حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندناومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہٰ﴾․ (سورة آل عمران، آیت:31)
وقال الله سبحان وتعالیٰ:﴿ وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾․ (سورة الحشر، آیت:7)
وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشیدین․(المستدرک علی الصحیحین، کتاب العلم، رقم : 329، وسنن ابن ماجہ باب اتباع سنة الخلفاء الراشدین، رقم:42 المعجم الکبیر للطبراني، رقم:624)، أوکمال قال علیہ الصلاة والسلام․ صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․
میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله تعالیٰ نے یہ پوری کائنات محض اپنے ارادے اور قدرت سے پیدا فرمائی ہے۔ جب ہم کائنات کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کائنات میں، یہ جو ہماری دنیا ہے، یہ ذرے سے بھی چھوٹی ہے، کائنات سورج، چاند، ستارے، سیارے ان کے مقابلے میں یہ دنیا ذرہ بھی نہیں، ہم اسی دنیا کو بہت بڑا سمجھتے ہیں۔
اس دنیا میں الله تعالیٰ نے سب سے اشرف اور اعلی مخلوق پیدا فرمائی ہے او راس مخلوق کانام انسان ہے، الله تعالیٰ کی جتنی بھی مخلوقات ہیں، جس کا کوئی حساب نہیں ہے ان تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ ، سب سے اشرف انسان ہے، اس بنی آدم کو الله تعالیٰ نے اس کائنات کے ایک ذرے، جس کا نام دنیا ہے، اس میں بھیجا اور الله تعالیٰ کی مصلحت اس بنی آدم کو اس کائنات یا اس دنیا میں بھیجنے سے یہ ہے کہ اس مخلوق کو جسے سب سے بڑا رتبہ اور مقام الله تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے ،اس کی آزمائش ہے، اس کو آزمائیں او راس کا امتحان لیں کہ یہ جورتبہ او رمنصب اسے عطا کیا گیا ہے یہ اس کا اہل ہے یا نہیں؟ اور یہ اس آزمائش میں کام یاب ہوتا ہے یا نہیں؟
الله تعالیٰ نے اس انسان کو خلافت کا منصب بھی عطا کیا ہے کہ یہ انسان اس دنیا میں الله تعالیٰ کا خلیفہ اور ا لله تعالیٰ کا نائب ہے، آپ جانتے ہیں کہ ہم دنیا میں جو صبح شام کام کرتے ہیں، ہمیں بھی اپنے کاموں میں نائب کی ضرورت پیش آتی ہے، ایک آدمی صنعت کار ہے، اس کی پچاس فیکٹریاں ہیں، وہ مجبور ہے کہ کسی کو اپنا نائب مقرر کرے، اس کے پانچ ہزار ملازم ہیں اور ان پانچ ہزار ملازموں میں سے وہ بہت باریک بینی کے ساتھ جائرہ لیتا ہے کہ کون ان میں ایسا ہے جو میری نیابت کرسکے گا، ہر ایک کو نائب نہیں بناتا اور ساتھ ہی ساتھ وہ آزماتا بھی ہے، جب اسے تسلی او راطمینان ہو جاتا ہے کہ ہاں فلاں آدمی میں یہ صفات اورخوبیاں ہیں کہ اگر میں غیر حاضر ہوں ،میں موجود نہ ہوں تو یہ آدمی میری عدم موجودگی میں میری نیابت کرسکتا ہے، اسے نائب بناتا ہے، بالکل اسی طرح سے الله تعالیٰ نے اس انسان میں بھی ایسی خوبیاں رکھی ہیں، ایسی صفات رکھی ہیں، ہم اور آپ سوچ نہیں سکتے، آج ہمیں دھوکہ دیا جاتا ہے، ہم باتیں کرتے ہیں آپس میں کہ جی جیٹ طیارہ انسان نے ایجاد کر لیا، ہم سمجھتے ہیں کہ اس انسان نے کمپیوٹر ایجاد کر لیا۔
