سورة الماعون کا آسان ترجمہ
کیاتم نے اسے دیکھا جو دین اسلام یا قیامت کے دن کی جزا وسزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا۔ پھر بڑی خرابی (اور ویل نامی حہنم کی جگہ) ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، یعنی نماز کی پابندی نہیں کرتے۔ جو دکھاوا کرتے ہیں۔ اور دوسروں کو زکوٰة یا معمولی چیز دینے سے بھی انکار کرتے ہیں۔
اس سورة میں کفار ومنافقین کے بعض برے افعال اور اُن پر جہنم کی وعید مذکور ہے۔ اگر یہ افعال قیامت کے دن جزا وسزا پر ایمان لانے والے موٴمن سے سرزد ہوں تو وہ اگرچہ بڑے گناہ ہیں، لیکن اس سورة میں مذکور وعید اُس پر نہیں ہے ،کیوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے ساتھ قیامت کے دن اور اس کی جزا وسزا پر ایمان لایا ہوا ہے۔ مگر اس میں اشارہ اس طرف ضرور ہے کہ یہ برے افعال موٴمن کی شان سے بعید ہیں، یعنی ایک موٴمن کو یہ افعال کبھی نہیں کرنے چاہئیں۔
جن برے افعال کا ذکر اس سورة میں کیا گیا ہے، وہ حسب ذیل ہیں:
یتیم کے ساتھ بدسلوکی کرنا۔ قدرت کے باجود محتاج کی مدد نہ کرنا اور دوسروں کو اس کی ترغیب نہ دینا۔ نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا۔ ریاکاری کرنا اور زکوٰة کی ادائیگی نہ کرنا۔یہ سارے افعال بڑے گناہ ہونے کے ساتھ اپنی ذات میں بھی مذموم ہیں۔ قیامت کے دن اور اس کی جزا وسزا کے انکار (یعنی کفر) کے ساتھ یہ افعال سرزد ہوں تو ان کی سزا دائمی جہنم ہے۔ البتہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والا ان اعمال کی سزا بھگتنے کے بعد ایک نہ ایک دن جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ ہاں! اگر کسی موٴمن نے موت سے قبل ان افعال سے سچی توبہ کرلی تو پھر ان شاء اللہ ان افعال کی وجہ سے جہنم میں نہیں جائے گا۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لانا یا اللہ کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک ٹھہرانا ایسا جرم عظیم ہے کہ خالق کائنات کے فیصلہ کے مطابق مرنے کے بعد ان گناہوں کی بخشش نہیں ہے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کفر یا شرک یا نفاق جیسے بڑے بڑے گناہ بھی موت سے قبل ایمان لانے اورسچی توبہ کرنے سے معاف ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص کفر یا شرک یا نفاق کی حالت میں مرجائے تو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنا اصول وضابطہ اپنی کتاب ”قرآن کریم“ میں ذکر کردیا کہ پھر اس کی معافی نہیں ہے، اسے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنا ہوگا۔ بعض ملحدین (جن کا کوئی مذہب نہ ہو) اس موضوع کے متعلق اسلام پر اعتراض کرتے ہیں، حالاں کہ اس دنیاوی زندگی کے بے شمار امور میں سمجھ میں نہ آنے کے باوجود ہم سر تسلیم خم کردیتے ہیں، مثلاً انسان دنیا میں کیوں آتا ہے اور دنیا سے نہ جانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود ہر بشر کیوں موت کا مزہ چکھتا ہے؟بعض اوقات ایک صحت مند نوجوان جس کی خدمات پوری قوم کو درکار ہیں، صرف ٹھوکر کھاکر ہی مر جاتا ہے، جب کہ بعض بیمار بوڑھے لوگ دوسروں کے سہارے پر سالوں سال زندہ رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کے ہزاروں سوال کا جواب ہماری عقلیں دینے سے قاصر ہیں۔ جب ہزاروں دنیاوی امور میں سمجھ میں نہ آنے کے باوجود سارے انسان اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں تو پھر ہم اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیوں نہ کریں؟
آخرت میں جزا وسزا
قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ ایک دن یہ دنیا فنا ہوجائے گی اور دنیا کے وجود سے لے کر کل قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کو قیامت کے میدان میں جمع کیا جائے گا اور دنیاوی زندگی میں اچھے اور برے اعمال کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ جنت یا جہنم کا فیصلہ فرمائے گا۔ جنت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی ایسی آرائش وآرام کی چیزیں مہیا کررکھی ہیں کہ ہماری عقل ان کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ دنیاوی آگ کی تپش سے 70 گنا زیادہ ہے، جہاں خون اور پیپ بہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جہنم سے ہماری حفاظت فرماکر ہمارے لیے جنت الفردوس کا فیصلہ فرمائے۔ دنیا میں اس وقت جو انسان بستے ہیں، ان کی اکثریت اس بات کا یقین ضرور رکھتی ہے کہ اس دنیاوی زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے، جس میں اس دنیاوی زندگی کے اعمال کی جزا یا سزا ملے گی، جو اخروی زندگی کے برحق ہونے کی خود ایک دلیل ہے۔
یتیموں کا خیال سب سے زیادہ اسلام میں رکھا گیا ہے
یتیم وہ ہے جس کے بالغ ہونے سے قبل اس کے والد کا انتقال ہوگیا ہو۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم بھی یتیم تھے، آپ کے والد ماجد (عبداللہ) اس وقت انتقال فرماگئے جب آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی ماں (آمنہ) کے پیٹ میں تھے اور والدہ ماجدہ کی وفات اس وقت ہوئی جب آپ صلی الله علیہ وسلم 6 سال کے تھے۔ یتیموں کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کے دل میں بڑی ہمدردی تھی، اس لیے آپ صحابہٴ کرام کو یتیموں کی کفالت کرنے پر اکسایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے ، آپ نے قربت بیان کرنے کے لیے بیچ اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ یعنی یتیم کی کفالت کرنے والا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں ہوگا۔ (بخاری)
حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب وتعلیم میں مذہب اسلام کا کوئی ثانی نہیں
شریعت اسلامیہ میں مساکین وغریبوں کو کھانا کھلانے اور ان کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بار بار ترغیب وتعلیم دی گئی ہے۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیاگیا کہ اسلام میں کون سا عمل زیادہ افضل ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایالوگوں کو کھانا کھلانا اور ہر شخص کو سلام کرنا خواہ اس کو پہچانو یا نہ پہچانو۔ (بخاری ومسلم) ا سی طرح فرمان رسول صلی الله علیہ وسلم ہے: جو شخص موٴمن کی کوئی دنیاوی مشکل دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کی سختیوں میں سے اس پر سے ایک سختی دور کرے گا۔ اور جو شخص کسی تنگ دست پر سہولت کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس پر سہولت کرے گا…، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد میں رہتا ہے۔ (صحیح مسلم)
نماز کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا
قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ نماز میں کوتاہی کرنے والوں کی سزا کے متعلق صرف تین آیات پیش ہیں: ان نمازیوں کے لیے خرابی (اور ویل نامی حہنم کی جگہ) ہے جو نماز سے غافل ہیں۔(سورة الماعون4 ،5) اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں یا پہلے پڑھتے رہے ہیں، پھر سست ہوگئے یا جب جی چاہتا ہے پڑھ لیتے ہیں یا تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنالیتے ہیں، یہ سارے مفہوم اس میں آجاتے ہیں، اس لیے نماز کی مذکورہ ساری کوتاہیوں سے بچنا چاہیے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انھوں نے نماز ضائع کردی اورنفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، وہ” غی“ میں ڈالے جائیں گے۔ (سورة مریم آیت 59) نمازنہ پڑھنے والوں کو جہنم کی انتہائی گہری اور شدید گرم وادی ”غی“ میں ڈالا جائے گا؟ جہاں خون اور پیپ بہتا ہے۔ تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم نہ نمازی تھے، نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ (سورة المدثر42 و44) اہل جنت، جنت کے بالاخانوں میں بیٹھے جہنمیوں سے سوال کریں گے کہ کس وجہ سے تمہیں جہنم میں ڈالا گیا؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں نہ نماز پڑھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ غور فرمائیں کہ جہنمی لوگوں نے جہنم میں ڈالے جانے کی سب سے پہلی وجہ نماز نہ پڑھنا بتایا،کیوں کہ نماز ایمان کے بعد اسلام کا اہم اور بنیادی رکن ہے، جوہر مسلمان کے ذمہ ہے۔ ان تینوں آیات کی شرح کے حوالوں کے لیے مشہور ومعروف تفاسیر کا مطالعہ کریں۔
