ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
عدل، امانت ہی کی ایک صورت ہے، (تفسیر ابن کبیر، النساء، ذیل آیت:58) عدل غیر جانب داری کے ساتھ ہر صاحب حق کو اس کا حق پہنچانے کا نام ہے، عدل اسلام کا خصوصی امتیاز ہے ،جسے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے معاشرے میں قائم فرمایا،عدل انسانی معاشرے کی بقا کا ذریعہ ہے اور باہمی تعلقات میں استواری کی بنیاد ہے، علامہ رازی رحمة الله علیہ لکھتے ہیں:
”یدخل فیہ عدل الأمراء مع رعیتھم ، وعدل العلماء مع العوام بأن لا یحملوھم علی التعصبات الباطلة، بل یرشدونھم إلی اعتقادات وأعمال تنفعھم فی دنیاھم وأخراھم“.(قوانین الوزارة، ص:48)
اس آیت میں حکام کو عوام کے ساتھ عدل کرنے کا حکم ہے، اوراسی آیت میں علمائے کرام کو عوام کے ساتھ عدل قائم کرنے کا حکم بھی شامل ہے، عوام کے ساتھ علماء کا عدل یہ ہے کہ علما عوام کو ناحق تعصبات پر نہ ابھاریں، بلکہ ہمیشہ انہیں ان اعمال کی طرف متوجہ رکھیں جو ان کے لیے دنیا و آخرت میں فائدہ مند ہو۔
اہل ِعلم نے عدل کی کئی اقسام بیان فرمائی ہیں، افعال میں عدل، اقوال میں عدل، اقتصادی امور میں عدل، خاندانی امور میں عدل، دشمنوں کے ساتھ عد ل، جسے اختصار کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے۔
افعال میں عدل
ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب الماوردی قوانین الوزراة میں لکھتے ہیں:
افعال میں عدل یہ ہے کہ سزا صرف جرم پر دی جاتی ہے، باز آنے والے کے لیے درگزر ہو، غصہ ایسا نہ ہوکہ خیروبھلائی سے محروم ہوجانا پڑے، اورکسی سے رضامندی ایسی نہ ہوکہ اس کی وجہ سے مجرمو ں پر ہاتھ نہ ڈالا جاسکے۔
گفت گومیں عدل
علامہ ماوردی نے فرمایا :گفت گو میں عدل یہ ہے کہ کسی صاحب منصب کے ساتھ اسی کی حیثیت کے ساتھ گفت گو کریں، عام آدمی کا رویہ نہ رکھیں، اسی طرح کسی عالم دین کے ساتھ جاہل کی طرح گفت گو نہ کریں، کسی کے متعلق تعریف اس کی بھلائی کے بقدر ہو اور کسی کی مذمت اس کے شر کے بقدر ہو، آپ کا کسی کو کسی امر میں شوق دلانا یا ڈرانا حقیقت کے مطابق ہو، بغیر کسی قسم کی زیادتی کے ہوتو یہ گفت گو میں عدل ہے۔(قوانین الوزارة، ص: 48)
اقتصادی امور میں عدل
اقتصادی امور میں عدل یہ ہے کہ ناپ تول میں کوئی کوتاہی نہ ہو، مالی معاملات سود، جوّا قمار سے محفوظ ہوں، معاملات باطلہ اور فاسدہ کی روک تھام ہو، اشیائے خوردونوش میں ذخیرہ اندوزی نہ ہو، رشوت ستانی، ملاوٹ، دھوکہ سے مکمل اجتناب ہو، یہ اقتصادی امور میں عدل کہلائے گا۔
خاندانی امور میں عدل
صلہ رحمی کا اہتمام، اہل وعیال کے نفقہ کا انتظا م، اولاد میں ہدایا وعطیہ میں برابری ،ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں برابری کرنا، اولاد کے لیے اتنا ترکہ چھوڑ جانا کہ وہ کسی کے محتاج نہ رہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”أن تدع ورثتک أغنیاء خیرمن أن تذرھم عالة یتکففون الناس․“ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:5368)”اپنے ورثا کو مال دار بنا کر چھوڑ جانا بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں محتاج بنا کر چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں سے بھیک مانگتے پھریں“۔
دشمنوں کے ساتھ عدل
اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے ساتھ بھی عدل قائم کرنے کاحکم دیا ہے، فرمایا:﴿وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی﴾․ (المائدة:8)
محض دشمن ہونے کی بنا پر ان کی جان ، مال، عصمت مباح نہیں ہوتی، محض کافر ہونے کے ناطے ان کے وہ حقوق جواسلام نے دیے ہیں،باطل نہیں ہوتے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ذمیوں کے متعلق فرمایا:
