کچھ نمونے آج آپ کی خدمت میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کے اور کچھ انہیں اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کی اقتدا کرنے والے تابعین عظام کے، کیسی تھی ان کی زندگی؟ کیا تھے ان کے حالات؟ کتنا تھا ان کے یہاں اہتمام عبادتوں کا؟ کتنا تھا خیال ان کو سنتوں کو اپنانے کا؟ کتنی تھی فکر ان کو آخرت کی؟ او رکیا حیثیت تھی ان کی نظروں میں دنیا کی؟!
احتیاط کا ان کے کیا عالم تھا؟ رضائے الہٰی کا شوق ان پر کتنا غالب تھا؟ صبر ان کا کس پایہ کا تھا؟ وعدہ خداوندی پر انہیں کتنا یقین تھا؟ اجروثواب کے حصول کا جذبہ ان پر کتنا طار ی تھا؟
دل ان کے کتنے صاف تھے؟ زبان ان کی کتنی پاک تھی ؟ عزائم ان کے کتنے بلند تھے؟ خیالات ان کے کتنے اعلیٰ تھے؟ زندگی ان کی کتنی سادہ تھی؟ نظریں ان کی کتنی پاکیزہ تھیں؟ آخرت کی فکر ان پر کتنی غالب تھی؟ دنیا کا خوف ان پر کتنا طاری تھا؟ اخلاق کا ان کے کیا عالم تھا؟ نیتوں کا ان کی کیا معیار تھا؟
بزرگوں کی بزرگی اپنی جگہ، اولیا کی ولایت کا اپنا مرتبہ اور صحابیت کا شرف تو اس کا کہنا ہی کیا، دیکھیے! زبان نبوت ان کے بارے میں کیا کہتی ہے: ”میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے۔“
”میں نہیں جانتا کہ اب کتنی مدت مجھ کو تمہارے درمیان رہنا ہے، چناں چہ میرے جانے کے بعد میرے بعد آنے والوں کی اقتدا کرنا (اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے اشارہ فرمایا حضرت ابوبکر صدیق اورحضرت عمر فاروق رضی الله عنہما کی طرف) او رعمار بن یاسر کے راستہ پر چلنا اور عبدالله بن مسعود جو کچھ تم سے کہیں اس پر یقین کرنا“۔
آئیے! اب دیکھیں کتاب الہٰی صحابہ کرام رضی الله عنہم کے بارے میں کیا کہتی ہے، ارشادِ خداوندی ہے:
﴿وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ﴾․ (الحشر:9) ” وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں، ان کی ضرورتوں کو اپنی ضرورتوں پر مقدم رکھتے ہیں، خواہ ان کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔“ ایثار وقربانی کے ایک دو نمونے ملاحظہ ہوں۔
الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آتا ہے او رکہتا ہے: اے الله کے رسول ! بھوک لگی ہے، رات کا وقت ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات سے معلوم کرواتے ہیں کہ کچھ کھانے کو ہے؟ جواب ملتا ہے کچھ بھی نہیں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: آج کی رات اس کی مہمان نوازی کون کرے گا؟ حضرت ابو طلحہ انصاری رضی الله عنہ جواب دیتے ہیں: اے الله کے رسول ! میں کروں گا، گھر لے جاتے ہیں، کھانا اتنا مختصر کہ خود کھالیں یا مہمان کو کھلا دیں، بیوی سے کہتے ہیں، بچوں کو کسی طرح سلا دو اور چراغ گل کرکے کھانا مہمان کے آگے لگا دو، بیٹھیں گے ہم بھی، لیکن کھانے کے لیے نہیں، صرف یہ تاثر دینے کے لیے کہ کھانے میں ہم بھی شریک ہیں، کھانا کم ہے، اگر ہم بھی شریک ہو گئے تو مہمان کا پیٹ نہیں بھر پائے گا، چراغ گل کرنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ مہمان شکم سیر ہو کر کھائے گا او راسے یہ احساس نہیں ہو پائے گا کہ ہم نے کھانا نہیں کھایا۔ (صحیح بخاری)
