نام ،نسب
حمزہ نام، ابو یعلی اور ابو عمارہ کنیت، اسدالله لقب، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے حقیقی چچا تھے، ماں کی طرف سے یہ تعلق تھا کہ ان کی والدہ ہالہ بنت وہیب سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم کی والدہ حضرت آمنہ کی چچا زاد بہن تھیں، پورا سلسلہ نسب یہ ہے حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی۔
اس نسبی تعلق کے علاوہ حضرت حمزہ رضی الله عنہ آپ کے رضاعی بھائی بھی تھے، یعنی ابو لہب کی لونڈی حضرت ثویبہ نے دونوں کو دودھ پلایا تھا۔ سن میں حضور انور صلی الله علیہ وسلم سے دو برس بڑے تھے۔ شمشیر زنی، تیر اندازی اور پہلوانی کا بچپن ہی سے شوق تھا، سیروشکار سے بھی غیر معمولی دلچسپی تھی، چناں چہ زندگی کا بڑا حصہ اسی مشغلہ میں بسرا ہوا۔
اسلام
دعوت ِ توحید کی صدا گو ایک عرصہ سے مکہ کی گھاٹیوں میں گونج رہی تھی، تاہم حضرت حمزہ رضی الله عنہ جیسے سپاہی منش کو ان باتوں سے کیا تعلق؟ انہیں صحرا نوردی اور سیروشکار سے کب فرصت تھی، جو شرک و توحید کی حقانیت پر غور کرتے، لیکن خدا نے عجیب طرح سے ان کی راہ نمائی کی، ایک روز حسب معمول شکار سے واپس آرہے تھے، کوہِ صفا کے پاس پہنچے تو ایک لونڈی نے کہا:”ابو عمارہ! کاش تھوڑی دیر پہلے تم اپنے بھتیجے محمد صلی الله علیہ وسلم کا حال دیکھتے، وہ خانہ کعبہ میں اپنے مذہب کا وعظ کہہ رہے تھے کہ ابوجہل نے نہایت سخت گالیاں دیں او ربہت بُری طرح ستایا، لیکن محمد صلی الله علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا اور بے بسی کے ساتھ لوٹ گئے ۔ یہ سننا تھا کہ رگ ِ حمیت میں جوش آگیا، تیزی کے ساتھ خانہ کعبہ کی طرف بڑھے، ان کا قاعدہ تھا کہ شکار سے واپس آتے ہوئے کوئی راہ میں مل جاتا تو کھڑے ہو کر ضرور اس سے دو دو باتیں کر لیتے تھے، لیکن اس وقت جوش انتقام نے مغلوب الغضب کر دیا تھا، کسی طرف متوجہ نہ ہوئے اور سیدھے خانہ کعبہ پہنچ کر ابوجہل کے سر پر زور سے اپنی کمان دے ماری، جس سے وہ زخمی ہو گیا، یہ دیکھ کر بنی مخزوم کے چند آدمی ابوجہل کی مدد کے لیے دوڑے اور بولے”حمزہ! شاید تم بھی بد دین ہو گئے“۔ فرمایا:”جب اس کی حقانیت مجھ پر ظاہر ہو گئی توکون سی چیز اس سے باز رکھ سکتی ہے؟ ( مستدرک حاکم:3/93)
ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی الله علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں سب حق ہے، خدا کی قسم! اب میں اس سے پھر نہیں سکتا، اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دیکھ لو“۔ ابوجہل نے کہا ابو عمارہ کوچھوڑ دو، خدا کی قسم! میں نے ابھی اس کے بھتیجے کو سخت گالیاں دی ہیں۔
یہ اسلام کا وہ زمانہ تھا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ارقم بن ابی ارقم رضی الله عنہ کے مکان میں پناہ گزیں تھے او رمومنین کا حلقہ صرف چند کم زور، ناتواں ہستیوں پر محدود تھا، لیکن حضرت حمزہ رضی الله عنہ کے اضافہ سے دفعةً حالت بدل گئی اورکفار کی مطلق العنان دست درازیوں اور ایذا رسانیوں کا سد باب ہو گیا، کیوں کہ ان کی شجاعت وجاں بازی کا لوہا تمام مکہ مانتا تھا۔ ( اسعدالغابہ تدکرہ ٴ حمزہ رضی الله عنہ)