”ألا من ظلم معاھداً أو انتقصہ أو کلّفہ فوق طاقتہ أو أخذ منہ شےئا بغیر طیب نفس فأنا حجیجہ یوم القیامة“․(سنن أبي داود، رقم الحدیث:3052)
”جس شخص نے کسی ذمی کے ساتھ ظلم کیا یا اسے نقصان پہنچایا یااس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا یا بلا رضامندی کے اس سے کوئی چیز لی تو قیامت کے دن میں اس کا مقدمہ لڑوں گا“۔
اولو الامر کی اطاعت﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ …﴾
اس آیت میں اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ اولوالامر کی اطاعت کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے مستقل لفظ (أَطِیْعُوْا) لایا گیا، پھر رسول کی اطاعت کے لیے دوبارہ لفظ (أَطِیْعُوْا) ذکر نہیں کیا گیا، اس میں اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت مستقل بالذات ہے اور اُولوالامر کی اطاعت مستقل بالذات نہیں، بلکہ اللہ اور رسول کی اطاعت کے تابع ہے۔(إعلام الموقعین عند رب العالمین، فصل فی تحریم الإفتاء فی دین اللّٰہ بالرأی:1/50) دوسری حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ اور رسول کی مستقل اطاعت ذکر کر کے بتلایا گیا کہ یہ معصوم اور محفوظ عن الخطا ہیں، اُولو الامر کے ساتھ مستقل (أَطِیْعُوْا) نہ لاکر یہ بتلایا گیا کہ یہ معصوم نہیں ہوتے، ان سے غلطی اور خطا ممکن ہے اور واقع ہو سکتی ہے، اختلاف اورتنازع کی صورت میں اللہ اور رسول کو حَکَم بنانے کا حکم دیا، اس میں اُولو الامر کو شامل نہیں کیا، گویا ان سے اختلاف و تنازع ممکن ہے، اس صورت میں اللہ اور رسول کو حَکَم بنایا جائے، اس سے دو چیزیں واضح ہو گئیں ”أولو الأمر“ معصوم نہیں ہوتے، ان سے اختلاف درست ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اولو الامر سے کون سے لوگ مراد ہیں؟ اس میں متعدد اقوال منقول ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کے نزدیک اس سے ”امراء“ یعنی اصحاب اقتدار مراد ہیں، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس سے علما مراد ہیں، مجاہد سے مروی ہے اس سے صحابہ کرام کا مقدس گروہ مراد ہے، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ اس سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی الله عنہمامراد ہیں۔(زاد المسیر، النساء، ذیل آیت:59)
علامہ طبری رحمہ الله نے حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کے قول کو راجح قرار دیا ہے، (جامع البیان، النساء، ذیل آیت:59) جمہور علماء کرام کی رائے یہی ہے، لیکن اولو الامر کے مصداق میں جو اقوال منقول ہیں ان میں اختلاف لفظی اور تعبیر کا ہے، کیوں کہ یہ لفظ خود قوت، اقتدار، اختیار، اثر رسوخ پر دلالت کرتا ہے،اس لیے جس شخص میں یہ صفت پائی جائے اسے اولو الامر کے دائرے میں داخل کیا جا سکتا ہے، لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ شرعی اور دینی معاملات میں علمائے کرام اولو الامر ہیں، اور انتظامی امور میں حکمران اس کا مصداق ہیں، اسی طرح والدین بچوں کی حد تک اور مختلف تعلیمی، سیاسی، سماجی، صنعتی اداروں کے نگران ومدیر اور سربراہاں اپنے اپنے دائرہٴ اختیار تک مسئول ہونے کی بنا پر اولو الامر کے مصداق میں داخل ہیں۔
اولو الامر کی اطاعت کی حدود
امرا کی اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں اور مباح امور میں اور انتظامی معاملات میں واجب ہے اور اس سے روگردانی مکروہ تحریمی ہے، بشرطیکہ ان کا حکم ہوائے نفس پر مشتمل نہ ہو، بلکہ مصلحت عامہ کی خاطر دیا گیا ہو، احکام سلطانیہ میں ہے:
”ولکن ھذہ الطاعة کما إنھا مشروطة بکون أمر الحاکم غیر معصیة فإنھا مشروطة عن مصلحة لا عن ھوی أو ظلم ؛لأن الحاکم لا یطاع لذاتہ، وإنما یطاع من حیث أنّہ متول لمصالح العامة․“(أحکام السلطانیة:1/3)