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ بیمار ہیں، انگو رکھانے کی خواہش ہوتی ہے ،ایک درہم میں انگور کا ایک خوشہ خرید کر لایا جاتا ہے، ہاتھ میں وہ خوشہ آبھی نہیں پاتا کہ ایک سائل آپہنچتا ہے، حکم ہوتا ہے کہ انگور کا وہ خوشہ اس سائل کو دے دیا جائے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا روزہ سے ہیں، گھر میں صرف ایک روٹی ہے، جو افطار کے لیے بچا کر رکھی ہے، دروازہ پر سائل صدا لگاتا ہے، خادمہ کو حکم ہوتا ہے کہ روٹی اس کو دے دی جائے، خادمہ نے عرض کیا کہ آپ روزہ سے ہیں، سحری بھی بہت مختصر تھی ، بغیر افطار کے آپ رات کیسے گزاریں گی! حکم ہوتا ہے پھر بھی دے دو۔
”﴿تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ﴾”ان کے پہلو بستر سے الگ رہتے ہیں۔“
حضرت علی رضی الله عنہ کا نمونہ ملاحظہ ہو، ضرار بن ضمر کہتے ہیں، رات کا اندھیراپوری طرح پھیل چکا تھا ،آسمان پر چمکتے ستارے بھی اپنے چہرے پر سیاہ نقاب ڈال چکے تھے، میں نے دیکھا کہ حضرت علی رضی الله عنہ مسجد کی محراب میں کھڑے تڑپ رہے ہیں، بلک بلک کے رو رہے ہیں، گڑگڑا گڑا کر دعائیں مانگ رہے ہیں اور دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں: اے دنیا! میں نے تجھ کو تین طلاق دیں، تعلقات کی بحالی کا اب کوئی امکان نہیں، عمر تیری بہت مختصر، زندگی تیری نہایت حقیر او رخطرہ تیرا بہت بڑا، آہ! سفر کتنا طویل ہے، راستہ کتنا ویران ہے اورزاد سفر کتنا مختصر ہے۔
حضرت علی رضی الله عنہ کون ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں،چہیتے داماد ہیں، ایمان لانے والے خوش نصیب بچوں کی فہرست میں سب سے اوپر آپ کا نام ہے، لیکن حال پھر بھی یہ ہے کہ رات کے اندھیرے میں، مسجد کے ایک گوشہ میں، تنہائی کی حالت میں، رب کریم کے سامنے گریہ وزاری کا یہ عالم ہے کہ سننے والے کا دل پھٹا جاتا ہے۔
﴿أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ﴾” وہ کفار کے مقابلہ میں سخت ہیں۔“
کفار کے مقابلہ میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کا سخت ہونا ہر ہر موقع پر ثابت ہوتا رہا ہے، صلح حدیبیہ کے موقع پر تو خصوصیت سے صحابہ کرام رضی الله عنہم کی اس صفت کا اظہار ہوا، باقی اس کی سب سے اعلیٰ مثال تو اس موقع پر سامنے آتی ہے، جب بدر کے قیدیوں کا معاملہ صحابہ کرام کے سامنے لایا جاتا ہے، حضور صلی الله علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، رائے کے اظہار کا سب کو موقع دیا جاتا ہے، حضرت عمر رضی الله عنہ کی جب باری آتی ہے تو وہ کہتے ہیں، حضور! آپ مجھے اجازت دیں کہ ان قیدیوں میں اپنے سب سے قریبی رشتہ دار کا سر اپنی تلوار سے قلم کروں، حضرت علی رضی الله عنہ کو حکم دیں کہ وہ اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کا سر تن سے جدا کریں، حضرت حمزہ رضی الله عنہ کو اشارہ کریں کہ وہ ان قیدیوں میں سے اپنے بھائی کے خون سے اپنی تلوار کی پیاس بجھائیں۔
﴿رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ ﴾”وہ آپس میں بڑے مہربان ہیں“۔
انصار ومہاجرین کے درمیان ہوئی مواخاہ ”رحماء بینھم“ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے، انصار نے اپنی ہر چیز میں مہاجرین کو شریک ہونے کی دعوت دی، مکان میں ان کو شریک کیا،جائیداد میں ان کو حصہ دار بنایا، کاروبار میں ان کو شامل کیا، یہاں تک کہ جن کے پاس ایک سے زائد بیویاں تھیں انہوں نے مہاجرین کے سامنے یہ پیش کش رکھی کہ اگر وہ ان میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں تو ان کی خاطر وہ اپنی اس بیوی کو طلاق دے سکتے ہیں، تاکہ وہ اس سے نکاح کر سکیں اور یہ سب انہوں نے صرف الله اوراس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی خاطر کیا۔
عبادات کا اہتمام