حضرت امیر حمزہ رضی الله عنہ کے اسلام لانے کے بعد ایک روز حضرت عمر رضی الله عنہ نے آستانہٴ نبوی صلی الله علیہ وسلم پر دستک دی، چوں کہشمشیر بکف تھے، اس لیے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو تردد ہوا، لیکن اس شیر خدا نے کہا”کچھ مضائقہ نہیں، آنے دو اگر مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ورنہ اس کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا“۔ غرض وہ اندرداخل ہوئے او رکلمہ توحیدان کی زبان پر تھا اور مسلمان جوش مسرت سے الله اکبر کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل جزو:3/92)
مواخات
مکہ کی مواخات میں حضرت خیر الانام صلی الله علیہ وسلم کے محبوب غلام حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ، حضرت حمزہ رضی الله عنہ کے اسلامی بھائی قرار پائے، ان کو حضرت زید رضی الله عنہ سے اس قدر محبت ہو گئی تھی کہ جب غزوات میں تشریف لے جاتے تو ان ہی کو ہر قسم کی وصیت کر جاتے تھے۔(طبقات ابن سعد، قسم اول، جزء ثالث)
ہجرت
بعثت کے تیرہویں سال تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے، جہاں ان کو زوربازو اور خداداد شجاعت کے جوہر دکھانے کا نہایت اچھا موقع ہاتھ آیا، چناں چہ پہلا اسلامی پھر یرا ان ہی کو عنایت ہوا اور تین آدمیوں کے ساتھ ساحلی علاقہ کی طرف روانہ کیے گئے کہ قریشی قافلوں کے سدراہ ہوں، غرض وہاں پہنچ کر ابوجہل کے قافلہ سے ،جس میں تین سو سوار تھے، مڈ بھیڑ ہوئی اور طرفین نے جنگ کے لیے صف بندی کی، لیکن مجدی بن عمروالجہنی نے بیچ بچاؤ کرکے لڑائی روک دی اور حضرت امیر حمزہ رضی الله عنہ بغیر کشت وخون واپس آئے۔ ( طبقات ابن سعد، حصہ مغازی، ص:2)
غزوات
اسی سال ماہ صفر میں خود حضرت سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم نے سب سے پہلی دفعہ تقریباً ساٹھ صحابہ کرام رضی الله عنہم کے ساتھ قریش مکہ کی نقل وحرکت میں سدراہ ہونے کے لیے ابواپر فوج کشی فرمائی، حضرت حمزہ رضی الله عنہ علم بردار تھے او رتمام فوج کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی، لیکن قریش کا قافلہ آگے بڑھ چکا تھا، اس لیے جنگ وجدل کا موقع پیش نہ آیا، تاہم اس مہم کا سب سے زیادہ نتیجہ خیزاثر یہ تھا کہ بنو خمرہ سے ایک دوستانہ معاہدہ طے پا گیا۔ ( طبقات ابن سعد، حصہ مغازی، ص:3)
اسی طرح 2ھ میں غروہٴ عشیرہ پیش آیا، اس میں بھی علم برداری کا طرہ ٴافتخاری حضرت امیر حمزہ رضی الله عنہ کے دستار فضل وکمال پر آویزاں تھا، لیکن اس دفعہ بھی کوئی جنگ واقع نہ ہوئی اور صرف بنو مدلج سے امداد باہمی کاایک عہد نامہ طے پایا۔ ( ایضاً،ص:4)
غزوہٴ بدر
اسی سال بدر کا مشہور معرکہ پیش آیا، صف آرائی کے بعد عتبہ، شیبہ اور ولید نے کفار کی طرف سے نکل کر مبارز طلبی کی تو غازیان دین میں سے چند انصاری نوجوان مقابلہ کے لیے آگے بڑھے، لیکن عتبہ نے پکار کر کہا محمد صلی الله علیہ وسلم! ہم ناجنسوں سے نہیں لڑسکتے، ہمارے مقابل والوں کو بھیجو۔“ ارشاد ہوا:”حمزہ ، علی، عبیدہ رضی الله عنہم! اٹھو اورآگے بڑھو۔ حکم کی دیر تھی کہ یہ تینوں نبردآزما بہادر نیزے ہلاتے ہوئے اپنے حریف کے مقابل جا کھڑے ہوئے، حضرت حمزہ رضی الله عنہ نے پہلے ہی حملہ میں عتبہ کو واصل جہنم کیا۔ حضرت علی رضی الله عنہ بھی اپنے حریف پر غالب آئے، لیکن حضرت عبیدہ رضی الله عنہ اور ولید میں دیر تک کش مکش جاری رہی، وہ زخمی ہو گئے تو ان دونوں نے ایک ساتھ حملہ کرکے اس کو تہہ تیغ کر دیا۔(ابوداؤد: 1/263) یہ دیکھ کر طعیمہ بن عدی جوش انتقام میں آگے بڑھا، لیکن شیر خدا نے ایک ہی وار میں اس کو بھی ڈھیر کر دیا۔ مشرکین نے طیش میں آکر عام ہلہ کر دیا، دوسری طرف سے مجاہدین اسلام بھی اپنے دلاوروں کو نرغہ میں دیکھ کر ٹوٹ پڑے، نہایت گھمسان کا رن پڑا، اسدالله حمزہ رضی الله عنہ کے دستار پر شتر مرغ کی کلغی تھی، اس لیے جس طرف گھس جاتے تھے صاف نظر آتے تھے، دونوں ہاتھوں میں تلوار تھی اور مردانہ وار دودستی حملوں سے پرے کاپراصاف کر رہے تھے، غرض جب تھوڑی دیر میں غنیم بہت سے قیدی او رمال غنیمت چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا تو بعض قیدیوں نے پوچھا:”یہ کلغی لگائے کون ہے؟“ لوگوں نے کہا:”حمزہ رضی الله عنہ!“ بولا”آج ہم کو سب سے زیادہ نقصان اسی نے پہنچایا“۔ ( اسد الغابہ، تذکرہٴ حمزہ رضی الله عنہ)
غزوہٴ بنی قینقاع
بنو قینقاع نام کی اطراف مدینہ میں یہودیوں کی ایک جماعت تھی، چوں کہ یہ عبدالله بن ابی سلول کے حلیف تھے، اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دوستانہ معاہدہ طے پا گیا تھا، لیکن غزوہٴ بدر کی کام یابی نے ان کے دلوں میں رشک وحسد کی آگ بھڑکا دی اور علانیہ سرکشی پر آمادہ ہو گئے، چناں چہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس عہد شکنی کے باعث اسی سال ماہ شوال میں ان پر فوج کشی فرمائی اور بزور اطراف مدینہ سے جلا وطن کر دیا، حضرت حمزہ رضی الله عنہ اس معرکہ میں بھی علم برداری کے منصب پر مامور تھے۔ (طبقات ابن سعد، حصہ مغازی،ص:19)
غزوہٴ احد
بدر کی شکست فاش نے مشرکین قریش کے تو سن غیرت کے لیے تازیانہ کا کام کیا اور جوشِ انتقام سے برانگیختہ ہو کر3ھ میں قریش کا سیلاب عظیم پھر مدینہ کی طرف بڑھا، حضرت سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں کے ساتھ لے کر کوہ ِ اُحد کے دامن میں اس کو روکا۔7شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی، کفار کی طرف سے سباع نے بڑھ کر مبارز طلبی کی تو حضرت امیر حمزہ رضی الله عنہ اپنی شمشیر خار اشگاف تولتے ہوئے میدان میں آئے اور للکار کر کہا، ”اے سباع! اے ام انمار مضغہ نجس کے بچے! کیا تو خدا اور اس کے رسول سے لڑنے آیا ہے“۔ یہ کہہ کر اس زور سے حملہ کیا کہ ایک ہی وار میں اس کا کام تمام ہو گیا۔ ( بخاری کتاب المغازی، باب قتل حمزہ رضی الله عنہ) اس کے بعد گھمسان کی جنگ شروع ہوئی، اس شیرخدا نے روباہ کفر کی ٹڈی دل میں گھس کر کشتوں کے پشتے لگا دیے اور جس طرف جھک پڑے صفیں کی صفیں الٹ دیں، غرض اس جوش سے لڑے کہ تنہا تیس کافروں کو واصل جہنم کر دیا۔(اسد الغابہ ،تذکرہٴ حمزہ رضی الله عنہ)
شہادت
حضرت امیر حمزہ رضی الله عنہ نے چوں کہ جنگ بدر میں چن چن کر اکثر صنادید قریش کو تہہ تیغ کیا تھا، اس لیے تمام مشرکین قریش سب سے زیادہ ان کے خون کے پیاسے تھے، چناں چہ جبیر بن مطعم نے ایک غلام کو جس کا نام وحشی تھا، اپنے چچا طعیمہ بن عدی کے انتقام پر خاص طور سے تیار کیا تھا اور اس صلہ میں … آزادی کا لالچ دیا تھا، غرض وہ جنگ اُحد کے موقع پر ایک چٹان کے پیچھے گھات پر بیٹھا ہوا حضرت حمزہ رضی الله عنہ کا انتظار کر رہا تھا، اتفاقاً وہ ایک دفعہ قریب سے گزرے تو اس نے اچانک زور سے اپنا حربہ پھینک کر مارا کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑے۔( بخاری، باب قتل حمزہ رضی الله عنہ) اس شیر خدا کی شہادت پر کافروں کی عورتوں نے خوشی ومسرت کے ترانے گائے، ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ نے ناک کان کاٹ کر زیور بنائے، نیز شکم چاک کرکے جگر نکالا اور چبا چبا کر تھوک دیا۔ حضرت سرورکائنات صلی الله علیہ وسلم نے سنا تو پوچھا:”کیا اس نے کچھ کھایا بھی ہے“؟ لوگوں نے عرض کی:”نہیں“! فرمایا:”اے خدا ! حمزہ رضی الله عنہ کے کسی جزو کو جہنم میں داخل ہونے نہ دینا“ ۔(طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جز ثالث،ص:7)
تجہیز وتکفین
اختتام جنگ کے بعد شہدائے اسلام کی تجہیز وتکفین شروع ہوئی، حضرت سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم اپنے عم محترم کی لاش پر تشریف لائے، چوں کہ ہند نے ناک کان کاٹ کر نہایت درد ناک صورت بنا دی تھی، اس لیے یہ منظر دیکھ کر بے اختیار دل بھر آیا او رمخاطب ہو کر فرمایا”تم پر خدا کی رحمت ہے، کیوں کہ تم رشتہ داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے، نیک کاموں میں پیش رہتے تھے، اگر مجھے صفیہ کے رنج وغم کا خیال نہ ہوتا تو میں تمہیں اسی طرح چھوڑ دیتا کہ درند اور پرند کھا جائیں اور تم قیامت میں ان ہی کے شکم سے اٹھائے جاؤ، خدا کی قسم مجھ پر تمہارا انتقام واجب ہے، میں تمہارے عوض ستر کافروں کا مثلہ کروں گا، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد وحی الٰہی نے اس ناجائز انتقام کی ممانعت کر دی، اس کے لیے کفارہ یمین ادا کرکے صبر وشکیبائی اختیار فرمائی۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جز ثالث،ص:7)
حضرت صفیہ رضی الله عنہاحضرت امیر حمزہ رضی الله عنہ کی حقیقی بہن تھیں، بھائی کی شہادت کا حال سنا تو روتے ہوئے جنازہ کے پاس آئیں، لیکن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے دیکھنے نہ دیا اور تسلی تشفی دے کر واپس فرمایا۔ حضرت صفیہ رضی الله عنہا اپنے صاحبزادہ حضرت زبیر رضی الله عنہ کو دو چادریں دے گئی تھیں کہ ان سے کفن کا کام لیا جائے، لیکن پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بے گوروکفن تھی، اس لیے انہوں نے دونوں شہیدان ملت میں ایک ایک چادر تقسیم کر دی، اس ایک چادر سے سر چھپایا جاتا تو پاؤں کھل جاتے او رپاؤں چھپائے جاتے تو سربرہنہ ہو جاتا تھا ،آں حضرت صلی الله عیہ وسلم نے فرمایا کہ چادر سے چہرہ چھپاؤ او رپاؤں پر گھاس اور پتے ڈال دو۔ غرض اس عبرت انگیز طریقہ سے سید الشہداء کا جنازہ تیار ہوا، سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم نے خود نماز پڑھائی، اس کے بعد ایک ایک کرکے شہدائے اُحد کے جنازے ان کے پہلو میں رکھے گئے اور آپ نے علیحدہ علیحدہ ہر ایک پر نماز پڑھائی، اس طرح تقریباً ستر نمازوں کے بعد غازیان دین نے بصد اندوہ والم اس شیر خدا کو اسی میدان میں سپرد ِ خاک کیا۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اول، جزوثالث،ص:9)
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا حزن وملال
سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کو اس سانحہ پر شدید قلق تھا، مدینہ منورہ تشریف لائے اور بنی عبداشہل کی عورتوں کو اپنے اپنے اعزہ واقارب پر روتے سنا تو فرمایا:”افسوس! حمزہ رضی الله عنہ کے لیے رونے والیاں بھی نہیں“۔ انصار نے یہ سن کر اپنی عورتوں کو آستانہ نبوت پر بھیج دیا، جنہوں نے نہایت رقت آمیز طریقہ سے سید الشہداء رضی الله عنہ پر گریہ وزاری شروع کی، اس حالت میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی آنکھ لگ گئی، کچھ دیر کے بعد بیدار ہوئے تو دیکھا کہ وہ اب تک رو رہی ہیں ۔فرمایا: ”کیا خوب! یہ سب اب تک یہیں بیٹھی رو رہی ہیں، انہیں حکم دو کہ واپس جائیں اور آج کے بعد پھر کسی مرنے والے پر نہ روئیں۔ (طبقات ابن سعد، قسم اول، جزء ثالث، ص:10) بیان کیا جاتا ہے کہ اس وقت سے مدینہ کی عورتوں کا یہی دستور ہو گیا تھا کہ جب وہ کسی پر روتی تھیں تو پہلے حضرت امیر حمزہ رضی الله عنہ پر دو آنسو بہا لیتی تھیں۔
قاتل سے بیزاری
حضرت حمزہ رضی الله عنہ کے قاتل وحشی رضی الله عنہ اسلام قبول کرکے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے دیکھ کر پوچھا:”کیا تم ہی وحشی ہو؟“ عرض کی:”ہاں“؟ فرمایا: ”تم نے حمزہ رضی الله عنہ کو قتل کیا تھا“؟ بولے: ”حضور صلی الله علیہ وسلم کوجو کچھ معلوم ہوا وہ صحیح ہے“۔ ارشاد ہوا:”کیا تم اپنا چہرہ مجھ سے چھپاسکتے ہو“؟ غرض اسی وقت باہر آنا پڑھا، او رپھر تمام عمر سامنے نہ جاسکے۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد جب مسیلمہ کذاب پر فوج کشی ہوئی تو یہ بھی اس میں شریک ہوئے کہ شاید میں اس کو قتل کرکے حمزہ رضی الله عنہ کے نقصان کی تلافی کر سکوں، چناں چہ وہ اس ارادہ میں کام یاب ہوئے۔ ( بخاری ،باب قتل حمزہ رضی الله عنہ ) اس طرح خدا نے ان کی ذات سے اسلام کو جس قدر نقصان پہنچایا تھا اس سے زیادہ فائدہ پہنچایا۔
اخلاق
حضرت امیر حمزہ رضی الله عنہ کے اخلاق میں سپاہیانہ خصائل نہایت نمایاں ہیں، شجاعت، جاں بازی او ربہادری ان کے مخصوص اوصاف تھے۔ مزاج قدرةً تیز وتند تھا، شراب حرام ہونے سے پہلے اس کے عادی تھے۔ ایک دفعہ ایک انصار کے میخانہ میں صحبت احباب گرم تھی اور دورِ ساغر کے ساتھ ایک رقاصہ کی خوش الحان راگنیوں سے محفل کا رنگ جما ہوا تھا، اسی حالت میں اس نے دو اونٹوں کی طرف اشارہ کرکے، جو سامنے بندھے ہوئے تھے، یہ مصرعہ پڑھا #ألایا حمزة للشرف النواء
