حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب نے فرمایا:
”جامعہ فاروقیہ میرا اپنا گھر ہے، اس جامعہ کے ساتھ او راس جامعہ کے بانی اور مؤسس او راپنے مشفق ، محسن او رمربی استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب رحمة الله علیہ کے ساتھ اس گناہ گارکا تقریباً 42 سال کا تعلق ہے، جو حضرت کی زندگی تک بھی رہا او ران شاء الله حضرت کے دنیا سے جانے کے بعد جب تک میں زندہ ہوں ان شا ء الله اس ادارے اور خاندان کے ساتھ بھی یہ تعلق رہے گا۔
حضرت میرے مربی تھے، شام کے ایک عالم تھے، وہ فرماتے تھے:” لولا المربی لما عرفت ربی“․
اگر مربی نہ ہوتے تو مجھے پنے رب کا پتہ بھی نہ چلتا۔ صرف حضرت نوّرالله مرقدہ کی ایک بات سناتا ہوں۔
استاذ المحدثین ، رئیس المحدثین، حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب رحمة الله علیہ فرماتے تھے، مدرسے کا مقصد مولوی بنانا نہیں، مدرسے کا مقصد حافظ، قاری بنانا نہیں، بلکہ مدرسے کا مقصد دین دار بنانا ہے، عالم تو آپ بن ہی جائیں گے، اس لیے میرے عزیزو! تم اس پر نظر رکھو، تم دین دار بنے ہو یا نہیں؟
اس کے بعد حضرت اقدس مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم نے صدر وفاق حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کو خطاب کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:
آج کا یہ مبارک اجتماع جامعہ فاروقیہ کراچی کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر اور وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ ، اس تنظیم نو کے بعد جامعہ فاروقیہ تشریف لائے ہیں، میں دل کی گہرائیوں سے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہم اور حضرت مولانا قاری محمدحنیف صاحب زید مجدہم کا شکر گزار ہوں کہ آپ جامعہ تشریف لائے۔
حضرت زید مجدھم رات کو تقریباً ڈیڑھ بجے ملتان سے کراچی پہنچے اور یہاں آنے سے پہلے جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن تعزیت کے لیے تشریف لے گئے، وہاں سے پھر یہاں تشریف لائے اوران شاء الله آج شام جامعہ فاروقیہ، مقرثانی بھی حضرت نوّرالله مرقدہ کی قبر پر تشریف لے جائیں گے۔ میں لمبی گفت گو نہیں کرنا چاہتا، میں درخواست کروں گا حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدھم سے کہ وہ تشریف لائیں اور ہم سب کو نصیحت فرمائیں اور دورہ حدیث کے طلباء کی ایک درخواست میرے پاس آئی ہے کہ آپ انہیں اجازت حدیث بھی عنایت فرما دیں تو الله تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔
اس کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا:
جامعہ فاروقیہ میرے انتہائی جلیل القدر استاذ گرامی رئیس المحدثین حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب قدس الله سرہ کا گلشن ہے جو انہوں نے اپنے خون پسینے سے مہکایا، آج جب جامعہ میں میرا تعارف صدر وفاق المدارس کے لقب سے کیا جارہا ہے، تو میرا دل عجیب قسم کا سوزوگداز محسوس کر رہا ہے، کیوں کہ یہ لقب تو حقیقت میں حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب قدس الله سرہ کا تھا، انہی پر جچتا بھی تھا، وہ اس کے اہل بھی تھے اورانہوں نے27 سال شب وروز محنت کرکے قریہ قریہ، گاؤں گاؤں پھر کر اس تنظیم کو دنیا کی بے نظیر تنظیم بنایا۔
الله تبارک وتعالیٰ سے امید ہے کہ ان کا یہ صدقہ جاریہ ان شاء الله ان کے لیے بھی جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات کا ذریعہ ہو گا او ران شاء الله، الله تبارک وتعالیٰ ان کے نقوش قدم کو ہمارے لیے راہ نما بنائیں گے او راس کے نتیجے میں ان شاء الله یہ ادارہ مزید ترقی کرے گا۔
حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم نے اچانک مجھے فرمایا: کہ نصیحت کی بات کردو تو اتفاق سے یہ وقت میرے لیے گفت گو کرنے کا مشکل وقت ہوتا ہے لیکن دین کی بات کسی لمبی چوڑی تقریر کی محتاج نہیں ہوتی، اگر کہنے والے کے دل میں اخلاص ہو اور سننے والے کے دل میں بھی اخلاص ہو تو تھوڑی سی بات بھی اثر کر جاتی ہے اور اگر خدا نہ کرے یہ مفقود ہو تو لمی چوڑی تقریر بھی بے کار ہے تو میں آپ حضرات سے اپنے بعض شیوخ کا تجربہ پیش کرکے آپ سے اس کی درخواست کروں گا۔
