ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی کا یہ بہترین زمانہ علوم نبوت حاصل کرنے کے لئے فارغ کردیا ہے، نہ ہمیں معاش کی فکر ہے نہ بیوی اور اولاد کی فکر ہے، نہ ہمارے پیچھے کوئی قرض خواہ قرض کا مطالبہ کرنے کے لئے لگا ہوا ہے، نہ حقوق العباد کا بوجھ ہمارے سر پر ہے، ہماری تنہا اکیلی جان ہے، اللہ نے دماغ اور دل عطا فرمائے ہیں اور ان علوم کو حاصل کرنے کے لئے یکسوئی نصیب فرمائی ہے، یہ کس کو نصیب ہے؟ آپ اس چار دیواری سے باہر نکل کر دیکھیں، چھوٹے بچے بھی آپ کو مزدوری کرتے نظر آئیں گے، جو ان بھی فکر ِمعاش میں سرگرداں پھرتے نظر آئیں گے اور بوڑھے بھی … آپ کارخانوں کی طرف جاکر دیکھیے کتنی عورتیں جو صبح سے محنت اور مزدوری کرنے کے لئے آتی ہیں اور شام کو وہاں سے نکلتی ہیں تو بے چاری تھکی ہاری ہوتی ہیں، ان کو اپنے بچے بھی پالنے پڑتے ہیں، اپنے گھر کی ذمہ داری بھی پوری کرنی پڑتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فکر معاش کے لئے نوکری بھی کرتی ہیں، کبھی آپ کارخانوں کی طرف جائیں تو ایسے بہت سے مناظر آپ کو نظر آئیں گے، نوجوان بھی ، بوڑھے بھی، عورتیں بھی سب دنیا کے جھمیلوں اور جھنجھٹوں میں پھنسے ہوئے نظر آئیں گے اور آپ بالکل فارغ ہیں ، یہاں آکر آپ کو دنیا کی کوئی بھی فکر نہیں، رہنے کے لئے آپ کو اچھی جگہ ملی ہوئی ہے، کھانے کے لئے آپ کے پاس کھانا تیار ہوتا ہے، پڑھنے کے لئے آپ کو کتابیں مفت دی جاتی ہیں اور اساتذہ پوری تیاری کے ساتھ آکر آپ کے اسباق کا اہتمام کرتے ہیں اور آپ کو موقع بموقع سمجھاتے بھی رہتے ہیں، آپ کا مقصد بھی آپ کو یاد دلاتے رہتے ہیں ، اس کے باوجود بھی اگر آپ اس کی ناقدری کریں گے اور اپنے اوقات ضائع کریں گے اور پوری لگن اور مشقت سے نہ پڑھیں گے تو یہ افسوس کی بات ہے، بہت زیادہ افسوس کی بات ہے۔ہم یہاں روزانہ دیکھتے ہیں کہ لوگ یہاں پڑھ رہے ہیں اور عمل کی خاطر نہیں پڑھ رہے، ان کو معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے کہ پہلی صفوں کو پہلے مکمل کیا جائے۔
اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ نماز کی جماعت میں آدمی جتنا امام سے قریب ہوتا ہے اتنا اس کا اجر زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن ظہر کے وقت آپ دیکھ لیجئے کہ نماز میں دس منٹ باقی ہیں برآمدہ بھرا ہوا ہے اور اندر سے مسجد خالی ہے، نماز سے دو تین منٹ پہلے مسجد بھر تی ہے لیکن جو لوگ پہلے آئے تھے اور مسجد ان کو خالی ملی تھی، انہوں نے اندر جانے کی زحمت نہیں کی، ان کو نہ اس کاخیال ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کی تکمیل ہو اور نہ اس کا خیال ہے کہ اگلی صفوں میں اجر و ثواب زیادہ ملتا ہے، ان باتوں کا کوئی خیال نہیں اور نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والے آگے ہوگئے اور یہ پیچھے رہ گئے، انہوں نے عمل کے لئے پڑھا ہی نہیں، اگر عمل کے لئے پڑھا ہوتا تو ان کی کوشش ہوتی کہ ان کو صف اول میں جگہ ملے اور اگلی صفوں کو پہلے پورا کیا جائے اور امام کے قریب کھڑا ہونے کا موقع حاصل ہو اور مصیبت یہ ہے کہ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سب عالم ہیں، حالانکہ کوئی متوسطہ میں داخل ہے، کوئی اولیٰ میں ہے تو وہ کہاں سے عالم ہے، وہ بیچارہ تو خود تربیت کا محتاج ہے۔