نماز کا وقت ہے، کسی وجہ سے نماز میں تاخیر ہوگئی تو اس کی سزا حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے اپنے نفس کو اس طرح دی کہ دو لاکھ درہم کا ایک باغ ،جو انہیں بہت عزیز تھا، صدقہ کر دیا۔
ان کے صاحب زادہ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ کے ساتھ بھی ایک مرتبہ اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تو انہوں نے اس کی تلافی کی شکل یہ نکالی کہ اس دن پوری رات نماز پڑھتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔
حضرت طلحہ رضی الله عنہ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے ہیں، باغ اتنا گھنا کہ دن میں بھی رات کا گمان، ایک چڑیا نہ جانے کیسے اندر آگئی اورایسی پھنسی کہ پھڑ پھڑاتی رہی، لیکن نکل نہ سکی، چڑیا کے پھڑ پھڑانے سے حضرت طلحہ کی یکسوئی میں خلل پڑا، نماز میں جو خشوع ہوا کرتا تھا اس میں کچھ فرق آیا، کسی طرح نماز ادا کی اور فارغ ہوتے ہی باغ یہ کہہ کر صدقہ کر دیا کہ اس کی وجہ سے میر ی نماز میں خلل پڑا۔
احتیاط کا عالم
حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ گشت فرمارہے تھے، راستہ میں آپ کا گزر اونٹوں کی ایک چراگاہ سے ہوا، ایک اونٹ آپ کو دوسرے اونٹوں کے مقابلہ کچھ زیادہ ہی فربہ نظر آیا، پوچھا: یہ اونٹ کس کا ہے؟ لوگوں نے بتایا: آپ کے صاحب زادہ عبدالله کا، یہ سننا تھا کہ آپ کے چہرہ کا رنگ بدل گیا، فوراً عبدالله بن عمر رضی الله عنہ کو طلب کیا اور ان سے دریافت کیا یہ اونٹ تمہارے پاس کہاں سے آیا؟ انہوں نے جواب دیا، یہ اونٹ میں نے خریدا تھا اور اپنے پیسے سے خریدا تھا، اس وقت یہ کم زور اور لاغر تھا، میں نے اس کو چراگاہ میں دوسرے اونٹوں کے ساتھ چرنے کے لیے بھیج دیا، دھیرے دھیرے یہ فربہ ہوتا گیا، میرا ارادہ اس کو بیچ کر کچھ نفع حاصل کرنا تھا، حضرت عمر رضی الله عنہ کو یہ سن جلال آگیا، آپ نے فرمایا: اس عوامی چراگاہ میں جب تمہارا اونٹ چرنے کے لیے آئے گا تو لوگ یہ سوچ کر کہ یہ خلیفة المسلمین کے صاحب زادہ کا اونٹ ہے، اس کا خاص خیال رکھیں گے، پہلے تمہارے اونٹ کو چرنے دیں گے، پہلے تمہارے اونٹ کو پانی پلائیں گے، اس طرح تمہارا اونٹ ان کے اونٹوں سے جلدی فربہ ہو گا اور اس کی قیمت ان کے اونٹوں سے زیادہ لگے گی، اس کے بعد انہوں نے اپنے صاحب زادہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے عبدالله! اس اونٹ کو بیچ دو، جتنی رقم میں تم نے اس کو خریدا تھا وہ رقم اپنی لے لو اور باقی زائد رقم بیت المال میں جمع کر دو، کیوں کہ وہ تمہارا حق نہیں۔
اتباع سنت کا حال
صحابہ کرام رضی الله عنہم جمع ہیں،مشورہ ہو رہا ہے، معاملہ تدوین قرآن کا ہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے سامنے جب یہ مسئلہ لایا جاتا ہے تو آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلتا ہے میں وہ کام کیسے کروں جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کیا؟! لیکن پھر صحابہ کرام رضی الله عنہم کی رائے کو درست سمجھ کر آپ رضی الله عنہ نے اس عظیم الشان کام کی اجازت مرحمت فرمائی۔
منصب خلافت سنبھالنے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے جو اعلانات کیے ان میں سب سے پہلا اعلان یہ تھا، میں وہی کام کروں گا جو آپ صلی الله علیہ وسلم کرکے دکھا گئے یا کرنے کا حکم دے گئے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے سامنے جب کوئی معاملہ پیش کیا جاتا اور واضح طور پر کوئی نمونہ اس سلسلہ میں حیات طیبہ کا آپ رضی الله عنہ کے سامنے نہ ہوتا تو آپ صحابہ کرام رضی الله عنہم کے پاس تشریف لے جاتے، ایک ایک سے ملتے اور اس معاملہ کے سلسلہ میں نبوی طریقہ دریافت کرتے اور جب آپ رضی الله عنہ کے سامنے اس سلسلہ میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ بیان کیا جاتا، تو فرماتے: الله کا شکر ہے کہ ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جوہمارے نبی محمد صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں کے محافظ ہیں۔
