امریکا او راس کی اتحادی عالمی طاقتوں نے نائن الیون کے بعد7/اکتوبر2001ء کو افغانستان کی سر زمین پر طالبان کے خلاف جس جنگ کا آغاز کیا تھا، 15/اگست2021ء کو بیس سال بعد اس جنگ کا اختتام امریکا او راس کے اتحادیوں کی بدترین شکست اور طالبان کی تاریخی فتح کے ساتھ ہو گیا ہے۔ امریکا کی اس شکست کا آغاز تو حقیقت میں اسی وقت ہو گیا تھا جب اس نے طالبان سے محفوظ انخلا کے لیے مذاکرات شروع کیے تھے اور پھر دوحہ میں ایک معاہدہ بھی ہوا تھا، تاہم اس شکست کی تکمیل اب ہوئی ہے۔ طالبان نے بیس برس کی اس طویل جنگ کے دوران جس طرح بے سروسامانی کے عالم میں تن تنہا عالمی طاقتوں کا ثابت قدمی اور عزم واستقلال کے ساتھ مقابلہ کیا اور بالآخر فتح حاصل کی، وہ اب تاریخ کا حصہ بن کر رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لیے ایک روشن باب بن چکا ہے۔ بیس سال کی اس جدوجہد میں مختلف نشیب وفراز دیکھنے میں آئے، لیکن اس جنگ کے آخری چند دنوں میں طالبان نے کا بل سمیت پورے افغانستان کو جس تیز رفتاری کے ساتھ بآسانی فتح کیا ہے، اس نے پوری دنیا کو حیران کرکے رکھ دیا ہے، اس طرح کی فتوحات کی مثالیں مسلمانوں کی تاریخ میں موجودہیں، لیکن موجودہ دور میں اس کا عملی مشاہدہ بھی ہو گیا ہے، یقینا یہ الله تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہی کا نتیجہ ہے، اس کے بغیر اتنی بڑی فتح کا حصول ممکن نہیں ہے۔
طالبان کی اس تیز رفتار فتح نے امریکا کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ اس کے ایک بڑے منصوبہ کو بھی ناکام کر دیا ہے اور امریکا اس منصوبہ کے ناکام ہونے کی وجہ سے زیادہ پریشان ہے۔ در حقیقت امریکا کو یہ تو یقین تھا کہ افغان فورسز طالبان کا زیادہ وقت تک مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں اور بالآخر طالبان ہی ان پر غالب آئیں گے، تاہم ان کو اتنی توقع ضرور تھی کہ امریکی افواج کی جانب سے 31/اگست کو مکمل انخلا ہو جانے کے بعد کچھ مہینوں تک افغان فورسر طالبان کا مقابلہ کر لیں گی۔ امریکا کی سوچ یہ تھی کہ انخلا کے کچھ مہینوں بعد اگر طالبان افغانستان کو فتح کر بھی لیتے ہیں تو یہ امریکا کی نہیں ،بلکہ افغان حکومت اور فورسز کی ناکامی شمار ہو گی، امریکا دنیا کے سامنے یہ کہہ سکے گا کہ ہم ہمیشہ تو افغانستان میں رہ نہیں سکتے تھے، کیوں کہ اس میں ہمارا کوئی مفاد نہیں تھا، البتہ جب تک ہم افغانستان میں موجود تھے طالبان غالب نہیں آسکے تھے، اب اگر ہمارے جانے کے بعد ایسا ہو گیا ہے تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ لیکن طالبان نے امریکی افواج کے انخلا کی آخری تاریخ سے پندرہ روز قبل ہی فتح حاصل کرکے امریکا کے اس منصوبے کو خاک میں ملا دیا ہے، دنیا کے سامنے اس وقت جو نقشہ ہے وہ یہی ہے کہ طالبان نے امریکا اور نیٹو ممالک کی موجودگی میں افغانستان سے ان کا قبضہ چھڑا کر فتح حاصل کی ہے او ریہی بات امریکا اور نیٹو ممالک کا زیادہ منھ چڑارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکاان دنوں افغان فورسز پر برہم ہے اوروہ افغان فورسز کو ہی اس سب کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے، امریکا کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور فورسز کو ہماری توقع سے بہت زیادہ جلدی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، امریکا کا یہ بیان حقیقت میں اپنے اسی منصوبہ کی ناکامی کا رونا دھونا ہے۔
