کسی کے ہاں ضیافت دعوت میں جانے والا شخص جو عارضی قیام کے لیے کسی کے گھر یا مہمان خانے میں جائے تو اسے ضیف یامہمان کہا جاتا ہے۔ مہمان نوازی مہمان او رمیزبان کے مابین تعلقات کا نام ہے۔ میزبان مہمان کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتا ہے۔ وہ زائرین، اجنبی اورمہمان کی تفریح اور آرام کا خیال رکھتا ہے۔ مہمانوں کی عزت وتکریم اورخاطر تواضع اسلامی معاشرے کی اعلیٰ تہذیب او ربلند اخلاق کی روشن علامت ہے۔ اسلام نے مہمان نوازی کی بہت ترغیب دلائی ہے۔ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم خود مہمانوں کی خاطر داری فرماتے تھے او رگھر میں کچھ نہ ہوتا تو اس کے لیے قرض لے لینا بھی ثابت ہے، چناں چہ حضرت سیدنا ابورافع رضی الله تعالیٰ عنہ کا بیان ہے:
ایک بار دربار رسالت صلی الله علیہ وسلم میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے ایک یہودی سے اُدھار غلہ لینے کے لیے بھیجا، مگر یہودی نے رہن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زرہ گِروی رکھ کر اُدھار غلہ لیا۔ (مسند البزار) ایک اور حدیث مبارک میں ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے،: جو الله اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کا احترام کرے۔ (بخاری)
مہمان نوازی سے مہمان کے دل میں میزبان کی عزت او رمحبت میں اضافہ ہوتا ہے،آپس کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں، رنجشیں رفع ہوتی ہیں، الله تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے، رزق میں برکت ہوتی ہے، بندہ مومن کے دل کو خوش کرنے سے میزبان کو ثواب کمانے کے مواقع میسر آتے ہیں اور سب سے بڑھ کر الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی خوش نودی نصیب ہوتی ہے۔
مگر افسوس کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قد ردم توڑتی نظر آرہی ہے۔ گھر میں مہمان کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے اور ایسے مہمانوں کے لیے گھروں کے دسترخوان سکڑ گئے ہیں۔ ایک وہ دور تھاکہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت وسعادت سمجھتے او رمہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے بے تاب نظر آتے تھے، جب کہ آج کے دو رمیں مہمان کو وبال جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اسی کی جس میں دنیوی مفاد وابستہ ہوتا ہے، حالاں کہ مہمان نوازی باعث فضیلت عمل ہے۔
مہمان نوازی کیسے کریں؟
رویہ کی درستی مہمان نوازی کی بنیادی شرط ہے۔ کوفت کا اظہار ، طنزیہ انداز ، ترش لب ولہجہ او رغیر ضروری سوالات کی بوچھاڑ کئی دنیوی واخروی فوائد سے محروم کرسکتیہے۔ لہٰذا مہمان کی آمد پر، اس کے مقام ومرتبے کا لحاظ رکھتے ہوئے، نہایت خوش دلی، وسعت قلبی اورگرم جوشی سے استقبال کیجیے، اپنی حیثیت او رمہمان کی طبیعت کے موافق کھانے پینے اور رہنے کا اہتمام کیجیے، شرعی احتیاطوں کو سامنے رکھتے ہوئے، اس کی دل جوئی اورمناسب گفت گو کیجیے، واپسی پر حسب استطاعت اسے تحفہ سے نوازیے اور دروازے تک رخصت کرنے جائیے کہ یہ سب امور مہمان کے اکرام میں داخل ہیں۔ یقینا اسلام کی روشن تعلیمات کے مطابق اگر ہم مہمانوں کی خلوص دل سے خدمت کرنے لگ جائیں تو خاندانی جھگڑوں اور ناچاقیوں سمیت کئی معاشرتی ناسور اپنی موت آپ مر جائیں گے۔
میزبان کا حق