حالاں کہ یہ چیزیں الله تعالیٰ کی قدرت کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں او رپھرتھوڑا سا آپ سوچیے کہ یہ جو ایجادات ہیں جتنی بھی ہوں، ان ساری کی ساری ایجادات کو انسانی دماغ ہی ایجاد کرتا ہے ،اگر اس کھوپڑی سے دماغ باہر نکال دیا جائے تو کیا یہ کچھ کر سکتی ہے؟ تو یہ دماغ کس نے بنایا؟ یہ کس کی ایجاد ہے؟ یہ کس کا پیدا کردہ ہے؟ الله کا پیدا کردہ ہے۔ اور الله تعالیٰ گارے مٹی کے اور لوہے لکڑی کے محتاج نہیں ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام الله کے نبی ہیں اور بادشاہ نبی ہیں، انہیں جو بادشاہت الله نے عطا فرمائی، ان کاایک تخت تھا، تخت سلیمانی، وہ تخت سلیمانی اڑتا تھا، اس میں پٹرول، ڈیزل نہیں تھا، اس میں انجن نہیں تھا۔( قرآن کی آیت: ﴿وَلِسُلَیْْمَانَ الرِّیْحَ غُدُوُّہَا شَہْرٌ وَرَوَاحُہَا شَہْرٌ﴾(سبا:12) اور (ہم نے مسخر کیا) سلیمان کے آگے ہوا کو، صبح کی منزل اس کی ایک مہینہ کی اور شام کی منزل ایک مہینہ کی۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت حسن بصری رحمہ الله سے منقول ہے:کان یغدو علی بساطہ من دمشق فینزل بإصطخر یتغذی بھا، ویذھب رائحا من اصطخر فیبیت بکابل، وبین دمشق واصطخر شھر کامل للمسرع، وبین اصطخر وکابل شھر کامل للمسرع․ (تفسیر ابن کثیر، سورہ سبا، آیت:12،6/499)
یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام صبح کو بیت المقدس سے روانہ ہوتے تو دوپہر کو اصطخر میں جاکر قیام فرماتے اور دوپہر کا کھانا کھاتے، پھر یہاں سے ظہر کے بعد واپس چلتے تو کابل میں جاکر رات ہوتی تھی اور بیت المقدس اور اصطخر کے درمیان اتنی مسافت ہے جو تیز سواری پر چلنے والا ایک ماہ میں طے کرسکتا ہے، اسی طرح اصطخر سے کابل تک کی مسافت بھی اتنی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا جو تخت تھا، وہ اتنا بڑا تھا کہ اس کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ اس تخت پر چھ لاکھ کرسیاں ہوتی تھیں، انسان حضرت سلیمان علیہ السلام کی دائیں جانب بیٹھتے اور جنات بائیں جانب اور پرندے اس تخت پر سایہ کیے ہوتے(اس شان سے وہ تخت ہوا میں اڑتا)
چناں چہ”المصنف“ کی روایت ہے:” کان سلیمان بن داؤد علیہ السلام یوضع لہ ست مائہ ألف کرسی، ثم یجئي أشراف الإنس حتی یجلسوا ممایلی الأیمن، ثم یجئي أشراف الجن حتی یجلسوا ممایلی الأیسر، ثم یدعوالطیر فتظلھم ثم یدعو الریح فتحملھم فیسیر فی الغداة الواحدة،مسیرة شھر… إلخ․“
کئی دفعہ میں نے آپ کو سنایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ میں ایک صحابی ہیں، انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلیفہ حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ نے جہاد کے لیے بھیجا، وہ مدینہ منورہ سے سینکڑوں میل کی مسافت پر ہیں، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں اور اس خطبے میں ان کا نام لے کر ان سے فرمارہے ہیں یا ساریہ الجبل کہ اے ساریہ پہاڑ کو لازم پکڑو، جو حضرات جمعہ کے خطبے میں موجود تھے انہوں نے بعد میں حضرت عمر رضی الله عنہ سے پوچھا، اے امیر المومنین! آپ نے دوران خطبہ اچانک یہ کیا بات فرمائی؟ فرمایا کہ میں دیکھ رہا تھا کہ دشمن مسلمانوں کے آگے اورپیچھے دونوں جانب سے حملہ کر رہا ہے۔ تو میں نے ان کو اطلاع کی کہ پہاڑ کو لازم پکڑو، پہاڑ کو اپنے پیچھے رکھو، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے۔
