قبیلہ قریش سے تعلق ہے، مکہ کے بڑے متمول لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، بلکہ ان کا نام سرفہرست ہے۔ عمر چالیس سال ہے، گویا جوانی کی حدود سے نکل چکی ہیں،خاندانی عزت کے علاوہ اپنے بلند او رپاکیزہ کردار کی وجہ سے ”طاہرہ“ کے پیارے لقب سے پکاری جاتی ہیں۔
دوسری طرف ، عبدالمطلب کے یتیم پوتے، ابوطالب کے بھتیجے محمد بن عبدالله اپنی نیک نفسی، راست بازی اور امانت داری کی وجہ سے مثالی شخصیت بن چکے ہیں۔ پچیس سال عمر ہے۔ اٹھتی ہوئی جوانی اور پھر اس پر رعنائی ودل فریبی کا یہ عالم کہ بولیں تو پھول جھڑیں، چلیں تو سراپا وقار وتمکنت ، شرم وحیا کے پیکر او راخلاق حسنہ کے مجسمہ ہیں۔ بقول حسان بن ثابت ”کأنک قدخلقت کماتشاء“ یعنی صورت اور سیرت کے لحاظ سے اپنی مرضی کے مطابق سانچے میں ڈھلے ہوئے۔ اگر خواہش کریں تو مکہ کی حسین ترین دوشیزائیں ان کی رفاقت میں آنے پر فخر کریں، لیکن واہ رے نصیب اس چہل سالہ طاہرہ طیبہ کے ! اپنا سامان تجارت، ابو طالب کے بھتیجے کو دے کر روانہ کرتی ہیں، وہ واپس آتے ہیں تو ان کی امانت ودیانت سے اتنی متاثر ہوتی ہیں کہ خود ہی عقد کے لیے درخواست کرتی ہیں۔ سن وسال میں تناسب نہیں ہے، مزید یہ کہ دو خاوندوں سے بیوہ ہو چکی ہیں، جب کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ناکتخدا(کنوارے) ہیں ،بہ ظاہر کوئی جوڑ نہیں، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم اس کی درخواست کو شرف قبولیت بخشتے ہیں۔ مکہ کے دستور کے مطابق عقد کی تکمیل ہوتی ہے، ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور یوں سیدہ خدیجہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رفقیہٴ حیات بن گئیں۔ رفاقت خوب نبھی، سیدہ خدیجہ نے وفاداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان کے بطن سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے دو صاحب زادے، حضرت قاسم او رحضرت عبدالله(جن کے لقب طاہر اور طیب بھی ہیں) اور چار صاحب زادیاں سیدہ زینب ، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمة الزہر ارضی الله عنہن ہوئیں۔
شادی کے بعد پندرہ سال کا عرصہ بیت گیا۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر چالیس سال ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم کو نبوت اور رسالت کے منصب عالی پر سرفراز فرمایا گیا ( تفصیل سیرت کی کتابوں میں دیکھیے)، دعوت کا سلسلہ شروع ہوا تو علی الاطلاق سب سے پہلے لبیک کہنے والی یہی رفیقہٴ حیات سیدہ خدیجہ طاہرہ ہیں۔ (علیہا وعلی سائر أمھات المؤمنین سلام الله ورضوانہ) یوں سیدہ طاہرہ کو خاتون اول او رامت مسلمہ کی پہلی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا۔ زہے نصیب!
