مولانا عبید اللہ خالد
مملکت خدادا پاکستان کا حصول کلمہ ”لا إلہ إلا الله“ کی بنیاد پر ہوا تھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسی مملکت ضروری ہے جس میں وہ اپنے دین اور شریعت پر پورے طور پر عمل کر سکیں اور ہندو کے عمل دخل اور ظلم وستم سے محفوظ رہ کر دین اسلام کا نفاذ اور اس کی نشرواشاعت آزادانہ طور پر کر سکیں ۔ اس وقت نعرہ بھی یہی لگا کرتا تھاکہ پاکستان کا مطلب کیا لا إلہ الا الله ،اور آزادی وطن کی اس تحریک کی قیادت کرنے والے حضرات نے بھی مسلمانوں سے یہی وعدہ کیا تھا کہ اس مملکت خداداد میں دین اسلام کی تنفیذ کے فریضے کو انجام دیا جائے گا اور اسی عظیم مقصد کے لیے اس وطن کا حصول کیا جارہا ہے۔ یہ وطن عزیز واقعی الله تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، جو الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا کی ہے، لیکن آزادی کے بعد اس نعمت کا ہم شکر ادا نہ سکے، جس مقصد کے لیے اس کا حصول ہوا تھا اس مقصد میں ہم عملاً کام یاب نہ ہوسکے۔ کفریہ طاقتوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ اس مملکت کو جس طریقے سے بھی ممکن ہو نقصان پہنچائیں، نظریاتی، جغرافیائی، سیاسی، معاشی اور عسکری وغیرہ مختلف طریقوں سے اسے کم زو رکرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اورکی جارہی ہیں، ان سب کوششوں کا بنیادی مقصدوطن عزیز کو اپنے مقصد قیام سے ہٹانا اور برگشتہ کرنا ہے کہ یہ مملکت دین اسلام کے لیے کوئی کاوش وخدمت سر انجام نہ دے سکے اور مسلمانوں کے ملّی وقومی مفادات کو سنبھالنے او راس کے لیے کدوکاوش کرنے کے قابل نہ ہو۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے چوں کہ علماء وارث ہیں، لہٰذا جو عالم دین نمایاں خدمات انجام دیتا ہے اور اپنی خدمات کے پیش نظر عوام و خواص میں اسے قبولیت حاصل ہوتی ہے تو اسے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ چناں چہ اس مملکت خداداد میں کتنے ہی جید علماء دین کا خون بہایا گیا جو علم وعرفان کا سمندر تھے، معاشرے کی صلاح وفلاح کے لیے فکر مند رہنے والے تھے اور دین اسلام کی سر بلندی کے لیے دردو تڑپ رکھنے والے تھے،انہیں اپنے علمی وعملی مقام ومرتبے کی وجہ سے مرجعیت، قبولیت اور پذیرائی حاصل تھی۔
قافلہٴ حق کے ان شہداء میں میرے عظیم اور قابل فخربھائی شہید اسلام حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہیدرحمة الله علیہ بھی شامل ہیں۔جنہیں گزشتہ مہینے کراچی کی مصروف شاہراہ پر بے دردی سے شہید کیا گیا، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ دین کی سربلندی، حفاظت اور نشرواشاعت میں صبح وشام اور دن رات مصروف رہتے تھے، اس وطن عزیز کی نظریاتی او رجغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے لیے ہر وقت کوشاں اور فکر مند رہتے تھے او راس کے لیے وہ اپنی پوری طاقت وقوت صرف کر رہے تھے۔ یہ کام وہ ایک ایسی ریاست میں سرانجام دے رہے تھے جس کی بنیاد کلمہ لا إلہ الا الله پر رکھی گئی ہے اوریہی بات ان کے لے جرم بن گئی ۔ علماء ربانیین کی شہادت اگرچہ ان کے حق میں بہت بڑی سعادت ونیک بختی ہے اور یہ سعادت ونیک بختی الله تعالیٰ کے نیک اورمحبوب بندوں کو ہی حاصل ہوتی ہے، اسلام کی تاریخ شہادت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے اور مسلمانوں نے ہمیشہ اسے اپنی سعادت وخوش بختی تصور کیا ہے، خلفائے اربعہ میں تین حضرات حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان بن عفان او رحضرت علی المرتضی رضی الله عنہم شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوئے، لیکن ہماری حکومت اور مقتدر اداروں کے لیے بہرحال یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ ایک ایسی مملکت جس کا وجود ہی اسلام کا مرہون منت ہو او راسی مقصد کے لیے وہ وجود میں آئی ہو ، اس میں جید اور سرکردہ علمائے کرام کا پے درپے قتل ہونا اور قاتلوں کا اپنے انجام کو نہ پہنچ سکنا انتہائی تشویش او رافسوس کی بات ہے۔ الله تعالیٰ ہمارا اورہمارے ملک عزیز کا حامی وناصر ہو، اسے آفات وبلیات اور شروروفِتن سے محفوظ فرمائے، شہدائے اسلام خصوصاً ہمارے عظیم بھائی شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان شہید رحمة الله علیہ کے درجات بلند فرمائے اورانہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین یا رب العٰلمین!