سینکڑوں میل کی دوری ہے، وقت گزر گیا اور وہ صحابہ کام یاب وکام ران ہو کر مدینہ طیبہ آئے، تو مدینہ منورہ میں موجود حضرات نے ان سے پوچھا کہ اتنے جمعے پہلے امیر المومنین نے دوران خطبہ یہ ارشاد فرما یا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں! ہم نے اپنے کانوں سے سنا تھا۔
( علامہ بیہقی رحمہ الله نے:”دلائل النبوہ“ میں روایت نقل کی ہے: عن ابن عمر أن عمر بعث جیشا وأمر علیھم رجل یدعی ساریة بینما عمر رضی الله عنہ یخطب فجعل یصیح یا ساري الجبل فقدم رسول من الجیش فقال: یا أمیر المومین لقینا عدوّنا فھزمونا فإذا صائح یصیح یا ساری الجبل، فأسندنا ظھورنا إلی الجبل فھزمھم الله، فقلنا لعمر کنت تصیح بذلک ․(دلائل النبوة للبیہقي، باب ماجاء في إخبار النبی صلی الله علیہ وسلم بمحدثین کانوا في الأمم، وأنہ إن یکن فی أمتہ منھم واحد فعمر بن الخطاب فکان کما أخبر:6/370، وکنز العمال، فضائل الفاروق، رقم:35790)
الله تعالیٰ نے اس انسان کو اپنا نائب بنایا، اپنا خلیفہ بنایا او راس خلیفہ میں اتنی صفات رکھی ہیں کہ ابھی تک انسان نے اس کا بہت معمولی سا حصہ ادراک کیا ہے، جب انسان الله تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے اور الله تعالیٰ کا قرب حاصل کرے اور الله کے بھیجے ہوئے نبیوں کی کامل اور مکمل اتباع کرتا ہے تو یہ ساری کی ساری کائنات اس کے لیے مسخر ہو جاتی ہے، لیکن شرط ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ الله تعالیٰ سے تعلق جڑا ہوا ہو، جسے ایمان کہتے ہیں اور نبی سے تعلق جڑا ہوا ہو۔
ہم جس دور میں آج ہیں یہ دور اس کائنات کا سب سے مبارک ترین دور ہے، اس کی جتنی بھی عمر گزر چکی ہے اور جتنی بھی باقی ہے اس میں سب سے بہترین زمانہ یہ ہے اور وہ کیوں ہے؟ وہ اس لیے ہے کہ الله تعالیٰ نے سب سے آخری نبی اور سب سے آخری رسول کو اس زمانے میں بھیجا، ان کا جو مرتبہ ہے، وہ تمام رسل سے بلند و بالا ہے، وہ نہ صرف بلند وبالا ہے بلکہ وہ تمام انبیاء ورسل کے امام اور سردار ہیں، امام الانیباء ہیں، سید الرسل محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور ہم اور آپ ، اس دنیا میں جتنی امتیں گزری ہیں، ان تمام اُمتوں میں سب سے افضل ترین اُمت ہیں، اس لیے کہ یہ امام الانبیاء، سید الرسل محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی امت ہے، اس امت کی نسبت آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف ہے، اس دنیا میں الله تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں، تورات انجیل، زبور، صحیفے ان سب میں سب سے اعلیٰ اور افضل اگر کوئی کتاب ہے تو وہ قرآن کریم ہے، جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے۔
