نیند الله تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت او رانسانی راحت کا بہت بڑا سامان ہے۔ اس سے انسان کے اعضاء کو راحت وسکون، چین اور نئی زندگی عطا ہوتی ہے اور وہ نئے سرے سے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے جو ساری مخلوق کے لیے عام ہے اور اس میں امیر وغریب اور بادشاہ وفقیر سب برابر ہیں، بلکہ بسااوقات امیروں اور مال داروں کی بنسبت فقیروں کو یہ نعمت زیادہ میسر ہوتی ہے۔ الله تعالیٰ نے اس کے لیے رات بنائی ہے جو تاریک اور ٹھنڈی ہوتی ہے اور اس میں راحت وسکون کا ماحول بن جاتا ہے، جس میں انسان وحیوان اور چرند پرند سب آرام کرتے ہیں، لہٰذا کسی قسم کا شور وغل نہیں ہوتا۔
قرآن مجید میں ایک جگہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:﴿وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّہَارَ نُشُورًا ﴾ ترجمہ : ”اور وہ وہ ذات ہے جس نے رات کو پردے کی چیز اور نیند کو آرام بنایا اور دن کو بنایا اٹھ نکلنے کے لیے۔“
ایک اور جگہ ارشاد ہے:﴿وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا ، وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ لِبَاسًا ، وَجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشًا﴾ ترجمہ:” یعنی ہم نے تمہاری نیند کو راحت کی چیز بنایا اور رات کو پردے کی چیز بنایا اور دن کو معاش کا وقت بنایا۔“
اگر رات کا وقت نیند کے لیے مقرر نہہوتا تو انسان کے بہت سارے کاموں میں حرج واقع ہوجاتا بلکہ انسانی نظام زندگی درہم برہم ہو کر رہ جاتا، نہ تو انسان کو آرام وسکون صحیح طریقے سے حاصل ہوتا اور نہ ہی اس کا نظام معاش صحیح ڈھب پر قائم رہ سکتا۔ جب الله تعالیٰ نے نیند کو آرام وسکون کے لیے بنایا ہے اوراس کے لیے وقت بھی مقرر کر دیا ہے تو انسان کو چاہیے کہ الله تعالیٰ کے اس مقررہ کردہ وقت کو نیند میں صرف کرے جو اس کی فطرت کے عین مطابق ہے اوردین اسلام بھی اس کی تعلیم دیتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے وہ فرماتی ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے سوتے نہیں تھے اورعشاء کے بعد گفت گو نہیں فرماتے تھے۔ (ابن ماجہ)
حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد گفت گو کرنے کو ناپسند فرماتے تھے۔ (بخاری ومسلم)
حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کے بعد گفت گو کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ تم رات میں گفت گو کرنے سے پرہیز کرو، کیوں کہ یہ آخرت کو ضائع کر دیتا ہے، اگر تم سے ایسا ہوجائے تو (اس کی تلافی کے لیے) سونے سے پہلے دورکعت نماز پڑھ لو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
شارحین نے ان احادیث کی تشریح کے ضمن میں لکھا ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد گفت گو کرنے سے سونے میں تاخیر ہو جاتی ہے، جس سے نماز تہجد اور بعض اوقات صبح کی نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
لہٰذا ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو بر وقت سونا چاہیے، جو انسان بر وقت سوتا ہے وہ بر وقت اٹھ بھی سکتا ہے۔ اس لیے ہمارے شیخ رحمہ الله تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ سیکھنے کی چیز سونا ہے، جاگنا سیکھنے کی چیز نہیں ہے، جس آدمی کو سونا بروقت آجاتا ہے تو اسے جاگنا خود بخود آجاتا ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