طالبان کی فتح کے بعد ان کے مخالفین یقینا صدمہ میں ہیں اور اسی صدمہ کی وجہ سے ان کی جانب سے طالبان کی اس تاریخی فتح کو دھندلا کرنے کے لیے مختلف بے بنیاد سوالات اٹھائے جارہے ہیں، ان میں سے ایک اعتراض جو وہ بہت زیادہ کر رہے ہیں، یہ ہے کہ اشرف غنی کی حکومت افغانوں کی منتخب جائز حکومت تھی، طالبان نے طاقت کے بل بوتے پر ان کی حکومت گرا کر افغانستان پر قبضہ حاصل کیا ہے او ران کو عوامی تائیدحاصل نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اشرف غنی کی حکومت افغانوں کی منتخب حکومت نہیں، بلکہ عالمی گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں امریکا کی سلیکٹڈ حکومت تھی، یہ زمینی حقیقت ہے اور یہی بات قرین قیاس بھی ہے، کیوں کہ امریکا سمیت چالیس عالمی طاقتوں کی افغانستان میں موجودگی کے ساتھ کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہاں ان کی مداخلت کے بغیر صاف شفاف الیکشن ہوئے ہوں گے اور خالص عوام کی مرضی کی حکومت بنی ہو گی؟! ایسا یقینا ممکن نہیں ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں یہ بات وہ لبرلز اور قوم پرست زیادہ کر رہے ہیں جو ایک طرف تو 2018ء کے الیکشن میں مبینہ طور پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کو بنیاد بنا کر موجودہ حکومت کو سلیکٹڈ او رناجائز کہتے ہیں ،لیکن دوسری جانب عالمی طاقتوں اور اسٹبلشمنٹ کی واضح موجودگی اور مداخلت کے باوجود اشرف غنی کی حکومت کو الیکٹڈ اورجائز کہتے ہیں، یہ ان کا سرا سر دہرا معیار ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ طالبان نے طاقت کے زور پر نہیں ،بلکہ عوامی تائید کے ذریعہ ہی یہ تاریخی فتح حاصل کی ہے، کیوں کہ عوامی تائید کے بغیر اس قدر بڑی فتح اتنی جلدی اور آسانی کے ساتھ حاصل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ترکی میں فوجی بغاوت کی مثال ہمارے سامنے ہے، وہاں کی فوج کے پاس طاقت تھی، لیکن عوامی تائید نہیں تھی، اس لیے وہ طاقت کے باوجود ناکام رہے، کیوں کہ عوام ان کے مزاحم ہو گئے تھے، افغانوں میں تو مزاحمت کا مادہ ترکوں سے زیادہ ہے، اگر طالبان کو عوام کی تائید حاصل نہ ہوتی تو یہی عوام ان کے مقابلے میں آجاتے اور طالبان کبھی یہ فتح حاصل نہ کر پاتے، کیوں کہ عوام کی طاقت کے سامنے ہر طاقت بے بس ہو جاتی ہے۔طالبان کا کسی قسم کی عوامی مزاحمت کے بغیر اتنی بڑی فتح حاصل کرنا ہی ان کو عوامی تائید حاصل ہونے کی دلیل ہے۔ غرض یہ کہ طالبان نے افغان سر زمین پر اپنی بیس سالہ جہد مسلسل کے نتیجہ میں جو فتح حاصل کی ہے وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ بن چکی ہے، طالبان اس تاریخی فتح پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اسی طرح کسی بھی طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے وہ تمام لوگ جو عالمی رائے عامہ کے خلاف اول روز سے امریکا کی افغانستان میں جارحیت کو ناجائز کہہ کر طالبان کی حمایت میں ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے رہے، وہ سب بھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
طالبان کو اب اس بڑی فتح کے بعد انتہائی حکمت وبصیرت کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا ،کیوں کہ ان پر اب بہت بڑی ذمہ داری آچکی ہے۔ طالبان راہ نما ملا عبدالغنی برادر نے فتح کے بعد اپنے پہلے بیان میں بجا کہا کہ طالبان کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے، طالبان کے ترجمان ملا ذبیح الله مجاہد کی پہلی پریس کانفرنس بہت عمدہ تھی، جس میں انہوں نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے بہت سارے خدشات دور کیے ہیں، طالبان کی جانب سے اپنے مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان بہت خوش آئند ہے، طالبان کو آگے بھی اسی تحمل اور وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور افغان سر زمین اور افغان قوم کی تعمیر وترقی کے لیے کام کرنا ہو گا، اسی سے وہ اپنے مخالفین کے دل بھی جیت سکیں گے او رافغانستان کی سر زمین پر جنگ وجدال کا خاتمہ ہو کر امن وامان اور سکون قائم ہو سکے گا، اس کے علاوہ طالبان کو بین الاقوامی برادری کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو قائم کرکے بہتر بنانا ہو گا ،کیوں کہ موجودہ عالمی صورت حال میں کسی بھی حکومت کے لیے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات انتہائی ضروری اور مفید ہوتے ہیں۔ الله تعالیٰ طالبان کی آگے بھی مدد اور نصرت فرمائے اور افغانستان کو امن وامان اور اسلامی نظام کی نعمت نصیب فرمائے۔