الله تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اس لیے بھیجا ہے کہ وہ اس کے احکام وقوانین کے مطابق زندگی گزارے، الله تعالیٰ نے انسان کے لیے کائنات میں اسباب ووسائل پیدا فرمائے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ معاش وروز گار کے حصول کے لیے اصول وقوانین بھی عطا فرمائے ہیں، جن پر عمل کرنا انسان پر لازم قرار دیا ہے، اس لیے ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ اسلام کے احکامات وتعلیمات کے مطابق رزق حلال حاصل کرے اور حرام سے بچے، اسلام میں معاش وروز گار کے جن ذرائع کو حرام قرار دیا گیا ہے ان میں ایک ذریعہ ”سود“ ہے ، الله تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم اور حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اپنے مبارک ارشادات میں سود کی حرمت ، قباحت، شناعت اور اس کے دنیاوی اور اخروی نقصانات اور خرابیوں کو واضح طور پر بیان فرما دیا ہے، تاکہ مسلمان انہیں پیش نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کے سودی کاروبار اور لین دین سے بچیں۔
سود کی حرمت قرآن کریم کی روشنی میں
﴿وَمَا آتَیْتُم مِّن رِّبًا لِّیَرْبُوَ فِی أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُو عِندَ اللَّہِ وَمَا آتَیْتُم مِّن زَکَاةٍ تُرِیدُونَ وَجْہَ اللَّہِ فَأُولَٰئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾․ (سورة الروم، آیت:39)
ترجمہ:” اور تم جو مال دیتے ہو سود پر کہ بڑھتا رہے لوگوں کے مال میں، سو وہ نہیں بڑھتا الله کے ہاں اور جو دیتے ہو زکوٰة کے طور پر، تاکہ الله کی رضا حاصل کرو تو ایسے مال بڑھتے رہیں گے“۔
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ،وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ﴾․ (سورة آل عمران، آیت:131-130)
ترجمہ:”اے ایمان والو! مت کھاؤ سود بڑھتا چڑھتا اور الله کی نافرمانی سے بچو، تاکہ تم کام یاب ہو سکو اور بچو اُس آگ سے جو تیار کی گئی ہے کافروں کے لیے۔“
﴿الَّذِینَ یَأْکُلُونَ الرِّبَا لَا یَقُومُونَ إِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاء َہُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّہِ فَانتَہَیٰ فَلَہُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُہُ إِلَی اللَّہِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ ، یَمْحَقُ اللَّہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ أَثِیمٍ﴾․(سورة البقر، آیت:176-175)
ترجمہ:” جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اُٹھیں گے (روزِ قیامت) مگر جس طرح اُٹھتا ہے وہ شخص جس کے حواس کھو دیے ہوں شیطان نے لپٹ کر۔ یہ حالت ان کی اس وجہ سے ہوئی کہ وہ کہتے تھے تجارت بھی تو ایسے ہی ہے جیسے سود لینا۔ حالاں کہ الله نے حلال کیاہے تجارت کو اور حرام کیا ہے سود کو۔ پھر جس کو پہنچی یہ نصیحت اس کے رب کی طرف سے اور وہ باز آگیا تو اس کے لیے ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا معاملہ الله کے حواے ہے اور جو کوئی پھر سود لے گا تو وہی لوگ ہیں دوزخ والے ، وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ۔ مٹاتا ہے الله سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو۔ اور الله پسند نہیں کرتا ہر ناشکر گزاری کرنے والے گناہ گار کو۔“
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُء ُوسُ أَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ، وَإِن کَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَیٰ مَیْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُوا خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ ، وَاتَّقُوا یَوْمًا تُرْجَعُونَ فِیہِ إِلَی اللَّہِ ثُمَّ تُوَفَّیٰ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ﴾․(سورة البقرہ، آیت:281-278)
