درخت جب اندر سے کھوکھلا ہو کر سوکھ جائے تو اس کو گرانے میں نہ دیر لگتی ہے اور نہ دشواری پیش آتی ہے۔ درخت کاٹنے والا بہت آسانی سے اور کم وقت میں اس کو کاٹ دیتا ہے، بلکہ جڑیں تک اکھیڑ دیتا ہے، یہی حال قوموں اور گروہوں کا ہے، جو قوم خود اپنے نظریہ پر عمل نہیں کرتی، جو گروہ خود اپنے اصول پر عمل پیرا نہیں ہوتا، جس کے قول وفعل میں کھلا ہوا تضاد ہوتا ہے، جو الفاظ کے دریا تو بہا سکتا ہے، لیکن عملی دنیا میں اس کی بساط ایک قطرہ سے زیادہ نہیں ہوتی، وہ قوم اپنی بقا کی لڑائی نہیں لڑ سکتی اور نہ اپنے چابک دست دشمن کا مقابلہ کرسکتی ہے، قرآن مجید نے یہودیوں کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے یہی بات کہی ہے کہ ان کے قول وفعل میں یکسانیت نہیں ہے۔
اس وقت مسلمان اس صورت ِ حال سے دو چار ہیں، وہ دشمنوں کی دشمنی کا رونا روتے ہیں،؛ لیکن حقیقت میں یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا رونا رویا جائے، جن لوگوں کو آپ کی فکر، آپ کے عقیدہ، آپ کے طرز ِ زندگی، آپ کی تہذیب وثقافت، آپ کے تاریخی ورثہ، یہاں تک کہ آپ کے وجود اور آپ کے نام سے بھی نفرت ہے، ان سے اس بات کے سوا اور کس بات کی توقع رکھی جاسکتی ہے، ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ آپ کے دین کا تحفظ کریں گے اور آپ کی شریعت کو محفوظ رکھیں گے، ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص آگ سے پیاس بجھانے کی اور برف سے ایندھن کے کام آنے کی توقع رکھے، اس لیے موجودہ حالات میں ضرورت ہے کہ مسلمان پوری جرأت اور اعتراف حقیقت کے ساتھ آپ اپنا محاسبہ کریں اور اپنے طرز عمل میں ایک بنیادی تبدیلی لائیں۔
اسلام نے نکاح کو بہت آسان رکھا ہے، مسلمان عید، بقرعید میں جتنا خرچ کرتے ہیں، نکاح میں اتنا خرچ کرنا بھی ضروری نہیں، صرف ایجاب وقبول سے نکاح منعقد ہو جاتاہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مسجد میں نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے، جس میں نہ کوئی کرایہ خرچ ہوتا ہے اور نہ سجاوٹ کی گنجائش ہوتی ہے، نکاح کے ساتھ صرف ایک دعوت، ”دعوت ِ ولیمہ“ رکھی گئی ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جو سب سے قیمتی ولیمہ فرمایا، وہ اس طور پر کہ ایک بکرا ذبح کیا؛ البتہ نکاح میں ایک لازمی ذمہ داری مہر کی ہے اور اس کو عقد کے وقت ہی ادا کر دینا مسنون ہے۔
لیکن صورت حال یہ ہے کہ غیر مسلموں کا اثر قبول کرتے ہوئے نکاح کو نہایت ہی مشکل عمل بنا دیا گیا ہے، جس میں بعض اوقات لڑکی والے اپنا گھر تک بیچ دیتے ہیں، لڑکی والوں پر جہیز کا بارگراں تو ہے ہی، ایک بڑی نقد رقم کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے، فنکشن ہال اور کھانے کے مینو تک کی تعیین ہوتی ہے اور یہ سارا بوجھ لڑکی والوں کے سر ڈالا جاتا ہے، دوسری طرف مہر ایک رسمی چیز بن کر رہ گئی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر طلاق کی نوبت آئی تب مہر ادا کیا جائے گا، اس طرح اسلام کا تصور ِ نکاح مسخ ہو کر رہ گیا ہے اور اس کے نتیجے میں امت کی لاکھوں بیٹیاں سسک سسک کر تجرد کی زندگی گزار رہی ہیں، اس غیر اسلامی اورغیر اخلاقی عمل پر ہمیں کسی غیر مسلم حکومت نے مجبور نہیں کیا ہے، بلکہ یہ ہمارا اپنا بگاڑ ہے۔