میزبان کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اس کی طرف سے دی گئی دعوت قبول کی جائے، میزبان کی جانب سے جو قیام وطعام کا اہتمام کیا جائے اس کو بسر وچشم قبول کیا جائے، اسی طرح مہمان کا اہم فریضہ یہ ہے کہ میزبان سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرے۔ مہمان کا اس قدر ٹھہرنا جائز نہیں کہ جس سے گھر والوں کو پریشانی ہونے لگے۔ ابوشریح کعبی سے روایت ہے، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہوا سے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے۔ اس کی خاطر داری ایک دن او ررات کی ہے اورمہمانی تین دن تک ہے، اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے، مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اسے تنگ کر ڈالے۔ (صحیح بخاری)
مہمان نوازی کی ایک آفت
مہمان نوازی کی ایک آفت اسراف کا شکار ہو جانا ہے، اس آفت کا شکار فقط آج کا ہی انسان نہیں بلکہ قدیم سے ہی ہر مہمان نواز اس آفت کا شکار رہا ہے، البتہ آج کل کے دور میں ریا کاری، خود نمائی اور نمود ونمائش کی بیماری ماضی کی بنسبت زیادہ بڑھ گئی ہے، مہمان نوازی انسانی اقدار میں سے ایک بہترین قدر اور اعلیٰ صفت ہے ، مہمان نواز ہونا دراصل آپ کے مہذب، با اخلاق اور دین دار ہونے کا آئینہ دار ہے۔ ہم اگرمہمان نوازی کی مردہ سنتوں کو دوبارہ زندہ کرنے میں کام یاب ہو جائیں تو مہمان نوازی کی ایک اچھی ثقافت کو زندہ کرسکتے ہیں، اگر ایسا کر لیتے ہیں تو مہمان ہمارے لیے باعث زحمت نہیں، بلکہ مغفرت الہٰی کا سبب بنے گا ان شا ء الله۔
مہمان الله کی رحمت
مہمان الله کی رحمت ہوتے ہیں۔ جب یہ گھر آئیں تو ان کا خوش دلی سے استقبال کریں۔ اچھا میزبان وہ ہے جو مہمان کی پذیرائی بہترین انداز سے انجام دے، جو کہ اس کے جود وسخا کی علامت ہے۔ مہمان کی بہترین انداز میں خدمت کریں، اگر مہمان کسی قسم کا بیش قیمت یا ادنیٰ سا ہدیہ میزبان کی خدمت میں پیش کرے تو وہ اسے بخوشی قبول کرے۔ کوئی بھی کام مہمان سے نہ کروائیں، اگر مہمان خود سے کسی کام کو انجام دینے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو میزبان کو چاہیے کہ اسے زحمت نہ دے، لیکن اگر مہمان اصرار کرے تو پھر اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مہمان کی آمد کے وقت اس کی مدد کرنا میزبان کا فریضہ ہے، مثلاً اگر مہمان کہیں دور سے آرہا ہے اور اس کے ساتھ سامان وغیرہ بھی ہے تو میزبان کو چاہیے کہ مہمان سے سامان لے کر خندہ پیشانی سے مہمان کی ہم راہی کرے اورآگے بڑھ کر جس جگہ پر اسے بٹھانا ہے اس کی راہ نمائی کرے۔
کھانا پیش کرنے کے آداب
کھانا پیش کرنے میں زیادہ تاخیر مت کریں، الایہ کہ خود مہمان دیر سے کھانا لانے کا کہے۔ جو کھانا تیار کیا گیا ہے وہ سب ایک ساتھ لائیں یا پہلے سے ہی مہمان کو اطلاع دے دیں کہ اس کے لیے کون کون سا کھانا تیار کیا گیا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جب مہمان ایک کھانا کھا کر سیر ہو جائے تو دوسرا کھانا لایا جائے۔ کھانے کی جو مقدار مطلوب ہو اتنا ہی کھانا بنوایا جائے، نا اس سے کم بنوائیں کہ مہمان بھوکا رہ جائے اور نہ ہی زیادہ کہ جو ضائع ہوجائے۔ اگر محسوس ہو کہ مہمان بھوکا ہے تو جو بھی بنا ہو پیش کر دیں، اسے بھوکا رکھ کرکھانا بنوانا درست نہیں، بلکہ جو موجود ہو اسے پیش کر دیں۔
دراصل یہاں پر ہم مہمان کی بھوک کو مدنظر رکھ کر اسے فوقیت دے رہے ہیں، یہ ناسمجھیں کہ ہم نے مہمان کو اچھا کھانا نہیں کھلایا۔ اگر ہم خلوص نیت سے مہمان نوازی کرتے ہیں او رجو کچھ میسر ہے اسے اپنی حیثیت کے مطابق پیش کرتے ہیں تو یہ الله کی کسی نعمت سے کم نہیں، اس لیے اسے کم اور حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگر ہم قدرت رکھتے ہیں اور الله تعالیٰ کی طرف سے دیا ہوا بہت ہے تو چاہیے کہ مہمان نوازی کرتے ہوئے مہمان کے سامنے بہترین سے بہترین کھاناحاضر کریں، اسے حتی الامکان آسائش وآرام فراہم کرنے کی کوشش کریں، اس سے ہماری دنیا بھی سنورے گی اور آخرت بھی ، ان شا ء الله۔ الله پاک ہم سب کو مہمان داری سے متعلق اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!