ریاکاری اعمال کی بربادی کا سبب ہے
اعمال کی قبولیت کے لیے اہم اور بنیادی شرط اخلاص ہے۔ بخاری کی پہلی حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے، ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی… لہٰذا نماز کی ادائیگی سے ،خواہ فرض ہو یا نفل، صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہی مطلوب ہونی چاہیے۔ دوسروں کو دکھانے کے لیے نماز نہ پڑھیں ،کیوں کہ دوسروں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھنے کو ہمارے نبی نے فتنہٴ دجال سے بھی بڑا فتنہ اور شرک قرار دیا ہے۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مسیح دجال کا ذکر کررہے تھے، اتنے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں دجال کے فتنے سے زیادہ خطرناک بات سے آگاہ نہ کردوں؟ ہم نے عرض کیا: ضرور یا رسول اللہ! آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: شرک خفی دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز کے لیے کھڑا ہو اور نماز کو اس لیے لمبا کرے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔ (ابن ماجہ، باب الریاء والسمعہ) اسی طرح رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔ (مسند احمد )
زکوٰة کی ادائیگی نہ کرنے والوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا
قرآن وسنت کی روشنی میں امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جوشخص زکوٰة کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے اور زکوٰة کی ادائیگی نہ کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، جس پر آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی، اگر مرنے سے قبل اس نے سچی توبہ نہیں کی۔ سورة التوبہ آیت نمبر 34۔ 35 میں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہے جو اپنے مال کی کما حقہ زکوٰة نہیں نکالتے۔
اس سورت کے آخری لفظ ”ماعون “ کے معنی معمولی چیز سے کیا گیا ہے۔ اسی لفظ کے نام پر سورت کا نام ”ماعون “ رکھا گیا ہے۔ اصل میں ”ماعون “ اُن برتنے کی معمولی چیزوں کو کہتے ہیں جو عام طور سے ایک دوسرے سے مانگ لیاکرتے ہیں، جیسے برتن وغیرہ۔ پھر ہر قسم کی معمولی چیز کو بھی ”ماعون “ کہہ دیتے ہیں۔ بعض صحابہٴ کرام نے اس کی تفسیر زکوٰة سے کی ہے، کیوں کہ وہ بھی انسان کی دولت کا معمولی (چالیسواں) حصہ ہوتا ہے۔
اس سورت میں ہمارے لیے سبق
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ آخرت کی جزا وسزا پر ایمان لانا۔ یتیموں کی کفالت کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔ مسکین اور محتاج لوگوں کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے میں سبقت کرنا۔ اگر خود غریب لوگوں کی مدد نہیں کرسکتے تو کم از کم ایسے کاموں میں شریک ہونا جن کے ذریعہ غریب لوگوں کی مدد کی جارہی ہو۔ خشوع وخضوع کے ساتھ فرض نمازوں کا اہتمام کرنا۔ فرض نماز کے ساتھ سنن ونوافل کی بھی پابندی کرنا۔ ہر نیک عمل صرف اور صرف اللہ کی رضاجوئی کے لیے کرنا۔ ریا اور شہرت اعمال کی بربادی کا سبب ہیں۔ مال پر زکوٰة کے فرض ہونے پر اس کا حساب لگاکر ہر سال زکوٰة کی ادائیگی کرنا۔ اگر کوئی پڑوسی یا رشتہ دار روز مرہ استعمال میںآ نے والی چیزیں مانگے تو حتی الامکان اسے منع نہ کرنا۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کرنا۔ حقوق اللہ میں ایمان کے بعد سب سے اہم عبادت نماز اور زکوٰة ہے۔