ترجمہ:” اے ایمان والو! الله سے ڈرو اور چھوڑ دو جو کچھ سود میں سے باقی رہ گیا ہے اگر تم مومن ہو۔ پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہو جاؤلڑنے کو الله اور اس کے رسول سے۔ اور اگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے لیے ہے تمہارا اصل مال۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے۔ اگر مقروض تنگ دست ہے تو مہلت دینی چاہیے سہولت ہونے تک۔ اور بخش دو تو یہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم سمجھو۔ اور ڈرتے رہو اُس دن سے جس دن لوٹائے جاؤ گے الله کی طرف۔ پھر پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا ہر شخص کو اُس کا جو اس نے کمایا اور اُن پر ظلم نہ ہو گا۔“
سود کی حرمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں
عن جابر رضي الله عنہ: قال: لعن رسول الله آکل الربا ومؤکلہ وکاتبہ وشاھدیہ، وقال:”ھم سواء“․ (مسلم)
حضرت جابر رضی الله عنہ روایت ہے کہ رسول نے لعنت فرمائی سود لینے او رکھانے والے پر اور اس کے لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر۔ اور آپ نے فرمایا:”(گناہ کی شرکت میں) یہ سب برابر ہیں“۔
عن أبي ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:” الربا سبعون حوبا، أیسرھا أن ینکح الرجل أمہ“․ (ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود خوری کے گناہ کے ستر حصے ہیں۔ ان میں ادنیٰ او رمعمولی ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ بد کاری کرے۔“
عن عبدالله بن حنظلة رضي الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”درھم ربا یأکلہ الرجل وھو یعلم أشد من ستة وثلاثین زنیة․“ (مسند احمد)
حضرت عبدالله بن حنظلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود کا ایک درہم، جس کو آدمی جان بوجھ کر کھاتا ہے، چھتیس بار زنا سے زیادہ گناہ رکھتا ہے۔“
عن أبي ھریرة رضي الله عنہ قال: قال رسول الله:”اتیت لیلة أسري بي علیٰ قوم بطونھم کالبیوت فیھا الحیات، ترٰی من خارج بطونھم، فقلت من ھولاء یا جبرائیل؟ قال ھؤلاء أکلة الربا“․ (ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”معراج کی رات میرا گزر
ہوا ایک ایسے گروہ پر جن کے پیٹ گھروں کی طرح تھے،جن میں سانپ بھرے ہوئے تھے، جو باہر سے نظر آتے تھے۔ میں نے پوچھا جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتلایا یہ سود خور لوگ ہیں۔“
عن أبي ھریرة رضي الله عنہ عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”لیأتین علی الناس زمان لا یبقی منھم أحد إلا آکل الربا، فإن لم یأکل أصابہ من غبارہ“․(ابوداؤد، ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے : ”یقینا لوگوں پرایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کوئی نہ بچے گا لیکن وہ سود کھانے والا ہو گا، جو خود سود نہ کھاتا ہو گا تو اس کا غبار ضرور اُس کے اندر پہنچے گا۔“
سود خوری کا خطرناک انجام
مذکورہ آیات کریمہ او راحادیث مبارکہ کی روشنی میں سود خوری کے خطرناک انجام کی وضاحت ہوچکی ہے، لہٰذاایک سچے مسلمان او رکامل مؤمن کے لیے تو یہ بات ہی کافی ہے کہ کائنات کے خالق او رمالک الله تبارک وتعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیتے ہوئے اسے چھوڑنے کا حکم دیا ہے، اس لیے ایمان کا تقاضا یہ ہے کوئی بھی مسلمان سودی کاروبار اور لین دین کے قریب بھی نہ جائے او راگر اس میں ملوث ہے تو فوراًاسے چھوڑ دے اور سچی توبہ کرتے ہوئے آئندہ اس سے مکمل طور پر بچنے کا پختہ ارادہ کرے۔
