الحمد للہ حمدا طیبا مبارکا
عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہیں آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے افق پر مہر مبیں نہیں ہے
تری جدائی میں مرنے والے کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
کئی دماغوں کا انسان سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے زباں سے زور بیاں گیا ہے
قریب کے زمانے میں یکے بعد دیگرے جیسے علمائے کرام دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اس نے ہر باشعور مسلمان کو جھنجھوڑ کے رکھ دیاہے اور بار بار ذہن اس حدیث کی طرف جاتا ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل کی ہے ؛ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ؛
”یذھب الصالحون الأول فالأول، ویبقی حفالة کحفالة الشعیر أوالتمر، لا یبالیھم اللہ بالة.“( الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الرقاق، باب ذھاب الصالحین ، رقم الحدیث: 6434)
نیک لوگ یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہوجائیں گے اور جو کے بھوسے کی طرح ناکارہ قسم کے لوگ رہ جائیں گے، اللہ تعالیٰ ان کی ذرہ بھی پروا نہیں کرے گا۔
اسی طرح بخاری شریف ہی کی روایت ہے ؛ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعاینتزعہ من العباد․ ولکن یقبض العلم بقبض العلماء .“( الجامع الصحیح للبخاری، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم؟رقم الحدیث:100)
اللہ تعالیٰ علم کو یوں ہی بندوں کے سینوں سے چھین نہیں لیں گے، البتہ علماء کو اٹھا کر علم کو اٹھائیں گے ۔
علم وعمل کے اعتبار سے نہایت پختہ علماء دنیا سے رخصت ہوتے جارہے ہیں ، اللہ تعالیٰ اُمّت مسلمہ پر رحم فرمائے ،جو اس وقت کئی مختلف قسم کی آزمائشوں کا شکار ہے، حدیث میں مذکوراس بڑی آزمائش کا شکار نہ فرمائے کہ علماء رخصت ہوں اور ان کے سچے جانشین پیدا نہ ہوں ، اللہ تعالیٰ اُمّت مسلمہ کودنیا سے رخصت ہونے والے علماء کا نعم البدل عطا فرمائے اور ان کے سچے جانشین پیدا فرمائے۔
اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان اکابرین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ان صفات کو اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے کہ جن صفات سے مزین ہوکر ان اکابرین نے زندگیاں گزاری ہیں اور جو اکابرین حیات ہیں ہمیں ان کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اہل فضل وکمال کی قلت اور ان کی قدر دانی کو بیان کرنے کے لیے ایک مثال کے ذریعے امت کو سمجھایا ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”إنما الناس کالإبل المائة لا تکاد تجد فیھا راحلة.“(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الرقاق، باب رفع الأمانة، رقم الحدیث:6498)
لوگوں کی مثال ایک سو اونٹوں کی طرح ہے، جن میں تم سواری کے قابل بمشکل ایک اونٹ پاؤگے۔ مطلب یہ ہے کہ صاحب کمال لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور بڑی محنت اور طویل مدت کے بعد وہ باکمال بنتے ہیں ، ہزاروں میں کوئی ایک ایسا صاحب فضل وکمال ہوتا ہے کہ اس کو اسوہ اور نمونہ بنایا جائے اور ان کے نقش پا سے زندگی گزارنے کا راستہ تلاش کیا جائے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہم اگر فقیہ العصر، شیخ الحدیث والتفسیر ،حضرت اقدس مولانامفتی زرولی خان صاحب نوّر اللہ مرقدہ کی زندگی کا مطالعہ کریں تو حضرت مفتی صاحب کی ہستی بھی انہی مغتنم ہستیوں میں سے ایک تھی ، آپ نے جس انداز سے پوری زندگی دین کی خدمت کی اس کی مثال کم ملتی ہے۔
مختصر حالات
استاذ محترم حضرت اقدس مولانا مفتی زرولی خان صاحب نوّر اللہ مرقدہ صوبہ خیبر پختونخواہ، ضلع صوابی کے گاؤں جہانگیرہ میں 1953ء کو ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہوئے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو امت کا مقتدااوراہ نما بنانا تھا تو بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی بہترین تربیت کی لیے اسباب پیدا فرمائے، چناں چہ آپ دار العلوم دیوبند کے فاضل حضرت اقدس مولانا عبد الحنان صاحب رحمہ اللہ اور حضرت مولانا انورشاہ صاحب کے شاگرد خاص حضرت مولانا لطف اللہ صاحب رحمہ اللہ کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے۔اور بنیادی علوم ان حضرات سے حاصل کیے۔
درجہ رابعہ کے بعد آپ کو اپنے انہی مشفق اساتذہ نے اپنے دیرینہ رفیق حضرت اقدس مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی خدمت میں مدرسہ جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی بھیجا ، چناں چہ درجہ خامسہ سے دورہ حدیث تک آپ نے اپنی تعلیم جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں مکمل فرمائی۔
زمانہ طالب علمی ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کا انتخاب گلش اقبال ٹاؤن، کراچی میں ایک مسجد میں امامت کے لیے فرمایا، چناں چہ اس چھوٹی سی مسجد سے آپ نے امامت شروع فرمائی اور آپ کے اخلاص اور محنت کی وجہ سے اللہ نے اس چھوٹی سی مسجد کو نہ صرف بڑی جامع مسجد میں تبدیل فرمایا ،بلکہ اس کو ملک کی ایک بڑی جامعہ کی صورت میں ڈھال دیا، جس کا شمار تھوڑے سے عرصے میں ملک کے مایہ ناز مدارس میں ہونے لگا ۔
اور اس وقت الحمد للہ جامعہ احسن العلوم اور اس کی نصف درجن شاخوں میں پانچ ہزار سے زائدطلباء علوم نبوت سے فیض یاب ہورہے ہیں ، جو حضرت اقدس مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کے لیے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہے۔
حضرت اقدس نو ر اللہ مرقدہ کے اوصاف جمیلہ جرأت وبہادری
علمائے دیوبند کو اللہ تعالیٰ نے ایک اہم وصف جرأت و بہادری کا عطا فرمایا،انگریز کوہندستان میں خاک چاٹنے پر ہمارے علماء دیوبند نے مجبور کیا اور ان کو ہندستان سے نکلنا پڑا اور اس کے بعد سے آج تک باطل کے خلاف جرأت وبہادری علمائے دیوبند کی پہچان بن گئی۔
حضرت مفتی صاحب نوّر اللہ مرقدہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے مثال جرأت وبہادری سے نوازا تھا اور اہل باطل کا کوئی بھی حربہ آپ کے احقاق حق اور ابطال باطل میں مانعنہ ہوسکا۔
سواد اعظم کی تحریک میں شرکت
آپ اپنی اس جرأت وبہادری کی وجہ سے پوری زندگی اہل باطل کے خلاف ڈٹے اور بر سر پیکار رہے، اور باطل فرقوں کی تردیداور ان کے دجل و فریب سے امت مسلمہ کو آگاہ کرنا آپ کی پہچان بن گیا ، اور لوگ آپ کو اسی وصف سے پہچاننے لگے۔
چناں چہ ایک موقع پر جب ایک باطل فرقے کی تخریب کاری اہل السنة والجماعت کے خلاف زور پکڑ گئی ، تو اس وقت شیخ المشائخ ،حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خان صاحب نوّر اللہ مرقدہ نے ان کو لگام دینے کے لیے تحریک سواد اعظم کی بنیاد رکھی اور اس تحریک میں شریک بڑے علماء میں سے ایک حضرت اقدس مفتی صاحب رحمہ اللہ بھی تھے، جنہوں نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور حضرت شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہ کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔
آپ واقعتا اس شعر کے حقیقی مصداق تھے #
فرق کچھ آئے نہ جس کے عزم واستقلال میں
راہ حق پر جو رہے ثابت قدم ہر حال میں
جو غم واندوہ میں بھی مسکراتا ہی رہے
زیر خنجر بھی پیام حق سناتا ہی رہے
اور حضرت اقدس خود یہ اشعار پڑھتے تھے:
رہ الفت میں گو ہم پر بہت مشکل مقام آئے
نہ ہم نے راستہ بدلا نہ ہم منزل سے باز آئے
طریق عشق میں گو کارواں پر کارواں بدلا
نہ ہم نے راستہ بدلا نہ میر کارواں بدلا
اکابرین سے محبت
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کو ناقابل بیان حد تک اللہ تعالیٰ نے اپنے اکابرین سے محبت نصیب فرمائی تھی، چاہے آپ کا درس حدیث ہوتا یا درس قرآن ، اپنے اکابرین کے حالات وواقعات سے بھر پور مزین ہوتا ، آپ کا درس اگرچہ مسلسل کئی گھنٹوں پر مشتمل ہوتا، لیکن آپ کا یہ انداز بیان سامعین کو مسحور کیے رکھتا اور اکتاہٹ کو قریب بھی نہ آنے دیتا۔
اپنے اکابرین دیوبند میں سے محدث زمان حضرت مولانا انور شاہ صاحب رحمہ اللہ سے کچھ زیادہ ہی قلبی تعلق تھا اور آپ اپنے درس میں حضرت کا بڑے والہانہ انداز سے ذکر خیر فرماتے اور یہ بھی حضرت مفتی صاحب کی حضرت مولانا انورشاہ صاحب سے محبت کا ایک نرالہ انداز تھا کہ اپنے بیٹے کا نام بھی انہی کے نام پر انور شاہ رکھا۔
ایک دفعہ فرمایا کہ جب انور شاہ پیدا ہوا ، تو سلمان گیلانی مبارک باد دینے کے لیے تشریف لائے، اس موقع پر انہوں نے یہ اشعار کہے،
انور کے ساتھ اس کی عقیدت ہے دیدنی
گرچہ وہ کاشمیری ہے اور یہ پٹھان ہے
بیٹے کا نام رکھ دیا ہے ان کے نام پر
اور یہ نام ان کے واسطے تسکین جان ہے
اسی طرح میدان سیاست کے امام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ سے آپ کا بہت گہرا قلبی تعلق تھا اور اسی تعلق کو دوام بخشنے کی لیے آپ نے جامعہ کی ایک سو ایکڑ کے قریب رقبے پر محیط جامعہ کی شاخ میں مسجد کو مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ کے نام سے موسوم کیا۔
اور حضرت مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ کے جانشین حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سے بھی بہت گہرا اور قریبی تعلق رہا ۔
اپنے اساتذہ کانام روشن کرنے والے
امت مسلمہ میں ایسے کئی اہل علم حضرات بھی گزرے ہیں کہ ان کے دور میں علم و فن میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، لیکن ان کو ایسے تلامذہ اور جانشین نہیں مل سکے جو ان کے علوم کو زندہ رکھتے ۔
چناں چہ امام شافعی رحمہ اللہ امام لیث بن سعد کے بارے میں فرماتے ہیں :”کان اللیث بن سعد أفقہ من مالک، إلا أنہ ضیعہ أصحابہ.“( تہذیب الأسماء، حرف اللام، 1/ 597)
امام لیث رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ سے بھی بڑے فقیہ تھے ، لیکن ان کے شاگردوں نے ان کو ضائع کردیا ۔
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ اپنے اساتذہ کے ان خوش نصیب تلامذہ میں سے ہیں کہ جنہوں نے اپنے اساتذہ کی علمی امانت کو امت مسلمہ تک کماحقہ منتقل کیا۔
سنن و مستحبات کی پاس داری
آج کل سنن و مستحبات کے حوالے سے معاشرے میں کم زوری آرہی ہے اور ایک مسلمان یہ کہہ کر سنت و مستحب کو چھوڑ دیتا ہے کہ یہ صرف سنت و مستحب ہی تو ہے ۔،حالاں کہ اسلام میں سنن اور مستحبات کی بھی بڑی اہمیت ہے۔
فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسلام کی مثال اس شہر کی سی ہے جس کے پانچ قلعے ہوں ، ایک سونے کاقلعہ ، دوسرا چاندی کا، تیسرا لوہے کا، چوتھا پتھر اور چونے کا اور پانچواں کچی اینٹوں کا ، تو جب تک دوسرے قلعوں والے کچی اینٹ والے قلعہ کا خیال اور دیکھ بھال رکھیں گے تو دشمن ان کی طرف بھی خیال نہ کرسکے گا اور جب وہ اس کچے قلعے کی دیکھ بھال چھوڑ بیٹھیں گے یہاں تک کہ وہ خراب اور ویران ہوجائے تو دشمن دوسرے اور تیسرے قلعے کی طمع کرنے لگتا ہے، حتی کہ تمام قلعے ویران ہوجاتے ہیں ، ایسے ہی اسلام کے پانچ قلعے ہیں ،پہلا یقین کا،دوسرا اخلاص کا، تیسرا ادائے فرائض ، چوتھا تکمیل سنن اور پانچواں حفظ آداب کا۔
جب تک آدمی آداب کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہتا ہے شیطان اس سے مایوس رہتا ہے،جب یہ آداب چھوڑنے لگتا ہے تو شیطان سنتیں چھڑانے کی فکر میں لگ جاتا ہے ،پھر فرائض، پھر اخلاص اور پھر یقین تک نوبت پہنچتی ہے۔ ( بستان العارفین ، ص111،112)
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا پوری زندگی سنن ومستحبات پر عمل کا بہت زیادہ اہتمام تھا اور نہ صرف اپنی ذات کی حد تک عمل کا اہتمام تھا، بلکہ اپنے تلامذہ اور مقتدیوں کو بھی اس کی تاکید اور پابند بناتے تھے اور کسی کو سنت و مستحبترک کرتے دیکھتے تو فورا تنبیہ کرتے تھے۔
مثلاً آپ داڑھی کے موضوع پر اکثر بیان فرماتے اور ساتھ ساتھ تنبیہاََپہلی صف میں کسی داڑھی مونڈنے والے کو کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے اور اس کو پچھلی صف کی طرف بھیج دیتے تھے۔
اور جیسے حضرت عائشہ رضی اللہعنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ وصف بیان فرمایا کہ:”کان النبی صلی الله علیہ وسلم یحب التیمن ما استطاع في شانہ کلہ فی طھورہ وترجلہ وتنعلہ.“( الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الصلوة، باب التیمن في دخول المسجد وغیرہ، رقم الحدیث:426)
جہاں تک ممکن ہوتا آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے تمام کاموں میں دائیں جانب سے ابتدا کو پسند فرماتے تھے، طہارت میں ،جوتا پہننے میں اور کنگھی کرنے میں۔
حضرت مفتی صاحب اس حوالے سے حدیث کے مطابق دائیں بائیں کا بہت لحاظ فرماتے تھے اور دوسروں کو اس کی تاکید فرماتے تھے۔
عوام کی اصلاح
عوام کی اصلاح کے لیے آپ ہر وقت فکر مند رہتے تھے اور معاشرے کی برائیوں اور مختلف مسائل واحکام پر وہ اکثر فجر اور عصر کی نماز کے بعد چار پانچ منٹ کا بیان فرماتے، جس کا اثر آنے والے نمازیوں میں واضح ہوتا تھا، اسی طرح جمعے کے بیان کے علاوہ شب جمعہ میں بھی آپ کا مستقل بیان ہوتا تھا، جس میں لوگ دور دور سے آکر شریک ہوتے تھے اور آپ کا بیان اتنا دل نشین اور پر اثر ہوتا تھا کہ جمعہ کے دن مسجد باوجود کشادہ ہونے کے، حضرت کے تشریف لانے پر نمازیوں سے بھرجاتی تھی اور دیر سے آنے والوں کو اوپر کی منزلوں میں اور جامعہ کے صحن میں جگہ ملتی۔
اسی طرح جمعہ کی نماز کے بعد مسائل کی نشست ہوتی تھی، جس میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ لوگوں کے سوالات کے بر جستہ جوابات دیتے اوربعض جوابات ایسے ہوتے کہ پورا مجمع آپ کی حاضر جوابی پر حیران رہ جاتا اورفقہی نشست کے اختتام پر پورا مجمع محراب سے لے کر آپ کی نشست تک دونوں جانب قطار میں کھڑے ہوکر بادشاہوں کی طرح رخصت کرتا۔
مستجاب الدعوات
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ایک صاحب کرامات بزرگ تھے اور آپ کی دعاؤں کے مقبول ہونے کے چرچے تو بہت عام تھے اور ایسے لوگوں کی فہرست بہت لمبی ہے کہ کسی لاعلاج مرضکے لیے یا کسی لاینحل مسئلے کے لیے حضرت مفتی صاحب سے دعاؤں کی درخواست کی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی دعاؤں کی برکت سے ان کا وہ مسئلہ حل فرمادیا۔
جلالی مزاج اور شفقت
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ اپنے جلالی مزاج سے مشہور ومعروف تھے، لیکن آپ کے تلامذہ اور قریبی جانتے ہیں کہ آپ اپنی جلالی طبیعت کے ساتھ ساتھ بے پناہ شفقت کرنے والے مربی و استاذ تھے۔
واقعہ
دورہ حدیث میں حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ”الجامع الصحیح للبخاري، جلد اول ، جلد دوم“ اور ” ترمذی اول“پڑھاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے بندہ کو یہ سعادت بخشی کہ ”بخاری شریف جلد اول مکمل“ اور”جلد دوم“کے تقریبا تین پارے اور ”ترمذی شریف “کے آخر کے کچھ حصے کی عبارت پڑھنے کی توفیق نصیب ہوئی۔
حضرت کو اللہ تعالیٰ نے جورعب دیا تھا ،اس کی وجہ سے حضرت کے سامنے عبارت پڑھنا آسان کام نہیں تھا اور اس پر مزید یہ کہ کسی دن حضرت غصہ میں ہوتے تھے تواس دن عبارت شروع کرنے سے پہلے ہی حلق خشک ہوجاتا اور الفاظ گڈ مڈ ہوجاتے، چناں چہ بندہ کو سال میں تین چار مرتبہ حضرت سے عبارت پر ڈانٹ پڑی۔
پہلی مرتبہ جب ڈانٹ پڑی ، تو پورا دن پریشان رہا اور حضرت کی ناراضگی کاغم پورا دن طبیعت پر سوار رہا، لیکن اگلے دن جب حضرت تشریف لائے اور سبق شروع ہوا ، کچھ دیر گزرنے کے بعد خادم حضرت کے لیے چائے لایا ، تو حضرت نے اس کو ایک اور چائے لانے کا فرمایا اور وہ چائے حضرت نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے خادم سے فرمایا کہ یہ چائے اس طالب کودے دو اور پھر آٹھ دس منٹ تک اس موضوع پر گفتگو فرماتے رہے کہ میں بھی بشر ہوں ، کبھی غصے میں زیادہ برا بھلا کہہ دیتا ہوں …الخ
اسی طرح تین چار مرتبہ جب بھی اس طرح ڈانٹ پڑی تو اگلے دن وہی شفقت بھرا انداز اور گفت گوکہ جس کی چاشنی بندہ مرتے دم تک محسوس کرے گا۔
اور عبارت پڑھنے کی وجہ سے سال کے آخر میں”عمدة القاری“ بیروت کا بہترین سیٹ بطور انعام اپنے ہاتھوں سے عنایت فرمایا۔
ایک اور واقعہ
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا دورہ تفسیر پورے عالم میں مشہور تھا اور پورے ملک سے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اور بسااوقات مختلف نظریات رکھنے والے افراد بھی شریک درس ہوتے۔
چناں چہ ایک سال طالب کی صورت میں ایک ایسا شخص درس میں شریک ہوا ، جس کو حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ سے مناسبت تو دور کی بات وہ بد نصیب بے ادبی پہ اتر آیا تھا اورطلباء کے سامنے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتا لیکن ہم تحمل کا مظاہرہ کرتے اور اسے سمجھاتے ، لیکن وہ مسلسل اپنی اسی روش پہ قائم رہا اور اپنے نظریے سے متعلق بے ہودہ سوالات لکھ کر درس میں حضرت مفتی صاحب کے پاس بھیجے ، اور حضرت نے اس کے مدلل جوابات دیے، لیکن مقفل اذہان پر کوئی بھی دلیل اثر نہیں کرتی۔
چناں چہ ایک دن جب حضرت درس سے فارغ ہوکر دفتر کے سامنے اپنی نشست پر براجمان تھے کہ یہ شخص خدام کے روکنے کے باوجود مفتی صاحب کے سامنے پہنچ گیا اور بہت بے ادبی سے گفت گو کرنا شروع کی اور جب ایک خادم نے اس کو پکڑ کر وہاں سے لے جانے کی کوشش کی تو اس نے خادم کو مفتی صاحب کے سامنے تھپڑ ماردیا، جس پر خادم نے بھی اس پر ہاتھ اٹھایا تو وہ باقاعدہ لڑ پڑا اور مفتی صاحب کے سامنے یہ نہایت افسوس ناک منظر پیش آگیا اور طلباء بھی اس واقعے پر بہت رنجیدہ ہوگئے اور پھر وہاں سیکورٹی پر موجود پولیس والے اس کو پکڑ کر لے گئے۔
لیکن اگلے دن جب مفتی صاحب درس میں تشریف لائے ،تو اس شخص کی بے ادبی کا تذکرہ تک نہیں کیا ، بلکہ اشک بار آنکھوں کے ساتھ گذشتہ کل کے واقعے پر بہت افسوس کیاکہ اس شخص پر زیادتی نہ ہوگئی ہو۔
کتابوں سے محبت اور مطالعے کا شوق
ہمارے اکابرین کی کتابوں اور مطالعے سے محبت دیدنی ہوتی تھی کہ مرض الوفات میں بھی کتاب سینے پر ہوتی تھی، حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ اور حضرت شیخ المشائخ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمہ اللہ کو تو بندہ نے اپنی آنکھوں سے اپنے گذشتہ اکابرین کا ہو بہو نمونہ دیکھا، حضرت مفتی صاحب اپنے اکابرین کے پرتو تھے، مطالعے کا شوق اتنا تھا کہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی گھراور جامعہ میں جہاں جہاں نشست ہوتی تھی، وہ نشست بھی کتب خانے کا منظر پیش کرتی۔
اس کے علاوہ مستقل کتب خانہ جس میں دنیا بھر کی بیش بہا کتب آپ نے جمع کی تھیں اور فرماتے کہ جب جوانی تھی اور اعذار بیماریاں لاحق نہیں ہوئی تھیں، تو میں عشاء کے بعد کتب خانے میں جاتا اور صبح کو وہاں سے نکلتا، پوری رات حضرت مطالعہ فرماتے۔
آخری لمحات میں بھی مطالعہ
وفات سے چند دن پہلے جب طبیعت کا فی بگڑ گئی اور آکسیجن ماسک ہر وقت منھ پر لگا ہوتا ، اس حال میں بھی آپ مطالعہ میں مصروف رہے۔
جان کر منجملہ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
أولئک آبائي فجئني بمثلھم
إذا جمعتنا یا جریر المجامع
حافظہ
اللہ تعالیٰ نے آپ کو ذوق مطالعہ کے ساتھ ساتھ ایسا حافظہ عطا فرمایا تھا ، کہ اس کی نظیر کم ملتی ہے ۔
دنیا کے کسی بھی موضوع پر جب آپ گفت گو فرماتے تو اس موضوع پر درجنوں قدیم ،جدید کتابوں کی عبارات ، حوالے مع ان کے مصنفین کے نام اور مصنفین کی تاریخ وفات تک ایسا فی البدیہہ بیان فرما دیتے،جیسے یہ کتب آپ کے سامنے کھلی رکھی ہوئی ہوں۔
مجاہدے کی زندگی
حضرت نے زمانہ طالب علمی یتیمی کی حالت میں بہت مجاہدوں کے ساتھ گزاری ، لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے کھول دیے۔
حضرت رحمہ اللہ کبھی کبھی بڑے رقت آمیز لہجے میں یہ شعر پڑھتے:
رشک نہ کرنا میری راحتوں پہ آج تم
ایک دور گزار آیا ہوں میں درد وستم کا
نام کے حوالے سے ایک وا قعہ
ایک دفعہ فرمایا کہ جب میں جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن آیا اور ایک استاد نے میرا نام دیکھا تو کہا زرولی خان ؟ ارے یہ کیا ہے؟ اس کے کیا معنی؟ تو میں نے کہا جی بدل دیں ، تو انہوں نے میرا نام رکھا ریاض الحق اور زرولی خان نام کاٹ کر اس کی جگہ ریاض الحق لکھ دیا، اس کے بعد حضرت اقدس فقیہ امت محدث کبیر مولانا مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ تشریف لائے تو رجسٹر میں دیکھ کر پوچھا یہ نیا لڑکا کہاں سے آیا ؟ اس وقت داخلہ کیسے ہوگیا ؟ لڑکوں نے کہا جی زرولی کانام فلاں استاد نے بدل دیا، پوچھا کیوں ؟ کہا کہ زرولی کے کیا معنی ؟ آپ نے فرمایا زرولی کے معنی”جامع الدین والدنیا“اور وہ نام واپس لکھ دیا ۔
پھر جب اللہ تعالیٰ نے احسن العلوم قائم فرمایا ،یہاں طلباء کی توجہ ہوگئی، اچھے استاذ پڑھانے والے مل گئے ، عاجز و فقیر کو خوب میدان ملا ، خوب وسائل ،ذرائع اللہ نے عطا کیے تو مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ اس استاد کانام لے کے فرماتے ، اس نے تو ڈبو دیا تھا میں نے بچایا ہے، مجھے دعائیں دو۔
چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو زمانہ طالب علمی ہی میں گلشن اقبال ٹاؤن کراچی میں امامت کا موقع نصیب فرمایا، اس وقت ایک چھوٹی سی مسجد تھی ، لیکن آپ کی محنت کی وجہ سے مختصر سے عرصے میں زمانہ آپ کا گرویدہ ہوگیا اور آپ اپنی علمی اور باطنی وجاہت ساتھ ساتھ ظاہری طور پر بھی اس شان وشوکت سے رہتے تھے کہ آپ کو دیکھ کر امام مالک رحمہ اللہ کی شان و شوکت یاد آجاتی تھی۔
خوش بو ہدیہ کرنے کاواقعہ
ایک دفعہ فرمایاکہ میں حضرت مولانا موسی خان صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے گیا ، اور ملاقات پر میں نے ایک خوش بو کی شیشی پیش کی، تو حضرت مولاناموسی خان صاحب رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا کہ مولانا! میں تو بہت اعلی خوش بو استعمال کرتا ہوں ، تو حضرت فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، حضرت! یہ آدھی شیشی خوش بو کی ہے ، پوری ہوتی تو وہ پیش کرتا اور یہ آدھی شیشی تیس ہزار روپے کی ہے۔
آپ بہت اعلیٰ قسم کی خوش بوئیں استعمال فرماتے تھے ، جو دیارعرب سے خاص طور پر آپ کے لیے آتیں اور جب آپ درس گاہ میں یا مسجد تشریف لاتے تو پوری درس گاہ اور مسجد خوش بوسے مہک جاتی۔
امامت
پوری زندگی، وفات سے چند دن قبل تک، آپ خود باقاعدہ امامت وخطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور اس کو اپنے لیے سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے اور فرماتے تھے:” مجھ پر اللہ تعالیٰ کے جتنے احسانات ہیں ان میں سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امامت کی نعمت نصیب فرمائی ہے۔“چناں چہ آپ کئی اداروں کے اہتمام ، انتظام اور سینکڑوں مصروفیات کے باوجود خود امامت ، خطابت فرماتے تھے، کبھی کبھار یہ ذمہ داری آپ کے صاحب زادے مولانا انور شاہ سر انجام دیتے تھے۔
حرمین شریفین کی حاضری
کس مسلمان کو حرمین شریفین سے محبت اور زیارت کا شوق نہ ہوگا…لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت کو جو حرمین شریفین سے محبت نصیب فرمائی تھی اس میں آپ اپنی مثال آپ تھے، دیگر ممالک کے اسفار آپ کے نہ ہونے کے برابر تھے، لیکن حرمین شریفین کی حاضری کے لیے سال میں کم از کم تین چار بار اپنے آل اولاد، عزیز و اقارب کے ساتھ قافلے کی صورت میں تشریف لے جاتے۔
قرآن سے محبت
اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کو قرآن مجیدکے ساتھ مثالی محبت نصیب فرمائی تھی اور آپ کی خواہش تھی کہ ہر مسلمان کا قرآن کے ساتھ مضبوط تعلق ہواور قرآن کو سمجھنے والا ہو، چناں چہ اُمت مسلمہ کو قرآن سے جوڑنے کے لیے اور امت میں فہم قرآن پیدا کرنے کے لیے طلباء اور عوام دونوں کے لیے دورہ تفسیر کا آغاز کیا اور وہ تھوڑے ہی عرصے میں پورے ملک میں مشہور ہوگیا اور پورے ملک سے طلباء شریک ہوتے تھے۔
آپ تقریبا 35 سال تک اپنے جامعہ میں مدارس کی سالانہ چھٹیوں شعبان رمضان میں درس قرآن دیتے رہے۔
بندہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت سے تین سال دور ہ تفسیر کرنے کی سعادت نصیب فرمائی اور” العلم صید والکتابة قید“ پرعمل پیرا ہوتے ہوئے ہر سال سینکڑوں صفحات پر مشتمل حضرت کے افادات کو جمع کیا ، خاص کر دورہ حدیث کے سال خوب محنت سے ان افادات کو مرتب انداز میں جمع کیا ، جس کو اللہ تعالیٰ نے بے حدمقبولیت عطافرمائی اور آج تک دورہ تفسیر کے شرکاء اس سے استفادہ کر رہے ہیں ۔
وفات سے پہلے ایک عجیب خواب
حضرت اقدس نو راللہ مرقدہ نے اپنی وفات سے چند دن پہلے ایک خواب بیان کیا۔
فرمایا: کہ رات کو میں نے خواب دیکھا کہ مجھے لحد میں رکھ دیا گیااور ایک حسین جمیل نوجوان آیا، جس کے اوصاف حسن اور خصال حمیدہ بیان کرنے کی مجھ میں استطاعت نہیں اور وہ دائیں طرف کھڑا ہوگیا،تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ اس جیسے ایک اور نوجوان، لیکن اس سے بہت زیادہ توانااور بہت زیادہ شان و شوکت والا آیا اور اس نے ایسے ہاتھ سے پہلے نوجوان کو اشارہ کیا کہ پاؤں کے پاس کھڑے ہوجاؤاور خود آکے یہاں کھڑے ہوگئے اور جب منکر نکیر داخل ہوئے تو یہ جو بعد میں داخل ہوئے انہوں نے منکر نکیر سے کہا کہ بس دے دو کاغذ،کاغذ لے لیا اور جوابات لکھ دیے اور ان سے کہا کہ جاؤ یہاں سے اور مجھ سے کہا کہ آپ کے بائیں طرف ایک کھڑکی کھل جائے گی اور آپ جنت کے مناظر دیکھیں گے اور آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی،میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟اس نے کہا کہ یہ جو پہلے آئے ہیں یہ ”صلوة الفجر“ہے کہ آپ ہر حال میں نماز فجر نہیں چھوڑتے تھے اور میں خود قرآن مجید ہوں ،کیوں کہ آپ نے شرق اور غرب میں میری آواز پہنچائی ہے۔
وفات
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ایک عرصے سے سا نس کے عارضے میں مبتلا تھے اور تین چار سال سے تو چلنا بھی مشکل ہوگیا تھا اور مسجد بھی وہیل چیئر کے ذریعے تشریف لاتے۔
وفات سے دو تین دن پہلے طبیعت ذرہ زیادہ خراب ہوگئی تو آپ کو ہسپتال میں داخل کرادیا گیا ، لیکن آپ کی طبیعت سنبھل نہ سکی اور علم و عمل کا یہ آفتاب و ماہتاب 7/ دسمبر بروز پیر 2020ء عشاء کے وقت 67 سال کی عمر میں اس دار فانی سے غروب ہوگیا۔
آپ کے نماز جناز ہ کا اعلان اگلے دن صبح گیارہ بجے کا کیا گیا ، اگلے دن صبح سویرے ہی سے لوگوں کی آمد شروع ہوگئی۔
جامعہ احسن العلوم کے اساتذہ طلباء کو صبر کی تلقین اورحضرت مفتی صاحب کے مناقب بیان کرتے رہے، جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم حضرت اقدس مولانا عبید اللہ خالد صاحب دامت برکاتہم بھی اپنے صاحب زادوں اور بعض اساتذہ کے ہم راہ تشریف لا ئے اور طلباء سے مختصر خطاب کیا اور اس کے بعد مجمع کو نماز جنازہ کے لیے جامعہ کے متصل پارک کی طرف جانے کاکہا گیا۔
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی نماز جنازہ کے لیے جامعہ سے متصل ایک وسیع پارک کا تعین کیاگیا، لیکن جیسے جیسے وقت قریب آتا گیا ، وسیع پارک اپنی وسعت کے باوجود تنگ دامنی کی شکایت کرنے لگا اور تھوڑی سی دیر میں پارک، جامعہ اور جامعہ کے ارد گرد وسیع و عریض روڈ، یہاں تک کہ رہائشی علاقے لوگوں سے بھر گئے اور تاحد نگاہ لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے۔
آپ کی نماز جنازہ آپ کے صاحب زادے اور جانشین حضرت مولانا انورشاہ صاحب مدظلہ نے پڑھائی، آپ کے نماز جنازہ میں کراچی، اور پورے ملک کے اکابر علماء نے شرکت کی اور یوں آپ کو ہزاروں لوگوں نے آنسوؤں کی لڑیوں میں آخری آرام گاہ کی طرف رخصت کیا ۔
اور اس کنز العلم کوکراچی کے علاقے”گلشن معمار ، احسن آباد“ میں جامعہ کی شاخ”احسن المدارس“میں سپرد خاک کردیا گیا۔
اللہ تعالیٰ حضرت اقدس نور اللہ مرقدہ کی قبر کو روضة من ریاض الجنةبنا ئے اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام نصیب فرمائے۔
اور ہمیں حضرت مفتی صاحب نوّر اللہ مرقدہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
اپنوں کے نقش قدم پر ہو مرنا یا جینا
ویرحم اللہ عبدا قال آمینا