حب رسول صلی الله علیہ وسلم کا نمونہ
مہاجربن امیہ مخزومی کاایک خط حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی خدمت میں پہنچتاہے، خط کا مضمون کچھ اس طرح ہے: دو گانے والی عورتوں نے ایک گانا گایا، ان میں سے ایک نے اپنے گانے میں اشعار کے ذریعہ آقائے نام دار حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی، جب کہ دوسری نے اپنے گانے میں مسلمانوں کو ہجو کا نشانہ بنایا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنی نرم مزاجی اور رحم دلی کے باوجود لکھا کہ حضور کی شان میں گستاخی کرنے والی وہ بد زبان عورت قتل کی مستحق تھی او رمسلمانوں کو ہجو کا نشانہ بنانے والی عورت معافی کی حق دار تھی۔
غزوہ احد میں حضرت ابو دجانہ رضی الله عنہ نے اپنی پشت کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لیے ڈھال بنا دیا تھا، ان کی پشت پر تیروں کی بارش ہوتی رہی، لیکن انہوں نے اس کوجنبش بھی نہ دی۔
صبر کا واقعہ
حضرت عروہ بن زبیر رضی الله عنہ مدینہ منورہ سے جب دمشق پہنچے تو پاؤں کی ایک ایسی بیمارمیں مبتلا ہو گئے جس کا علاج ہی یہ تھا کہ پاؤ ں کا وہ حصہ کاٹ دیا جائے، ورنہ خطرہ یہ تھاکہ مرض کہیں جسم کے اوپری حصہ تک سرایت نہ کر جائے، چناں چہ ولید بن عبدالملک کے حکم پر پاؤں کاٹنے والے کو بلوایا گیا، لوگوں نے حضرت عروہ رضی الله عنہ سے درخواست کی کہ ہم آپ کو تھوڑی سی شراب پلا دیتے ہیں، تاکہ آپ کو تکلیف کا احساس نہ ہو، حضرت عروة بن زبیر رضی الله عنہ نے جواب دیا! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جس الله سے میں صحت وعافیت کی امید لگاؤں اسی الله کی حرام کی ہوئی چیز اس موقع پر استعمال کروں؟
لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کو نیند آور مشروب پلا دیتے ہیں، اس سے بھی آپ کو تکلیف کا احساس کچھ کم ہوجائے گا، حضرت عروہ بن زبیر رضی الله عنہ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ میرے جسم کا کوئی حصہ کاٹا جائے او رمجھے اس کی تکلیف کا احساس بھی نہ ہو، کیوں کہ پھر میں خدا سے اجروثواب کی امید کس بات پر کروں گا؟ اس کے بعد حضرت عروہ بن زبیر رضی الله عنہ نے دیکھا کہ کچھ لوگ اندر آکر ان کے پاس کھڑے ہو گئے، انہوں نے پوچھاکہ یہ لوگ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں؟ لوگوں نے جواب د یا کہ جب آپ کاپیر کاٹا جائے گا تو یہ لوگ آپ کو پکڑے رہیں گے، تاکہ آپ ہلیں نہیں، حضرت عروہ رضی الله عنہ نے فرمایا: مجھے یقین ہے کہ ان لوگوں کو مجھے پکڑنے کی ضرورت نہ پڑے گی،چھری سے ان کی ٹانگ کاٹی گئی، چھری جب ہڈی تک پہنچی تو اس نے کام کرنا چھوڑ دیا، چناں چہ آری منگوائی گئی اور ہڈی آری سے کاٹی گئی، ٹانگ جب آری سے کاٹی جارہی تھی تو حضرت عروہ بن زبیر کی زبان سے صرف لا الہ الا الله اور الله اکبر نکل رہا تھا، پھر لوہے کے ایک برتن میں تیل کھولایا گیا اور خون روکنے کے لیے ان کی ٹانگ کو اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دیا گیا، تکلیف کی شدت سے حضرت عروہ بن زبیر پر بیہوشی طاری ہو گئی، ہوش میں آئے