حضرت حمزہ رضی الله عنہ نشہ کی مدہوشی میں بے اختیار کو دے اوردونوں کے جگر او رکوہان کو کاٹ لائے، یہ اونٹ حضرت علی رضی الله عنہ کے تھے، انہوں نے یہ حال دیکھا تو آبدیدہ ہو کر دربارِ نبوت میں شکایت کی، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ان کو اور حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ کو ساتھ لیے ہوئے اسی وقت اس محفل طرب میں تشریف لائے او رحضرت حمزہ رضی الله عنہ کو ملامت فرمانے لگے، لیکن یہاں ہوش وحواس پر نشہ کا قبضہ ہو چکا تھا، انہوں نے ایک دفعہ سر سے پاؤں تک آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو گھور کر یکھا اور آنکھیں لال پیلی کرکے بولے:”تم سب میرے باپ کے غلام ہو“۔ آپ نے مد ہوشی کی یہ کیفیت دیکھی تو الٹے پاؤں لوٹ آئے۔ (بخاری ،کتاب فرض الخمس)
حضرت امیر حمزہ رضی الله عنہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اورتمام نیک کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے، چناں چہ شہادت کے بعد آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کی لاش سے مخاطب ہو کر اس طرح ان کے محاسن کی داد دی تھی:
رحمة الله علیک؛ فإنک کنت۔ ما علمت۔ وصولا للرحم فعولا للخیرات․(طبقات ابن سعد قسم اوّل، جزء ثالث،ص:7)
”تم پر خدا کی رحمت ہو، کیوں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے تم قرابت داروں کا سب سے زیادہ خیال رکھتے تھے، نیک کاموں میں پیش پیش رہتے تھے“۔
ازواج واولاد
حضرت حمزہ نے متعدد شادیاں کیں، بیویوں کے نام یہ ہیں: بنت الملہ، خولہ بنت قیس، سلمی بنت عمیس۔ ان میں سے ہر ایک کے بطن سے اولاد ہوئی، لڑکوں کے نام یہ ہیں: ابو یعلی، عامر، عمارہ، آخر الذکر دونوں لاولد فوت ہوئے، ابویعلی سے چند اولاد یں ہوئیں، لیکن وہ سب بچپن ہی میں قضا کر گئیں، اس طرح حضرت حمزہ رضی الله عنہ کا سلسلہ نسل شروع ہی میں منقطع ہو گیا۔ (طبقات ابن سعد، قسم اول، جزو ثالث،ص:7)
سلمیٰ بنت عمیس کے بطن سے امامہ نامی ایک لڑکی بھی تھی، فتح مکہ کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مراجعت فرمائی تو بھائی بھائی کہہ کر اس نے پیچھا کیا، حضرت حمزہ رضی الله عنہ کے رشتہ داروں میں سے حضرت علی رضی الله عنہ، حضرت جعفر رضی الله عنہ او رحضرت زیدبن حارثہ رضی الله عنہ نے ان کو اپنی اپنی تربیت میں لینے کا دعوی پیش کیا، لیکن آپ نے حضرت جعفر رضی الله عنہ کے حق میں فیصلہ دیا، کیوں کہ ا ن کی بیوی اسماء بنت عمیس امامہ کی حقیقی خالہ تھیں۔ حضرت علی رضی الله عنہ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو امامہ رضی الله عنہا سے شادی کر لینے کی ترغیب دی تھی، لیکن آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا حمزہ رضی الله عنہ میرا رضاعی بھائی تھا۔(طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جزو ثالث،ص:7)