شریعت کے خاندانی زندگی سے متعلق قوانین میں مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی ہے، یہ گنجائش اس لیے ہے کہ معاشرہ میں اخلاقی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی باقی رہے، بہت سی دفعہ یہ اجازت ایک سماجی ضرورت بھی بن جاتی ہے؛ لیکن قرآن نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ شوہر دونوں بیویوں کے درمیان عدل سے کام لے، اگر وہ عد ل قائم نہ کرسکے تو اس کے لیے دوسرا نکاح کرنے کی گنجائش نہیں :”وان لم تعدلوا فواحدة“ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دوسری شادی کے جو واقعات پیش آتے ہیں، ان میں نوے فی صد واقعات میں دوسرا نکاح کسی ضرورت اور سنجیدہ جذبے کے ساتھ نہیں کیا جاتا، بلکہ پہلی بیوی کو تکلیف پہنچانے کے لیے انتقامی جذبہ سے کیا جاتا ہے او رانصاف کی شرط کو اس طرح بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے کہ ایک بیوی کے ساتھ تو محبوبہ اور معشوقہ کا معاملہ کیا جاتا ہے او ردوسری کو اس طرح زندگی بسرکرنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ نہ اسے بیوی کے حقوق ملتے ہیں اور نہ وہ شوہر کی زندگی سے آزاد ہوتی ہے، اس کو لٹکا کر رکھا جاتا ہے، اس طرز عمل سے اسلام کی بد نامی ہوتی ہے، لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہ ایک درست حکم کا غلط استعمال ہے، اس لیے وہ خود اسلام کو اس خدانا ترس شخص کی غلطی کا مجرم سمجھنے لگتے ہیں، حالاں کہ شریعت نے نہ صرف یہ کہ عدل کی شرط کے ساتھ دوسرے نکاح کی اجازت دی ہے، بلکہ اس بات کو بہتر قرار دیا گیا ہے کہ اگر ضرورت نہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کیا جائے، ایک بیوی کی موجودگی میں بلا ضرورت دوسرا نکاح کرنے سے گریز کیا جائے۔
نکاح کا رشتہ محبت وسکون کا رشتہ ہے، تاکہ شوہر وبیوی پُر سکون زندگی گزار سکیں، اسی رشتہ سے نسل انسانی کی بقا اور خاندانی نظام کا استحکام متعلق ہے، اسی لیے شریعت کا منشایہ ہے کہ جب ایک بار رشتہ نکاح قائم ہو جائے تو اسے استوار رکھا جائے اور حتی المقدور اس کو ٹوٹنے سے بچایا جائے، شوہر کی طرف سے رشتہ نکاح کے ختم کر دینے کو طلاق کہتے ہیں اور بیوی کے مطالبہ پر شوہر کے رشتہ ختم کر دینے کو خلع، شریعت میں طلاق کو بھی ناپسند کیا گیا ہے، یہاں تک کہ اس کو تمام جائز چیزوں میں سب سے مبغوض اور ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس عورت پر بھی لعنت بھیجی ہے، جو کسی نامعقول سبب کے بغیر خلع کا مطالبہ کرے، پھر اگر طلاق دینی ہی پڑے تو ایک اور زیادہ سے زیادہ دو دفعہ دینی چاہیے، ایک ساتھ تین طلاقیں دینا سخت گنا ہ ہے ، اس سے قطع نظر کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین شمار کی جائیں گی یاایک؟ اس بات پر تمام ہی اہل علم متفق ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ ہے۔
