ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث میں حضرت عباس بن عبدالمطلب سے ایک روایت منقول ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک جامع دعا روایت کی گئی ہے۔ اس دعا کے الفاظ اگر چہ انتہائی مختصر ہیں، مگر اس کے مفہوم میں دنیا وآخرت کی تمام بھلائیوں اور اچھائیوں کی طلب اور تمام مصائب ومشکلات سے پناہ شامل ہے۔ حضرت عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عم محترم ہیں اور عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسال بڑے تھے، اسلام کی دولت سے مشرف ہونے سے قبل بھی حضرت عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور حمایت میں پیش پیش رہتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہمیشہ فکر مند ہوتے۔ حضرت عباس نے علانیہ طور پر فتح مکہ سے کچھ قبل اسلام کا اظہار فرمایا۔ حضرت عباس کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے نہایت ہی محبت اور والہانہ تعلق تھا،وہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا بڑا ہی ادب کیا کرتے تھے۔ حضرت عباس چوں کہ عمر میں سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم سے دو سال بڑے تھے، لیکن عمر کے اس تفاوت کو کبھی اس انداز میں بیان نہیں کرتے تھے، جس سے ظاہری طور پر بھی کسی قسم کی بے ادبی کا اندیشہ ہو، جواب دینے کا انداز ہی نرالا اور کمال ادب پر مبنی ہوتا تھا، اگر کوئی شخص ان سے سوال کرتا کہ آپ بڑے ہیں یارسول اللہ صلی الله علیہ وسلم؟ اس سوال کا آسان جواب تو یہ تھا کہ فرماتے: میں عمر میں بڑا ہوں، لیکن بجائے اس جواب کے حضرت عباس کے جواب کا انداز یہ ہوتا تھا بڑے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہی ہیں، ہاں پیدا پہلے میں ہوا تھا، یعنی میری پیدائش پہلے کی ہے، باقی بڑے تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم ہیں۔دیکھیے! کس قدر مؤدبانہ انداز گفت گو اور جواب ہے۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بھی ان کا بڑا حترام فرماتے تھے اور لوگوں کو بھی ان کے اکرام و تعظیم کا حکم دیتے، ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! جس نے میرے چچا کو تکلیف پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس لیے کہ کسی بھی شخص کا چچا باپ کی مانند ہوتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ اہل بیت کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور تمام صحابہ کرام کی محبت بھی ہمارے ایمان کا جزہے۔
صحابہ کرام بھی حضرت عباس کی عظمت کے معترف تھے اور ان کی خوب قدر وعزت کرتے تھے، امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب حضرت عباس کے وسیلے سے دعا مانگا کرتے تھے، بخاری شریف میں ہے، حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب کبھی بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی ہوتی تو امیر المؤمنین عمر بن خطاب دعا کرتے: اے اللہ! ہم تیرے نبی کے وسیلے سے تجھ سے دعا کرتے تھے، پس تو ہمیں سیراب کرتا تھا اور اب پیغمبر صلی الله علیہ وسلم تو دنیا سے تشریف لے گئے ہیں، اب ہم آپ سے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے چچا کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں، پس تو ہمیں سیراب کر۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ(اس دعا کی برکت سے) بارش ہوجاتی تھی۔ علماء نے لکھا ہے کہ جب صحابہ کرام حضرت عباس کے وسیلے سے دعا مانگتے تو حضرت عباس بارگاہ الٰہی میں ہاتھ اٹھاتے اور فرماتے ”اے پرودگار! تیرے پیغمبر کی امت نے میرا وسیلہ اختیار کیا ہے۔خداوند! تو میرے اس بڑھاپے کو رسوا مت کر اور مجھے ان کے سامنے شرمندہ نہ کر۔“ چناں چہ حضرت عمر ودیگر صحابہ کرام کی دعا اور حضرت عباس کے ان الفاظ میں اتنی تاثیر ہوتی کہ جلدی ہی بارش شروع ہوجاتی تھی۔