علامہ طبری فرماتے ہیں:”إن الأمر بذلک فیما کان للّٰہ طاعة وللمسلمین مصلحة․ ثم قال: فلا طاعة واجبة لأحد غیر اللّٰہ أو الرسول أو إمام عادل․“(جامع البیان، النساء، ذیل آیت:59)
اطاعت امیر کا حکم اس وقت ہے جس اس میں اللہ کی اطاعت اور مسلمانوں کی مصلحت ہو، پھر فرمایا:اللہ، اس کے رسول اور امام عادل کے علاوہ کسی کی اطاعت واجب نہیں ہے۔
علامہ رازی رحمة الله علیہنے فرمایا:إن الأمة مجتمعة علیٰ أن الأمراء والسلاطین إنما تجب طاعتھم فیما علم بالدلیل أنہ حق وصواب … إن طاعة الأمراء إنما تجب إذا کانوا مع الحق“․(تفسیر کبیر، النساء، ذیل آیت:59)
امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اصحاب اقتدار اور بادشاہ کی اطاعت اس وقت واجب ہے جب دلیل سے ان کا موقف حق وسچ ثابت ہو جائے۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:”وأما طاعة الأمراء والسلاطن فغیر واجبة قطعا بل الأکثر أنھا تکون محرمة لأنھم لا یأمرون إلا بالظلم“.(تفسیر کبیر، النساء، ذیل آیت:59)
اصحابِ اقتدار اور بادشاہوں کی اطاعت مطلق واجب نہیں ہے، بلکہ اکثر اوقات ان کی اطاعت حرام ہوتی ہے، کیوں کہ وہ صرف ظلم ہی کا حکم دیتے ہیں۔
معصیت اور ظلم میں حکمران کی اطاعت جائز نہیں
اگر اصحاب اقتدار اور حکمران اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا حکم دیں یا کسی مسلمان پر ظلم و زیادتی کا حکم دیں پھر ان کی اطاعت و فرماں برادی کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ معصیت و ظلم میں تعاون کرنے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوں گے۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
السمع والطاعة علی المرء المسلم فیما أحب وکرہ ما لم یؤمر بمعصیة فإذا أمر بمعصیة فلا سمع ولا طاعة․(صحیح البخاري، رقم الحدیث:6725) جب تک (صاحب اقتدار) گناہ کا حکم نہ دے تب تک اس کی اطاعت لازم ہے، دل کرے یا نہ کرے، جب گناہ کا حکم دے تو نہ اس کی بات سننی ہے اور نہ فرماں برداری کرنی ہے۔
آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:”لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق“․(مشکاة المصابیح، رقم الحدیث:3624)
خالق کی نافرمانی کرکے مخلوق کی فرماں برداری کرناجائز نہیں ہے۔
آپ علیہ السلام نے ارشادفرمایا:”إنما الطاعة فی المعروف“.(صحیح مسلم، کتاب الإمارة، رقم:148)
ایک حدیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:”إنہ سیکون علیکم أمراء، فلا تصدقوھم بکذبھم ولا تعینوھم علی ظلمھم“․(المعجم الکبیر، رقم:3627)
بہت جلد تم پر (ظالم) حکمران مسلط ہوں گے، لہٰذا تم ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرنااوران کے ظلم کے مددگار مت بننا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے خلافت کا پہلا خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:”أطیعونی ما أطعت اللّٰہ ورسولہ، فإذا عصیت اللّٰہ ورسولہ فلا طاعة لی علیکم․“ (البدایة والنھایة: 6/305)
جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں تم بھی میری اطاعت کرتے رہنا اور جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت نہیں ہے۔
صاحب کشاف اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”ظالم حکمرانوں کی اطاعت کیسے لازم ہو سکتی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے أولو الأمر کی اطاعت کا طریقہ اس طرح واضح بیان فرمایا کہ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی (کہ اس حکم میں ظالم حکمران کی اطاعت شامل نہیں ہے) وہ اس طرح کہ پہلے انہیں امانت ادا کرنے اور فیصلوں میں انصاف کرنے کا حکم دیا، اور جہاں اختلاف ہو جائے وہاں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا، اور ظالم حکمران نہ تو حق امانت ادا کرتے ہیں اور نہ انصاف کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے اختلافی امور کو کتاب و سنت پر لوٹاتے ہیں، انہیں صرف اپنے ہوائے نفس کی غرض ہے یہ اسی کی پیروی کرتے ہیں، انہیں ”أولو الأمر“کے طبقے میں شمار کیسے کیا جاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے ان کا نام ”أولو الأمر“ نہیں بلکہ ان کا نام ہے مسند اقتدار پر غالب آجانے والے چور“۔(کشاف، النساء، ذیل آیت:59)