حضور صلی الله علیہ و سلم کی بعثت کے بعد سیدہ خدیجہ رضی الله عنہا دس سال تک بقید حیات رہیں، ان دس سالوں میں مسلمانوں اور خودذات اقدس صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ قریش کی جفا کاریاں اور ستم رانیاں بالعموم معلوم ہیں۔ اس عرصہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابو طالب حتی المقدور آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے سپر بنے رہے ،وفا شعار رفیقہٴ حیات نے خدمت گزاری اور غم گساری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ الله کی مرضی کہ بعثت کے دسویں سال پہلے چچا ابو طالب فوت ہو گئے او رپھر چند ہی روز بعد رفیقہ ٴحیات داغ مفارقت دے گئیں:” انا لله وانا الیہ راجعون“ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ایام زندگی جس تلخی ترشی سے گزر رہے تھے، اس پر مستزاد یہ صدمے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سال کا نام ،عام الحزن، رکھا۔
ماہ وسال گزرتے رہے، گردش لیل ونہار، گونا گوں انقلابات سے دو چار کرتی رہی، مگر سیدہ خدیجہ کی یاد کبھی قلب اقدس سے نہ گئی #
آتی رہیں گی یاد ہمیشہ وہ صحبتیں
ڈھونڈا کریں گے ہم تمہیں فصل بہار میں
جب تک سیدہ خدیجہ رضی الله عنہا زندہ رہیں، حضور صلی الله علیہ وسلم نے دوسرا عقد نہیں فرمایا۔ ان کی وفات کے بعد، بعض احباب کے مشورے پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے سیدہ سودہ رضی الله عنہا سے نکاح فرمایا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے ازدواجی تعلق، ہجرت کے بعد ہوا۔ سیدہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں، مجھے کسی پر اتنارشک نہیں آتا تھا، جتنا کہ بی بی خدیجہ پر آتا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کثرت سے ان کا ذکر فرماتے اورجب گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان کی سہیلیوں کو بھجوایا کرتے تھے۔ ایک دن تو سیدہ عائشہ رضی الله عنہا یہاں تک کہ حضور صلی الله علیہ وسلم سے کہہ گزریں”آپ بار بار اس بڑھیا کو کیوں یاد کرتے ہیں، جب کہ الله تعالیٰ نے آپ کو اس بہتربیویاں دی ہیں؟“ حضور صلی الله علیہ و سلم نے ناراض ہو کر جواب میں ارشاد فرمایا۔ تم نہیں جانتی وہ اس وقت مجھ پرایمان لے آئیں ،جب کہ ایک بھی میرا ماننے والا نہیں تھا۔ اس نے اس وقت میری تصدیق کی،جب کہ لوگ میری تکذیب کر رہے تھے۔ اس نے اس وقت اپنا مال میرے سپرد کر دیا جب کہ لوگ مجھ سے دور بھاگتے تھے۔ پھر الله نے اس سے مجھے صاحب اولا دکیا۔ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں میں نے دل میں طے کر لیا کہ آئندہ کبھی ان کا ذکر برائی سے نہ کروں گی۔ ایک مرتبہ جبرئیل امین علیہ السلام آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا بی بی خدیجہ آپ کے پاس آرہی ہیں، ان کے ہاتھ میں کوئی برتن ہے، جس میں کھانے پینے کی کوئی چیز ہے۔ وہ پہنچ جائیں توانہیں الله رب العزت کی طرف سے اور میری طرف سے سلام کہیے۔”وبشرھاببیت فی الجنة من قصب، لا صخب فیہ ولانصب“ ․ (بخاری شریف، ص:1/539 ومسلم:2/284)
اور انہیں خوش خبری سنا دیجیے کہ ان کے لیے بہشت میں ایک گھر جوف دار (اندر سے خالی) موتیوں سے بنا ہوا ہے، جس میں نہ کوئی شورو غل ہو گا ،نہ کوئی تکان۔
بشارتیں او رحضرات وخواتین کو بھی ملی ہیں، لیکن جس شان سے خوش خبری کا یہ پروانہ سیدہ خدیجة الکبری رضی لله عنہا کے نام آیا ہے یہ انہی کا حصہ ہے او رایسا کیوں نہ ہوتا کہ قرون گزشتہ کی بہترین خاتون سیدہ مریم علیہا السلام تھیں۔ اور اس امت کی بہترین خاتون سیدہ خدیجہ رضی الله عنہا ہیں۔ ” ھنیئا لکِ یا اُم المؤمنین، سلام الله ورضوانہ علیک“