آخرت کے حوالے سے سو دکا سب سے بڑا گھاٹا اور عظیم نقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی کو الله تبارک وتعالیٰ کا سامنا کرنا ہو گا او رانسان کی سب سے بڑی بد بختی یہ ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کر دیا جائے۔ سود کادوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے سود خورمیں مال ودولت کو زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی حرص پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اس میں اتنا مست ہوجاتا ہے کہ اسے اپنی بھلائی اور برائی کی پہچان نہیں رہتی، بالخصوص وہ آخرت کے خطرناک انجام سے غافل ہو جاتا ہے اوراسے نہ موت یاد رہتی ہے اور نہ قبر وآخرت کی فکر ہوتی ہے۔ سود کا تیسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ سود خور کے اندر سے ایثار وسخاوت اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے او راس کے اندر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ دوسروں کو نقصان او رمصیبت پہنچے، تاکہ وہ مجبور ہو کر اس سے سود پر رقم لیں، یہی وجہ ہے کہ سود خور کسی مصیبت وپریشانی میں مبتلا شخص پر رحم نہیں کرتا، بلکہ اس کی مصیبت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔
دنیاوی، معاشی اور اقتصادی لحاظ سے سود کے بے شمار نقصانات ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
سود کا سب سے بڑا اور بنیادی نقصان یہ ہے کہ سود خور کے مال سے برکت ختم ہو جاتی ہے او راگر اس کا مال ظاہری طور پر بڑھ بھی جائے تو مال ودولت کا جو اصل مقصد ہے یعنی راحت وسکون وہ اسے ہر گز حاصل نہیں ہوتا۔
سود کا دوسرا دنیاوی او رمعاشی نقصان یہ ہے کہ معاشرے کے چند دولت مند لوگ بغیر کسی محنت ومشقت کے دولت کماتے ہیں او راسے بڑھاتے جاتے ہیں، جب کہ معاشرے کے اکثر افراد غربت کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی کمائی کاایک بڑا حصہ سود خوروں کو ادا کرتے ہیں۔ یعنی چندد ولت مند تو روز بروز امیر سے امیر تر، جب کہ معاشرے کے اکثر افراد غریب سے غریب تر ہوتے جاتے ہیں۔
سود کا تیسرا دنیاوی او رمعاشی نقصان یہ ہے کہ سودی بینکوں کی وجہ سے غریبوں کی رقم بینکوں میں جمع ہوتی ہے تو بڑے بڑے سرمایہ دار بینکوں سے سودی قرض لے کر بڑے بڑے کاروبار کرتے ہیں۔ اس طرح غریبوں کی رقم ان سرمایہ داروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے، پھر اسی رقم سے وہ کاروبار کرکے اور فیکٹریوں او رکارخانوں میں چیزیں تیار کرکے انتہائی مہنگی قیمتوں میں بازار میں فرورخت کرتے ہیں اور غریب خریدتے ہیں تو ان کی رقم دوبارہ سرمایہ داروں کی جیبوں میں کئی گناہ اضافہ کے ساتھ واپس چلی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ دنیا میں ہر کام کے لیے محنت اور سرمایہ لگانا پڑتا ہے۔ پھر کوئی بھی کام ایسا نہیں جس میں نقصان کا خطرہ نہ ہو۔ لیکن سرمایہ دار سود کی وجہ سے ہمیشہ نفع اٹھاتا ہے او راسے کبھی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ سود پر رقم لینے والے آدمی کو اگر نقصان بھی ہو جائے تب بھی سود خور اپنا سود چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا، بعض اوقات سودی قرض لینے والے کی تمام کمائی ، وسائل، یہاں تک کہ گھر او رگھر میں موجود ضروریات زندگی بھی بک جاتی ہیں ، لیکن سود خور کی شقاوت وسنگ دلی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اسے صرف اپنے نفع سے غرض ہوتی ہے۔
اشیاء کی قیمت کا تعین کرتے وقت دیگر اخراجات کے ساتھ سود کی ادائیگی اور سود کی وجہ سے دیگر خطرات (Risks) کی پیش بندی کے لیے حد سے زیادہ منافع بھی شامل کیا جاتا ہے، جس سے اشیاء کی مجموعی قیمت میں کئی گناہ اضافہ ہو جاتا ہے، اسی طرح سود کی وجہ سے ہر شے کے کرائے میں اضافہ ہو جاتا ہے، خواہ وہ زمین، دکان، مشینری، کارخانہ یا ذرائع حمل ونقل ہی ہوں۔ کیوں کہ ان سب کی مالیت میں سود شامل ہوتا ہے۔
اس لیے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ خود بھی سودی کاروبار اور لین دین سے بچے او رمعاشرے اور ملک سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے بھرپور جدوجہد کرے، جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو جماعتیں اسلامی نظام کے قیام کے لیے انقلابی جدوجہد کر رہی ہیں ان میں شمولیت اختیار کرے او ران کی نصرت واعانت میں اس بدترین گناہ کے اداروں کے استیصال کی کوشش کرنے والا بن جائے۔