حضرت عباس بن عبدالمطلب سے روایت ہے، ارشاد فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مجھے ایسی چیز بتائیے کہ جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ (صلی الله علیہ وسلم)! نے فرمایا: اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔ مذکورہ روایت میں حضرت عباس نے دوبار سوال کیا اور دونوں بار جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محبوب چچا کو عافیت کی دعامانگنے کا حکم دیا، اس سے عافیت کی دعا مانگنے کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عافیت کے معنی کیا ہیں؟ جس کے مانگنے کا حکم دیاگیا ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ عافیت نہایت ہی مختصر اور جامع لفظ ہے اور رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی یہ خصوصیت، بلکہ آپ کے معجزات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو”جوامع الکلم“ یعنی ایسے مختصر کلمات عطا فرمائے، جن کے معانی انتہائی گہرے اور عمیق ہوں، ایک طویل حدیث میں رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو خصوصیات عطا فرمائی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے”وأوتِیتُ جَوَا مِعَ الْکَلِم“۔ مجھے جامع کلمات عطا ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی حکمتیں اور احکام، ہدایت کی باتیں، مذہبی ودنیاوی امور سے متعلق دوسری چیزوں کو بیان کرنے کا ایسا مخصوص اسلوب اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے جو نہ پہلے کسی نبی اور رسول کو عطا ہوا اور نہ دنیا کے کسی بھی بڑے فصیح وبلیغ انسان کو نصیب ہوا اور اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ انتہائی مختصر سے الفاظ کے ایک چھوٹے سے جملے میں معانی ومفہوم کا ایک گنجینہ پنہا ں ہوتا ہے، اگر اس جملے کو پڑھیں اور لکھیں تو چھوٹی سی سطر بھی پوری نہ ہو، لیکن اس کا فہم اور وضاحت اور تشریح بیان کریں تو کتاب کی کتاب تیار ہوجائے، چناں چہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وارشادات میں اس طرح کے کلمات کی ایک بڑی تعداد ہے، جنہیں ”جوامع الکلم“ کہا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ عافیت کی دعا بھی جوامع الکلممیں سے ہے، یعنی جامع دعاؤں میں سے ہے، اس لیے ہر انسان کو اسے یاد کرنا چاہیے اور ہمہ وقت اللہ سے عافیت کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
صاحب مظاہر حق علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی لکھتے ہیں۔”اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو بہت پسند کرتا ہے، اس کے برابر اور کسی چیز کے مانگنے کو پسند نہیں کرتا۔ عافیت کے معنی ہیں دنیا وآخرت کی تمام ظاہری وباطنی غیر پسند یدہ چیزوں، تمام آفات ومصائب، تمام بیماریوں اور تمام بلاؤں سے سلامتی وحفاظت۔ لہٰذا عافیت، دنیا وآخرت کی تمام بھلائیوں پر حاوی ہے، جس نے عافیت مانگی،ا س نے گویا دنیا وآخرت کی تمام ہی بھلائیاں مانگ لیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو پسند فرماتا ہے۔ (نسال اللہ العافیة)“۔
حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی قریب کے زمانے میں بڑے بزرگ گزرے ہیں، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ تھے، وہ فرمایا کرتے تھے:”عافیت بہت بڑی چیز ہے، بہت اونچی نعمت ہے اور عافیت کے مقابلے میں دنیا کی ساری دولتیں ہیچ ہیں، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔ نیز وہ فرماتے تھے کہ:عافیت دل ودماغ کے سکون کو کہتے ہیں اور یہ سکون اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے، یہ دولت اللہ تعالیٰ بغیر کسی سبب اور استحقاق کے عطا فرماتا ہے۔ عافیت کوئی آدمی خرید نہیں سکتا، نہ روپے پیسے سے عافیت خریدی جاسکتی ہے، نہ سرمایہ سے اور نہ ہی منصب سے کوئی عافیت حاصل کرسکتا ہے۔ عافیت کا خزانہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اس کی ذات کے سوا کوئی عافیت نہیں دے سکتا۔“ کچھ اوقات اور کچھ مقامات قبولیت دعا کے لیے خاص ہیں، ان اوقات میں سے ایک اذان ا ور اقامت کے درمیان کا وقت بھی ہے، لہٰذا اس وقت آدمی کو اپنے لیے، اہل وعیال، متعلقین اور پوری امت مسلمہ کے لیے،دینی اور دنیاوی مقاصد کے لیے خوب دعا کرنی چاہیے،اس وقت عافیت کی دعا بھی مانگنی چاہیے، چناں چہ ترمذی شریف میں حضرت انس سے یہ روایت منقول ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی، حضرت انس فرماتے ہیں ہم نے سوال کیا کہ یہ قبولیت کے اوقات میں سے ایک اہم وقت ہے، ہمیں موقع ملے تو اللہ تعالیٰ سے اس قبولیت کے وقت میں کیا دعا مانگیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس وقت بھی اپنے رب سے دنیا اور آخرت کی عافیت کی دعا مانگا کرو۔