اس امت کو جو الله تعالیٰ نے خوبیاں او رصفات عطا فرمائی ہیں وہ خوبیاں اور صفات بھی پہلی ساری اُمتوں سے زیادہ ہیں، مگر شرط ہے اور وہ شرط آج سے چودہ سو سال پہلے بھی تھی، وہ شرط آج بھی ہے اور وہ شرط قیامت تک رہے گی کہ اگر اس شرط پر یہ امت قائم ہو جائے تو ساری دنیا اس کے سامنے ہیچ، کوئی حیثیت نہیں، وہ سب پرغالب آئیں گے اور یہ کوئی کہانی نہیں ہے ،یہ کوئی افسانہ نہیں ہے ، یہ واقعہ ہے
اب ہمیں کوئی دھوکہ نہ دے، آج دھوکے ہیں کہ اب اونٹوں والا زمانہ نہیں ہے، اب خچروں اور گدھوں والا زمانہ نہیں ہے، اب تو راکٹ کا زمانہ ہے، اب آپ ہمیں پرانی باتیں نہ بتائیں، اس دور کی بات کریں۔
میرے دوستو! یاد رکھنا یہ اس دنیا کا سب سے بڑا دھوکہ ہے، قیامت تک اب وہ کچھ چلے گا جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس امت کو دے کر گئے ہیں، یہ پاکستان کا یا ہندوستان کا یا امریکا وبرطانیہ کا آئین نہیں، جس میں سترویں ترمیم ہو گئی، جس میں اُنیسویں ترمیم ہو گئی، ایسا کچھ نہیں، اب تو قیامت تک یہی چلے گا اور قیامت تک جو اپنے آپ کو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ جوڑے گا، وہ غالب ہو گا اور جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اپنا تعلق اپنا ناطہ توڑے گا وہ ذلیل اور رسوا ہو گا، یہ طے ہے۔
ہمارے پڑوس میں افغانستان ہے، بیس سال ہو گئے ان کا جرم نائن الیون نہیں تھا، ان کا جرم اسامہ بن لادن نہیں تھا، ان کا جرم القاعدہ نہیں تھا، ان کا جرم تھا امارت اسلامیہ افغانستان، ان کا جرم تھا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع، پانچ سال ساری دنیا نے دیکھا، یہودیوں نے بھی دیکھا نصرانیوں نے بھی دیکھا، ہندؤوں نے بھی دیکھا سب نے دیکھا کہ ایسا امن اس پوری روئے زمین پر کہیں نہیں تھا جو امارت اسلامیہ افغانستان کے اندر تھا او رکیوں تھا؟ محمد رسول الله کی شریعت پر عمل کی وجہ سے۔
اس پانچ سال میں امارت اسلامیہ افغانستان نے پوری دنیا میں کسی ادارے سے، نہ امریکا سے، نہ یورپ سے، نہ آئی ایم ایف سے، نہ ورلڈبینک سے ایک ٹکہ قرضہ نہیں لیا، ہمارا ملک ہے اور آپ ہم سب سودی قرضوں کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں، آج ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے،ایک آدمی آتا ہے، وہ ادھر سے ہمارے حکم رانوں کا کان پکڑ کر کہتا ہے یہ کرو، وہ کہتا ہے جی سر! دوسرا آتا ہے وہ ادھر سے کان پکڑتا ہے یہ کرو، کہتا ہے جی سر!حاضر۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے ایک ٹکہ کسی سے قرض نہیں لیا اور پورے امارت اسلامیہ افغانستان میں ایک آدمی بھوک سے نہیں مرا،سو فیصد امن۔
ان بے چاروں کی اسباب کے اعتبار سے جو حیثیت تھی وہ اسباب کے اعتبار سے کچھ بھی نہیں، چناں چہ ان کو ختم کرنے کے لیے کہ کہیں یہ جتنے ازم دنیا میں چل رہے ہیں، فیل اور ختم نہ ہوجائیں، ہمارے نوجوان اس دنیا میں جو کئی قسم کے ازم گزرے ہیں، ان سے واقف نہیں۔
ایک ازم یہاں گزرا ہے کیمونزم، سوشلزم، برباد ہو گئے، ختم ہو گئے، کمیونزم کا قبرستان بھی افغانستان بنا، سوشلزم کا بھی وہی بنا۔