تو چہرے سے پسینہ پوچھتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے:﴿ لَقَدْ لَقِیْنَا مِن سَفَرِنَا ہَذَا نَصَبا﴾ (الکھف:62) ”اس سفر سے ہم بہت تھک گئے“ حضرت عروہ رضی الله عنہ نے ہوش میں آنے کے بعد جب ٹانگ کا وہ کٹا ہوا ٹکڑا دوسروں کے ہاتھ میں دیکھا تو اس کو ان سے مانگا ، ہاتھ میں اس کو لیا، الٹ پلٹ کر دیکھا ،پھر اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے میرے جسم کا بوجھ تجھ پر لادا! میں اس ذات کو واسطہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے تجھ کو کبھی کسی غلط راہ پر نہیں چلایا اور نہ کسی گناہ کی طرف میں نے تجھ کو بڑھایا۔
دولڑکے ہیں، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں، اس عمر کی اُمنگوں او رتمناؤں کا کیا کہنا، خواہشات وآرزوؤں کا کیا پوچھنا، لیکن ان کی صرف ایک ہی آرزو او رایک ہی تمنا ہے کہ ابوجہل کو محبوب خدا سے دشمنی کا مزہ چکھانا ہے، دشمن اسلام کی تلاش ہے، لیکن پہچانتے نہیں پوچھتے پوچھتے دونوں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کے پاس پہنچتے ہیں، اب آگے سنیے، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ کی زبان سے، وہ کیاکہتے ہیں:
میں صف میں تھا، دفعةً مجھ کو دائیں بائیں دونوجوان نظر آئے، یہ دونوں عفراء کے بیٹے معوذ او رمعاذ تھے، ایک نے مجھ سے کان میں پوچھا کہ ابوجہل کہاں ہے؟ میں نے کہا برادر زادہ! ابوجہل کو پوچھ کر کیا کرو گے؟ بولا کہ میں نے خدا سے عہد کیا ہے کہ ابوجہل کوجہاں دیکھ لوں گا یا اسے قتل کروں گا یا خود لڑکر مارا جاؤں گا، میں ابھی جواب نہیں دینے پایا تھا کہ دوسرے نوجوان نے بھی مجھ سے کان میں یہی بات کہی، میں نے دونوں کو اشارہ سے بتایا کہ ابوجہل وہ ہے، بتانا تھاکہ دونوں باز کی طرح جھپٹے اور دیکھتے ہی دیکھتے ابوجہل کو زمین پر گرا دیا، ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے پیچھے سے آکر معاذ کے بائیں شانہ پر تلوار ماری، جس سے باز وکٹ گیا ،لیکن تسمہ باقی رہا، معاذ نے عکرمہ کا تعاقب کیا لیکن وہ بچ کر نکلنے میں کام یاب ہو گیا، معاذ اسی حالت میں لڑ رہے تھے، لیکن ہاتھ لٹکنے کی وجہ سے زحمت ہوتی تھی، ان کو یہ زحمت بھی گوارہ نہ تھی، انہیں وہ ہاتھ بھی قبول نہ تھا جو خدا کے راستے میں ان کے لیے رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے، انہوں نے اس ہاتھ سے اس طرح پیچھا چھڑایا کہ اس کو پاؤں کے نیچے دبا کر اس زور سے کھینچا کہ تسمہ الگ ہو گیا، اب وہ آزاد تھے۔
خدمت خلق کا جذبہ
مدینہ میں ایک بزرگ او رنابینا خاتون اکیلی رہتی تھی، حضرت عمر رضی الله عنہ( ہونے والے خلیفہ) کو ایک مرتبہ یہ خیال آیا کہ ان کے گھر کے کاموں کو انجام دینے میں ان کی مدد کی جائے، لیکن صبح صبح جب وہ ان کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ گھر کی صفائی ستھرائی ہو چکی ہے، پانی کے مشکیزے بھرے پڑے ہیں، ضرورت کی تمام اشیاء اپنے ٹھکانے پر موجود ہیں، انہیں سخت حیرانی ہوئی کہ صبح سے قبل یہ کام کون کر گیا، بوڑھی خاتون سے دریافت کیا تو وہ بولیں بیٹا! مجھے نہیں معلوم کون خدا ترس آدمی یہ تمام کام فجر سے پہلے انجام دے جاتا ہے، حضرت عمررضی الله عنہ اگلے روز فجر سے قبل بوڑھی خاتون کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ ( موجودہ خلیفہ) یہ تمام کام انجام دیتے ہیں، تب حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر ! خدا کی قسم میں آپ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