لیکن مسلم سماج میں طلاق کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو نوے فی صد طلاق کے واقعات غصہ، وقتی رنجش یا شوہر کے رشتہ داروں کی طرف سے چڑھانے اور اُکسانے کی بنا پر پیش آتے ہیں اور اس سے بھی بڑا ستم یہ ہے کہ بہت سے واقعات میں ایک ساتھ تین طلاقیں دے دی جاتی ہیں، اسی طرح عورتوں کی طرف سے خلع کے مطالبات بعض دفعہ بہت ہی معمولی اسباب اور قوت برداشت کی کمی کی بنا پر کیے جاتے ہیں، مسلمانوں کا یہ عمل غیر مسلموں کے درمیان اسلام کی غلط تصویر پیش کرتا ہے اور یہی تصویر ذریعہ ابلاغ کے ذریعہ پھیلائی جاتی ہے، اس میں شبہ نہیں کہ اس میں ذرائع ابلاغ کی مبالغہ آ میزی کا بھی دخل ہوتا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماراسماج ہی اس کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اسی طرح الله تعالیٰ نے میراث کو ”فریضة من الله“ قرار دیا ہے، یعنی یہ الله کی طرف سے مقرر کیا ہوا حصہ ہے، یہ انسان کا مقرر کیا ہوا حصہ نہیں ہے کہ اس کو اس میں کمی بیشی کا اختیار ہو، اسلام کے علاوہ کوئی مذہب نہیں جو عورت کو حق میراث دیتا ہو ، دنیا کے دوسرے قوانین نے بھی اسلام کے قانون میراث سے استفادہ کیا ہے، لیکن بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کے لیے روشنی فراہم کرتے، ہم نے خود اپنی زندگی میں شریعت کا چراغ بجھا دیا ہے۔
اسلام کا قانون نفقہ ایک جامع قانون ہے، جو انسان کو پیش آنے والی تمام صورت حال کا حاطہ کرتا ہے، اس لیے جیسے اولاد کا نفقہ باپ پر او رباپ نہیں ہو تو دادا پر واجب ہوتا ہے اور بیوی کا نفقہ شوہر کے ذمہ ہے، اسی طرح بعض حالات میں بھائیوں، بہنوں اور چچاؤں وغیرہ پر بھی بے سہارا خواتین اور یتیم بچوں کا نفقہ واجب ہے، لیکن عملی صورت ِ حال یہ ہے کہ اگر کوئی عورت مطلقہ یا بیوہ ہو جائے تو بھائی سمجھتا ہے کہ اس پر اس کی بہن کے نفقہ کی ذمہ داری نہیں۔ یا بچے یتیم ہو جائیں تو چچا یہ نہیں سمجھتے کہ اب ہمارے اپنے بچوں کی طرح ہمارے بھائی کے بچوں کی بھی ہم پر ذمہ داری ہے، بلکہ اگر کبھی کچھ حسن سلوک کر دیا تو اس کو ایک احسان خیال کرتے ہیں، اس کا نتیجہ ہے کہ غیر مسلم معاشرہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کے یہاں بے سہارا عورتوں اور بچوں کی کفالت وپرورش کا کوئی مستحکم نظام نہیں ہے، غلط تصور پر مبنی اس تصویر میں میڈیا کے لوگ رنگ بھر کر اسے اور خوف ناک بنا دیتے ہیں اور اسلام کو نعوذ بالله ایک بے رحم اورغیر منصف مزاج مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک منافقانہ طرز عمل ہے کہ زبان سے تو ہم الله اور اس کے رسول کی بات مانیں اور عملی طور پر ہم اسے نظر انداز کر دیں۔ اگر ہمیں موجود حالات کا مقابلہ کرنا ہے او راپنے دینی تشخص کو بچانا ہے تو صرف سرکٹانے کا جذبہ کافی نہیں، پہلے ہمیں اپنے اندر سرجھکانے کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے، شریعت کے احکام، خواہ ہماری چاہت اور مفادات کے خلاف ہوں، لیکن ہم اس کے سامنے جھک جائیں اور الله تعالیٰ کی رضا وخوش نودی کو اپنی خواہشوں اور چاہتوں پر غالب رکھیں، کیوں کہ جس قول کے پیچھے عمل کی طاقت نہ ہو وہ دوسروں کو قائل نہیں کرسکتا، جو شخص اندر سے کھوکھلا ہو گیا ہو اور اس کا جسم زندگی کی حرارت سے محروم ہو، اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ باہر کے دشمنوں کا مقابلہ کرسکے۔