عزالدین بن عبدالسلام نے فرمایا:”وکذلک لا طاعة لجھلة الملوک والأمراء إلا فیما یعلم المامورأنہ ماذون فی الشرع“،(قواعد الأحکام فی مصالح الأنام، قاعدہ:فیمن تجب طاعة:2/158)
جاہل بادشاہوں اور حکمرانوں کی اطاعت نہیں کی جائے گی، مگر اس صورت میں کہ مامور کو علم ہو یہ بات شرعاًدرست ہے۔
شیعوں کے عقید ہ امامت کا بطلان
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ اہلِ ایمان کا امام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوتا ہے، مسلمانوں کے باہمی مشورے سے طے نہیں ہوتا اور امام معصوم ہوتاہے، اس سے غلطی اور گناہ صادر نہیں ہو سکتا۔ اور آیت کریمہ میں ”أولو الأمر“ سے أئمہ اہل بیت مراد ہیں ۔
اور وہ بارہ امام یہ ہیں۔
(1) حضرت علی رضی الله عنہ۔
(2) حضرت حسن رضی الله عنہ۔
(3) حضرت حسین رضی الله عنہ۔
(4) علی بن حسین بن علی رضی الله عنہ، ان کا لقب زین العابدین ہے۔
(5)محمد بن علی بن حسین، ان کی کنیت ابو جعفر اور لقب الباقر ہے۔
(6)جعفر بن محمد بن علی ،ان کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب الصادق ہے۔
(7) موسیٰ بن جعفر بن محمد، ان کی کنیت ابو ابراہیم اور لقب الکاظم ہے۔
(8)علی بن موسیٰ بن جعفر ،ان کی کنیت ابو الحسن اور لقب الرضا ہے۔
(9) محمد بن علی بن موسیٰ ،ان کی کنیت ابو جعفر اورلقب الجواد ہے۔
(10) علی بن محمد بن علی ،ان کی کنیت ابو الحسن اور لقب الھادی ہے۔
(11)حسن بن علی بن محمد ،ان کی کنیت ابو محمد اور لقب عسکری ہے۔
(12)محمد بن حسن بن علی، ان کی کنیت ابو القاسم اور المہدی کے لقب سے معروف ہیں، انہیں کو امام غائب کہا جاتا ہے۔
چناں چہ محسن علی نجفی اس آیت کریمہ کا حاشیہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں: ”امامیہ کا موقف یہ ہے کہ أوالی الأمر سے مراد أئمہ اہل البیت علیہم السلام ہیں، جس طرح رسول کی ہر بات وحی الٰہی کے مطابق ہوتی ہے بالکل اسی طرح اہل البیت علیہم السلام کی ہر بات سنت رسول کے مطابق ہوتی ہے، چناں چہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے، ان کی حدیث میرے جدّ بزرگوار کی حدیث ہے، ان کی حدیث رسولِ خدا کی حدیث ہے۔ (بحارالانوار:2/179)( بلاغ القرآن، النساء، ذیل آیت:59)
مولوی فرحان علی اورمولوی مقبول احمد دہلوی شیعہ اثنا عشریہ کے معروف عالم اور قرآن کریم کے ترجمہ نگار ہیں، ان دونوں نے أولو الامر کا مصداق اپنے مزعومہ بارہ أئمہ بتا کر انہیں اللہ اور رسول کی طرح واجب الاطاعت قرار دینے کے لیے تحریف سے بھی گریز نہیں کیا، شائقین ان کے تراجم دیکھ سکتے ہیں۔
مگر شیعوں کا موقف چند وجوہ سے بے بنیاد اور سراسر بے عقلی پر مبنی ہے۔
آیت ِکریمہ میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور اصحاب اقتدار کی فرماں برداری کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا:﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُولِ﴾․
یعنی اگر تم میں اوراصحاب اقتدار میں کسی بات پر اختلاف اور تنازع کھڑا ہو جائے تو پھر اسے تواللہ اوررسول کی عدالت میں لے جاؤ، وہاں تصفیہ کراؤ، جب تک رسول الله صلی الله علیہ وسلم باحیات تھے،آپ کی خدمت میں جاناضروری تھا،آپ کے وصال کے بعد آپ علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اس کا تصفیہ کیا جائے گا، اگر احادیثِ مبارکہ میں بھی صراحتاً راہ نمائی نہ ملے تو احادیث میں اس کے مثل پر قیاس کر کے علماءِ مجتہدین سے اس کا تصفیہ کرایا جائے گا۔