سنن ابن ماجہ میں حضرت انس بن مالک سے منقول ہے: ایک شخص نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول (صلی الله علیہ وسلم)! کون سی دعا افضل ہے؟ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، پھر دوسرے روز بھی یہی سوال وجواب ہوا، پھر تیسرے دن یہ شخص حاضر ہو ا اور کہنے لگا: اے اللہ کے نبی (صلی الله علیہ وسلم)! کون سی دعا افضل ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، جب تمہیں دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت مل جائیں تو تحقیق تم کام یاب ہوگئے۔
مشکوٰة شریف میں بحوالہ ترمذی یہ حدیث مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کے لیے دعا کے دروازے کھولے گئے، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں امیر المؤمنین سیدنا صدیق اکبر سے ایک طویل روایت میں یہ منقول ہے، ارشاد فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے یہ سنا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہیں کلمہ اخلاص (کلمہ شہادت) کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں دی گئی، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کیا کرو۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم خود بھی بڑی کثرت سے رب العالمین سے عافیت کی دعا مانگا کرتے تھے، احادیث مبارکہ میں مختلف الفاظ سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے عافیت کی دعائیں مانگنا منقول ہے،ا س دعا کو آپ ہمیشہ اپنے معمولات میں شامل فرماتے تھے، چناں چہ ابو داؤد شریف اور دیگر حدیث کی کتابوں میں حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ روایت ہے کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم صبح وشام نہایت پابندی سے ان الفاظ کے ذریعے دعا مانگتے:”اللھم انی أسألک العافیة فی الدنیا والآخرة اللھم انی أسالک العفو والعافیة فی دینی ودنیای وأَھلی ومالی، اللھم استر عورتی“․بہتر تو یہی ہے کہ یہ پوری دعا یا د کی جائے اور صبح وشام اس کے پڑھنے کو معمول بنایا جائے، تاہم مکمل یاد نہ ہو تو کم ازکم:”اللھم انی اسالک العافیة فی الدنیا والآخرة“․ اے اللہ! میں آپ سے دنیا وآخرت کی عافیت طلب کرتا ہوں۔ نہایت ہی مختصر سے الفاظ ہیں، ان الفاظ کے ساتھ اس دعا کو یاد کرلینا چاہیے اور اگر عربی الفاظ یاد نہ ہوں تو اردو میں یہ دعا مانگ لیا کریں۔ یہ اللہ رب العزت کو بڑی پسند ہے، بندے اپنے پرودگار سے عافیت مانگتے رہیں، اللہ تعالیٰ اس مانگنے کو سب سے زیادہ پسند فرماتا ہے۔ انسان کثرت مال واسباب کے بجائے اپنے رب سے عافیت اور سکون مانگے، عافیت اور سکون میسر ہو تو تھوڑا بہت بھی کافی ہو جاتا ہے اور انسان کی زندگی پر سکون گزرتی ہے، ورنہ ساری دولت کے موجود ہوتے ہوئے انسان اس سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتا، وہ انسان کے کسی کام کی نہیں۔ البتہ انسان کی لالچ، طمع اور انہماک کے بغیر اگر اللہ تعا لیٰ کچھ عطا فرمادے تو وہ اللہ کی نعمت ہے، انسان پھر اس کا حق ادا کرے۔
انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو صحت نصیب ہوتی ہے، بلاؤں، پریشانیوں اور امراض سے انسان محفوظ رہتا ہے، یہ بھی عافیت کا حصہ ہے،صحت کے زمانے میں اس عافیت کی دولت کی قدر ہمیں نہیں ہوتی، اسی لیے عقل مندوں کا یہ قول ہے کہ عافیت تو ایک تاج ہے، جو تن درست لوگوں کے سروں پر سجا ہوا ہے، وہ خود تو اس تاج کونہیں دیکھ سکتے، ہاں! جو مریض ہوں، وہ اس تاج کو تن درستوں کے سروں پر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہم ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے رہیں، اپنی ذات کے لحاظ سے بھی، اپنے اہل وعیال کے لحاظ سے بھی، دنیاوی واخروی زندگی کے لحاظ سے بھی۔