنی بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے یوسف علیہ السلام کی تابع داری اختیار کی ان کے قانون پر چلنے لگے، یہ نہیں کہ ہم کنعان کا قانون یہاں چلائیں گے، مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قانون تھا ایسا نہیں کہ کنعان کا قانون یہاں چلائیں گے بلکہ جو یہاں کا قانون ہے اس کے مطابق چلیں گے ، تو حضرت مہتمم صاحب کا حکم تھا او رمیں نے عرض کیا کہ مہتمم صاحب کی باتوں کو ماننا چاہیے ۔
میں حدیث کے متعلق کچھ عرض کروں۔ہم نے اپنے شیخ حضرت مفتی محمود حسن رحمة الله علیہ، شیخ یونس رحمة الله علیہ سے مجلس کی ابتداء میں یہ حدیث سنی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”الراحمون یرحمھم الرحمٰن ار حموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء“ اس حدیث کو حدیث مسلسل بالاولیت کہتے ہیں، سب سے پہلی حدیث اس مجلس میں آپ نے مجھ سے یہ حدیث سنی اور میں نے حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمة الله علیہ سے یہ حدیث مجلس حدیث میں سب سے پہلے سنی، اور حضرت مفتی محمود حسن رحمہ الله کی خدمت تو آپ کے مدرسے نے بہت زیادہ کی ان کے فتاوی پر تعلیقات ان کے فتاوی پر مفید حواشی آپ حضرات نے لکھے ہیں، وہ ہمارے شیخ بھی تھے ہمارے استاد بھی تھے، حضرت مفتی محمود حسن صاحب نے مجلس حدیث میں سب سے پہلے یہ حدیث اپنے شیخ حضرت مولانا زکریا رحمہ الله سے سنی، حضرت مولانا زکریا رحمہ الله نے سب سے پہلے یہ حدیث حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمہ الله سے سنی اور انہوں نے سب سے پہلے اپنے شیخ عبدالقیوم رحمة الله علیہ سے او رانہوں نے سب سے پہلے یہ حدیث اپنے شیخ شاہ محمد اسحاق رحمہ الله سے، انہوں نے سب سے پہلے یہ حدیث اپنے شیخ شاہ عبدالعزیز رحمہ الله سے، انہوں نے سب سے پہلے یہ حدیث اپنے شیخ شاہ ولی الله رحمہ الله سے سنی۔
یہ مسلسل بالاولیت ہے، اس کی اکثر سند میں اور تین واسطوں میں تسلسل بالاولیت باقی نہیں، تین راویوں کے بعد سفیان بن عیینہ رحمة الله علیہسے لے کر ہم تک جو سند کا لمبا سلسلہ ہے اس میں یہ حدیث مسلسل بالاولیت ہے اور جو حدیث مسلسل بالاولیت ہوتی ہے اس میں ایک برکت تو یہ ہوتی ہے اورایک اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ہمارے علماء کرام نے فقط حدیث کو محفوظ نہیں کیا، بلکہ اس کی کیفیات کو بھی محفوظ کیا، اور اسی طرح اس میں تدلیس کا احتمال نہیں ہوتا اور تیسری بات یہ کہ اس میں وہ اولیت کی نورانیت آگئی ۔ افتاء والے حضرات کے لیے حضرت مولانا بنوری رحمہ الله فرماتے تھے کہ مفید کتاب ”کنز“ کی شرح”تبیین الحقائق“ ہے تبیین الحقائق کو وہ ترجیح دیتے تھے، اورمولانا سعید احمد پالن پوری رحمة الله علیہ فرماتے تھے کہ بہترین او راچھی کتاب ”ملتقی الابحر“ ہے اور ابھی ”ملتقی الابحر، پر شیخ وھبہ سلیمان غاؤجی جو مشہور عالم گزرے ہیں ان کی تعلیقات آئی ہیں اور وہ پکے حنفی تھے انہوں نے تعلیقات میں ہمارے اکابر کیعلوم کو جمع کیا ہے اور ملتقی الابحر کا وہ نسخہ جس کے اوپر شیخ وھبہ سلیمان غاؤ جی رحمة الله علیہ کی تعلیقات ہیں وہ بھی بہت اچھی اور بہترین کتاب ہے، اور ہمارے مولانا امین اورکزئی رحمة الله علیہ فرماتے تھے کہ دلائل سمجھانے کے لیے، اپنے طالب علم کو متن پر پکا کرنے کے لیے ”شرح النقایہ“ ہے اب شرح النقایہ کی بھی مختلف تعلیقات آئی ہیں، اور اگر آسان کتاب جو فتاوی کے ساتھ مشابہ ہو وہ ہے”تنویر الأبصار“ ”تنویر الابصار“ کی ”درمختار“ شرح تو مشہو رہے اورحاشیہ ”شامی“ مشہور ہے، وہ تو لمبی چوڑی کتابیں ہیں۔
لیکن ایک ترکی مشہور پرانے عالم نے ”تنویر الابصار“ پر شرح لکھی ہے، اس پر تعلیقات بھی لکھی گئی ہیں، اس کا نام ہے ”الجوھرا المنیر فی شرح التنویر“ طالب علم کو چاہیے کہ اول سے آخر تک دیکھ لے، تاکہ اکثر مسائل سامنے آجائیں، اس میں شرح بھی ہے، متن تو مشکل ہوتا ہے، متن کی تشریح بھی ہے او را س کے ساتھ ساتھ تعلیقات بھی ہیں۔
الله تعالیٰ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے اور حضرت مولانا نے فرمایا کہ جو دورہ حدیث کے طلباء ہیں ان کو میری طرف سے حدیث کی اجازت بھی ہے اور ہمارے علاقے تحصیل صوابی کے مشہور عالم گزرے ہیں مولانا عبدالرحمن صاحب رحمة الله علیہ، انہوں نے ایک رسالہ لکھا ”جواہر الاصول“ کے نام سے وہ میرے ذہن میں تھا تو اس پر ہم نے تعلیقات کا کام کیا ہے، اب ”جواہر الاصول“ اچھی خاصی کتاب بن گئی ہے، چار ، ساڑھے چار سوصفحات کی، الله کا فضل یہ ہوا کہ وہ جب چھپ گئی تو تین چار مہینے میں اس کا ایک ایڈیشن ختم ہو گیا اور اب ان شاء الله دوسرا ایڈیشن نکلے گا، اس میں جو ہمارے مشائخ ہیں اور مشائخ المشائخ ہیں اور آخر تک جو سلسلہ ہے ان کے حالات لکھے ہیں۔
الله تعالیٰ مجھے بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے اور علم کی خدمت کے لیے قبول فرمائے اور آپ کو بھی قبول فرمائے۔
”وصلی الله علی محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین“