حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَاء لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْباً﴾․(سورة النساء: آیت:1)
وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: أعظم النکاح برکة أیسرہ مؤنة․( مسند الإمام أحمد بن حنبل، رقم الحدیث:24529، ومسند أبي داود الطالیسی، رقم الحدیث:1530، وشعب الإیمان للبیہقي، باب الاقتصاد في النفقة وتحریم أکل المال الباطل، رقم الحدیث:6566، 5/254، والجامع الصحیح للبخاري، کتاب النکاح، باب الأکفاء في الدین، رقم:5090، والجامع الصحیح لمسلم، کتاب الرضاع، باب استحباب نکاح ذات الدین، رقم:3635، وسنن أبي داود، کتاب النکاح، باب مایؤمر بہ من تزویج ذات الدین، رقم:2047، وسنن النسائي، کتاب النکاح، باب کراھیة تزویج الزناة، رقم:3232، وجامع الأصول في أحادیث الرسول، الکتاب الثاني في النکاح، الباب الاول، الفصل الثاني، رقم:1964)
صدق الله مولانا العظیم وصدق رسولہ النبي الکریم․
میرے محترم بھائیو بزرگو! اور دوستو! ہمارے ہاں عام طور پر انگریزی مہینوں کے حساب سے اگر دیکھا جائے تو نومبر، دسمبر، جنوری، فروری، مارچ، اپریل ان مہینوں میں زیادہ ترنکاح کا رواج ہے، چاند کے مہینوں کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو شوال، ذیقعدہ، ذوالحجہ، پھر مسلمانوں کو محرم اور صفر میں بریک لگ جاتا ہے، محرم میں شادی نہیں کرنی، صفر میں شادی نہیں کرنی، حالاں کہ محرم میں شادی نہ کرنے کا یا صفر میں شادی نہ کرنے کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو محرم اور صفر میں شادی کرنے کا اجر اور ثواب زیادہ ہے۔
میں نے کئی دفعہ یہ بات عرض کی ہے کہ ماحول اور معاشرے کا ہم پر اثر ہے، عربی زبان سے ہم واقف نہیں ہیں ، ہم محرم کا لفظ آتے ہی اپنے دل ودماغ میں کالا کالا محسوس کرنے لگتے ہیں، حالاں کہ محرم کے معنی ہیں محترم، محرم کے معنی خدانخواستہ خدا نخواستہ نحوست کے نہیں ہیں۔
حضرت حسین رضی الله عنہ اور اہل بیت کے دیگر افراد کی جو شہادتیں محرم میں ہوئی ہیں اس سے ان شہادتوں کو بھی چار چاند لگ گئے، اگر خدا نخواستہ شہادت کوئی نحوست والی چیز ہوتی تو بدر کے شہداء بھی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم بذات خود موجود ہیں، احد کے ستر شہداء ہیں، جن کی تدفین آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں کے سامنے کی ہے اور بئر معونہ کے ستر شہداء ہیں، جو قراء ہیں، ان کی شہادت کا واقعہ آپ صلی الله علیہ و سلم کی حیات مبارکہ میں پیش آیا ہے، پھر شہادت تو حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کو بھی حاصل ہوئی ہے، جن کا درجہ اور مقام نہایت بلند وبالا ہے۔
حضرت عثمان ذوالنورین رضی الله عنہ کو بھی شہادت حاصل ہوئی ہے، جن کا مرتبہ او رمقام نہایت بلند وبالا ہے۔
شہادت کا مرتبہ او رمقام توحضرت علی کرم الله وجہہ کوبھی حاصل ہوا ہے ،جن کا مرتبہ او رمقام بہت بلند ہے، اسلام میں شہادت سوگ اور نحوست کی چیز نہیں ہے، بلکہ اعزاز ہے۔
میں عرض کر رہا تھا کہ ہمارے ہاں محرم اور صفر کے حوالے سے ایک غلط سوچ پائی جاتی ہے، صفر کے بارے میں زمانہ جاہلیت سے یہ بدعقیدگی چلی آرہی ہے کہ صفر میں نحوست ہے، سرورکا ئنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صفر کو مظفر قراردیا، صفر المظفر، وہ صفر جس میں کامیابیاں دی جاتی ہیں۔
تو صفر بھی نحوست کا مہینہ نہیں ہے، محرم بھی نحوست کا مہینہ نہیں ہے، چناں چہ شادی بیاہ یا خوشیاں ان مہینوں میں روک دینا، یہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف بات ہے۔
”زمانہ ، وقت منحوس نہیں ہوتا، وقت اور زمانے کو منحوس سمجھنا یہ دراصل زمانہ جاہلیت کی رسومات میں سے ہے، زمانہ جاہلیت میں بھی صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا تھا اور لوگوں نے طرح طرح کی باتیں صفر کے مہینے کے حوالے سے گھڑی ہوئی تھیں اور اس مہینے کو آفات اور بلیات کا مہینہ سمجھتے تھے: ”قال العلامہ علی القاري فی ذیل الحدیث ”لا صفر“ قال القاضی وتحمل أن یکون نفیاً لما یتوھم أن شھرصفر تکثر فیہ الدواھي والفتن “․( مرقاة المفاتیح:9/4، وعمدة القاری، کتاب الحج، باب التمتع والقران والإفراد بالحج:9/289)
لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کے ان فرسودہ خیالات ورسومات کو”لا صفر“ فرما کر رد فرما دیا ۔ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الطب، باب لا صفر، رقم:5717)
صفر کے حوالے سے ایک من گھڑت روایت
بعض لوگ جوزمانہ جاہلیت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں ، وہ اپنے باطل خیالات ونظریات کو ایک ایسی حدیث سے ناکام سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں، جو بالاتفاق موضوع اورمن گھڑت ہے، وہ موضوع حدیث ہے:” من بشرني بخروج صفر، بشرتہ بالجنة“ جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا میں اسے جنت میں داخلے کی خوش خبری دیتا ہوں۔
فتاوی عالگیری میں اس روایت کے بارے میں ہے:”سألتہ فی جماعة لا یسافرون في صفر، ولا یبدؤون بالأعمال فیہ من النکاح والدخول، ویتمسکون بما روی عن النبي صلی الله علیہ وسلم :”من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بالجنة“ ھل یصح ھذا الخبر؟ وھل فیہ نحوسة ونھی عن العمل؟ وکذا لایسافرون إذا کان القمر في برج العقرب… أما ما یقولون في حق صفرذلک شيء کانت العرب یقولونہ… ینسبون إلی النبی صلی الله علیہ وسلم، وھو کذب محض ․ (الفتاوی العالمکیریة، کتاب الکراھیة، الباب الثلاثون في المتفرقات:5/437)
یعنی ایسے لوگ جو صفر کے مہینے میں سفر نہیں کرتے او راس مہینے میں نکاح وغیرہ جیسے اعمال نہیں کرتے (اس مہینے کو منحوس اور مصائب کا مہینہ سمجھتے ہیں) اور وہ لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو مجھے صفر کے مہینے کے گزرجانے کی خوش خبری دے گا میں اسے جنت میں داخلے کی خوش خبری دوں گا تو ان لوگوں کی صفر کے مہینے سے متعلق نحوست والی باتیں یہ وہ باتیں ہیں جو عرب زمانہ جاہلیت میں کہتے تھے اور یہ لوگ اپنی ان باتوں کو رسول الله صلی الله علیہ و سلم کی طرف منسوب کرتے ہیں، حالاں کہ یہ کھلا جھوٹ ہے اور آپ صلی الله علیہ و سلم سے یہ نحوست کی باتیں ثابت نہیں۔
حضرات محدثین نے بھی اس حدیث کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:” کشف الخفاء ومزیل الإلباس، حرف المیم، رقم:2418، والأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة، حرف المیم، رقم:437، و تذکرة الموضوعات، ص:116)
صفر کی آخری بدھ کو کھانا تقسیم کرنااور خوشی کے اظہار کا حکم
بعض ناواقف لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے صفر کے آخری بدھ سے متعلق مختلف قسم کے نظریات رکھتے ہیں، مثلاً ان لوگوں کا خیال ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بیمار ہوئے اور صفر کے آخری بدھ کو آپ صلی الله علیہ و سلم تن درست ہو گئے اور غسل صحت فرمایا تھا۔
چناں چہ یہ لوگ بھی صفر کے آخری بدھ کو مختلف قسم کی کھانے کی چیزیں پکاتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، حالاں کہ ان لوگوں کی یہ سب باتیں جہالت پر مبنی ہیں، ان کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں۔
”فتاوی رشیدیہ“ میں ہے:
سوال: صفر کے آخری چہار شنبہ کو اکثر عوام خوشی وسرور وغیرہ اطعام الطعام کرتے ہیں، شرعاً اس باب میں کیا ثابت ہے؟
جواب: شرعاً اس باب میں کچھ بھی ثبوت نہیں،جہلاء کی باتیں ہیں۔ (فتاوی رشید یہ، کتاب العلم،ص:170)
”فتاوی رحیمیہ“ میں ہے:
سوال: ماہ صفر کے آخری چہار شنبہکا جو آخری بدھ ( چہار شنبہ) کے طور پر منایا جاتا ہے او راسکول ومدارس میں تعطیل رکھی جاتی ہے او راس کو خوشی کے دن کے طریقہ سے منایا جاتا ہے، اس کی کوئی اصلیت ہے؟
یوں کہا جاتا ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے صفر مہینہ کے آخری چہار شنبہ کو مرض سے شفاپائی او رغسل فرما کر سیر وتفریح فرمائی، اس لیے مسلمانوں کو اس کی خوشی منانا چاہیے، کیا یہ صحیح ہے ؟ خصوصاً بریلوی طرز فکر کے مسلمان چہار شنبہ کو زیادہ مانتے ہیں۔
جواب: مذکورہ چیزیں بالکل بے اصل اور بلا دلیل ہیں، مسلمانوں کے لیے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں ہے، شمس التواریخ وغیرہ میں ہے کہ26 صفر (11ھ) یوم دو شنبہ کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور 27 صفر شنبہ کو اسامہ بن زید رضی الله عنہ امیر لشکر مقرر کیے گئے،28 صفر چہار شنبہ کو اگرچہ آپ بیمار ہو چکے تھے، لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کرکے اسامہ کو دیا، ابھی کوچ کرنے کی نوبت نہ آئی تھی کہ آخر روز چہار شنبہ اور اول شب پنج شنبہ میں آپ کی علالت خوف ناک ہو گئی اور ایک تہلکہ پڑ گیا، اسی وقت عشا سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو نماز پڑھانے پر مقررفرمایا۔ (شمس التواریح:2/1009-1008)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ 28 صفر چہار شنبہ کے روز آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کے مرضمیں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا، یہ دن مسلمانوں کے لیے خوشی کا تو ہے ہی نہیں، البتہ یہود وغیرہ کے لیے شادمانی کا دن ہوسکتا ہے، اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا ،خوشیاں منانا یہ تمام باتیں خلاف شرع اور ناجائز ہیں ، بریلوی طرز فکر کے حضرات اس دن کو کیوں اہمیت دیتے ہیں یہ سمجھ میں نہیں آتا، ان کے جلیل القدر بزرگ مولوی احمد رضا خان صاحب تو اخیری چہار شنبہ کو نہیں مانتے۔
(چناں چہ مولوی احمد رضا خان صاحب ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں )
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس امر میں کہ صفر کے آخری چہار شنبہ کے متعلق عوام میں مشہور ہے کہ اس روزآں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے مرض سے صحت پائی تھی، بنا برایں اس کے اس روز کھانا شیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں او رجنگل کی سیر کو جاتے ہیں … لہٰذا اصل اس کی شرع میں ثابت ہے کہ نہیں؟
جواب: آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یابی حضور سید عالم صلی الله علیہ وسلم کا کوئی ثبوت ہے ، بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارکہ ہوئی اس کی ابتدا اسی دن سے بتلائی جاتی ہے ۔ (احکام شریعت:2/50) (فتاوی رحیمیہ، کتاب السنة والبدعة:2/69-68)
تاریخ وسیرت کی کتب میں صفر کے آخری بدھ کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا بیمار ہونا منقول ہے، صحت یاب ہونامنقول نہیں ۔
چناں چہ ” الطبقات الکبری“ وغیرہ میں ہے :
عن عبدالله بن محمد بن عمر بن علی بن أبي طالب عن أبیہ عن جدہ قال اشتکی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الأربعاء لیلة بقیت من صفر سنة إحدی عشرة وتوفی یوم الاثنین لاثنتي عشرة مضت من ربیع الأول․(الطبقات الکبری لابن سعد، ذکر کم مرض رسول الله صلی الله علیہ وسلم والیوم الذي توفي فیہ:2/272، وکذا في البدایة والنھایة: سنة احدی عشرة من الھجرة، فصل في ذکر الوقت الذی توفی فیہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم:5/277،وکذا في کتاب الثقات لابن حبان، ذکر وفاة رسول الله صلی الله علیہ وسلم:1/155)
یہ شادی اور نکاح کیا ہے؟ بنیاد سمجھ لیجیے کہ الله رب العزت نے حضرت آدم علی نبینا وعلیہ السلام کو اس دنیا میں اکیلا نہیں بھیجا، بلکہ ان کے ساتھ حضرت حوا، جو ہماری ماں ہیں، وہ بھی ساتھ آئی ہیں، مرد اور عورت، میاں اور بیوی، ازدواجی سلسلہ یہ حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلاة والسلام سے چلا آیا ہے اور یہفطرت کاتقاضا ہے، اگر صرف مرد بغیر عورت سے نکاح کیے زندگی گزارے گا یا نکاح کو مشکل اور دشوار کر دیاجائے گا، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا اور نتیجہ نکل رہا ہے کہ پھر وہ فطری ضرورت حرام طریقے سے پوری ہو گی اوراس کے نتیجے میں پھر زنا عام ہو گا۔
میں عرض کر رہا ہوں کہ یہ انسان کی فطری ضرورت ہے اور آپ دیکھیں کہ جہاں جان ہے، جہاں روح ہے، جہاں زندگی ہے ،خواہ وہ انسان ہو یا وہ جانور ہو یا وہ پرندہ ہو ، آپ دیکھیں کہ وہاں پر بھی مذکر، مؤنث، وہاں پر بھی میل اور فی میل،ہے یانہیں ہے؟! ہے
فطرت کا تقاضا ہے، چناں چہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام نے نکاح کیا، ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے گیارہ نکاح فرمائے۔
” نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات گیارہ تھیں، جن میں سے دو آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات میں انتقال فرماگئیں اور نو بیبیاں حضور صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت موجود تھیں۔(الروض الأنف، ذکر أزواجہ صلی الله علیہ وسلم:4/425، والسیرة النبویة لابن ھشام، ذکر أزواجہ صلی الله علیہ و سلم:4/293)
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیوں فرمائے؟
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ورطہ ہلاکت اور گرداب مصیبت سے نکالیں، اس کے لیے حق جل شانہ نے ایک مکمل قانون اور دستور العمل، یعنی قرآن نازل فرمایا کہ جس کے بعد قیامت تک کسی قانون کی ضرورت نہ رہے۔
اور دوسرے آپ کی زندگی کو لوگوں کے لیے اسوہ اور نمونہ بنایا کہ اس کو دیکھ کر عمل کریں، اس لیے کہ محض قانون لوگوں کی اصلاح کے لیے کافی نہیں، جب تک کوئی عملی نمونہ سامنے نہ ہو کہ جو لوگوں کو اپنی طرف مائل کرسکے اور دنیا یہ دیکھ لے کہ الله کا نبی جس چیز کی دعوت دے رہا ہے اس کے قول اور فعل میں ذرہ برابر اختلاف نہیں۔
انسانی زندگی کے دو پہلو
ہرانسانی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک بیرونی اورایک اندرونی، کسی کی عملی حالت کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دونوں رخوں کے حالات بے نقاب کیے جائیں، بیرونی زندگی اس حالت کا نام ہے جو انسان عام لوگوں کے سامنے بسر کرتا ہے، اس حصہ کے متعلق انسان کے تفصیلی حالات معلوم کرنے کے لیے کثرت سے شواہد دست یاب ہوسکتے ہیں۔
اور اندرونی زندگی سے خانگی زندگی مراد ہے، جس سے انسان کی اخلاقی حالت کا صحیح پتہ چل سکتا ہے ،ہر فرد اپنے گھر کی چار دیواری میں آزاد ہوتا ہے او راپنی بیوی اور اہل خانہ سے بے تکلف ہوتا ہے، انسان کی اخلاقی اورعملی کم زوریاں اہل خانہ سے پوشیدہ نہیں ہوتیں، پس ایسی صورت میں انسان کی صحیح زندگی کا اندازہ کرنے کے لیے سب سے بہتر کسوٹی یہی ہے کہ اس کے خانگی حالات دنیا کے سامنے آجائیں، اسی طرح آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے دو پہلو تھے، ایک بیرونی زندگی اور ایک خانگی زندگی، بیرونی زندگی کے حالات تو تمام وکمال صحابہ کرام کی جماعت نے دنیا کو پہنچائے ،جس کی نظیر کسی ملت اور مذہب میں نہیں، کسی امت نے اپنے نبی کی زندگی کے حالات اس تفصیل وتحقیق وتدقیق کے ساتھ تو کیا اس کا عشر عشیر بھی دنیا کے سامنے نہیں پیش کیا۔
اور خانگی اور اندرونی زندگی کے حالات کو امہات المومنین ،یعنی ازواج مطہرات کی جماعت نے دنیا کے سامنے پیش کیا، جس سے اندرون خانہ آپ کی عبادت اور تہجد اور شب بیداری اور فقیری اور درویشی اور اخلاقی اور عملی زندگی کے تمام اندرونی او رخانگی حالات دنیا کے سامنے آگئے، جس سے حضور پر نور صلی الله علیہ وسلم کی خدا ترسی اور راست بازی اور پاک دامنی روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ رات کی تاریکیوں میں جب کہ سوائے عالم الغیب کے کوئی دیکھنے والا نہ تھا کس طرح آپ الله کی عبادت میں ذوق وشوق کے ساتھ مشغول رہتے تھے، جس کے لیے سورہٴ مزمل شاہد عدل ہے۔
اس لیے حضور پر نور صلی الله علیہ وسلم نے سوائے خدیجة الکبری رضی الله عنہا کے دس عورتوں سے نکاح فرمایا، تاکہ عورتوں کی ایک کثیر جماعت آپ کی خانگی زندگی دنیا کے سامنے پیش کرسکے، اس لیے کہ بیوی جس قدر شوہر کے رازوں سے واقف ہوسکتی ہے کوئی دوسرا شخص ہر گز واقف نہیں ہوسکتا، اس لیے حضور صلی الله علیہ وسلم نے متعدد نکاح فرمائے۔ تاکہ آپ کی خانگی زندگی کے تمام حالات نہایت وثوق کے ساتھ دنیا کے سامنے آجائیں اور ایک کثیر جماعت کی روایت کے بعد کسی قسم کا شک اور شبہ باقی نہ رہے اور شریعت کے وہ احکام اور مسائل جو خاص عورتوں سے متعلق ہیں اور مردوں سے بیان کرنے میں حیا اور حجاب مانع ہوتا ہے ایسے احکام شرعیہ کی تبلیغ ازواج مطہرات کے ذریعہ سے ہو جائے اور حضور پر نور صلی الله علیہ وسلم کا متعدد عورتوں سے نکاح کرنا معاذ الله حظِ نفس کے لیے نہ تھا ،اس لیے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے سوائے ایک شادی کے تمام شادیاں بیواؤں سے کی ہیں، جو نہ اپنے حسن وجمال کی خاطر مشہور تھیں اور نہ مال ودولت کے اعتبار سے، بلکہ معاملہ اس کے برعکس تھا اور نہ آپ کے یہاں کوئی عیش وعشرت کا سامان تھا، بلکہ فقط مقصود یہ تھا کہ عورتوں کے متعلق جو شریعت کے احکام ہیں ان کی تبلیغ عورتوں ہی کے ذریعے ہوسکتی ہے اور ازواج مطہرات کے حجرے درحقیقت اُمت کی اُمہات اور معلمات کے حجرے تھے۔ (سیرت مصطفی:3/336)
اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” النکاح سنتي“ نکاح میری سنت ہے۔ آپ نے فرمایا:”فمن أعرض من سنتي فلیس مني“ جس نے میری سنت سے اعراض اور انحراف کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عورت سے جو نکاح کیا جاتا ہے وہ چار وجوہات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے، عام طور پر، مال دیکھ کے، لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکی والے، ان کے پاس مال کتنا ہے؟ لڑکی والے دیکھتے ہیں کہ لڑکے والوں کے پاس مال کتنا ہے؟” لمالھا ولجمالھا“ عورت کے حسن او رجمال کو دیکھ کر شادی کی جاتی ہے”ولحسبھا “اور اس کے حسب اور نسب کو دیکھ کر شادی کی جاتی ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اور چوتھی چیز ”ولدینھا“ اس کے دین کو دیکھ کر شادی کی جاتی ہے:” فاظفر بذات الدین تربت یداک“ تم کام یابی حاصل کرو، دین دار عورت سے شادی کرکے، دین کو ترجیح دے کر۔(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب النکاح، باب الأکفاء فی الدین، رقم:5090)
محدثین فرماتے ہیں کہ ”تربت یداک“ کا ایک مطلب یہ ہے کہ تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں، یعنی اگرچہ دین دار عورت سے شادی کرنے میں بڑی سے بڑی مشقت برداشت کرنی پڑے، لیکن تم دین دار عورت کا انتخاب کرو، دین دار سے شادی کرو۔
میرے دوستو! خوب یاد رکھیں، آج جو تباہی او ربربادی آئی ہوئی ہے او راسلام کو جو زوال ہو رہا ہے اس میں بہت اہم بات یہ نکاح ہے کہ ہم مال ودولت کو دیکھ کر، ہم حسن وجمال کو دیکھ کر، ہم حسب ونسب کو دیکھ کر، ہم سامان جائیداد ، چیزیں فلاں فلاں کو دیکھ کر، ہمارے ہاں شادیوں کے موقع پر بھنگیوں کو بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ماسیوں کو بھی یاد رکھا جاتا ہے، گھر کے خدمت گاروں کو بھی یاد رکھا جاتا ہے، اگر ہم سب مل کر بھلا دیتے ہیں تو وہ الله اور اس کے رسول کو بھلا دیتے ہیں، کوئی تذکرہ نہیں، اسراف، فضول خرچی اور وہ وہ حرکتیں مسلمان ان مواقع پر کرتے ہیں کہ آسمان وزمین لرز جائیں۔
بہت افسوس کی بات ہے، پھر ہم گلہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو زوال ہو رہا ہے، ظاہر ہے کہ اس طرح کی شادیاں جس میں الله تعالیٰ کو ناراض کیا جائے، جس میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو ناراض کیا جائے اور شیطان کو ہر طرح سے خوش کرنے کی کوشش کی جائے او رایسی ازدواجی زندگی ہو، جس میں دین کا نام ونشان نہ ہو، اس کے نتیجے میں جو اولاد پیدا ہوگی وہ کیسی ہوگی؟
آج ہر شخص کو یہ شکوہ اور شکایت ہے کہ میری اولاد نافرمان ہے ، وہ تو ظاہر کہ جب تم الله کے نافرماں ہوگئے تو تمہاری اولاد تمہاری کیسے فرماں بردار ہو گی؟! ممکن نہیں ہے۔
افغانستان کے ایک امیر گزرے ہیں، بادشا ہ امیر عبدالرحمن، ان کے ہاں ملک میں بغاوت ہوئی او راس بغاوت کو کچلنے کے لیے انہوں نے فوجی دستہ روانہ کیا، اس کا سربراہ اور سپہ سالار اپنے ولی عہد اپنے بیٹے کو مقرر کیا۔
جب وہ دستہ پہنچ گیا اور وہاں سے خبریں آنا شروع ہوئیں تو خبریں یہ آنے لگیں کہ ولی عہد کو شکست ہو رہی ہے،باغی آگے بڑھ رہے ہیں، امیر عبدالرحمن بہت پریشان، گھر میں آئے تو ان کی ملکہ نے پوچھا کہ کیا صورت حال ہے؟ بتایا کہ اس طرح ولی عہد کو بیٹے کو شکست ہوگئی ہے۔ تو ملکہ نے کہا کہ یہ ہر گز نہیں ہو سکتا، یہ ممکن نہیں، یہ خبریں سب جھوٹی ہیں، میرے بیٹے کو شکست نہیں ہوسکتی، بادشاہ نے کہا کہ میں بادشاہ ہوں، میرے ذرائع ہیں، میرے پاس جھوٹ کون بولے گا ؟یہ جھوٹ بولنے والی بات ہے، لیکن ملکہ نے کہا کہ میں اس خبر کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
دوسرے دن پھر اسی طرح کی خبریں کہ ولی عہد کو شکست ہو رہی ہے اور ملکہ کہہ رہی ہے کہ خبر جھوٹی ہے، تیسرے دن پھر اس طرح، چوتھے دن امیر عبدالرحمن بھاگے بھاگے زنان خانے میں آئے اوربیگم سے کہا کہ ولی عہد کو فتح ہو رہی ہے اور وہ فاتح بن کر واپس آرہے ہیں، لیکن تم یہ بتاؤ کہ تم نے یہ باتیں کیسے کہیں، جب کہ میرے ذرائع تو سرکاری ہیں؟ تو ان کی بیوی نے کہا کہ یہ ایک راز تھا، جو میں نے کبھی آپ کے سامنے ظاہر نہیں کیا اور وہ راز یہ ہے کہ میں نے اس بچے کو کبھی بھی بغیر وضو کے دودھ نہیں پلایا، میں نے پوری زندگی یہ احتیاط کی کہ اس بچے کے منھ میں کوئی حرام لقمہ نہ جائے، مجھے پورا یقین تھا کہ وہ شہید تو ہو سکتا ہے، آپ یہ کہتے کہ وہ شہید ہو گیا، میں مان لیتی، لیکن اسے شکست ہو گئی۔ یہ میں قبول کرنے کو تیار نہیں تھی یہ کیا ہے ؟ یہ دین ہے۔
میرے دوستو! آج ہمارے گھروں کی جو صورت حال ہے شرم سے ہمارے سر جھک جاتے ہیں، ہماری مائیں پہلے بچوں کو الله الله کی لوریاں دیا کرتی تھیں، ان کو دودھ پلاتے ہوئے الله الله پکارا کرتی تھیں، وہ روتے تھے تو ان کو چپ کرانے کے لیے الله الله کی لوریاں دی جاتی تھیں، آج شیر خوار بچوں کودودھ پلاتے ہوئے موبائل فون دکھایا جاتا ہے، ایسا ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا؟! بچہ رو رہا ہے تو اس کو چپ کرانے کے لیے موبائل فون دکھایا جارہا ہے۔
میرے دوستو! آپ مجھے بتائیں کہ کبھی اسلام کو اس نسل سے عروج حاصل ہوگا؟ اسلام کو اس تیار ہونے والی نسل سے غلبہ حاصل ہو گا؟ ایسا نہیں ہو سکتا، ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ یہ ممکن نہیں، اس کے لیے تو وہ تعلیم اختیار کرنی ہوگی، وہ طریقہ اختیار کرنا ہو گا جو اس کائنات کا سب سے اعلیٰ ترین طریقہ ہے اور وہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور آپ کا طریقہ ہے، اسے اختیار کریں۔ ہمارے گھروں کے اندر گانے بج رہے ہوں ، ناچ ہو رہا ہو، بے پردگی ہو رہی ہو، عریانی اور فحاشی ہو رہی ہو، اختلاط مردوزن ہو رہا ہو اور ہم یہ سمجھیں کہ مسلمان ترقی کریں گے، یہ نہیں ہو سکتا، یہ تو اسی صورت میں حاصل ہو گا جب ہم محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ سچے ہوں، صرف زبانی جمع خرچ نہیں ہوگا، بلکہ حقیقت ہو گی، غیرت کے ساتھ، اسلامی حمیت کے ساتھ۔
آج ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان، ہونا بھی یہی چاہیے، لیکن میرے دوستو! آپ مجھے بتائیں کہ کیا زمینی صورت حال بھی یہی ہے؟ کیا میری اور آپ کی عملی زندگی بھی اس بنیاد پر ہے؟
ہم تو بہت ہی معمولی سی چیز کے لیے بھی آپ صلی ا لله علیہ وسلم کی سنت کو ذبح کر دیتے ہیں ، ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم یہودیوں کا طریقہ اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ہم نصرانی اور عیسائیوں کا طریقہ اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، آج ہماری شادیوں کی نامعلوم کتنی رسومات ہندؤوں کی بنیاد پر ہیں،جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
میرے دوستو! پھر یہ دعوی کہ ہم عاشق رسول ہیں، پھر یہ دعوی کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں، یہ کتنا بڑا مذاق ہے او رکتنا بڑا دھوکہ ہے ،جو ہم اپنے آپ کو دے رہے ہیں۔
میرے دوستو! ہمیں توبہ کرنی چاہیے، ہمیں آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت کرنی چاہیے ا و رمحبت کا واضح ترجمہ اتباع ہے کہ آپ صلی الله علیہ و سلم کی اتباع، مر جائیں گے، لیکن آپ کی اتباع کو ترک نہیں کریں گے، پھر دیکھیے کہ الله تعالیٰ کی مدد ونصرت کیسے آتی ہے؟!
پھر دیکھیے الله تعالیٰ کیسے کام یابیاں عطا فرماتے ہیں؟! ایسی کام یابیاں جس میں دماغ، عقل، ٹیکنالوجی سب فیل۔
افغانستان آپ کے سامنے ہے ،امارت اسلامی افغانستان آپ کے سامنے ہے، وہ لوگ جن کے پیروں میں جوتے چپل نہیں تھے ،وہ لوگ جن کے لباس خاک آلود تھے، جن کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں تھی، جن کے پاس لڑنے کے لیے ہتھیار نہیں تھے، لیکن انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق کو ہر حال میں قوی سے قوی تر کیا، دنیا کو چاہے ہماری پگڑیاں کیسی لگیں، ہم نہیں اتاریں گے، دنیا کو ہمارے لمبے کرتے اور اونچی شلواریں کیسی لگیں ہم نہیں اتاریں گے، اس لیے کہ یہ سب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔
میرے دوستو! آج ہم اپنی عظمت کی داستانیں بھول گئے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کا عہد مبارک جگمگاتا ہوا ہے، صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کا عہد مبارک جگمگاتا ہوا ہے۔
آج ٹیکنالوجی مر گئی ہے، افغانستان میں ٹیکنالوجی دفن ہو گئی ہے، آپ مجھے بتائیے کہ وہ لوگ جودعوے کرتے تھے کہ جب زمین پر آدمی چلتا ہے تو ہم اس کے جوتے کی کیلیں بھی گن لیتے ہیں، کدھر ہے وہ ٹیکنالوجی؟
ہرطرح انہوں نے ظلم وستم کا بازار گرم کیا، لیکن کام یاب محمد رسول الله کے فدائی ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے سچے، حقیقی امتی، ان کو الله تعالیٰ نے کام یابی عطا فرمائی۔
میرے دوستو! تاقیامت یہی اصول ہے، الله کرے ہم اسے سمجھ لیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