اصل بات کہنے کی یہ ہے، آیت کریمہ میں ”أولو الأمر“سے اختلاف اور تنازع کی اجازت دی گئی، پھر اس کا حل بھی بیان کر دیا گیا، تنازع کی اجازت اس بات کی دلیل ہے کہ ”أولو الأمر“غلطی پر ہو سکتے ہیں، ان سے خلاف شرع حکم صادر ہو سکتا ہے، وہ نہ معصوم ہیں ،نہ محفوظ ہیں، یہیں سے شیعوں کا ”أولو الامر“سے ”بارہ ائمہ“مراد لینا خود بخود باطل ہوگیا، کیوں کہ شیعوں کے نزدیک أئمہ معصوم ہیں، ہر غلطی سے محفوظ ہیں، ہر خطا سے پاک ہیں، اگر واقعی وہ معصوم ہوتے تو پھر ”أولو الامر“سے ”بارہ ائمہ“سے تنازع کی اجازت ہی نہ ہوتی ، یہی وجہ ہے مولوی مقبول احمد نے اپنے ترجمہ قرآن میں کافی اور تفسیر عیاشی کے حوالے سے اس آیت کو ہی محرّف قرار دیا، تا کہ اعتراض وارد ہو ہی نہ سکے۔(ترجمہ حاشیہ مقبول احمد دہلوی، النساء، ذیل آیت:59)
اللہ تعالیٰ نے ہر وہ نظریہ جو مدار ایمان اور مقاصد بعثت میں سے ہے، اسے مختلف اسلوب میں بار بار دہرایا ہے، تاکہ کسی کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے ، جیسے توحید کاتذکرہ، رسالت کا اثبات، قیامت کی حقیقت، اگر نظریہ امامت بھی مدار نجات تھا تو اللہ تعالی نے اسے واشگاف اسلوب میں بیان کیوں نہیں فرمایا؟اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ أئمہ کے نام بیان کر کے ان کی اطاعت کا بھی حکم دے دیا جاتا تو پھر کسی کو ان کی اطاعت کرنے میں کوئی شبہ نہ رہتا۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت حضرت علی رضی الله عنہ موجود تھے کیا انہیں امارت و امامت کا منصب سونپا گیا؟ ہر گز نہیں، بلکہ کئی مواقع پر ان کے ہوتے ہوئے دیگر اصحاب رسول کو امارت حوالہ کی گئی۔ کیا رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس آیت کے مصداق سے لاعلم تھے یا نعوذ باللہ انہوں نے جانتے بوجھتے اس پر عمل نہیں کیا؟ دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت علی رضی الله عنہ نے اس آیت کے نزول کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے اپنی امامت پر اس سے استدلال کیا تھا یا نہیں؟
اسی طرح کئی مواقع پر اگر حضرت علی رضی الله عنہ کے ہوتے ہوئے دیگر کسی صحابی کو کسی جہادی مہم وغیرہ میں امیر بنایا گیا تھا، حضرت علی رضی الله عنہ نے اس پر احتجاج کیا تھا یا نہیں؟ اگر احتجاج کیا تھا اور اپنے حق کے اثبات کے لیے اس آیت سے استدلال کیا تھا تو دلیل پیش کیجیے، اگر نہیں تو پھر کتمان حق کی وجہ سے وہ گناہ گار ٹھہرے یا نہیں؟ اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا روافض کا اس آیت کا مصداق حضرت علی رضی الله عنہ کو قرار دینا محض دعوی ہے، جس کی صداقت پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
”أولو الأمر“میں اگر بالفرض ”ائمہ اثنا عشر“مراد لیے جائیں تو سوال ہوتا ہے کہ قرآن کریم تو مطلق ”أولو الأمر“کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے، جب کہ شیعہ اسے بارہ کی تعداد میں منحصر کر رہے ہیں، پھر شیعہ فرقوں میں چھٹے امام یعنی امام جعفر الصادق کی امامت تک تو سب کا اتفاق ہے، اس سے آگے تعیین امامت میں اختلاف ہے، جس کی وجہ سے شیعہ کئی فرقوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے پر کفرو ضلالت کے فتوے لگاتے رہتے ہیں، امامت کو بارہ تک منحصر کرنا ، تعیین امامت پر اختلاف کرنا، امام حاضر اور امام غائب پر بٹ جانا، یہ ان کے دعویٰ امامت کے کھوکھلے پن کی قلعی کھول دیتاہے کہ اس نظریہ کا اصولِ دین سے کوئی تعلق نہیں۔ (جاری)