اب اس دنیا میں ہے کیپٹلزم، سرمایہ دار انہ نظام، چناں چہ ان کو یہ خطرہ تھا کہ اگر یہ امارت اسلامیہ افغانستان باقی رہ گئی تو ساری دنیا انہیں کی طرف آجائے گی۔
میں عرض کر رہاہوں کہ وہ بے چارے اسباب کے اعتبار سے دنیا کے پچاس ممالک کے برابر نہیں تھے، حالاں کہ اگر ان میں سے ایک ملک کو لے لیا جائے تو اس ایک ملک سے بھی امارت اسلامیہ افغانستان کا دنیوی اعتبار سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔
پچاس ملک ان کو ختم کرنے کے لیے آئے، بیس سال انہوں نے اپنی ٹیکنالوجی، جدید ترین ٹیکنالوجی، جس کے بعد کوئی ٹیکنالوجی دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے ،اس سب کو آپ لے کر آئے، پچاس ملکوں کی فوجیں اتنی بڑی جنگی مشین اس دنیا کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آئے گی، بیس سال… نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہنکلاکہ ٹیکنالوجی شکست کھا گئی، مشین شکست کھا گئی، الله اورالله کے رسول کے دشمن شکست کھا گئے۔
وہ لوگ ہمارے لیے سبق ہیں، ہم بڑے کم زور ایمان والے ہیں ، الله تعالیٰ ہم کم زور اور ضعیف ایمان والوں کی تقویت کے لیے بعض دفعہ اس طرح کے مظاہر دنیا میں ظاہر فرماتے ہیں، تاکہ ہمیں پھر سے وہ بھولا ہوا سبق یاد آجائے، فتح، میں ٹخنوں سے اوپر شلوار پہ دوں گا، فتح میں اس داڑھی کے ساتھ ہی دوں گا، فتح میں محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت پر جو چلے گا اس کو دوں گا۔
آج ساری دنیا میں سناٹا ہے، دین کے خلاف، اسلام کے خلاف ذرا سی کوئی بات ہو پوری دنیا کا میڈیا چیختاہے ،لیکن اتنا بڑا واقعہ اس کرہ ارض پر ہو گیا، بھاگ رہے ہیں، کس خوف کے عالم میں بھاگ رہے ہیں، لیکن کسی میڈیا پر آپ کو یہ تفصیلات نہیں ملیں گی، نہ مسلمان نہ غیر مسلم، غیر مسلموں سے تو امید نہیں، مسلمان بھی خاموش، سب کے منھ سلے ہوئے ہیں ،سب کے منھ پر ٹیپ لگا ہوا ہے۔
میرے دوستو! یہ بہت بڑا سبق ہے، پھر سے وہ سبق الله تعالیٰ نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ علیکم بسنتی، تم میرے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرو گے، تو میں تمہیں قدم قدم پر ایسی کام یابی دوں گا کہ جس کا کوئی تصور نہیں کرسکتا، کوئی تصور کرسکتاتھا؟ آج اگر ہندو اس طرح فتح حاصل کرتے، نصرانی یہودی اس طرح فتح حاصل کرتے تو آج ساری دنیا میں شور ہوتا، لیکن چوں کہ یہ فتح جو حاصل کی ہے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ان پروانوں نے حاصل کی ہے اس لیے ان کا کہیں تذکرہ نہیں، لیکن بہرحال آج کا دور ایسا ہے کہ آپ جتنا چھپانا چاہیں چھپا نہیں سکتے، میرے اور آپ کے لیے سبق یہ ہے کہ اپنی ذات کے اعتبار سے ،اپنے گھرکے اعتبار سے، اپنے خاندان کے اعتبار سے میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑوں گا، اپنی زندگی سنت کے مطابق بناؤں گا، تاکہ الله تعالیٰ او راس کے رسول صلی الله علیہ وسلم بھی خوش ہوں، جب الله تعالیٰ بھی خوش او راس کے رسول صلی الله علیہ وسلم بھی خوش تو آپ مغلوب نہیں ہوں گے، آپ ذلیل ورسوا نہیں ہوں گے۔ الله تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