الحمدلله سب سے پہلے تو ہم لوگوں کو الله جل شانہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس شکر کے لیے ہم پوری زندگی سجدہ ریز رہیں، تب بھی شکر ادا نہیں ہوسکتا کہ الله تبارک وتعالیٰ نے اول تو ہمیں ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا، جو اس کائنات کی سب سے بڑی دولت ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب رحمة الله علیہ کا یہ جملہ میں نے اپنے والد ماجد صاحب رحمة الله علیہ سے بار بار سنا، وہ فرماتے تھے: ایمان بڑی دولت ہے، اس کو بچا بچا کے، بچا بچا کے ،کسی طرح قبر تک لے جاؤ، آگے جیت ہی جیت ہے۔
پھر الله تبارک وتعالیٰ نے علم دین سے کسی درجے میں وابستہ فرمایا یا پڑھنے کے اعتبار سے یا پڑھانے کے اعتبار سے یا مختلف انتظامی امور کے اعتبار سے، جو الله تبارک وتعالیٰ نے علم دین سے نسبت ہمیں عطا فرمائی، یہ الله تبارک وتعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔
حضرت عارفی قدس الله سرہ کی نصیحت تھی اور وہ میں اپنے ساتھیوں کو بھی عرض کیا کرتا ہوں او رمجھے امید ہے کہ اگر ہم سب اس پر عمل کر لیں جو بہت ہی آسان بھی ہے، تو ان شاء الله ہماری یہ نسبت جو الله نے ہمیں عطا فرمائی ہے کا شکر ادا کرنے کی توفیق بھی ہوگی۔
حضرت فرمایا کرتے تھے کہ جب تم پڑھنے یا پڑھانے جاتے ہو درس گاہ میں، تو راستہ قطع کرتے ہوئے، بعض اوقات درس گاہ کا فاصلہ چند قدم کا ہوتا ہے، بعض اوقات کچھ لمبا ہوتا ہے، تو یہ فاصلہ جو طے کررہے ہو اس میں الله تعالیٰ کی طرف رجوع کر لیا کرو۔ یہ راستہ جو ہے یہ تمہارا خالی نہ گزرے ، اس میں الله تعالیٰ کی طرف رجوع کرکے یہ دعا مانگ کے جایا کرو کہ اے الله! میں پڑھنے یا پڑھانے جارہا ہوں، اس کو شرح صدر کے ساتھ سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرما، اور اے الله اس کے پڑھنے، پڑھانے میں میرے دل کے اندار اخلاص پیدا فرما ،کوئی سبق آپ کا اس دعا سے خالی نہ ہو، تو حضرت فرماتے تھے کہ یہ کوئی مشکل کام ہے؟ راستہ تو قطع کرنا ہی ہے، اب بجائے اس کے کہ تم اِدھر اُدھر کے خیالات دل میں لا کر گزرتے چلے جاؤ یہ وقت الله کی طرف رجوع کا وقت بنالو۔ یہ دعا کرتے جاؤ کہ اے الله جو پڑھنے، پڑھانے جارہا ہوں اس کو میرے لیے نافع بھی بنا دیجیے اور اس پر عمل کی توفیق بھی عنایت فرمائیے اور اس کا نفع بھی پہنچا دیجیے۔
جب چھ گھنٹے ہم پڑھتے پڑھاتے ہیں ،ہر گھنٹے ہم الله تعالیٰ سے یہ دعا کر رہے ہوں، تو بتائے الله تعالیٰ رد کر یں گے؟ الله تبارک وتعالیٰ ایسے شخص کو محروم کریں گے جو ان سے رجوع کر رہا ہے اور علم کی طرف سبقت کر رہا ہے؟ چل رہا ہے اور الله تعالیٰ سے ما نگ رہا ہے؟!
اور دوسری بات یہ فرمائی کہ جو کتاب پڑھنے جارہے ہو چاہے وہ تفسیر کی ہو، حدیث کی ہو ، فقہ کی ہو یا صرف ونحو کی ہو، جو کتاب پڑھنے، پڑھانے جارہے ہو اس کے مصنف کو ایک دو مرتبہ دورودشریف پڑھ کر ایصال ثواب کر دیا کرو۔
تو جب ان کو ایصال ثواب کروگے تو ایک حدیث میں یہ مضمون آتا ہے کہ جب بندہ اپنے کسی مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے یا ایصال ثواب کرتا ہے تو فرشتے اس کو ایک تھال میں ایک تحفے کے طور پر لے جاکر اس کو پیش کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ یہ تحفہ تمہارے لیے کس نے بھیجا ہے، تو اس کے اوپر وہ خوش ہوتا ہے کہ میرے فلاں محبت کرنے والے نے مجھے یہ ہدیہ بھیجا اور اس سے بہتر ہدیہ دنیا میں کسی کو نہیں دیا جاسکتا کہ اس کے اجر میں اضافہ ہو جائے ،ایک وقت جب ایسا آگیا کہ:” انقطع عملہ إلا من ثلاث“ سارے اعمال منقطع ہو گئے نہ نماز پڑھ سکتا ہے، نہ روزہ رکھ سکتا ہے ،نہ زکوٰة دے سکتا ہے، نہ پڑھ سکتا ہے، نہ پڑھاسکتا ہے، لیکن الله نے یہ راستہ رکھ دیا ایصال ثواب کا تو اس کی خوشی ان کو اتنی ہوتی ہے اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، تو ہمارے حضرت یہ فرماتے تھے کہ جس کتاب کو پڑھنے جارہے ہو ، جس کی بدولت تم علم حاصل کر رہے ہو، اس کے مصنف کو یاد کر لو، اس کے مؤلف کو یاد کر لو، اس کو ثواب پہنچا دو۔
ایک تو یہ شکر ہو گا اس مؤلف کا اور دوسرے جب وہ انشاء الله خوش ہوں گے تو امید ہے کہ وہ تمہارے علم کے لیے تمہارے عمل کے لیے دعا بھی کر لیں، کسی نص سے تو ثابت نہیں ہے، لیکن الله تعالیٰ کی رحمت سے کیا بعید ہے کہ ان کو بھی دعا کی توفیق دے دیں اور دعا الله تعالیٰ قبول فرمالیں۔
اگر آج کی نشست میں ہمارے دل میں یہ ارادہ پیدا ہوجائے عزم صمیم کہ ہم اس پر عمل کریں گے، تو ان شاء الله ساری مجلس کار آمد ہے، کام یاب ہے۔ الله تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اور آخر میں حضرت نے دورہ حدیث اور تخصص کے طلبا کو اجازت حدیث بھی عنایت فرمائی۔